شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان پر بُہتان تراشی

میرا پاکستان نے جاوید گوندل صاحب کی بے بُنیاد اور زہر آلود تحریر کو بغیر تصدیق کے نقل کر کے ہموطنوں کی اکثریت کی دِل آزاری کی ہے جس کی مجھے اُن سے توقع نہ تھی ۔ جب پاکستان بنا تو میری عمر دس سال تھی ۔ اسلئے بہت سی باتیں اور واقعات میرے ذاتی علم میں بھی ہیں لیکن یہ معاملہ ہمہ گیر قومی نوعیت کا ہے اور جاوید گوندل صاحب نے تاریخ کو مسخ بلکہ ملیامیٹ کرنے کی والہانہ کوشش کی ہے اس لئے میں اپنے ذہن کو کُریدنے کے علاوہ مستند تاریخی کُتب کا دوبارہ مطالعہ کرنے پر مجبور ہوا ۔

ایک حقیقت جو شاید دورِ حاضر کی پاکستانی نسل کے علم میں نہ ہو یہ ہے کہ محمد علی جوہر اور ساتھیوں کی کاوش سے مسلم لیگ 1906ء میں وقوع پذیر ہوئی اور علامہ محمد اقبال اور نوابزادہ لیاقت علی خان کی مسلسل محنت و کوشش نے اِسے پورے ہندوستان کے شہر شہر قصبے قصبے میں پہنچایا ۔ اسی لئے قائد اعظم کے علاوہ نوابزادہ لیاقت علی کو بھی معمار پاکستان کہا جاتا تھا اور اب بھی کہنا چاہیئے ۔

جاوید گوندل صاحب کا مؤقف بے بنیاد ہے کہ شہدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی کو نوابزادہ کہنا بلاجواز ہے ۔ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پنجاب کے علاقہ کرنال کے ایک زمیندار اور نواب رُستم علی خان کا بیٹا ہونے کی وجہ سے نوابزادہ کہا جاتا تھا ۔

اگر بقول جاوید گوندل شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان اداروں کو اپنے مفاد میں استعمال کر رہے ہوتے تو کرنال [بھارت کے حصہ میں آنے والا پنجاب] میں اپنی چھوڑی ہوئی زمینوں کے عِوض کم از کم مساوی زمین پاکستان کے حصہ میں آنے والے پنجاب میں حاصل کر لیتے اور اُن کی مالی حالت ایسی نہ ہوتی کہ جب اُن کی میّت سامنے پڑی تھی تو تجہیز و تکفین اور سوئم تک کے کھانے کیلئے احباب کو مالی امداد مہیا کرنا پڑی اور اس کے بعد ان کے بیوی بچوں کے نان و نُفقہ اور دونوں بیٹوں کی تعلیم جاری رکھنے کیلئے اُن کی بیگم رعنا لیاقت علی جو ایک تعلیم یافتہ خاتون تھیں کو ملازمت دی گئی جو بڑے بیٹے کے تعلیم پوری کرتے ہی بیگم رعنا لیاقت علی نے چھوڑ دی ۔ کبھی کسی نے شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی بیگم یا بچوں کا اپنی بڑھائی کے سلسلہ میں بیان پڑھا ؟

نہ تو اُردو کو قومی زبان بنانے کا نوابزادہ لیاقت علی نے قائداعظم سے کہا اور نہ یہ فیصلہ قائد اعظم نے کیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان بننے سے قبل بنگال سے مسلم لیگی رہنماؤں کے وفد نے تجویز دی کہ اُردو ہی ایک زبان ہے جو پانچوں صوبوں کی اکثریت سمجھتی ہے اور مُلک کو متحد رکھ سکتی ہے لیکن قائد اعظم نے اُردو زبان کو قومی زبان قرار نہ دیا
پھر پاکستان بننے کے بعد 25 فروری 1948ء کو کراچی میں شروع ہونے والے دستور ساز اسمبلی کے اجلاس میں اُردو کو قومی زبان بنانے کا فیصلہ ہوا

گوندل صاحب کے مندرجہ ذیل بیان سے دو باتیں واضح ہیں
1 ۔ گوندل صاحب حقائق سے مکمل نابلد ہیں
2 ۔ بے پر کی اُڑانے کا شدید شوق رکھتے ہیں ۔

جاوید گوندل صاحب کہتے ہیں “جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چنداں مشکل نہ تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مگر نوابزادہ لیاقت علی خان کو یہ بات اس لئے گوارہ نہیں تھی کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لئے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا”

اول ۔ یہ بالکل غلط ہے کہ نواب جونا گڑھ نے پچاس ہزار بندوقیں مانگی تھیں ۔ نواب جونا گڑھ کے پاکستان میں شمولیت کا اعلان کرنے پر بھارت نے اپنی فوج جونا گڑھ میں داخل کر دی اور نواب جونا گڑھ کو مدد مانگنے کی مُہلت نہ ملی ۔

دوم ۔ جونا گڑھ کے بعد جب بھارت نے جموں کشمیر میں زبردستی اپنی فوجیں داخل کر دی تھیں تو قائد اعظم نے پاکستانی افواج کا کمانڈر اِن چِیف جنرل گریسی کو بھارتی افواج کو روکنے کا حُکم دیا تھا ۔ اگر پاکستان کے پاس پچاس ہزار تو کیا اُس وقت دس ہزار رائفلیں بھی ہوتیں تو قائدِ اعظم کے حُکم کی خلاف ورزی کرنے کی بجائے اُس کی تعمیل کر کے جنرل گریسی ایک ہمیش زندہ شخصیت اور سوائے جاوید گوندل صاحب کے تمام پاکستانیوں کا ہِیرو [Hero] بن جاتا ۔

گوندل صاحب نظامِ حکومت سے بھی بے بہرہ ہیں ۔ حکومت چلانا گورنر جنرل کا کام نہیں تھا بلکہ وزیرِ اعظم کا تھا مگر آج تک کسی نے کوئی ایسی مثال پیش نہیں کی جس سے ثابت ہو کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان نے کوئی کام قائدِ اعظم سے مشورہ کئے بغیر سرانجام دیا ہو

گوندل صاحب کی معلومات کیلئے لکھ رہا ہوں کہ قائدِ اعظم کو ڈاکٹر کی سخت ہدائت پر زیارت لے جایا گیا تھا ۔ یہ شہیدِ مِلّت نوابزادہ لیاقت علی خان کی سازش نہ تھی ۔ جاوید گوندل صاحب قائد اعظم کے معالجِ خاص کرنل الٰہی بخش کی لکھی کتاب پڑھ لیں

کیا جاوید گوندل صاحب اُس وقت قائدِ اعظم کے پاس موجود تھے جب اُنہوں نے کہا تھا کہ لیاقت میرے مرنے کامنتظر ہے ؟
یہ فقرہ یا اس سے ملتا جُلتا خیال نہ میں نے نہ میرے بزرگوں نے نہ میرے اساتذہ نے نہ اُس وقت کے میرے محلہ داروں نے سُنااور نہ کہیں پڑھا اور نہ اُس دور کے کسی اخبار نے لکھا ۔ معلوم ہوتا ہے کہ گوندل صاحب کہانیاں گھڑنے میں کمال رکھتے ہیں

” آٹھ سال آئین بننے نہ دینے” کی بات کرتے ہوئے گوندل صاحب زورِ بیاں میں بھُول گئے کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان بننے کے چار سال بعد ہلاک کر دیا گیا تھا ۔ کاش گوندل صاحب آئین کے متعلق لکھی گئی کئی کُتب میں سے صرف ایک ہی پڑھ لیتے تو اُن کے زخمی دِل کو قرار آ جاتا ۔ گوندل صاحب کی معلومات کیلئے مختصر بات یہ ہے کہ آئین اُس وقت کے پاکستان میں موجود آئی سی ایس [Indian Civil Service] افسروں ۔ جن میں غلام محمد جو بعد میں غیر ملکی پُشت پناہی سے گورنر جنرل بن بیٹھا تھا بھی شامل تھا ۔ نے نہ بننے دیا ۔ ایک بڑی وجہ یہ تھی کہ دستور ساز ی کیلئے جو کمیٹی بنائی گئی تھی اس کے ارکان کا بار بار اِدھر اُدھر تبادلہ کردیا جاتا تھا ۔ اُس دور میں ہر افسر کو ٹرین پر سفر کرنا ہوتا تھا ۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ آئی سی ایس افسران حکومتِ برطانیہ کی پُشت پناہی سے سازشوں کا جال نوابزادہ لیاقت علی کی شہادت سے قبل ہی بُن چُکے تھے ۔ اس سلسلہ میں یہاں کلک کر کے پڑھیئے 10 نومبر 1951ء کو لکھا گیا ایک تار

یہاں یہ لکھنا بے جا نہ ہو گا کہ پاکستان کے قیام کی مارچ 1947ء میں منظوری ہوتے ہی ایک سوچی سمجھی منصوبہ بندی کے تحت غیرمُسلم اکثریتی علاقوں میں مسلمانوں کا قتلِ عام اور جوان لڑکیوں اور عورتوں کا اغواء شروع کر دیا گیا تھا اور اُنہیں گھروں سے نکال کر پاکستان کی طرف دھکیلا جانے لگا ۔ یہ سلسلہ دسمبر 1947ء تک جاری رہا ۔ انگریز حکومت کے ساتھ ملی بھگت سے بھارت نے پاکستان کے حصے کے اثاثے نہ دیئے جو آج تک نہیں دیئے گئے ۔ ان حالات میں لاکھوں نادار مہاجرین جن میں ہزاروں زخمی تھے کو سنبھالنا اغواء شدہ خواتین کی تلاش اور بھارتی حکومت سے واپسی کا مطالبہ اور پھر ان سب مہاجرین کی آبادکاری اور بازیاب شدہ خواتین کی بحالی انتہائی مشکل ۔ صبر آزما اور وقت طلب کام تھا ۔

موازنہ کیلئے موجودہ جدید دور سے ایک مثال ۔ باوجود قائم حکومت اور وسائل ہونے کے اور ہر طرف سے کافی امداد آنے کے اکتوبر 2005ء میں آنے والے زلزلہ کے متاثرین آج تین سال بعد بھی بے خانماں پڑے ہیں اور سردی سے ٹھٹھر رہے ہیں ۔ 1947ء سے 1951ء کے دور کے ہموطن قابلِ تعریف ہیں جنہوں نے مہاجرین کو آباد کیا ۔ اور آفرین ہے بیگم رعنا لیاقت علی خان پر جس نے دن رات محنت کر کے جوان لڑکیوں اور خواتین کو اُبھارہ کہ گھروں سے باہر نکلیں اور رفاہی کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں اور ان دخترانِ ملت نے خدمتِ خلق کے ریکارڈ توڑ دیئے ۔ اللہ اُن سب کو آخرت میں اجر دے ۔ آج عورتوں کی آزادی کی فقط باتیں ہوتی ہیں کام سوائے فیشن کے اور کچھ نظر نہیں آتا ۔

گوندل صاحب اتنا بھی نہیں جانتے کہ جس اسمبلی نے اگست 1947ء میں پاکستان کا نظم نسق سنبھالا وہ پاکستان بننے سے قبل باقاعدہ انتخابات کے نتیجہ میں غیر مسلموں اور دوسرے کانگرسیوں سے مقابلہ کر کے معرضِ وجود میں آئی تھی اور اُس اسمبلی نے نوابزادہ لیاقت علی خان کو پاکستان کا وزیرِ اعظم منتخب کیا تھا ۔ اگر بقول گوندل صاحب شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان انتخابات میں جیت نہیں سکتے تھے تو اُن کی وفات پر پاکستانیوں کی اکثریت زار و قطار کیوں رو رہی تھی اور تمام عمر رسیدہ لوگ کیوں کہہ رہے تھے کہ اب پاکستان کون سنبھالے گا ۔

بقول جاوید گوندل صاحب اگر شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی امریکہ کے ایجننٹ تھے تو امریکہ نے اُنہیں کیوں قتل کروا دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی جب امریکہ گئے تو اُنہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان ایک خود مُختار ملک بن چکا ہے اور وہ امریکہ کو دوست بنانا چاہتا ہے لیکن ڈکٹیشن کسی سے نہیں لے گا تو واپس آنے پر ان کے قتل کی سازش تیار ہوئی ۔ نیچے ایک اقتباس اس حقیقت کو واضح کرتا ہے

WHO SHOT LAK?..CIA CONNECTION
All the following documents have been found in declassified CIA papers

1. Extract from an article published on October 24, 1951 in an Indian magazine:

[…]It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.

مندرجہ ذیل تمام دستاویزات انٹرنیٹ سے ہٹا دی گئی ہیں (مُنتظم ۔ 19 اپریل 2017)
2. Confidential Teاegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
3. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
4. Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 [only first page located]
5. Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951

جاوید گوندل صاحب کا لکھا اتنا تو درست ہے کہ تنہا ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار نہیں تھا بلکہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ مجیب الرحمٰن ۔ جنرل ٹِکا خان ۔ جنرل نیازی اور کچھ آئی سی ایس افسر بھی شامل تھے ۔ گوندل صاحب اپنے دِل و دماغ میں بھرا سارا زہر شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان کی قبر پر نہ اُنڈیلیں اور تھوڑا سا وقت لگا کر کُتب کا مطالعہ کریں ۔ کچھ اور نہیں تو جسٹس حمود الرحمٰن کمیشن کی بچی کُچھی رپورٹ ہی پڑھ لیں

جس شخص [سر ظفراللہ] نے مرزائیوں کو حکومتی عہدوں پر بٹھایا وہ قائد اعظم کا انتخاب تھا ۔ البتہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب بھی مرزائیوں کے نرغے میں رہے کیونکہ مرزائیوں کے سردار کے حُکم پر تمام مرزائیوں نے پیپلز پارٹی کو ووٹ دیئے تھے اور مرزائی جرنیلوں نے ہی جنرل اور صدر یحیٰ خان سے پستول کے بل بوتے پر حکومت چھین کر ذوالفقار علی بھٹو کو دی تھی ۔ چھ سال بعد عوامی دباؤ پر مرزائیوں کو غیر مسلم قرار دیتے ہوئے بھٹو صاحب نے یہ ہوشیاری کی کہ مرزائیوں کی فہرست تیار نہ کروائی جس کا مطالبہ غیر مسلم قرار دینے کے مطالبے کا حصہ تھا ۔ مرزائیوں کے رہنماؤں نے مرزائیوں کو حُکم دیا کہ اپنے آپ کو احمدیہ لکھنے کی بجائے مُسلم لکھیں جس کی وجہ سے مطلوبہ نتیجہ حاصل نہ کیا جا سکا

جاوید گوندل صاحب کا واقعات سے بے بہرہ ہونے کا ایک اور ثبوت اُن کا یہ کہنا ہے کہ قائدِ اعظم کو جب زیارت سے واپس کراچی لایا گیا تو قائدِ اعظم کو ہوائی اڈے سے لانے کے لئے جس ایمبولنس کو بھیجا گیا اس میں پٹرول نہیں تھا ۔ حقیقت یہ ہے ایمبولنس کے انجن میں خرابی ہو گئی تھی ۔ اُس دور میں پاکستان کے پاس نئی گاڑیاں نہیں تھیں اور پرانی بھی معدودے چند تھیں ۔ دوسری ایمبولنس کہیں سے تلاش کر کے لائی گئی جس میں وقت لگا ۔ جاوید گوندل صاحب کا یہ کہنا غلط ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی اُس وقت سلامی لے رہے تھے ۔ وہ قومی کاموں میں مصروف تھے ۔ جس طرح آجکل کوئی وزیر بھی آئے تو درجنوں افسران اپنا کام کرنے کی بجائے ہوائی اڈا پر پہنچ جاتے ہیں اُن دنوں ایسا نظام نہیں تھا اور قائد اعظم ایسی پروٹوکول کو سخت ناپسند فرماتے تھے ۔ قائد اعظم کی تیمارداری ملک کے مشہور معالج کرنل الٰہی بخش نے کی ۔ اُن کی لکھی کتاب پڑھیئے

ناجانے کیوں وہ لوگ جو کچھ نہیں جانتے اپنے آپ کو مفکّر اور تاریخ دان سمجھنے لگ جاتے ہیں اور حقائق سے رُوگردانی کرتے ہوئے الا بلا لکھنا شروع کر دیتے ہیں ۔ میری دعا ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی سب کو سیدھی راہ پر چلائے اور عقلِ سلیم مع طریقہ استعمال کے عطا فرمائے ۔ آمین ثم آمین

This entry was posted in تاریخ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

25 thoughts on “شہیدِ ملت نوابزادہ لیاقت علی خان پر بُہتان تراشی

  1. میرا پاکستان

    اجمل صاحب
    ہم نے نوابزادہ لیاقت علی خان کے متعلق جاوید گوندل صاحب کا نقطہ نظر اس لیے پیش کیا تا کہ دونوں طرف کے خیالات پڑھ کر قارئین اپنی غلط فہمیاں دور کر سکیں۔ اب قارئین کیلیے ان تحاریر کو پڑھ کر یہ نتیجہ اخذ کرنا آسان ہو جائے گاکہ اصل حقیقت کیا ہے۔

  2. Pingback: » قائد ملت لیاقت علی خاں جاوید گوندل کی نظر میں میرا پاکستان:

  3. ڈفر

    اجمل انکل آپ کی تحریر پرھ کر دل کو سکون ملا کہ میں یہی پرھنا چاہتا تھا، لیکن آپکی اور جاوید صاحب کی تحریر پڑھ کر دونوں میں سے سچا کوں ہے فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ ہم نے جاوید صاھب سے بھی فرمائش کی تھی کہ اپنے دلائل کے حق میں ریفرنسز تو پیش کریں کہ کس بنیاد پر یہ سب کہہ رہے ہیں؟ اور آپ نے بھی جاوید صاحب کی طرح صرف اپنے علم سے ہی ہمیں نوازا اور کسی بات کے حق میں کوئی ریفرنس نہیں نظر آ رہا۔
    دونوں میں سے کون صحیح کہہ رہا ہے؟ فیصلہ کرنا مشکل ہو رہا ہے

  4. خاور

    عزیز بک ڈپو اردو بازار لاهور والوں کی ایک کتاب ہے پاکستانی ادارے
    جو که بدیع الدین نظر ایم اے صاحب نے انیس سو اکیاسی میں لکھی تھی اس میں بھی اپنے لیاقت علی خان خاحب کے معتلق لکھا ہے انہوں نے هی جمہوری اداروں کو پنپنے ناں دیا
    گوندل صاحب کچھ جذباتی هے هو کر لکھ گئے هیں یا هوسکتا ہے که اس کے پاس کوئی حواله هو
    مگر پاکستانی ادارے نام کی یه کتاب بھی لیاقت علی صاحب کے متعلق یه کہـ رهی ہے که انہوں نے پہلی اینٹ هی ٹیھڑی رکھی تھی

  5. افتخار اجمل بھوپال Post author

    خاور صاحب
    ہمارے ہموطنوں میں ایسے لکھاری ہیں جو کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان اس لئے بنایا کہ وہ انگریزوں کے ایجنٹ تھے اگر پاکستان نہ بنتا تو مسلمانوں کیلئے اچھا ہوتا ۔
    آپ نے کئی ممالک پھرے ہیں کیا یہ سچ نہیں کہ صرف پاکستانی ایک ایسی قوم ہے جس کے لوگ اپنے ملک پاکستان اور اپنے ہموطن پاکستانیوں کو بُرا کہتے ہیں اور پاکستانیوں کے سوا اور کوئی قوم ایسا نہیں کرتی ؟

  6. اظہرالحق

    انکل جی دل تو بہت کچھ لکھنے کو کر رہا ہے ، مگر بات حوالہ جات کی آ گئی ہے ، اسلئے میں دوستوں کو کچھ کتابیں میں‌بھی ریفر کر دیتا ہوں

    قائد اعظم ، محد سے لحد تک
    میرا بھائی از فاطمہ جناح
    میرے قائد
    رضوان احمد کی سوانح
    شہاب نامہ میں بھی اگر ذرا سا ذکر دیکھیں تو مل جائے گا
    وفا کا کعبہ
    اور مولانا وہسکی (کوثر نیازی) کی کتاب اور لائن کٹ گئی ۔ ۔
    اور بیگم رعنا لیاقت علی خان کے نوٹس پر مشتمل ایک کتاب ہے نام مجھے یاد نہیں آ رہا ۔ ۔

    اصل میں دل تو کر رہا ہے کہ ،بہت کچھ لکھوں ، مگر کیا کروں ۔ ۔ میں جانتا ہوں ۔ ۔ کہ ہم پروپگنڈے سے اتنے زیادہ متاثر ہیں کہ اگر کوئی یہ کہ دے کہ پاکستان غلط بنا (جیسا الطاف ولاتیا کہتا ہے ) تو ہم اسی کو پیر بنا کر پوجا کرتے ہیں ۔ ۔

    شاید اب ہم واقعٰی ہی ایک خونی انقلاب کی طرف جا رہے ہیں ۔ ۔ ۔ اور جنکو یہ نظر نہیں آ رہا وہ اندھے ہیں بہرے ہیں اور گونگے ہیں صرف غوں غاں ہی کر سکتے ہیں‌

  7. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    زیرِ نظر تبصرہ میں نے میرا پاکستان میں لکھا تھا۔ آپ سے گزارش کی تھی کہ مندرجہ ذیل حوالے دیکھ لیں۔ اصرار کریں گے تو مزید لکھ بیجھوں گا۔ میں انتہائی مصروف انسان ہوں کہ آپ کی بعض انٹ سٹنٹ باتوں اور طنز و طعنوں کا جواب لکھوں۔ اس لئیے کام کی بات لکھیئے گا اور کام کی بات کا جواب دونگا ۔‌آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ کو اس قدر چراغ پا نہیں ہونا چاہیے۔ صرف ذیل میں ہی جن کتب اور شخصیات کے حوالے ہیں آپ انہیں جھٹلا دیں۔ میں نئے سرے سے مذید حوالے پوسٹ کردوں گا۔

    اجمل صاحب! میرا ارادہ قطعی طور پہ کسی بھی پاکستانی کا ذہن پراگندہ یا زہر آلود کرنےکا نہیں۔ اور نہ ہی گڑے مردے اکھارنے کا ہے ۔جو باتیں میں نے لکھی ہیں وہ کوئی ایساراز نہیں بلکہ تھوڑی سی جستجو کرنے سے ہر کسی کو علم ہو سکتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کہ چونکہ ہمارے ہاں ہر دور میں ابن الوقت لوگ ہوئے ہیں جو نصاب کی شروع کی جماعتوں سے ہی قائِد ملت۔ مردِ مومن اور قائدِ عوام کا رٹا لگوا دیتے ہیں اور ساتھ شہادت کا تڑکہ بھی لگا دیا جائے تو پختہ عمر میں جا کر بنے بنائے خول توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔

    نوابزادہ لیاقت علی خان بے شک پاکستان بننے کے چار سال بعد قتل کر دئیے گیے تھے مگر انہوں نے پاکستان کے آئین بنے دئیے جانے میں پس و پیش اور ان کے قتل کے بعد کا پاکستان کا آئین بننے کا عرصہ بھی نوابزادہ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کیونکہ پاکستان بنتے ہی اؤلیت دستورِ پاکستان کو دی جانی چاہیے تھی جس میں محض لیاقت علی خان نے پاکستان کے تب کے سیٹ اپ میں اپنا حلقہ انتخاب یعنی سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کی اور پھر وہ قتل ہوگئے ورنہ یہ تاخیر اس وقت تک چلتی جب تک انھیں یہ یقین نہ ہوجاتا کہ اب وہ الیکشن جیت جائیں گے ۔ اسی لئیے اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے انھوں نے اپنے پرانے علاقے اتر پردیش انڈیا کے تمام لوگوں کو کراچی میں ایک ہی جگہ آباد کیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے بھوپال یا اترپردیش سے تعلق رکھنے والے میرے بھائیوں کو میری پوسٹ پہ شدید اعتراض ہوا ہے کیونکہ شنیدن ہے کہ الطاف بھائی کا مطالبہ ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل کے دن کو سرکاری چھٹی قرار دیا جائے۔ آخر اس کی کوئی تو وجوہات ہونگی؟ اور وجوہات وہی ہیں جو سرادر شوکت مرحوم اور دیگران نے بیان کی ہیں۔
    سردار شوکت حیات خان مرحوم کے الفاظ ہیں opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan۔ لیاقت علی ‌خان نے اپنے ہی کئیے ہوئے معائدے جسکا نام نہرو لیاقت نامی پیکٹ تھا جو تبادلہ مہاجرین کے متعلق تھا کو توڑتے ہوئے محض اپنی سیٹ پاکستان کے اندر پیدا کرنے کے لیے لیاقت علی خان نے پاکستان کے استحکام کی بھی پراوہ نہ کی کھوکھرا پار سرحد غیر قانونی طور پہ محض اس لیے کھولی گئی کہ لیاقت علی خان کے پرانے علاقے یو پی اتر پردیش کے کے سب لوگ پاکستان میں ایک ہی جگہ آباد ہوں

    حوالے کے لئیے دیکھیے ۔تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خانکی کتاب دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کا پیج نمبر 178۔

    ،، اس جو مسائل آگے چل کر پاکستان کو بنے اس سے سب لوگ آگاہ ہیں۔ آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ھزارؤں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں جس سے استحکام پاکستان کو سخت نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ جو مہاجرین پاکستان کے باقی حصوں میں آباد ہوئے وہ آج سب کچھ بھول بھال کر اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہین جبکہ مہاجر غیر مہاجر کا مسئلہ صرف کراچی اور کسی حد تک حیدرآباد میں ہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ لیاقت علی بھی تھے نے بنگالی اور سندھی قیادت کو کمال نخوت سے کبھی اپنے برابر نہیں سمجھا تھا ۔

    حوالے کے لیے دیکھیئے
    the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi

    مجھے اپنے بارے میں عالم ہونے کا دعواہ کبھی نہیں رہا مگر ایک بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ علمِ رایخ کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ تاریخ کسی شخص کی میت پہ بہائے گئے آنسوں یا اسکی جنازے میں شامل لوگوں کی تعداد سے غرض غایت نہیں رکھتی بلکہ اسے بہحثیت مجموعی تاریخ میں مزکورہ شخصیت کے ادا کئے گئے کردار سے ہوتی ہے۔ آپ نے آنسؤن کی بات کی ہے تو لوگ تو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بھی بہت روئے بلکہ اپنے آپ پہ تیل چھڑک خود سوزی بھی کچھ لوگوں نے کی۔ بے نظیر بھٹو کے قتل پہ بھی بہت لوگ روئے۔ ضیاء الحق کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، مگر ان شخصیات کا فیصلہ کرتے ہوئے بھی تاریخ ان کی میتوں پہ آنسو بہانے والوں کی تعداد نہیں دیکھے گی ۔۔ یہ کوئی ثبوت نہیں جو آپ نے لوگوں کے آنسوؤں کو بنیایا ہے ۔

    آج کی خبر ہے کہ سندھ کی وزارتِ تعلیم نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگے چالیس پچاس سالوں میں تاریخ فیصلہ دے گی کہ یہ قدم درست تھا یا نہیں ۔ اسی طرح تب لیاقت علی خان کے ارد گرد تقدس کا ھالہ کینچھنے والے بھی وہی لوگ تھے جنھیں ہر قسم کی اخلاقیات کو روندتے ہوئے لیاقت علی خان نے مراعات بخشیں اور اپنے من پسند افراد کو اپنی پسندیدہ جگہوں پہ تعینات کروایا اور جن کا حق بنتا تھا جو اپنی ہر چیز لٹا کر آئے تھے انھیں ان کے حق کے لئیے سالوں لٹکایا گیا وہ دربدر خوار ہوتے رہے۔ آپ اصرار کرین گے تو اس کے مزید حوالہ جات بھی پیش کر دونگا ۔ فی الحال یہ دیکھیں
    This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice.
    یہ الفاظ میرے نہیں تحریک پاکستان کے ایک معتبر رہنماء کے ہیں ۔ اور یہاں from his old Province سے مراد انکا آبائی صوبہ اتر پردیش مراد ہے

    اجمل صاحب!
    اسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ پنجاب کی ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے اور انکے پنجابی ہونے کا ڈھڈورا بھی اس قدر پیٹا گیا کہ اصل معامالات انکھوں سے اوجھل ہو جائیں ۔ جبکہ آپ کے علم میں ہوگا میرٹھ ۔یو پی میں لیاقت علی خان کی بہت بڑی زمیں داری بلکہ جاگیر تھی۔
    ۔۔۔۔and being son of the Nawab of Karnal, Liaquat Ali Khan inherited a huge property in Meerut. After taking BA from Oxford and Bar-at-law, he returned to India at the end of 1922 and joined the Muslim League in 1923. As an Independent, he served as Deputy Speaker in the UP Council in 1931. As a member of the United Provinces National Agricultural Party, he represented the landed interests and opposed the separate electorate before the Joint Statutory Commission which came out of the Round Table Conference in the early 1930s
    اجمل صاحب!
    یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں لیاقت علی خان کا محض پنجابی کہہ کے باقی معاملات سے ہاتھ صاف کر لینے کی امید ہمیں کم از کم آپ سے نہیں تھی ۔ دیانتداری کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ اپنے مقاصد ( جو میرے علم مہیں نہیں غالباً آپ کا بھی بھوپالی ہونا ہی مجھ سے بحث میں اتنی محنت ہی وہ واحد وجہ ہےکہ آپ لیاقت علی خان پہ ریشہ خطمی ہوئے جارہے ہیں ) کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرتے اور خاص کر عمر کی اس حد میں جس کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں ۔
    جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انکے آباء دریائے جمنا کے اس پار مظفر نگر سے تھے جہاں انکی بڑی زمینداریاں تھیں اور وہاں انکا جاگیریں اور زمینداریاں ہونے کی وجہ سے اپنا اثرو رسوخ تھا حتٰی کے دہلی میں رہتے ہوئے بھی وہ دریائے جمنا کے اس پار اپنا اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
    حوالے کے لیے دیکھیے ،
    p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan

    اس وجہ سے سے انہوں نے اپنے پرانے علاقے کے لوگوں کو محض اپنی انتخابی سیٹ کے لیے دوسرے مہاجروں کا حق مارتے ہوئے بے کراچی میں آباد کیا اور ان میں اہم عہدے بانٹے۔

    حوالے کے لیے دیکھیے ،
    The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”

    Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187

    لیاقت علی خان نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عہدوں کی بندر بانٹ کی اور پاکستان میں اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی رسم ستم ایجاد کی
    ۔
    حوالے کے لیے دیکھیے ،
    the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi

    مضمون کی طوالت کے پیش نظر بات مختصر کرتا ہوں
    آپ نے بیگم رعنا لیاقت کا ذکر کیا یے جنکا پورا کرسچئن نام
    Ranana Sheila Irene Pant تھا اور باقی جملہ تفضیلات میں میں جانا نہیں چاہتا ۔ حوالہ دیکھ لیں
    Professor Roger D. Long with a foreword by Stanely Wolpert. Oxford University Press, Karachi. Pages 328. V.N. Datta
    اور بیگم صاحبہ کی 1948ء میں ویمن والذی سروس اور 1949 مین قائم کی گئی اپوا نامی تنظیم کے کارنامے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اس بارے میں کسی بھی نیک اور صالح مسلمان سے رائے لے لیں ورنہ مجھے بتایئے گا میں لکھ بیجھوں گا اور حوالہ بھی کسی ایسی ویسی شخصیت کا نہیں بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ہوگا۔ جبکہ مہاجریں کے لیے جنہوں نے اصل کام کیا وہ تھیں مادر ملت فاطمہ جناح یہاں
    http://www.urdupoint.com/books/bookImages/25/943_3.gif
    اس لنک پہ آپ کو فاطمہ جناح کی خدمات کی تٍضیلات مل جائیں گی۔

    اور یہ بھی حقیقت کہ لیاقت علی خان کے روابط سی آئی اے کے اعلٰی عہدیداروں سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی ہو گئے تھے اور جسے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سخت نا پسند کیا تھا
    اور آپ کو اظہر الحق نے جو کتابیں تجویز کی ہیں وہ بھی دیکھ لیں تو آپ کو کافی رہنمائی مل جائے گی۔

    میں نے شہاب نامہ کا ذکر اس لئیے نہیں کیا کہ آپ بدک جائیں گے اسکے عالوہ شریف الدین پیرزادہ نے بھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور لیاقت علی خان کے اختلافات کے بارے میں کچھ لکھ رکھا ہے وہ بھی دیکھ لیں ۔

    ہیکٹر بولائتھو نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ پہ محمد علی جناح میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ 1942 کے بعد لیاقت علی خان کی دہلی میں بھولا بھائی ڈیسائی کے ساتھ پاور اور اقتدار شئیر کرنے کے ایک منصوبے کی تفضیل دی ہے جسے بقول ہیکٹر بھولائتھو جب یہ بات قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں آئی تو انہوں نے سختی سے اس بات کا نوٹس لیا اور کہا کہ ہم آزادی سے کم کسی چیز پہ راضی نہیں ہونگے ۔

    اور یہاں میں آپ کی اور قارئین کی دلچسپی کے لیے ۔
    شاہد رشید کے کتاب مادر ملت سے چند ایک اقتباس پیش کرؤنگا۔

    “بنیادی زیادتی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان لوگوں نے کی جو قائد اعظم کی زندگی میں نافرمان ہو گئے تھے۔ اس ٹولے نے نہ صرف قائد اعظم کو موت کے منہ میں دھکیلا بلکہ مادر ملت کے سلسلے میں بھی غفلت برتی۔ اس عوام دشمن ٹولے نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا جو مقام بنتا تھا وہ جان بوجھ کر انھیں نہ دیا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قائد اعظم کے آخری الفاظ جو انھوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے کہے تھے وہ یہ تھے ” فاطی۔۔۔مجھے دلچسپی نہیں رہی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں زندہ رہوں ۔ ۔ ۔ ۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے میں رخصت ہو جاؤں ۔۔۔؟”
    شاہد رشید مزید لکھتے ہیں۔
    “یہ الفاظ صاف طور پر ان کے رنجیدہ، دل برداشتہ اور دکھی ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
    مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جب ان کی ہمت بندہانے کے لیے کہا:
    ” آپ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پُر امید ہیں۔”
    تو قائد نے جواب دیا۔
    ” نہیں اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا”
    شاہد رشید مزید لکھتے ہیں
    ان الفاظ سے صاف طور پر قائد کے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مایوسی سے لبریز الفاظ سن کر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن مادر ملت کے صبرو ضبط کی داد دینی چایہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی تا دم واپسیں حرف شکایت لب پر نہیں آنے دیا۔ محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جبکہ کوئی سیاسی لیڈر طبعی موت بھی مر جائے تو اس کے ورثاء چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ مادر ملت نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا پر اف تک نہ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
    کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
    مصنف: شاہد رشید
    اجمل صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ یہاں فاضل مصنف کا یہ جملہ “محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔” سے مراد کیا ہے آخر وہ کونسا راز ہے اور اہپنوں کا وہ کونسا ٹولہ تھا جو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی نافرمان ہو گیا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو موت کے منھ میں دھکیلا۔؟

    اجمل صاحب!
    چونکہ آپ نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الہی بخش کے نام کا حوالہ دیا ہے تو اس بارے میں بھی سن لیں۔

    جولائی کے آخر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی پیشگی اطلاع دینے کا تکلف کیے بغیر زیارت پہنچ گئے تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ صھت کی بابت دریافت کیا تو ڈاکٹر کے ذہن میں تھا کہ انھیں مادر ملت نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علاج لیے مقرر کیا ہے اور تفضیلات بتانے سے گریز کیا جس پہ لیاقت علی خان نے ” وزیر اعظم کی حیثیت سے میں ان کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہوں ” اس پر ڈاکٹرا الہٰی بخش نے نے نرمی سے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ مگر میں مریض کی اجازت کے بغیر آپ کو نہیں بتا سکتا۔”
    بعد میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے داکٹر الہٰی بخش سے تفضیل جانی اور لیاقت علیخان کو کو اپنی صحت کے بارے میں نہ بتانے پہ اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔ یہ واقعہ مادر ملت نے بیان کیا ہے ۔
    اجمل صاحب آپ بتانا پسند کرین گے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ لیاقت علی خان کو اپنے مرض کی بابت کیوں نہیں بتانا چاہ رہے؟؟ تھے اور انہوں نے اپنے معالجوں کو بھی اس کا پابند کیوں کیا تھا ۔۔؟؟؟؟

    اجمل صاحب آپ نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ایمبولینس کے بارے میں بھی حقائق کو توڑ مرور کر پیش کیا ہے ۔۔

    شاہد رشید کی لکھی کتاب مادر ملت، محسنہ ملت میں محترمہ فاطمہ جناح فرماتی ہیں۔”لیکن اس دن جیسا کہ پہلے سے ہدایت کر دی گئی تھی ہوائی ادے پہ کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایمبولنس انہیں کورنر جنرل ہاوس لے جانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھی۔ میں اور سسٹر ڈنہم ان(قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ) کے ساتھ ایمبولنس میں بیٹھے تھے۔ ایمبولنس بھہت سست روی سے چل ری تھی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ہم نے چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ایمبولنس نے اس طرح ہچکیاں لیں جیسے اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہو ۔ اور پھر وہ اچانک رک گئی۔ کوئی پانچ منٹ بعد میں ایمبلونس سے باہر آئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولنس کا پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ اگر چہ ڈرائیور نے ایمبولنس کے انجن سے الجھنا شروع کر دیا تھا لیکن ایمبولنس کو اسٹارٹ ہونا تھا نہ ہوئی۔ میں پھر ایمبولنس مٰن داخل ہوئی تو قائد نے اہستہ سے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں مجھے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ عماماً کراچی میں تیز سمدری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس سے درجہ حرات قابل برداشت رہتا ہے اور گرم دن کی حدت سے نجات مل جاتی ہے لیکن اس دن ہوا بالکل بند تھی اور گرمی ناقابل برداشت۔
    قائد کی بے آرامی کا سبب یہ تھا کہ بے شمار مکھیاں ان کے چہرے پہ بھنبھنا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے اسے اٹھا سکتے ۔سسٹر ڈنہم اور میں باری باری ان کے چہرے پر ہاتھ سے پنکھا جھل رہے تھے ہم منتظر تھے کہ شاید کوئی ایمبولنس آجائے ہر لمحہ کرب اذیت کا لامتناہی لمحہ تھا۔۔۔۔ امیدو بہم کی کیفیت میں ہم انتظار کرتے رہے۔
    قریب ھی مہاجرین ۔۔۔۔ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کا وہ قاعد جس نے انھیں ایک وطن لے کر دیا ہے ان کے درمیان موجود ہے اور ایک ایی پرانی ایمبولنس میں بے یارو مددگار پڑا ہے جس کا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے۔
    کاریں ہارن باجتی قریب سے گزر رہیں تھیں۔ بسیں اور ٹرک اپنی منزلوں کے طرف رواں تھے اور ہم وہاں ایسی ایمبولنس میں بے حس و حرکت پڑے تھے جو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھی اور اس ایمبولنس مین ایک انتہائی قیمتی زندگی آتی جاتی سانس کے ساتھ قطرہ قطرہ ختم ہو رہی تھی۔۔ ۔ ۔ ۔
    ۔ ۔ ۔ ۔ ۔کتنی عجیب بات تھی کہ دو گھنٹے میں ہم کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور دو گھنٹے ہمیں ماڑی پور سے گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے میں لگے۔”

    کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
    مصنف: شاہد رشید

    اجمل صاحب یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ مادر ملت فاطمہ جناح کے ہیں اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وزارت عظمٰی میں مریض کوئی اور نہیں بلکہ بانی پاکستان اور پاکستان کے گورنر جنرل قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ تھے۔

    شاہد رشید مادر ملت کے بارے میں رقم طراز ہیں ” بجائے اس کے کہ عوام دشمنوں سے محاز آراء ہو کر ساری توانئی بھائی کے دسمنوں اور قاتلوں کے چہرے سے نقاب اترانے میں صرف کرتیں اور عمر اس مطالبے میں گزار دیتیں کہ میرے بھائی کو موت سے ہمکنار کرنے والے ٹولے کو قرار واقعی سزا دی جائے انہوں نے اس صدمے کو پی لیا۔۔۔۔
    کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
    مصنف: شاہد رشید

    اجمل صاحب آپ ہی بتائیں وہ قاتل ٹولہ کون تھا اور ان کا سر غنہ کون تھا؟
    مندرجیہ بالا اعتراضات سے متعلق آپ کا جواب آنے تک اور طوالت سے بچنے کے لیے ییہں ختم کرتا ہوں

    اجمل صاحب آپ سے گزارش کرؤنگا کہ بات دالائل سے کی جیے گا نہ کہ میری ذات کو تختہ مشق بنا کے قارئین کو اور فضول قسم کی تنقید کر کے اپنے قارئین کو مایوس کریں۔ آپ کی بھوپال سے عقیدت کا بہر حال ہمیں احساس ہے۔

    آپ نے میرا پاکستان کے اٍضل صاحب سا ناحق گلہ کیا ہے کہ میری رائے انہھوں نے کیوں چھاپی ہے؟۔ حالانکہ انہوں نے آپ کا نقطعہ نظر بھی خوب چھاپا ہے۔ اور یہ ہی آزادی اظہار رائے کا حسن ہے۔ اور ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مجھے نام نمود یا خواہ مخواہ کے چرچے کی قطعی عادت نہیں کہ آپ نے بار بار میرے بارے میں اس بات پہ زور دیا اور نہ ہی میں کسی پہ اپنی رائے ٹھونس رہا ہوں یہ ایک عام سا مکالمہ تھا جسے آپ نے بحث کا رنگ دیا ۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے مجھے اسقدر نواز رکھا ہے کہ اگر مجھے یہ فضول قسم کے شوق ہوتے تو مین ایک نہیں پانچ سو ڈومین یا سائٹس انٹر نیت پہ قائم کر سکتا ہوں مگر الحمد اللہ مجھے ایسا کوئی شوق یا کمپلکس کبھی نہیں رہا۔

    ضروری وضاحت۔
    مندرجہ بالا تحریر میں یو پی سے ہجرت کر کے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں یا کسی اور مہاجر یا غیر مہاجر طبقے کا میں تہہ دل سے احترام کرتا ہوں اور میرے نزدیک تمام پاکستانی قابل صد احترام ہیں ۔ چونکہ لیاقت علی خان نے تب کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے یو پی کے مہاجروں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا اس لئیے وہ حوالے ضروری تھے۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
    ____________________________________________________________

    میرا پاکستان میں لکھا تبصرہ جسے غالباً آپ نے بوجوہ نظر انداز کیا ہے

    جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب!
    میرے بارے میں آپ کے یہ الفاظ ُ ُ۔۔۔ کہ موصوف کا دماغی توازن درست نہیں۔۔۔،، بلاشبہ میری ذات کے بارے میں میری زندگی میں کہے گئے یا لکھے گئے سخت ترین الفاظ ہیں اور چونکہ یہ الفاظ صرف میری ذات پہ کہے گئے ہیں اس لئیے میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔

    موضوع چونکہ پاکستان سے متعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اچھے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔

    آپ نے اوپر جو حوالہ انگریزی زبان میں دیا ہے وہ لیاقت علی خان کی کے قتل پہ بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کی کوڑی ہے جو تب بھارت، نئی دہلی میں امریکن سفارت خانے نے ایک معمول کی کاروائی کے تحت تیس اکتوبر 1951 بعنوان Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951 کو ٹیلیگرام واشنگٹن بجھوائی تھی۔ جبکہ انھی دنوں میں ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے موضوع پہ امریکیوں نے اپنے مختلف سفارتی مشنوں سے ایک عام روٹین کے تحت درجنوں ٹیلی گرامز اور رپورٹس واشنگٹن بجھوائیں تھیں جو درج ذیل ہیں

    . Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
    . Confidential Telegram from Karachi Embassy, Oct. 16, 1951
    . Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
    Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 17, 1951
    The Situation in Pakistan, Oct. 17, 1951
    Comment on the Assassination of the Pakistani Prime Minister, Oct. 17, 1951
    The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951
    Special Note: The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951 Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 18, 1951
    . Secret Telegram from Karachi Embassy, Oct. 18, 1951
    Official Afghan Reaction to Press Implications of Afghan Complicity in Assassination of Pakistan Prime Minister, Oct. 18, 1951
    . Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
    Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
    . Restricted Telegram from Consulate General, Calcutta, Oct. 19, 1951
    . Secret Telegram from Secretary of State, Oct. 20, 1951
    . Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 21, 1951
    . Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 22, 1951
    The Current Outlook in Pakistan, Oct. 22, 1951
    . Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 23, 1951
    Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 23, 1951
    . Secret Telegram from Moscow Embassy, Oct. 26, 1951
    Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
    . Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 31, 1951
    . Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
    Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951
    Confidential Telegram from Lahore Consulate, Nov. 14, 1951
    Secret Telegram from Karachi Embassy, Nov. 15, 1951
    Public Role of Ms. Fatima Jinnah Since Assassination of Liaquat, Nov. 17, 1951
    . Political and Economic Developments for the Week Ending Jan. 8, 1952, Jan. 8, 1952
    Political Developments in Pakistan, Sept.-Dec. 1951, Jan. 30, 1952
    . Confidential Telegram A-251 from Karachi Embassy, Feb. 11, 1952
    Political Developments in Pakistan, January 1952, Feb. 25, 1952
    . Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 18, 1952
    Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 19, 1952

    جن ٹیلی گرامز کا حوالہ یا متن میں سے آپ نے صرف بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کا انتخاب کیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کالم لیاقت علی خان کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کو (جس کی بہر حال ہم مذمت کرتے ہیں ) آپ کے نقطعہ نظر بلکہ بہت سے لوگوں کے نقطعہ نظر کے عین مطابق یک طرفہ طور پہ محب الوطن، قائد ملت اور شہید ٹھرائے جانے پہ اصرار اور لیاقت علی خان کو پارسا ثابت کرنے پہ بضد ہونے کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ جبکہ درحقیقت یوں نہیں اور آپ بھی جانتے ہون گے کہ کیوں ۔؟ کیونکہ آپ کا مجھ پہ اسقدر سیخ پا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اور وہ وجوہات ہم آگے بیان کریں گے۔

    آئیں پہلے ان وجوہات پہ بات کیے لیتے ہیں ۔۔

    پروفیسر ضیاء الدین احمد اپنی کتاب،لیاقت علی خان بلڈر آف پاکستان۔ کے صحفہ نمر ستائیس پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے یو پی اتر پردیش کے ساتھ گہرا تعلق ہونے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔

    “The family, Before settling down in Karnal in the Punjab in the 19th century, lived on the other side of the Jamna in Muzaffarnagar (U.P., India) for some generations, where they owned bigestates. Even after he settled down in Delhi, he took keen interestin the amelioratin and betterment of the Muslims of Muzaffarnagar.”
    p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan

    تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خان اپنی کتاب۔ دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کے پیج نمبر 178 پہ لیاقت علی خان کے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے۔ اور اتر پردیش کے لوگوں کو کراچی میں ہر قانون قاعدہ توڑتے ہوئے، محض اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے یو پی والوں کو کراچی میں بسانے کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے ایک رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتمد خاص ساتھی کے الفاظ ہیں۔

    “He (Liaqat Ali Khan) delayed the completion of the Constitution to avoid elections which he could not win because he had no seat in Pakistan and had to be elected by East Pakistan. He, on the advice of officers belonging to the United Provinces, broke the Liaqat-Nehru Pact about the agreed areas for migration from India to Pakistan, requiring the record of property to be exchanged officially. He, quite against the agreement permitted inhabitants of UP and Rajasthan to enter via Khokhrapar – thus opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan. I objected to this in the assembly. This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice. This act of his created a lot of confusion with people getting allotments in Sindh, without records on each other’s dubious evidence. This led to the problems of MQM and their hatred by Sindhis. These refugees got a monopoly of jobs in the cities and deprived local Pakistanis of their rightful share. The political instability still persists.”
    (source: Page 178 from the “Nation that lost its soul”, enclosed as Vol 2.5 in
    the document)
    جلد نمبر 4 پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان۔ ادرارہ مطالعہ تاریخ پیج نمبر 185-187 پہ حسن جعفر زیدی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اصولوں سے ہٹ کر ذاتی پسند اور نا پسند کی داتی مفادات کی سیاست پہ لکھتے ہیں ۔

    “Punjabi chauvinism and Liaqat Ali Khan’s favoritism was at each others throat. The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”

    Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187

    وہ مزید لکھتے ہیں ۔

    Liaqat Ali Khan with nepotism, and commenting on the appointments Liaqat Ali Khan had made……….
    Hashim Raza, administrator Karachi; his brother Kazim Raza, IG police; Aal-e-Raza, also brother of Hashim, Public Prosecutor; Superintendent CID; Home Secretary Punjab, all of them from UP. Liaqat Ali Khan did all this to secure his political success from Karachi at least…………
    ………………… The commander of army in Bengal was (you guessed it right) Maj. General Ayub Khan was from Hazar…. They never gave the respect to political leadership of Bengal either.

    the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi

    لیاقت علی خان کی رقص و شراب کی محفلیں اور دلچسپیوں کے بارے میں وجاہت مسعود، لاہور سے بعنوان لیاقت علی خان کا قتل میں لیاقت علی خاں کون تھے؟ میں یوں رقم طراز ہیں۔
    “شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ رقص، شراب اور عمدہ سگرٹوں سے محظوظ ہوتے تھے مگر عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔”

    اجمل صاحب آپ طوالت کی وجہ سے اختصار سے کام لوں گا، مجھے اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے ۔ اگر آہ اصرار کریں گے تو مزید دستاویزات حاضر کر دوں گا ۔
    مقصد کسی کی دل آزاری نہیں اور نہ ہی آپ کے علم کو چیلنج کرنا ہے یہ ایک عام سا مکالمہ تھا، جسے آپ نے بحث کا رنگ دیا۔ بہر حال جو قارئین اکرام اپنے طور پہ خود بھی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقتیں واضح ہوتی چلی جائیں گی۔ ہمارے نزدیک پاکستان کے رہنماء کہلائے جانے والوں کے لیے پاکستان کی خاطر قربانی دینے کے جذبے کی بہت سخت کسوٹی ہے جس پہ ہم پاکستاں کے مفادات کو پرکھتے ہیں۔ جب معاملہ پاکستان یا امت اسلامیہ کا ہو تو کسی کو معافی نہیں، اور حقائق کھل کر سامنے آنے چاھیں۔ خواہ اس کی زد میں کوئی بھی ہی کیوں نہ ہو اور وہ کس قدر ہی مقدس قرار دیا جا چکا ہو۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  8. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    آپ کا مشکور ہوں کہ آپ نے بے انتہاء مصروف ہوتے ہوئے اتنی لمبی تحریر لکھ دی ہے کہ جسے پڑھنے کیلئے بھی مجھ غیرمصروف کو دقت ہو رہی ہے

    آپ نے درست لکھا ہے کہ ” ہمارے ہاں ہر دور میں ابن الوقت لوگ ہوئے ہیں” مگر تھوڑا ساچُوک گئے ہیں ۔ پاکستان کی تاریخ کو مسخ کرنے میں اُن تینوں کے علاوہ جن کے نام آپ نے لیاقت علی خان کے خلاف حوالہ کے طور پر لکھے ہیں [سردار شوکت حیات ۔ ذیاء الدین احمد ۔ حسن جعفر زیدی] اور بھی کئی مطلب پرست لوگ حصہ دار ہیں ۔ ان تین اصحاب میں سے ایک تو خاندانِ غداراں سے تعلق رکھتے ہیں کہ اُن کے جدِ امجد نے مسلمانوں کے خلاف انگریز حملہ آوروں کی مدد کی اور ہموطن مسلمانوں کے خون پر ایک ادنٰی مالی سے جاگیردار بنا ۔ اور اس شخص کی اپنی منافقت کا یہ حال کہ اس نے 1947ء میں جب کہ وہ پاکستان میں ایک بڑے بنک کا اعلٰی عہدیدار تھا پاکستان سے کُوچ کرنے والے ہندوؤں کے حسابات بھارت کے بنکوں کو منتقل کئے اور کسی ایک بھی مسلمان کا حساب اُن کی درخواستوں کے باوجود بھارت میں اپنے بنک کی شاخوں سے پاکستان منتقل نہ کیا ۔ میں لکھنا نہیں چاہتا تھا مگر آپ کی تحریر پڑھ کر ایک جھلک دکھانا ضروری ہو گیا تھا ۔ اس حقیقت کیلئے مجھے کسی حوالے کی ضرورت اس لئے نہیں کہ میں اُس شخص اور اس کے خاندان کو بہت قریب سے جانتا ہوں ۔ اور میرے والد صاحب اُسے 1947ء سے جانتے تھے اور اُس کے کردار سے بھی اچھی طرح واقف تھے ۔ لیکن یہ حقائق اس لئے تاریخ کا حصہ نہیں بن سکتے کہ تاریخ صرف با اثر لوگ لکھتے ہیں یا لکھواتے ہیں ۔

    آپ کیسے جانتے ہیں کہ سرادر شوکت حیات قائدِ اعظم کے معتبر ساتھی تھے ؟ یہ ایک نئی خبر ہے

    آپ نے لکھا ہے
    ” آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ہزاروں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں”

    سُبحان اللہ ۔ آپ نے کہاں کی کہاں ملا دی ہے ۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ مہاجر تحریک نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے 32 سال 5 ماہ بعد18 مارچ 1984ء کو اُن لوگوں نے شروع کی جو پاکستان میں پیدا ہوئے تھے اور جو اکثر خود یا اُن کے والدین نوابزادہ لیاقت علی کی وفات کے بعد بھارت سے ہجرت کر کے پاکستان آئے ۔ اس تحریک کو سیاسی رنگ دے کر کس نے اُبھارا ہر پاکستانی جانتا ہے مگر آپ بے خبر ہیں ۔

    میں اس بحث میں مزید وقت ضائع نہیں کرنا چاہتا ۔ آپ جو جی چاہے سمجھیئے ۔ آپ اپنے کردار کے ذمہ دار ہیں اور میں اپنے کردار کا ۔ میرا فرض اتمامِ حُجت تھا جو میں نے کسی حد تک پورا کر دیا ۔

  9. افتخار اجمل بھوپال Post author

    اظہرالحق اور عبدالقدوس صاحبان
    آپ دونوں کا خیال درست ہے ۔ سیدھی سی بات ہے کہ اگر ہموطنوں کی اکثریت میں حمیت ہوتی تو آج ہماری قوم ان حالات سے دو چار نہ ہوتی کہ نہ جائے ماندن نہ پائے رفتن

  10. عمار ابنِ ضیاء

    میں جہاں کام کرتا ہوں، وہاں ایک بہت عمر رسیدہ صاحب ہوا کرتے تھے۔ ایک دفعہ جنگ اخبار میں غالبا عطاء الحق قاسمی کا مضمون چھپا تھا جس کا موضوع قائد اعظم، قائد ملت، مادرِ ملت اور بیگم رعنا لیاقت علی خاں کے گرد گھومتا تھا۔ وہ مضمون پڑھ کر جب میں نے ان صاحب سے اس بارے میں بات کی تو ان کا کہنا یہ تھا کہ بیگم رعنا لیاقت علی خان اور فاطمہ علی جناح کے آپس میں تعلقات ایسے کچھ خاص نہ تھے اور قائد اعظم اور قائدِ ملت کے مابین اختلافات کی جو خبریں ہیں، وہ درحقیقت ان دونوں خواتین کی رنجش کے سبب ہیں ورنہ درحقیقت ایسا کچھ نہیں تھا اور دونوں قائدین کو ایک دوسرے پر بھرپور اعتماد تھا۔ رہی سیاسی غلطیوں کی بات تو یہ ایسی کوئی بڑی بات نہیں کہ انہیں ملک دشمن قرار دے دیا جائے۔۔۔ واللہ اعلم۔

  11. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    آپ نے لکھا تھا کہ آپ بہت مصروف آدمی ہیں لیکن صورتِ حال کچھ اس طرح منتج ہو رہی ہے کہ میرے پاس ابھی اتنا وقت نہیں کہ میں آپ کے متعدد طویل تبصرے پڑھ سکوں ۔ جب وقت ملے گا تو پڑھ کر جواب لکھ دوں گا ۔
    اتنا واضح کر دوں کہ مجھے انسانوں سے غرض نہیں ہے صرف حقائق سے غرض ہے ۔ میری دعا ہے کہ اللہ سب کو حقائق سمجھنے اور سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔
    آپ قائدِ ملت کو ہر کردہ اور ناکردہ جُرم کا ذمہ دار ٹھہرانے کی بجائے اگر اپنے اور اپنے ہموطنوں کے کردار پر توجہ دیتے تو آپ کی سمجھداری کا بہت سے قارئین پر مثبت اثر ہوتا ۔ جو شخص 57 سال قبل اس دنیا سے رُخصت ہو گیا تھا اُس کی بُرائیاں گن کر آپ کونسی دینی یا قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ؟
    اگر آپ ماضی بعید سے نکل کر حال میں نہیں آنا چاہتے تو اس میں کسی اور کا کیا قصور ؟

  12. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    محترم اجمل صاحب!

    آپ کے بقول یہ سوال کہ “جو شخص 57 سال قبل اس دنیا سے رُخصت ہو گیا تھا اُس کی بُرائیاں گن کر آپ کونسی دینی یا قومی خدمت سرانجام دے رہے ہیں ؟”
    تو ّرض ہے میں اس بارے اوپر آپنے تبصرے میں “قارئین اکرام سے ایک گزارش۔” کے زمرے میں اس بات کی وضاحت ان الفاظ میں کر چکا ہون۔ “ہمیں نہ تو لیاقت علی خان سے ضد ہے نہ جناب محترم اجمل صاحب سے ہی کوئی بغض یا ضد ہے۔ یہ سلسہ جناب افضل صاحب کے بلاگ میرا پاکستان میں چھپے مضموں “صدر ہماری نظر میں” سے شروع ہوا اور بحث و مکالمہ چل نکلا۔ ارادتاً صرف لیاقت علی خان کو موضوع سخن نہیں بنایا گیا۔بات صرف پاکستان کے ہیروز کو انکا اصل مقام دینے تک ہے ”
    آپ نے غالباً یہ الفاظ پڑھے ہی نہیں۔ میں نے تو افضل صاحب کی پوسٹ پہ ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی ایک عام سی رائے دی تھی۔ بحث ک اغاز آپ نے کرنا چاہا جب میری ذہنی حالت پہ محض اس لئیے شک کیا کہ آپ کے نزدیک نوابزادہ لیاقت علی خان ہیرو تھے جبکہ ہمارے نزدیک پاکستان کو امریکہ کے چنگل میں پھنسانے کے اول ذمہ دار لیاقت علی خان تھے۔ اور اللہ جانتا ہے میں نے آپ کے مجھ پہ یعنی میری ذات پہ قطعی غیر مناسب ریمارکس جن کی میں نے ابھی تک کہیں بھی‌آپ کی طرف سے معذرت نہیں دیکھی، ان تمام منفی ریمارکس کے باوجود آپکے بلاگ میں اس موضوع سے ہٹ کر مسلمانوں سے ہمدردی میںجو پوسٹس ہوتی ہیں محض ان پوسٹس کی وجہ سے ہم آپ کی عزت کرتیں ہیں اور اس پوری بحچ میں کبھی بھی اپنی ذات کی وجہ سے یا آپ کو نیچا دکھانے کی وجہ سے کوئی بات نہیں اراداتًا نہیں کہی۔ اور میری یہ عادت رہی ہے کہ میں اپنی ذات کے حوالے سے کبھی بھی کسی سے نہیں الجھتا۔ آپ سے بھی اگر یہ مباحثہ رہا تو مقصد صرف اتنا تھا کہ حقائق کو منظر عام پہ لایا جا سکے۔ اور یہ اس لئیے بھی ضروری تھا کہ بات پاکستان اور پاکستان کی آنے والی نسلوں تک اصل حقائق بہم پہنچانے کی تھی۔ کاش یہ صرف میرا ذاتی مسئلہ ہوتا آپ مجھ پہ بے شمار تنقید کرتے اور آپ کو کبھی بھی میری طرف سے دولفظوں سے زیادہ وضاحت نہ ملتی۔

    آپ میرے بارے میں مزید رقم طراز ہیں ” اگر اپنے اور اپنے ہموطنوں کے کردار پر توجہ دیتے تو آپ کی سمجھداری کا بہت سے قارئین پر مثبت اثر ہوتا ”

    حضور آپ کو شاید کسی وجہ سے غلط فہمی ہوئی ہے مجھے نہیں معلوم آپ میرے ہم وطنوں سے مراد کسے لیتے ہیں۔؟ میں تو پاکستان کے اس قبیل کے لوگوں سے تعلق رکھتاہوں کہ کوئی جب بھی ہم وطنوں کا پوچھے تو ذہن میں پاکستانی لفظ ابھرتا ہے اور وطن کے بارے میں استفسار کیا جائے تو میرا جواب پاکستان ہوتا ہے بہر حال آپ کی تسی کے لیے وضاحت کردوں اس بحث کا محور و مرکز یہ قطعی نہیں تھا کہ میں میں پاکستان کے ایک مخصوص خطے سے تعلق رکھتا ہوں اور چونکہ کہ لیاقت علیخان کا تعلق چونکہ میرے خطے سے نہیں لہٰذاہ ان کے بارے میں منفی لکھنا جائز ہے ۔
    اجمل صاحب ہمارے نزدیک ایسی تنگ نظری کی کوئی گنجائش نہیں اور جو لوگ ایے تنگ نظر یا متعصب ہوں خواہ وہ پاکستان کے کسی بھی طبقہِ فکر سے تعلق رکھتے ہوں ہم ایسے لوگوں کی مذمت کرتے ہیں۔ ملک و قوم اور ملتِ اسلامیہ کے مفادات کی خاطر ہم اپنے سگے سے سگے عزیز خواہ وہ میرے سگے بھائی ہی کیوں نہ ہوں انکو بھی معاف نہ کریں اور میں سمجھتا ہوں کہ میں تنہا یہ سوچ نہیں رکھتا اس میں پاکستان کی اکثریت شامل ہے بس بقول علامہ اقبال رحمۃ اللہ علیہ تھوڑی سی نمی ہو۔
    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  13. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    نمایاں رہنما تو امریکہ کا بُش بھی ہے اور افغانستان کا مُلّا عمر بھی ۔ ہمیں یہ دیکھنا چاہیئے کہ سچا کون ہے ؟ سچا وہ ہو سکتا ہے جس کے ذاتی کردار اور گفتار میں مماثلت ہو ۔ میرے مشاہدے اور مطالعہ کے مطابق جو لوگ مارچ 1940ء کے بعد جب پاکستان بننے کا یقین ہو گیا تو مُسلم لیگ میں داخل ہوئے اُن کی اکثریت نے اپنی بیجا اشتہار بازی کیلئے اسلاف کے کردار میں کیڑے نکالے کیونکہ اسلاف کا دفاع کرنے والا موجود نہ تھا ۔ ان لوگوں کی مثال بھیڑ کی کھال میں بھیڑیئے کی ہے ۔

    جب پاکستان بنا تو سردار شوکت حیات ایک سرکاری یا نیم سرکاری ادارے کا اعلٰی عہدیدار تھا تو وہ سیاست میں کیسے حصہ لے سکتا تھا ؟ اگر وہ پاکستان بننے سے قبل مسلم لیگ کی ذرہ برابر بھی حمائت کرتا یا پاکستان بنانے کی بات کرتا تو ا۰سے انگریز حکومت اُسی لمحہ نوکری سے نکال دیتی ۔ آپ نے وکی پیڈیا کا بھی حوالہ دیا ہے ۔ وکی پیڈیا بہت سے اندراجات درست ہیں لیکن غلط اندراجات بھپی ہیں جن کے متعلق میں ایک سے زیادہ بار ثبوت کے ساتھ لکھ چکا ہوں ۔ نواب ممدوٹ سے سردار شوکت حیات اور میاں ممتاز دولتانہ کو تکلیف نہ ہوتی تو اور کس کو ہوتی ؟ نواب ممدوٹ ایک سچا اور خاموش کارکُن تھا جو کہ ان حضرات کیلئے ناقابلِ برداشت تھا ۔ کیا آپ جانتے ہیں کہ جب لاہور میں ہندوؤں نے مار دھاڑ شروع کی ۔ مسلم نیشنل گارڈ کا سالار نواب ممدوٹ کے پاس گیا ۔ اتفاق سے اُس وقت سردار شوکت حیات نواب ممدوٹ کے پاس بیٹھا تھا ۔ سالار نے کہا “نواب صاحب ۔ ہمارے پاس آپ کی دی ہوئی ایک گاڑی ہے اور مختلف جگہوں سے زخمی اُٹھانے میں دقت ہو رہی ہے ۔ سردار صاحب کے پاس کئی گاڑیاں ہیں اگر ایک دے دیں صورتِ حال کچھ بہتر ہو جائے گی”۔ جب سردار شوکت حیات کی طرف سے کچھ عندیہ نہ ملا تو نواب ممدوٹ نے سالار سے کہا “آپ میری دوسری گاڑی بھی لے جائیں ۔ جب مجھے ضرورت ہو گی تو میں سردار صاحب سے مانگ لوں گا” اس پر سردار شوکت حیات ٹس سے مس نہ ہوا تو سالار نواب ممدوٹ کی دوسی گاڑی بھی لے کر چلا گیا

    سردار شوکت حیات کی بیٹی کا واقعہ کا نوابزادہ لیاقت علی سے کیا تعلق ہے ؟

    نوابزادہ لیاقت علی خان کی یہ غلطی تھی کہ مسلم لیگ کے رہنماؤں کے کہنے پر مسلم لیگ کے بھی صدر بنے جس عمل نے ان کے مرنے کے بعد وطنِ عزیز کو بہت نقصان پہنچایا ۔

    آپ کی باقی باتوں پر تبصرہ وقت کے ضیاع کے مترادف ہو گا کیونکہ آپ دعوٰی کچھ کرتے ہیں اور تقریر کچھ ۔

    کیا یہ بہتر نہیں ہو گا کہ مرے لوگوں کے مُردے اُکھیڑنے اور اپنے کرتوتوں کا سارہ ملبہ اُن پر ڈالنے کی بجائے ہم اپنے کردار پر نظر ڈالیں کہ ہم نے اپنی قوم اور وطن کیلئے کیا کیا ہے اور کیا کرنا چاہیئے ؟

    آپ ہسپانیہ میں رہتے ہیں ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ آپ اس زہرافشانی کی بجائے ہمیں غرناطہ اور اشبیلیہ کی تاریخ اور موجودہ حالت سے روشناس کراتے

  14. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    آپ کی اطلاع اور قارئین اکرام کی دلچسپی کے لئیے عرض ہے۔ کہ یہ وہی سردار شوکت حیات ہیں جو اُن بائیس افراد میں شامل تھے جن کی طرف سے انیس سو چوہتر میں قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی قرار داد پاکستان نیشنل اسمبلی میں پیش کی گئی تھی۔

    Sardar Shaukat Hayat Khan, the last of the prominent Muslim League leaders
    by Moin Ansari معین آنصآرّی

    آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے جس مضمون کے حوالہ جات دیے ہیں وہیں مندرجہ بالا الفاظ معین آنصآرّی کے ہیں۔ب یہ تو ممکن نہیں کہ آپ اپنے موقف کی حمایت کے لیے معین آنصآرّی کے مضمون کا کچھ حصہ تو اپنے قارئین کو سنا دیں اور جو آپ کے موقف کو باطل ثابت کر اسے ماننے سے انکار کر دیں۔ بندہ یا تو پورا مسلمان ہوتا ہے یا پھر نہیں ہوتا، یہ بیچ بیچ والی بات نہیں ہوتی کہ کچھ باتیں مانتا ہوں اور کچھ باتیں چونکہ سوٹ نہیں کرتی تو نہیں مانتا۔

    آپ کو میں سردار شوکت حیات کے بارے میں پہلے بھی بتا چک ہوں پھر سے بتا دیتا ہوں کہ آپ کسی غلط فہمی کا شکار نہ ہوں۔
    Sardar Shaukat Hayat Khan (by Zubaida Khatun), born 1915, a prominent Muslim League leader and a former Pakistan M.L.A. and Minister; married 25th December 1942, and had issue. He died 1998

    1946ء میں حضرت قائداعظم کے حکم پر پنجاب بھر میں خضر حکومت کے خلاف سول نافرمانی کی تحریک شروع کی تو اپنے قائد کی آواز پر لبیک کہتے ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔جب اس تحریک نے پورے پنجاب میں زور پکڑا اور ہر طرف ’’خضر! ہائے ہائے‘‘ کے نعرے بلند ہونے لگے۔ نو خضر حکومت کے کارکنان قضاء قدر نے فدایان پاکستان لیگی قائدین اور کارکنوں کو مظالم کا نشانہ بنانے کیلئے جیلوں کے دروازے کھول دیئے۔ صوبے کی کم و بیش تمام جیلیں لیگی کارکنوں سے بھر گئیں۔ صوبے کی وہ جیلیں جہاں سے سب سے زیادہ قائدین کو نذر زنداں کیا گیا تھا ان میں سے ایک جیل قصور کی بھی تھی یہاں بند رہنے والے مسلم لیگی قائدین میں سے نواب افتخار حسین خاں ممدوٹ، ملک فیروز خاں نون، سردار شوکت حیات خاں‘‘ میاں ممتاز محمد خاں دولتانہ، چوہدری محمد حسین چٹھہ وغیرہ کے نام نمایاں ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

    آپ نے جس ویب سائٹ سے Moin Ansari معین آنصآرّی کے مضمون میں سے ، بھوپال کے جس جریدے کے کے بائیں بازو کے کالم نگار کے جس آرٹیکل کو نوابزادہ لیاقت عی خان کے قتل میں امریکن سی آئی اے کے ملوث ہونے کی بنیاد بنایا ہے جس سے آپ غالباً یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ نوابزادہ کو امریکن سی آئی نے قتل اس لیے کروایا کہ وہ امریکن سی آئی یا امریکہ کے کہنے میں نہیں تھے، بلکہ امریکہ مخالف تھے اس لئیے انہیں امریکہ نے مروا دیا۔ جبکہ حقیقت مختلف ہے اور بات صرف اتنی سی ہے کہ مزکورہ آرٹیکل دہلی میں امریکن سفارتخانے نے ایک ٹیلی گرام کے ذریعے اپنی حکومت کو اپنی باقی ماندہ ہزاروں دیگر معلوماتی ٹیلی گرامز کے کی طرح بجھوایا تھا جن کا ہم زکر اوپر کر چکے ہیں۔ اس طرح آپ نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت سے پاکستان کو امریکہ کی گود میں بٹھانے کا داغ، تاریخ سے ناانصافی کرتے ہوئے دھونا چاہتے ہیں ۔۔ جو آپ کی بھوپال سے عقیدت ہونے کی وجہ سے سمجھ میں آنے والی بات ہے۔ ورنہ بغیر کسی علمی یا عقلی دلیل یا ثبوت کے آپ کا ایک ہی بات پر اصرار شایدہم بھی نہ سمجھ پاتے۔ جبکہ یہ بھی ثابت ہے کہ کام نکل جانے پہ یا ڈُو مور بوائے کے اصرار پہ انکار کرنے والوں کا انجام بھی امریکن سی آئی اے کے نزدیک وہی ہوتا ہے جو بہت سے دوسرے بکاؤ مال پاکستانی یا غیر پاکستانیوں کا رہا ہے اور اس میں حیرانگی والی کوئی بات نہیں کہ امریکن خفیہ ایجنسی کا یہ وطیرہ رہا ہے جو آجکل خود سفید ھاؤس نے فخریہ اپنا رکھاہے۔

    آپ نے فرمائیش کی ہے کہ میں اشبیلیہ اور مسلم اندلس کے بارے میں کچھ لکھوں تو عرض ہے اسقد خوں رلاتی تاریخ پہ بات لکھنا یا کرنا بہت دل گردوں کا کام ہے مگر کبھی فرصت ہوئی تو ضرور لکھوں گا ویسیے تاریخ ندلس پہ چیدہ چیدہ باتیں میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں اس لیے عرض ہے کہ مانا کہ آپ بھوپال سے عقیدت رکھتے ہیں مگر حب الوطنی کا تقاضہ یہ ہے کہ ہر قسم کے نفع و نقصان سے بلند ہو کر حقائق کو واضح کیا جائے تا کہ نقصانا کا ازالہ کیا جاسکے تا کہ آئیندہ کبھی بد قسمتی سے سقوط غرناطہ یا سقوط ڈھاکہ جیسے شرمناک باب دوبارہ ہماری تاریخ کا حصہ نہ بنیں۔

    باقی باتیں انشاءاللہ آپ کی اس پوسٹ پہ ہوں گی جس کا عنوان ہے “سیّد سبط الحسن ضیغم نے لکھا تھا”۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  15. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاوید گوندل صاحب
    مجھ پر صرف اتنا کرم کر دیجئےکہ ایک لمحہ کیلئے سوچئے کہ آپ ایک شخص کو ذاتی طور پر جانتے ہیں ۔ کوئی اور شخص آ کر اس کے متعلق وہ کچھ کہتا ہے جو آپ کے مشاہدہ کے برعکس ہے تو کیا آپ اُس کی بات مان لیں گے ؟ جس کا مطلب ہو گا کہ آپ کا مشاہد آپ کا علم سب کچھ ناقص تھا ۔

    آپ جوشِ بیان میں جو جی میں آ رہا ہے لکھتے جا رہے ہیں ۔ آپ نے میرے نام کے ساتھ بھوپال لکھا ہوا دیکھا اور میرا تعلق ریاست بھوپال سے اسلئے جوڑ دیا کہ اسی وصیلہ سے آپ مجھ پر کُنبہ پرور جھوٹا ہونے کا الزام لگا سکیں ۔ سُبحان اللہ ۔

    اگر مجھے جھوٹا کہہ کر آپ کو سکون ملتا ہے تو ضرور کہیئے میں اس کی تردید نہیں کروں گا اسلئے کہ اس سے کسی انسان کو سکون تو ملا ۔ میں جھوٹا ہوں یا سچا اللہ جانتا ہے اور بہت سے قاری بھی جانتے ہوں گے ۔

    ویسے آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ اگر میں بھوپال کا رہنے والا ہوتا تو بھوپالی لکھتا نہ کہ بھوپال ۔ نہ میں بھوپال کا رہنے والا ہوں نہ تھا اور نہ میرے آباؤ اجداد کا تعلق بھوپال سے تھا ۔ میری اس لاتعلقی کا یہ ہرگز مطلب نہیں کہ ریاست بھوپال کے رہنے والے جھوٹے یا مطلب پرست ہوتے ہیں ۔ ریاست بھوپال سے تعلق رکھنے والے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اللہ کی مہربانی سے پاکستان کو پہلی ایٹمی طاقت بنایا ۔ دوسرے ظہورالحسن بھوپالی ہیں جنہوں نے نہ صرف اپنے قلم بلکہ عمل کو بھی پاکستان کیلئے وقف رکھا ۔ بہرحال میں معین انصاری سے واقف نہیں ہوں ۔

    آپ نے فرمایا ہے کہ اشبیلیہ اور اندلس کے بارے میں لکھنا بہت دل گردوں کا کام ہے ۔ آپ تو اتنا بڑا دل اور مضبوط گردے رکھتے ہیں کہ پُلوں کے نیچے سے بے شُمار پانی بہہ کر چلا گیا مگر آپ کی سوچ کی کشتی ابھی تک اسی بات پر اٹکی ہوئی ہے کہ شہیدِ ملت لیاقت علی ہی پاکستان میں آج تک ہونے والی سب خرابیوں کے ذمہ دار تھے ۔ چلئے آپ یہی سمجھتے رہیئے ۔

    آخر میں آپ نے میری حُب الوطنی بھی مشکوک بنا دی ہے اور جو وجوہ لکھی ہیں وہ چُغلی کھا رہی ہیں کہ یا تو آپ نے میری تحاریر بہت کم پڑھی ہیں یا پھر آپ نے منفی سوچ کے ساتھ پڑھی ہیں کیونکہ سوچ منفی ہو تو ہر بات اُلٹی لگتی ہے

  16. جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    جناب! ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں اور آپ کا تہہ دل سے احترام کرتے ہیں۔ یہ ایک تحقیقی مکالمہ ہے جس میں ہماری طرف سے ذاتیات کی کوئی گنجائیش نہیں۔ بھوپال سے عقیدت کا زکرآپ نے خود اپنی کسی انگریزی تحریر میں کیاہے کہ آپ نے جموں کشمیر میں پیدا ہونے کے باوجود کیونکر اپنے ساتھ لفظ بھوپال لگایا۔ تو ظاہر ہے بغیر کسی علمی عقلی حوالے کے لیاقت علی خان کا اس حد تک دفاع کہ جس میں آپ نے مجھ پہ بہتان باندھنے کا الزام لگایا ہے اور میری ذہنی حالت تک کو درست قرار نہیں دیا اور جس پہ آپ نے معذرت کرنا گوارہ نہیں کیا اور جس کا واللہ ہمیں کوئی غم نہیں کہ قوم و ملت کے معاملوں میں، میں۔ ذاتی انا اور ذاتیات سے بلند ہو کر ہی بات کی جاسکتی ہے اور میرے احباب جانتے ہیں کہ مجھے نہ تو اپنے نام کی تختی لگوانے کا شوق کبھی رہا ہے اور نہ ہی میں نے اپنے لیے کبھی ووٹ مانگے ہیں تو پھر آپ سے گلہ یا بغض کیونکر ہوگا بھلا۔؟ ہاں یہ بات ضرور ہے جب حق سچ کی بات علم میں آجائے تو اس کا اظہار ضرور کرنا چاہیے کہ ائیندہ اگر ممکن ہو تو اس کا سدِ باب کیا جاسکے۔ اور اس بارے میں نہ آپ مجھے باز رکھ سکتے ہیں اور نہ ہی کوئی اور ، ہاں اگر آپ کے پاس معتبر شھادتیں ہیں تو انہیں منظرِ عام پہ لائیں تا کہ خلقِ خدا کو رہنمائی مل سکے۔ آپ کی بات معتبر ہو سکے ۔ محض سنی سنائی باتوں اور فلاں ابنِ فلاں کا فرمایا ہوا یا اپنا سوچا ہوا مستند مت بیان کی جیے اور وگرنہ ہمیں اجازت دیں گے تو آپ کو ایک نہیں بے شمار حوالے اور تحقیقی مواد مہیا کر دیں گے پھر آپ کو بات کی طوالت کا شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔

    میری نظر میں یہ پہلو بھی تھا کہ چونکہ پاکستان میں حسب نسب اور آباء اور حتٰی کہ آباء کے آبائی علاقوں پہ بھی فخر و امتیاز کیا جاتا ہے اور اس پہ مثالیں اور حوالے دیے جاتے ہیں شاید اس لیے بھی آپ (آپ اور لیاقت علیخان میں بھوپال اور یوپی قدر مشترک ہونے کی وجہ سے) لیاقت علیخان کا ہر صورت دفاع کر رہے ہیں اور لیاقت علی خان کو شہید نہ کہے جانے پہ مجھ پہ اسقدر سیخ پا ہیں۔ اور یوں سوچنا قدرتی بات تھی جس کا ہم نے دو ایک دفعہ ذکر بھی کر دیا۔

    میں سمجھتا ہوں کہ آپ بھی مجھ سے اس بات پہ اتفاق کریں گے جو لوگ محض اپنے اقتدارکی خاطر اسلام قومیت اور اسطرح کی دیگر باتوں کو اپنے ذاتی مقاصد اور مفادات کے لیے استعمال کریں ۔ جن کے ظاہر باطن میں فرق ہو اور قوم ( جو بھی وہ جو صرف اور صرف مسلمان ہونے کی بنیاد پہ وجود میں آئی ہو) کی رہنمائی کا دعواہ ایسے لوگ کریں جو رات کو شراب و شباب اور رقص کی محفلیں سجائیں اور دن کو قوم کا درد بانٹنے کے داعوے کریں۔ جو قومی تعمیر کے آغاز میں ہی فرضی تفاخر کی آڑ میں بنگالیوں کو کم تر سمجھیں جو آبادی میں ملک کا بڑا بازو تھا۔ سندھیوں کو گدھا گاڑی اور اونٹ چرانے والے سمجھیں اور سر عام ان کا ٹھٹھا اڑائیں اور اس بات کو جواز بنا کر سندھ یونیورسٹی کو حیدرآباد منتقل کردیں اور کراچی میں ایک مخصوص طبقے کو جن سے ان کے مفادات وابستہ تھے کو راضی کرنے کے لیے کراچی یونیورسٹی قائم کریں اور اسطرح کے بے شمار واقعات اور باتیں ہیں جو نوابزادہ لیاقت علی خان نے محض اپنے مخصوص مفادات کے تابع کیں ایسے لوگ کم از کم میری نظر میں لائقِ تحسین نہیں ہو سکتے چہ جائیکہ انہیں شہیدِ ملت قرار دے دیا جائے۔؟ آپ اس سارے سلسلے کو بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد سرکاری تعطیل، بے نظیر کے نام سے ڈاک ٹکٹ، پاکستانی سکے کا اجراء وغیرہ وغیرہ کے تناظر میں دیکھیں بلکہ بعض خوشامدی اور ابن الوقت لوگ نے تو انہیں ولیہ تک قرار دیا ہے اور میری نظر سے ایسی تحریریں بھی گزری ہیں جس میں انھیں بر گزیدہ اور پتہ نہیں کیا کچھ قرار دیا جارہا اور کوئی اعتراض کر بھی لے تو کیا کر لے گا ۔ جب حکومت ہی ان کی ہے جو بے نظیر کا نام خوب خوب استعمال کر کے اپنے ہونے کو ثابت کر رہے ہیں ۔ جبکہ تاریخ میں ان کا اصل کردار اور آج کی چھپی حقیقتیں کل کے محقیقین اور لوگوں کو نظر آئیں گی۔ کچھ یہی معاملہ لیقات علی خان کے قتل پہ پیش آیا اور اپنے اپنے مفادات کی‌خاطر اس قتل پہ تقدس کا پُر نور ہالہ بنا دیا گیا ۔

    جب کہ بے نظیر کے قتل پہ اس دور میں ان باتوں سے پاکستان یا پاکستانی قوم کی صحت کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا۔ کیونکہ جو بائیں بیٹھ چکا ہے وہ بائیں سے ہلنے والا نہیں اور جو دائیں چل رہا ہے وہ اپنی جگہ چھورنے کو تیار نہیں اور جو لوگ قوم کی زندگی بنانے میں کوئی کردار ادا کر سکتے تھے انھوں نے اپنے اپنے خول مخصوص کر لیے ہیں اور کسی صورت میں وہ علاقائی اور صوبائی تعصب سے باہر آنے کو تیار نہیں۔ مگر لیاقت علی خان کا قصور اس لیے زیادہ گنا جاتا ہے کہ تب لوہا گرم تھا صرف چند ایک مخصوص ضربوں کی ضرورت تھی اور ایک باوقار قوم تیار تھی مگر ایک ایسا سنہری موقع ضائع کر دیا گیا جو صدیوں میں کبھی ایک بار ملتا ہے ، اور یہ موقع کن لوگوں نے محض اپنے ذاتی مفادات کے لیے ضائع کر دیا ۔؟ ان لوگوں میں سرِفہرست لیاقت علی خان کا نام ہے ۔

    اس لیے بجائے میری بات کا برا منانے کے، فراخ دلی سے آپ بھی جستجو کریں آپ پہ بہت سی نئی حقیقتیں آشکارہ ہونگی اور ہمارے اس پہ بضد ہونے کی بھی سادہ سی وجہ یہ ہے کہ ہمیں بحثیت قوم اس بات کا علم رہے کہ ہم نے کہاں کہاں غلطیاں کی ہیں تا کہ آئیندہ ایسی غلطیوں کا احتمال نہ رہے ۔

    ہم آپ کی عزت و احترام بھی اس وجہ سے نہایت کرتے ہیں کہ آپ کی تحاریر سے ملتِ اسلامیہ کا درد نظر آتا ہے اور کم از کم آپ باقی ان دیگر لوگوں سے افضل ہیں جو ماسوائے باتیں کرنے کی اور کچھ نہیں کرتے ۔ اور یہ وہ نقطہ ہے جو میرے دل میں آپ کے احترام کی وسعت پیدا کرتا ہے۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  17. لطف الاسلام

    آپ دونوں کو تاریخ سے شغف تو ہے لیکن احسان فراموشی میں بھی جواب نہیں۔ سر ظفراللہ خان کو اور ان کی خدمات کو کیسی آسانی سے “مرزائیوں” کی تقرریوں تک محدود کر دیا۔ قائد اعظم اور لیاقت علی خان دونوں ملک کے محسن تھے۔ اگر تعصب کی پٹی غلطی سے آنکھوں سے سرک جاے تو “تحدیث نعمت” بھی پڑھ لیں۔

    http://www.alislam.org/urdu/pdf/Tehdis-e-Naimat.pdf

  18. نءمان

    جناب اجمل بھوپال صاحب ..

    قائد ملت کے دفاع کا شکریہ

    اسس جہاں میں تو الله کی ذات بھی غیر متنازے نہیں ہے …

    تو لیاقت علی خان کی تو بات ہی کیا ہے ….

    غلطی سب سے ہوتی ہے لیکن بعض لوگ مکھی کی طرح ہوتے ہیں اور انھیں صرف گندگی ہی نظر آتی ہے

  19. ابن داؤد

    یہ بحث چلانے والے بڑے لوگ ھیں میں تاریخ کا ایک معمولی طالب علم ھوں مگر پورے وثوق ایک دعوی کرتا ھوں کچھ عرصہ بعد آپ اپنی آنکھوں سے اسکا مشاھده کریں گے کہ تحریک پاکستان اور اسکے قائدین کے سب سے بڑے دشمن داکٹر صفدر محمود صاحب اور افتخار اجمل بھوپال صاحب جیسے لوگ ھیں مگر یہ حضرات خود کو سب سے بڑا محسن سمجھتے ھیں انسانی زندگى ویسے بھی نشیب و فراز کا مجوعہ ھوتی ھے اور بڑے لوگوں کی غلطیاں بھی بڑی ھوتی ھیں اور گزشتہ صدی میں ھماری سیاسی قیادت سے بہت کچھ ایسا ھوا جس کا خمیازه ھم آج بھگت رھے ھیں لہذاٰ ان کا اعتراف کرنے کے بعد ھی تلافی ممکن ھو سکے گی اور پھر آگے بڑا جائےگا مگر یہ قلمکار نوجوان نسل کو گمراه کرنے کے لئیے تاریخ کے بد ترین جھوٹ اور مبالغے سے کام لیتے ھیں کہ صاحب جو ھمارے لیڈروں نے جو کر دکھایا نہ تو انسان کے لئے ممکن تھا نہ کبھی کسی انسان نے کیا نہ آئنده کوئ کر سکے گا وغیره آخر کب تک اور کہاں تک جھوٹ کے انبار لگائیں گے خدارا اس قوم پر کچھ رحم کھائیں اور یاد رکھیں آخرکار جب حقائق خود اپنا آپ کھول دیں گے تب شاید پانی سر سے گزر چکا ھو اور پھر نوجوان خدانخواستہ تاریخ اور قیادت کے ساتھ ساتھ ملک سے بھی نفرت کرنے لگیں.

  20. افتخار اجمل بھوپال Post author

    ابن داؤد صاحب
    ہاتھ کنگھن کو آرسی کیا ۔ آپ کے شاید محبوب ہوں گے جو اس وقت ملک کے حکمران ہیں ۔ موج میلہ کیجئے ۔ میں نے اور میرے آباؤ اجداد نے ہمیشہ اپنی محنت کی کمائی کھائی ہے ۔ کسی سیاسی لیڈر سے نہ کوئی فائدہ حاصل کیا اور نہ اس کی کبھی تمنا کی ۔ اللہ جرم کرنے والوں کو پکڑنے والا ہے اور سب کچھ جانتا ہے اسلئے آپ کو فکر کرنے کی ضرورت نہیں ۔ اللہ کی مہربانی سے میں اپنے آپ کو محسن سمجھنے کی بجائے ہمیشہ احسانمند ہونے کی طرف توجہ کرتا ہوں ۔ آپ کو نجانے مجھ سے کیا تکلیف پہنچی ہے جو آپ نے کینساس امریکا میں بیٹھے زہر اُگل دیا ہے ۔ کتنے ڈالر سالانہ بھہجتے ہیں پاکستان ؟ آپ کے زہر اُگلنے کا موقع نہ تھا ۔ صرف ایک ہی بات کا اندازہ ہوتا ہے کہ آپ مرزائی ہیں جو اسرائیل کے رشتہ دار اور پاکستان کے دُشمن ہیں

  21. Pingback: دسمبر 2008 کے بلاگ | منظرنامہ

  22. ارشد جمیل

    ہمیشہ سے دل سے اور دماغ میں جو سوالات اٹھتے تھے اسکے جوابات آج مل رہے تھے لیکن سب کو پڑھ کر اس نتیجے پر پہنچا کہ شکر الحمداللہ کہ پاکستان بن گیا جیسا بھی بنا نہ بنتا تو کیا ہوتا وہ ذیادہ بھیانک لگتا ہے۔۔۔ لیکن ایک چیز واضع ہے کہ سب وہی دیکھتے ہیں جو وہ دیکھنا چاہتے ہیں اور جو دکھانا چاہتے ہیں کسی میں اتنی جرات نہیں ہے کہ اپنوں کو غلط اور ان کے کیئے ہوئے غلط فیصلوں کو بھی غلط کیہ سکیں بلکہ اندر سے سوچتے بھی ہونگے لیکن اکڑ اور پھونڈے خانی کی وجہ سے بہتر فیصلے نہیں کرسکتے۔۔جسکو جو پسند ہے وہ صیح ہے وہ ٹھیک ہے اور جو نہیں پسند وہ غلط ہے ۔۔ جیسے عشقی معشوقی ہوتی ہے کہ کھوتی پر بھی پیار آجاتا ہے۔۔۔ کتابوں کے ریفرنس دیکر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں سب پڑھے لکھے سیانے اور کسی آنکھ اور کان والے سچے کی سننا بھی پسند نہیں کرتے آج بڑے آرام سے گذری تاریخ کو کسی کی کہانی اور کسی کی کہانی کو تاریخ لکھا جاتا ہے۔ ایک ہی وقت پر ایک چینل سچا اور دوسرا چینل دوسرے دیکھنے اور یقین کرنے والے کے لیئے سچا ہے۔۔ ہم لوگ جو راوی کراس جرکے اور اپنی لاشیں دے کر پاکستان میں آئے ہم پنجابی ہیں اور وہ چند جو پڑھے لکھے اردو دان اور انگریزی کے غلام ریاست کی اونچی کرسیوں پر براجمان ہوگئے وہ آج بھی مہاجر ہیں حد ہوگئ ۔۔
    ملک میں رشوت کلرک سے شروع ہوئی اور اوپر تک گئ۔ تجارت میں بی ایمانی اور سے شروع ہوئی اور نیچے تک سرایت کر چکی۔۔ اور آج پھر وہی عہدے سوچ رہے ہیں اور پوچھ رہے ہیں کہ ذمہ دار کون ہے۔۔۔ میرے خیال میں جنہوں نے پاکستان بنایا ان سیانوں نے ہی اسے برباد کیا قائد اعظم کو چھوڑ کر سب ذمہ دار ہیں۔۔ رپورٹ لکھنے والے اور رپورٹ پر یقین کرنے والے۔۔ اقربا پروری اور میں لے بیٹھی اس ملک کو۔۔۔ جو 47 میں انگریز نے آوٹ سورس کیا تھا آزاد لکھ کر۔
    معاف کرنا ربط نہیں ہے میری تحریر میں کیونکہ لکھ کر اپ لوڈ کردیا دوبارہ پڑھ نہیں سکتا اسے۔۔ اور نہ ہی اتنا پڑھا لکھا ہوں چوری کھانے والے رٹے طوطوں کی طرع۔۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.