یہ وقت سوچنے کا ہے کہ کیا ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کہا مان کر درُست سمت میں جا رہے ہیں ؟ وہ اقوامِ متحدہ جس کے ہر مُسلم کُش فیصلے پر طاقت کے زور سے عمل کروایا جاتا ہے اور جس کی سکیورٹی کونسل کی جموں کشمیر کے مسلمانوں کے حق میں منظور کی گئی 17 قرادادوں پر آج تک بھارت نے عمل نہیں کیا اور فلسطین کے حق میں منظور کی گئی سکیورٹی کونسل کی 131 اورجنرل اسمبلی کی منظور کردہ 429 قراردادیں اسرائیل نے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیں اور کسی کے ماتھے پر بَل بھی نہ آیا ؟
انتہائی تابعداری کے ساتھ ہمارے حکمرانوں نے جماعت الدعوہ پر پابندی لگا کر اس کے تمام حسابات منجمد کر دیئے ہیں اور کئی خدمتگاروں کو پابندِ سلاسل کر دیا ہے جس کے نتیجہ میں اُن کی سرپرستی میں پاکستان کے طول و عرض میں چلنے والے طبی امداد کے مراکز ۔ 340 سکول ۔ کئی کالج اور ایک یونیورسٹی بند ہو جانے خدشہ ہے جو نادار پاکستانیوں کو بلا امتیاز مذہب ۔ رنگ و نسل طِبی امداد پہنچاتے تھے اور اُن کے بچوں تک تعلیم کی روشنی پہنچانے کا کام کر رہے تھے ۔ یہ طبی مراکز اور تعلیمی ادارے پاکستانیوں کی مالی اعانت ہی سے چل رہے تھے ۔ بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے اپنے آپ کو اس قابل ثابت نہیں کیا کہ مُخیّر پاکستانی اپنی امدادی رقوم رفاہی کاموں کیلئے حکومتی اداروں کے حوالے کریں
قارئین کی یاد دہانی کیلئے اپنی 28 اکتوبر 2005ء کی تحریر نقل کر رہا ہوں جس میں بی بی سی کے نمائندے کی چشم دِید صورتِ حال نقل کی گئی تھی
صدر پرویز مشرف نے 20 اکتوبر کو یہ کہا تھا کہ حکومت نے زلزلہ زدہ علاقوں میں جہادی تنظیموں کے فلاحی کام پر کڑی نظر رکھی ہوئی ہے تاہم وہ مصیبت کی اس گھڑی میں کالعدم یا واچ لسٹ پر موجود تنظیموں کو مصیبت زدگان کی مدد سے نہیں روکیں گے۔
صدر کے اس بیان سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ فوج اور حکومت کی جانب سے زلزلہ زدگان کی فوری اور موثر امداد میں سست روی کا خلا جہادی تنظیمیں خاصے موثر انداز میں پُر کر رہی ہیں اور اس کام میں دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں ان تنظیموں کی تجربہ خاصا مددگار ثابت ہورہا ہے۔
مثلاً جماعت الدعوہ کے نیٹ ورک کو ہی لے لیں جو زلزلہ زدہ علاقوں میں غالباً سب سے منظم ڈھانچوں میں شامل ہے ۔ اس وقت جماعت الدعوہ کے کوئی 1000 کل وقتی اور سینکڑوں جز وقتی رضاکار امدادی سرگرمیوں میں حصہ لے رہے ہیں
مجھے مانسہرہ میں جماعت کے مرکزی ریلیف کیمپ میں جانے کا موقع ملا ۔ تین گوداموں کے علاوہ کیمپ کے کھُلے حصے میں کپڑوں، گدیلوں اور کمبلوں کا ایک پہاڑ سا ہے ۔ اسی کیمپ سے تمام متاثرہ علاقوں تک امدادی رسد بھیجی جاتی ہے
مظفرآباد اور نیلم ویلی کے وہ علاقے جہاں فی الحال ہیلی کاپٹروں تک رسائی ہے، جماعت الدعوہ پہاڑوں پر پھنسے ہوئے متاثرین تک سامان پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کے لئے ایک سو خچر استعمال کررہی ہے ۔ بالخصوص کشمیر کے علاقے پتیکا، سری کوٹ اور شہید گلی کے دشوار پہاڑی علاقوں میں خچر سروس کے ذریعے اب تک بیس ٹن رسد پہنچائی جا چکی ہےاور جن علاقوں میں خچر استعمال نہیں ہوسکتے وہاں پر رضاکار دو ڈنڈوں کے درمیان رسیاں یا گدیلے جوڑ کر بنائے جانے والے سٹریچروں کی مدد سے زخمیوں کو نیچے لا رہے ہیں
اسکے علاوہ کشمیر میں دھن مائی کے علاقے کے تئیس کٹے ہوئے دیہاتوں سے زخمیوں اور متاثرین کو لانے کے لئے گذشتہ دو ہفتوں سے موٹر بوٹ سروس جاری ہے۔اس موٹربوٹ سروس سے اب تک پچاس ٹن امدادی سامان دریائے جہلم کے پار مظفر آباد سے کٹے ہوئے دیہاتوں تک پہنچایا جا چکا ہے
ستائیس اکتوبر کو جب میں مظفر آباد میں جماعت الدعوہ کے قائم کردہ فیلڈ ہسپتال پہنچا تو آغاخان ہسپتال کے ڈاکٹروں کی ایک بتیس رکنی ٹیم انڈونیشیا کی میڈیکل ٹیم کی جگہ لے رہی تھی ۔ اس فیلڈ ہسپتال میں دو سرجیکل یونٹ ہیں جن میں 120 بڑے آپریشن کئے جاچکے ہیں ۔ ان میں برین سرجری سے لے کر ریڑھ کی ہڈی کے آپریشن تک شامل ہیں ۔ جبکہ اب تک 3500 چھوٹے آپریشن ہوچکے ہیں
اس فیلڈ ہسپتال کے قریب ایک گودام میں جو اشیائے خوردونوش بھری ہوئی تھیں ان میں خوراک کے سینکڑوں ڈبے ایسے بھی تھے جن پر یو ایس اے لکھا ہوا تھا ۔ یہ امریکہ کی حکومت کا عطیہ ہیں ۔ استفسار پر معلوم ہوا کہ یہ امریکی رسد عالمی ادارہِ خوراک کے توسط سے جماعت کو متاثرین میں تقسیم کرنے کے لئے دی گئی ہے
جماعت الدعوہ کا کہنا ہے کہ وہ مختلف زلزلہ زدہ علاقوں میں پانچ پانچ سو خیموں کی چھ عارضی بستیاں قائم کررہی ہے جن میں متاثرین کو کم ازکم چھ ماہ تک رکھا جائے گا ۔ اسکے علاوہ متاثرین کو 1000 گھر تعمیر کرنے کے لئے سامان بھی فراہم کیا جارہا ہے
کالعدم جیشِ محمد کے کارکن الرحمت ٹرسٹ کے نام سے متاثرین کو خوراک، کپڑے اور ادویات پہنچا رہے ہیں ۔ الرحمت ٹرسٹ کے بڑے ریلیف کیمپ ہری پور اور بالا کوٹ سے ذرا پہلے بسیاں کے مقام پر ہیں ۔ میں نے بالا کوٹ سے آگے سفر کے دوران اس ٹرسٹ کے رضاکاروں کی پیدل میڈیکل ٹیمیں بھی دیکھیں
یہ ٹیم بنیادی طور پر فرسٹ ایڈ کے سامان سے مسلح دو دو رضاکاروں پر مشتمل ہوتی ہے اور پہاڑی راستوں پر نیچے آنے والے زخمیوں کو سڑک کے کنارے فرسٹ ایڈ دیتی نظر آتی ہیں۔جبکہ مظفر آباد میں جیش کا ریلیف کیمپ متاثرین کو خوراک اور ضروریات کی دیگر چیزیں فراہم کررہا ہے
بالا کوٹ کے نزدیک بسیاں کے ریلیف مرکز میں جب میں نے الرحمت ٹرسٹ کے کیمپ انچارج سے دیگر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہیں تو انہوں نے یہ کہہ کر معذرت کرلی کہ وہ اسکی تشہیر مناسب نہیں سمجھتے
اسی طرح حزب المجاہدین بھی ریلیف کے کاموں میں جُتی ہوئی ہے ۔ مظفر آباد میں حزب کے کارکن متاثرین کے لئے ایک بڑا لنگر چلارہے ہیں ۔ جبکہ خیمہ بستیاں بنانے کے سلسلے میں وہ جماعتِ اسلامی کے ذیلی ادارے الخدمت کے ساتھ مل کر کام کررہے ہیں
ایک اور تنظیم البدر مجاہدین الصفہ فاؤنڈیشن کے نام سے سرگرم ہے ۔ بالاکوٹ میں جتنا بڑا اسکا کیمپ ہے اتنا ہی بڑا بینر بھی ہے ۔ یہاں کوئی ایک سو رضاکار متاثرین کو خوراک پہنچانے اور زخمیوں کو نیچے لانے کا کام کررہے ہیں
البدر کے مردان سے آئے ہوئے پچاس کارکنوں نے بالاکوٹ کے علاقے میں ملبے میں دبی ہوئی لاشیں نکالنے میں بھی خاصی مدد کی
اسکے کارکن دو دو دن کی پہاڑی مسافت طے کرکے متاثرین تک رسد پہنچا رہے ہیں ۔ کیمپ انچارج شیخ جان عباسی کے بقول کام اتنا ہے کہ ہمیں نہانے دھونے کی بھی فرصت نہیں اور ہمارے کپڑوں میں جوئیں پڑ چکی ہیں
شیخ جان عباسی جو بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر میں بھی تین برس تک مسلح کاروائیوں میں شریک رہے ہیں انکا کہنا ہے کہ انکے کارکنوں کی سخت جان جہادی تربیت زلزلے کے متاثرین کو دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں امداد پہنچانے میں خاصی کام آ رہی ہے۔
میں نے پوچھا کہ بندوق کی جگہ پھاوڑا ہاتھ میں پکڑنا کیسا لگ رہا ہے۔شیخ جان عباسی کا جواب تھا کہ انہوں نے بندوق بھی لوگوں کی مدد کے لئے اٹھائی تھی اور اب پھاوڑا بھی اسی مقصد کے لئے پکڑا ہے ۔ وہ بھی جہاد تھا یہ بھی جہاد ہے ۔ میں نے پوچھا حکومت کی جانب سے کوئی وارننگ ملی ۔ کہنے لگے کہ آج ہی پولیس نے ایک فارم بھرنے کو دیا ہے کیونکہ حکومت ہماری فلاحی سرگرمیوں کی تفصیلات جاننا چاہتی ہےاسکے علاوہ ابھی تک کچھ اور مطالبہ سامنے نہیں آیا
الرشید ٹرسٹ جو اسوقت امریکی واچ لسٹ پر ہے اسکی ایمبولینسیں بھی متاثرہ علاقوں میں مستقل متحرک ہیں ۔ بالاکوٹ کے قریب قائم الرشید کیمپ کے انچارج عبدالسلام نے بتایا کہ انکے رضاکاروں نے وادی کاغان کے اب تک کٹے ہوئے علاقوں میں کوئی 2500 خاندانوں کو پیدل راشن پہنچایا ہے جبکہ 1000 زخمیوں کا علاج کیا گیا ہے
تاہم جوں جوں زلزلہ زدہ علاقوں میں حکومت اور فوج کی امدادی گرفت مضبوط ہورہی ہے ان جہادی تنظیموں پر کڑی نظر رکھنے کا کام بھی شروع ہوگیا ہے
الرشید ٹرسٹ کیمپ کے عہدیدار کا کہنا ہے کہ فوجی حکام نے انہیں بٹل کے علاقے میں دو خیمہ بستیاں قائم کرنے سے روک دیا اور ٹرسٹ کے بینرز بھی انتظامیہ نے اتار دئیے ۔ تاہم کاغان کے علاقے میں فوج کو اس تنظیم کے کام پر فی الحال کوئی اعتراض نہیں کیونکہ یہ وادی اب تک مواصلاتی طور پر باقی ملک سے منقطع ہے
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
میرے خیال میں آپ کے پوچھے گیے سوال کہ” کیا ہم امریکہ اور اقوامِ متحدہ کا کہا مان کر درُست سمت میں جا رہے ہیں ؟ وہ اقوامِ متحدہ جس کے ہر مُسلم کُش فیصلے پر طاقت کے زور سے عمل کروایا جاتا ہے” کو یوں بھی پوچھا جا سکتا ہے۔کہ کیا عوام سیاسی پارٹیوں کے جھنڈے چھوڑ کر پاکستان کا جھنڈا پکڑنے کو تیار ہیں۔کیا لوگ اس ملک میں دوسرے سیاسی رہنماؤں کو برسیاں اور جنم دن منانے کی بجاے قاید اعظم کا دن منانے کو تیار ہیں۔ کیا لوگ ذخیرہ اندوزی چھوڑنے کو تیار ہیں۔کیا لوگ سود چھوڑنے کو تیار ہیں۔کیا عوام رشوت چھوڑنے کا حوصلہ پیدا کرنے کو تیار ہیں۔ کیا عوام اپنے ووٹ بیچنا چھوڑنے کو تیار ہیں۔ کیا عوام کسی ظالم ڈکٹیٹر کا راستہ روکنے کے لیے اپنا سینہ آگے کرنے کو تیار ہیں۔کیا عوام بھوک اور فاقہ برداشت کرنے کو تیار ہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ان سوالوں کا جواب اگر ہاں میں ہے تو اقوام متحدہ کا فیصلہ ماننا غلط ہے دوسری صورت میں صحیح ہے۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ کے اتنے سارے سوال دراصل صرف ایک ہی سوال میں ضم ہو جاتے ہیں جس کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں
ایک ۔ اگر ہم مسلمان ہیں ۔ کیا ہم انسانوں کی بجائے اللہ کا حُکم ماننے کو تیار ہیں ؟
دوسرا ۔ اگر ہم مسلمان نہیں ۔ کیا خودغرضی چھوڑ کر ہم وطن کیلئے کام کرنے کو تیار ہیں ؟
مضمون میں ستائیس اگست کی بجائے ستائیس ستمبر ہوناچاہیے۔
مُحبِ پاکستان صاحب
تصحیح کا شکریہ ۔ یہ 27 اکتوبر ہونا چاہیئے تھا