اُن دنوں [1976ء سے 1983ء تک] میں حکومت پاکستان کی طرف سے لِبیا کا الخبِیر لِلمنشآت صناعیہ تعینات تھا انگریزی میں Advisor, Industrial Planning and Development ۔ اس دور میں مجھے اپنی حکومت کی طرف سے دو بلامعاوضہ ذمہ داریاں بھی سونپی گئی تھیں ۔
ایک ۔ لبیا میں موجود پاکستان کی تربیّتی ٹیموں اور لِبیا کے متعلقہ عہدیداران کے درمیان رابطہ افسر
دوسری ۔ لِبیا میں ذاتی طور پر آئے ہوئے پاکستانیوں کے مسائل اور کردار پر نظر رکھنا ۔ اُن کا تدارک کرنا اور سفیر صاحب کو باخبر رکھنا
جس لِیبی ادارے کے ساتھ میں کام کرتا تھا اُس میں بہت سے اہلکار مخابرات [Military Intelligence] سے تعلق رکھتے تھے ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی خاص مہربانی ہوئی کہ اس ادارے میں مجھے ایک سال کے اندر ہی بہت عزت مل گئی باوجویکہ میں نے وہاں کے افسروں کے ساتھ کئی بار تکرار کر کے پاکستانی بھائیوں کے سرکاری اور ذاتی کام کروائے ۔ ایک لِیبی افسر جس کا تعلق مخابرات سے تھا سمجھدار ۔ ہوشیار اور باخبر تھا میرا دوست بن گیا
شائد 1978ء کا واقعہ ہے کہ اُس لِیبی افسر نے آ کر مجھے بتایا “میں نے سُنا ہے کہ ایک پاکستانی نرس ایک لِیبی جوان کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں پکڑی گئی ہے ۔ آپ سفارتخانہ کے ذریعہ کچھ کر لیں تاکہ معاملہ رفع دفع ہو جائے”۔
میں نے کہا “میں اس طرح منہ اُٹھائے تو سفیر کے پاس نہیں جاؤں گا ۔ مجھے کچھ تفصیلات لا کر دیں”۔
وہ افسر بولا “میں تو کسی ضروری کام سے شہر سے باہر جا رہا ہوں ۔ جس نے مجھے بتایا ہے اُسے آپ کے پاس بھیجتا ہوں”۔
کچھ دیر بعد ایک رئیس العُرفا جسے ہمارے ہاں صوبیدار میجر کہتے ہیں میرے پاس آیا اور پوچھنے لگا کہ کیا کام ہے ۔ میں اُسے بھی جانتا تھا ۔ اُس کا بھی مخابرات سے تعلق تھا ۔ اُسے میں نے کہا کہ مجھے فوری طور پر اس نرس کا نام ۔ لبیا اور پاکستان میں اُس کا پتہ اور پاسپورٹ نمبر وغیرہ چاہئیں ۔ دوسرے دن وہ میرے پاس آیا اور کہنے لگا “میں کل اُسی وقت اُس پولیس افسر کے پاس گیا اور تمام تفصیل پوچھیں ۔ اُس نے بتایا کہ نرس اُن کی کسی بات کا جواب نہیں دیتی تھی پھر اُنہوں نے بھارت کے سفارتخانہ سے رابطہ کیا تو سفارتخانہ کے اہلکار نے کہا کہ نرس پاکستانی ہے ۔ اس کے بعد نرس بھی کہنے لگ گئی کہ وہ پاکستانی ہے اور لاہور کی رہنے والی ہے ۔ کل بعد دوپہر بڑی مشکل سے نرس نے طرابلس میں اپنی رہائش کا پتہ بتایا جس پر پولیس نے نرس کی رہائش گاہ کی تلاشی لی اور وہاں سے نرس کا پاسپورٹ مل گیا جس کے مطابق وہ جنوبی بھارت کی رہنے والی ہندو ہے”۔
میں ایک دن قبل سفیر صاحب کو اس افواہ کی خبر دے چکا تھا اسلئے اُسی وقت دفتر کی کار لے کر سفارتخانہ پہنچا جہاں سفیر صاحب کو اپنا مُنتظر پایا ۔ اُنہیں صورتِ حال بتا کر درخواست کی پاکستانی کرتا دھرتا لوگوں کو بُلا کر اس معاندانہ پروپیگنڈہ کا توڑ کیا جائے ۔ اگلے دن وہ لوگ سفارتخانہ آ گئے اور سفیر صاحب نے اُنہیں ہدایات دے دیں ۔ مگر ان تین دنوں میں پورے طرابلس میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ پاکستانی نرس ایک لِیبی کے ساتھ پکڑی گئی ۔ میرے علاوہ دوسرے کئی محبِ وطن پاکستانیوں نے اس کا شدت سے توڑ کیا اور ساتھ ہی افواہ کا منبع تلاش کرتے رہے ۔ جہاں جہاں سے بھی یہ غلط خبر ملی تھی اُس کی جڑ بھارتی سفارتخانہ ہی میں نکلی ۔
لِیبی مخابرات کے افسر کی بروقت اطلاع ۔ پاکستانی سفیر امیر علی شاہ صاحب کی ذاتی دلچسپی اور پاکستانیوں کی کوشش اور اللہ کے فضل و کرم سے لِبیوں کی نظر میں پاکستانی سُرخرُو ہوئے اور بھارتی نرسوں کی نگہداشت کی جانے لگی ۔
جناب اب تو یہ دنیا رہ ہی پروپیگنڈے کی گئ ہے اور بھارت پراپیگنڈے میںماسٹر ہے
اور ہمارے حکمران اسے اپنے مقاصد پورے کرنے کا نا صرف پورا پورا موقع دے رہے ہیں بلکہ مدد امداد بھی کر رہے ہیں
کل ہی ایک آنلائن ویڈیو سائٹدیکھی جس پر کچھ قابلِ اعتراض ویڈیوز پاکستانی خواتین سے منسوب تھیں جبکہ وہ بھارتی خواتین تھیں۔ مسئلہ یہ نہیں کہ وہ لوگ ایسا کرتے ہیںکیونکہ وہ تو ہیںہی دشمن لیکن پاکستانی خود بھی تو کچھ کم نہیںہیں۔ یورپ میںاور یہاںآسٹریلیا میںبھی ایسے ایسے خواتین و حضرات نظر آتے ہیںکہ بس کیا بتاؤں۔ ہندوستانیوںکو بھی مات کرتے ہیں اپنے اعمال، وضع قطع، لباس، گفتگو، خیالات وغیرہ سے۔ اور یہ میںمڈل کلاس کی بات کر رہا ہوںجو عمومآ پاکستان میںایسی نہیںہے، اپر کلاس کا تو کہنا ہی کیا۔
ویسے یہ بھی دیکھ لیں:
http://www.jang.com.pk/jang/dec2008-daily/23-12-2008/col1.htm
ڈِفر صاحب
آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔ کاش کہ ہماری پوری قوم کو اس کا احساس ہو جائے ۔ میں لبیا ۔ جرمنی اور سعودی عرب میں اتنے دن رہا ہوں کہ وہاں کے ماحول کا اندازہ لگا سکوں ۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت بھارتی ہندوؤں سے دوستی رکھتی ہے اور اپنے پاکستانی بھائیوں کی بُرائی کرتی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ کسی نے جادو کر دیا ہو
فیصل صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ پر سورج اور چاند دونوں پہلے نکلتے ہیں ۔ ہم تک پہنچتے دونوں دھندلا چکے ہوتے ہیں ۔ :???:
میں نے ارشاد احمد حقانی صاحب کا کالم پڑھا ہے ۔ سچ کیا ہے وہ صرف اللہ ہی جانتا ہے ۔ اگر مصنف یا صحافی کا قول اور فعل ایک ہی ہوں تو قوم غلط راستے کو چھوڑ کر صحیح راستے پر آ سکتی ہے ۔ لیکن ارشاد احمد حقانی صاحب اُن میں سے نہیں ہیں بلکہ ہمارے مُلک میں شائد ہی چند صحافی ایسے ہوں جن کا قول و فعل یکساں ہوں ۔
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
آپ کی پوسٹ بڑی بر محل ہے۔ اس وقت یہ نفسیاتی جنگ چل رہی ہے۔دشمن یہ دیکھنا چاہتا ہے کہ اس قوم میں کتنا دم باقی ہے تاکہ اگلا نسخہ آزمایا جاے ۔ ہمیں اپنے خدا اور اس کے رسول کے ساتھ تعلق مضبوط بنانے کی ضرورت ہے تاکہ دشمن کے یہ فریب کے جھوٹے سانپ ہمیں ڈرا نہ سکیں۔ اگر ہم اپنے کردار کی تعمیر نو میں کامیاب ہو گیے تو پھر ہمیں کیا غم ہے جب مخبر صادق صلی علیہ نے ہمارے بارے میں اتنے اچھے الفاظ کہیے ہیں۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ نے درست کہا
میں ڈفرکی بات سے اتفاق کرتاہوں پاکستان اب بھارت کے کسی پروپیگنڈا کا کوئی خاص جواب نہیں دیتا بلکہ اب بھارت کھل کر پروپیگینڈا کر رہا ہے اور پاکستان بالکل خاموش ہے۔
شکاری صاحب
یہ بات تو اسی طرح واضح ہے جس طرح روزانہ سورج کا نکلنا