اسرائیل غزہ اور اقوامِ متحدہ

جب ہم سکول میں پڑھتے تھے تو ہمیں بتایا گیا تھا کہ یو این او [UNO] مخفف ہے یونائٹڈ نیشنز آرگنائزیشن [United Nations Organization] کا جو اسی طرح کے کاموں کیلئے بنائی گئی لیگ آف نیشنز [League of Nations] کی ناکامی کے بعد معرضِ وجود میں لائی گئی تھی ۔ پچھلے 60 سال کے مشاہدہ سے واضح ہوا ہے کہ یو این او دراصل مخفف ہے یونائٹڈ ناسٹی نَیپوٹِزم آرگنائزیشن
United Nasty-nepotism Organization
کا ورنہ اس کے پروردہ دہشتگردوں کے ہاتھوں مسلسل یہ قتل و غارتگری کیوں ہوتی

_45329291_rafahcar_afp466
_45329607_wounded_afp466
_45330118_3tankssufagetty466
gaza1
gaza5
gaza7
gaza8
gaza9
gaza10
gaza11
gaza12

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

18 thoughts on “اسرائیل غزہ اور اقوامِ متحدہ

  1. سید محمد حنیف شاہ

    اےاللہ ھمیں صحیح مسلمان بننے کی توفیق دے
    ھم گروھوں فرقوں مملکتوں میں بکھرے ھوئے
    اپنے دین کو چھوڑ کر رسی تڑا کر بھاگے ھوئے
    خود غرضی کی دلدل میں پھنسے ھوئے
    اے اللہ ھماری مشکل آسان کر ھمیں ایک اور نیک بنا
    جب ھم ایک طاقت ھونگے تو ظالم ظلم نہیں کرسکے گا
    راہ حق کے شہیدوں کو سلام

  2. محمد ریاض شاہد

    محترم بھوپال صاحب
    اسلام و علیکم
    یو این میں غزہ کے مسلے پر تو بغیر قرارداد کے اجلاس ختم ہو گیا۔ مگر یو این نے ایک اور مسلے پر ایک مشترکہ اعلامیہ جاری کیا ہے۔

  • جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

    اجمل صاحب!
    مصلحت اور بے غیرتی میں بہت باریک سا فرق ہوتا ہے اور میری رائے میں مسلمان حاکم اور امراء بے غیرت ہو چکے ہیں۔ انہیں صرف اپنے ذاتی مفادات سے غرض ہے۔ اپنی بے غیرتی اور بزدلی پہ انہوں نے مصلحت کا خوش آواز لبادہ اوڑہ رکھا ہے۔ دارفور (سوڈان) میں عیسائی قبائیل کی مدد کے لیے مغرب امریکہ نے آنے بہانے سے کئی ممالک کی فوجیں وہاں گھسیڑ رکھی ہیں۔مغربی قوتوں نے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے کئی ایک قسم کے بین القوامی ادارے قائم کر رکھے ہیں۔ جن میں سے ایک اقوامِ متحدہ ہے۔

    بھارت اقوام متحدہ کی کشمیر میں اتصواب رائے کی قراداد کا کئی دہائیوں سے مزاق اڑاتا آرہا ہے اور اسی پہ بس نہیں بلکہ مقبوضہ کشمیر لاکھوں فرزندانِ اسلام کو شہید کر چکا ہے جن میں خواتین، بچے اور ضعیف العمر سب سے زیادہ ہیں۔ بھارتی درندے ہزاروں پاکدامن بیبیوں کی عزتیں لوٹ چکے مگر ان عالمی اداروں بشمول اقوامِ متحدہ کے کانوں پہ جوں نہیں رینگی۔ جماعت الدعواہ جیسی غیر سیاسی رفاعی تنظیم کو دہشت گرد قرار دیے جانے والی اقوامِ متحدہ کی قرارد داد کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہوئی تھی اور پاکستانی حکمرانوں نے پورے پاکستان میں پکڑ دھکڑ اور تنظیم کے دفاتر کی تالہ بندی شروع کردی۔ ایک ایسی رفاعی تنظیم جس نے پاکستان کے لاکھوں غریب لوگوں کا بوجھ اٹھا رکھا تھا۔ جو حکومت کی ذمہ داری میں آتا ہے اور جس فرض سے ہماری حکومتٰن اپنے آپ کو مبرا سمجھتی ہیں وہ فرائض مسلمان رفاعی تنظیمیں جیسے تیسے کروڑوں کی ضروریات کو سنھالے ہوئے ہیں۔ اس پہ بجائے ایسی تنظیموً ں کو کوئی تغمہ یا اعزاز دینے کے الٹا انہیں اور کروڑوں مسلمانوں کو دیوار کے ساتھ لگا یا جارہا ہے۔ جبکہ ممبئی دہشت گردی کے واقعات کا کوئی تعلق پاکستان سے ثابت نہیں ہو سکا۔ اور اگر ہوتا بھی تو ہماری حکومت ایسے واقعات کی مذمت کرتے ہوئے یہ تو کہہ سکتی تھی کہ پوری دنیا کواتنا تو کہہ سکتی کہ یہ بھارت کی طرف سے کشمیر پہ استصواب رائے کی قرار داد کئی دہائیوں سے مسلسل ٹھکرائے جانے اور مقبوضہ کشمیر میں بھارتی ظلم و تشدد کے عمل کا ردعمل ہے کہ دنیا کشمیر میں کشمیریوں کو آزادی دلوائے۔ مگر بسا اے آرزو۔ ۔ ۔ ۔ جن کی زبانیں تک آج نہیں ہل رہیں وہ تلوار کیا اٹھائیں گے۔؟

    اقوامِ متحدہ نے تو بقول بی بی سی اردو سروس انٹر نیٹ نیوز، ہم جنس پرستی کے خلاف سزائیں اور قانون ختم کرنے کا ایک اعلامیہ جاری کیا ہے۔ جس کے الفاظ مندر ج ذیل ہیں؛

    “اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں تریسٹھ رکن ممالک نے ہم جنس پرست لوگوں کے ساتھ تشدد اور امتیازی سلوک کيخلاف ایک اعلامیہ جاری کیا ہے جس میں دنیا کے ممالک سے ایسے قوانین ختم کرنے کے لیے کہا گیا ہے جن کے تحت ہم جنس پرستی کو جرم تصور کیا جاتا ہے۔
    اس اعلامیہ میں اقوام متحدہ کے تمام اداروں اور رکن ممالک سے کہا گیا ہے کہ ہم جنسیت یا جنسی ترجیحات کی بنیاد پرہونے والے امتیازی سلوک اور تشدد کے خلاف بھی اسی انداز میں کارروائی کو یقینی بنایا جائے جیسے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے خلاف کی جاتی ہے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
    http://www.bbc.co.uk/urdu/regional/story/2008/12/081231_gay_hasan.shtml

    سوال یہ اٹھتا ہے کہ اقوامِ متحدہ اگر اس اعلامیہ کو قرارداد کی شکل دیتی ہے تو پھر پاکستانی بادشاہ کیا کریں گے۔؟جو اپنے لکھے پڑہے وعدوں کا یہ کہہ کر بالائے طاق رکھ دیں کہ یہ کوئی قران و حدیث نہیں ۔تو پھر کیا ان کے نزدیک معاذاللہ خدانخواستہ اقوامِ متحدہ کی وہ قراردادیں ہی قرآن و حدیث ہیں جو غیر مسلم قوتوں کے حق میں اور اسلام اور عام مسلمانوں کے خلاف ہوں۔؟ جن پہ فوراً عمل درآمد کروانا یہ عین فرضِ منصبی سمجھتے ہیں۔

    یہ مصلحت کوشی نہیں یہ بزدلی ہے۔ یہ قیادت تو مشرف سے بھی دو ہاتھ آگے نکلی۔مشرف دور میں جب امریکہ نے عراق اور افغانستان پہ اپنا غاصبانہ قبضہ شروع کیا تھا۔ اور یک بہ جنبش قلم اگلے دن کشمیر ، فلسطین ، چیچنیا وغیرہ جیسی آزادی کی تمام تحریکیں بشمول امریکہ اور اتحادیوں کے غاصبانہ قبضے کے خلاف اپنے معمولی سے وسائل سے لڑتے عوام دہشت گرد قرار دیے گئے اور غاصب اور غاصبانہ قبضے جائز قرارا دیے گئے ۔ تبھی مسلم دانشوروں نے اپنی حکومتوں پہ زور دیا تھا کہ دہشت گردی کی تعریف کی جانی چاہیئے تا کہ پتہ چل سکے کی دہشت گرد اور فریڈم فائٹر میں امتیاز برتا جا سکے مگر مسلمان حکمرانوں کے کان پہ جوں تک نہ رینگی اور آج کسی کو تعجب نہیں ہونا چاہیے کہ اگر امریکہ یا بھارت پاکستان پہ چڑھ دوڑے تو پاکستان کا دفاع کرنے والی فوج اور عوام کو بھی دہشت گرد قرار دے دیا جائے۔

    قصہ مختصر ۔ اگر اقوامِ متحدہ صرف غیر مسلم اقوام کے مفاد کے تابع ہے تو مسلمان حکومتوں کو اس کا ادراک ہو جانا چاہئیے اور ایسے اداروں پہ دو لفظ بیجھ دینے چاہیں اور ان اداروں سے اپنا پاندان سمیٹ لینا چاہیے ، جن کا مقصد ہی خونِ مسلم کی ارزانی اور دلِ مسلم کی توہین ہے۔ اور اگر بالفرضِ محال ہمارے مسلمان حکمران بضد ہوں کہ یوں نہیں بلکہ ہم اقوامِ متحدہ اور اقوامِ عالم کے دھونسی اداروں پہ اپنا مدعا واضح نہیں کر پائے تو ایسی صورت میں بھی ذمہ داری مسلمان حکمرانوں پہ جاتی ہے ۔ کہ وہ نالائق اور نا اہل ثابت ہوئے ہیں جو اپنے عوام کی صحیح نمائیندگی نہیں کر سکے ۔ اور مسلمان عوام یا کام از کم پاکستانی عوام بے چارے تو زمانہ قدیم کیے کسی راجواڑے کی پرجا سے ہیں جن کی ننگی پیٹھ پہ راجہ کے گماشتے روز کوڑے برساتے ہیں اور جن میں راج، راجہ ، راجہ کے گماشتے، گماشتوں کے گماشتے، ہر قسم کے اہلکار طرح طرح سے خوں چوس رہے ہیں۔ اور بھکے ننگے عوام کے پیٹ کمر جا لگے ہیں۔ زمانہ قدیم کے راجوں اور موجودہ پاکستان کی حکمرانوں اور قدیم راجواڑوں کی جنتا اور موجودہ پاکستان کے عوام میں کوئی خاص فرق نہیں ۔ نہ صاف پانی، نہ بجلی، نہ خوراک، نہ تعلیم، نہ ہسپتال، نہ دواخانے، نہ دوائیں، نہ آئین، نہ قانون، نہ امن، نہ امان، نہ عزت، نہ انصاف، نہ دین مفوظ ، نہ مذھب، کچھ بھی تو نہیں مگر ہمارے حکرانوں کے بیان دیکھ لیں ایک جنگ ہے جو یہ لڑ رہے ہیں جس کا نہ کوئی سر ہے نہ پیر جو محض مسلمانوں کو تقسیم اور کمزور کرنے کے لیے شروع کی گئی اور جس کا ہروال دستہ بننے پہ اور پاکستان کو میدان ِ جنگ بنانے پہ اپنے ہی بے گناہ عوام کو گولیوں سے چھلنی کرنے پہ ہماراے حکمران سینہ تانے۔ کلغیاں سجائے، فخر کرتے اور ہر قیمت پہ نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کو اپنے مفاد میں ثابت کرنے پہ تلے ، صبح شام بیانات جھاڑتے نظر آئیں گے۔ جیسے پاکستان کے سب مسائل حل ہو چکے اور ہر مسئلے کا حل اسی جنگ میں ہے۔اور طرف تماشہ یہ ہے کہ ممبئی حملے بھارتی ایجینسیز کی کاروائی کا نتیجہ تھے۔ ہم پہ آسانی الزام منڈھ دیا گیا اور ہمارے لاکھ چیخنے کے باوجود اور اس نام نہاد دہشت گردی کیخلاف جنگ میں دنیا کی کسی بھی فوج سے زیادہ سپاھی مروانے کے بعد بھی غیر مسلم استعمار غیر منصفانہ طور پہ ہمارے ازلی دسمن بھارت کی سازش کا ساتھ دیتا ہے۔ اور ہم ہیں کہ کمر بستہ اس جنگ کو ختم کرنے کا ارادہ ہی نہیں رکھتے ۔ایسی جنگ جس سے غیر مسلم استعمار تو مضبوط تر ہوتا جارہا ہے اور مسلمان کمزور سے کمزور تر۔ ایک آگ ہے جو ہر طرف لگی ہوئی ہے اور سینے جل رہے ہیں۔ مسلم دنیا کا کئی خطہ ایسا نہیں بچا جس میں اس جنگ نے آگ نہ لگائی ہو۔ اور حیرت ہے جنہوں نے اس جنگ کو شروع کیا وہاں ایک چڑیا تک محفوظ ہے۔

    میں چونکہ پاکستانی ہوں پاکستان کے حالات بیان کیے ہیں۔ باقی مسلمان ممالک میں ایک آدھ اشتناء چھوڑ کر باقی ممالک میں کچھ اسی طرح کی واردات مسلمانوں کے ساتھ ہو چکی ہے ۔ ایسے میں مظلوم فلسطینیوں کی مدد کو کون آئے گا۔؟ لیکن یہ عرب اور مسلمان ممالک کو بھی پتہ ہونا چاہیے کہ آج جو حالات فلسطین کے بنا دیے گئے خدانخواستہ کل کوکسی دوسری بھی مسلمان قوم کے بھی بن سکتے ہیں۔ لہزاہ یہ وقت ہے کہ ہم خوابِ خرگوش سے جاگیں، آپس کی کدورتیں ختم کریں اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں۔ اور غریب عوام میں جو محرومیاں پائی جاتی ہیں انکا ازالہ کریں۔ جو غیر مسلم رسم و رواج ہیں ان سے جن چیزوں سے اسلام نے منع کیا ہے ان سے قطعی پریز کریں اور جنکا کا حکم دیا اس پہ پورا پورا عمل کریں ۔ اسلامی اخلاق کو اپنائیں، تعلیم کو عام کریں۔ سائینس اور ٹیکنالیجی کو ترقی دیں اور دیانتدار اور دانشور قیادت پیدا کریں۔ اور اس میں خاص و عام سبھی شامل ہوں۔ تو یہ ہی ممکنہ اور دیرپا حل ہے جس سے ہم نے ماضی میں عزت پائی اور آئیندہ بھی باوقار انداز میں دنیا میں نہ صرف رہ سکتے ہیں بلکہ دنیا کی امامت کا فرض بھی پورا کر سکتے ہیں اور آئیندہ فلسطین جیسے المیے روک سکیں گے ۔ ورنہ اوپر کی تصوریں خود بتا رہی ہیں کہ طاقت میں کم تروں پہ استعمار کبھی ترس نہیں کھاتا۔

    خیر اندیش
    جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین

  • ثناءاللۃ باجوہ

    اے اللہ ھم سب کے صغیرہ کبیرہ گناہ معاف فرما۔اور کفار کی غلامی سے نکال کر
    صرف اپنا محتاج بنا۔ھم پر اپنی رحمت کی چادر دے دے۔ان ظالمون کے ظلم سے بچا
    آمین۔

  • نگہت نسیم

    غزہ کے نہتے شہریوں کو جس طرح اسرایئل اپنی جارحیت اور بربریت کا نشانہ بنا رھا ھے اور جس طرح اس سانحے پر مسلمان حکمران، سلامتی کونسل اور عالمی ادارے مجرمانہ خاموشی اختیار کیئے ھوئے ھیں ۔اس پر آج پوری انسانیت نوحہ کناں ھے ۔ انہی حالات کے پس منظر میں لکھی گئی ایک نظم جو جناب صفدر ھمدانی نے تیس دسمبر دوھزار آٹھ میں غزہ پٹی پرحملے کے پہلے دن پر عالمی اخبار کے لیئے لکھی تھی ۔ آپ سب کی بارگاہ فکر میں پیش کرتی ھوں ۔۔۔

    جل رہا ہے غزہ اور عرب کے منافق یہ سب دوغلے حکمراں۔از۔صفدر ھمٰدانی

    تتلیوں کے پروں پر لکھی نظم خوں میں نہائی ہوئی
    ایک ننھی سی میت جو مسجد کے ملبے پہ رکھی ہوئی
    اس طرح جیسے تصویر ہو مسکرائی ہو
    خالی آنکھوں کا نوحہ کوئی کیا لکھے
    آؤ سینہ زنی کر کے اُن بیگناہوں کو رو لیں ذرا
    قتل میں جنکے شامل ہیں خود اپنے ہی حکمراں
    کس طرح سے میں اس عہدِ حاضر کی کرب وبلا کی کہانی لکھوں
    جس کے کردار سارے یوں لگتا ہے میرے ہی ہم نام ہیں
    کوئی حُسنی مبارک
    کوئی شاہ حسین ہے کوئی شاہ حسن ۔
    ان میں شامل ہے اک نام ‘‘عبداللہ‘‘ بھی
    یہ سبھی ایسے ناموں کی تضحیک ہیں

    ان کے سینوں میں قرآن ہو گا مگر
    انکے دل سب جہالت کی طرح سے تاریک ہیں
    اک عجب درد اور دُکھ کا ماحول ہے
    مسجدِ اقصیٰ خوں میں ہے ڈوبی ہوئی
    اور فلسطین کی سرزمیں
    ارضِ کرب وبلا کی طرح سرخ ہے
    پھر یزیدانِ عصرِ رواں
    ہاں تقاضہء بیعت پہ ہیں متفق
    آج پھر ارضِ اہلِ فلسطین پر
    حذبِ شیطان نے
    اسقدر بربریت سے دھجیاں اُڑائی ہیں انسانیت کے قوانین کی
    جس طرح اک نئی کربلا

    ارضِ اہلِ فلسطین سے دے رہی ہے صدا
    المدد یا خُدا۔المدد یا نبی۔المدد یا علی سب کے مشکل کُشا
    چاروں جانب فضا میں برستی ہوئی آگ اور خون کی ایسی بارش ہے جس میں
    زندگی کی کوئی ایک رمق بھی نہیں
    چار سو پھیلی تاریکیوں میں کہیں اک چمک بھی نہیں
    آسماں سے وہ بارود برسا کہ ساری زمیں جل گئی
    جسم معصوم بچوں کے ٹکڑے ہوئے اور مٹی میں پَل بھر میں مل کر فنا ہو گئے
    حذبِ شیطان نے
    حذبِ ایمان پر پوری طاقت سے کچھ ایسا حملہ کیا
    جس پہ فرعون،نمرود،شداد سب خود بھی حیران ہیں
    ابرہہ عہدِ حاضر کا اک بار پھر
    آہنی،آتشیں ہاتھیوں سے
    یوں غزہ پہ ہے حملہ آور ہوا

    یا حسین ابنِ حیدر ترے ماننے والوں پر ہے عجب ظلم کی انتہا
    ریزہ ریزہ ہوئے جسم جیسے فضا میں کہیں کھو گئے
    بھوک سے بلبلاتے ہوئے کتنے معصوم ماؤں کی گودوں میں اپنا لہو پی کے ہیں سو گئے
    ابرہہ عہدِ حاضر کا اس بار تنہا نہیں
    ساتھ اُس کے بڑی طاقتوں کے خدایانِ شر بھی تو ہیں
    ہاں مگر یہ بھی سچ ہے کہ اس بار شاید کوئی
    سورئہ فیل نازل نہ ہو
    اور اس کا سبب
    ہم مسلمانوں کی بے حسی کے سوا اور کچھ بھی نہیں
    حذبِ شیطان کے آتشیں،آہنی ہاتھیوں نے ہمارے گھروں کو تباہ کر دیا

    آسماں سر سے پاؤں سے کھینچ لی ہے زمیں
    شہر اُجڑے ہوئے
    گرد اوڑھے ہوئے سو رہے ہیں مکیں

    عالمِ کفر و شر تو ہے جاگا ہوا
    حاکمینِ عرب اور عجم جیسے سوئے ہوئے
    اک عجب بے حسی کی ہے یہ انتہا
    حذبِ شیطان کے آتشیں،آہنی ہاتھیوں نے جنہیں ریزہ ریزہ کیا
    اُن پہ ماتم کُناں
    اُن پہ سینہ زناں
    اُن پہ نوحہ کُناں کوئی بھی تو نہیں

    بِک گئے ہیں قلم اور قلم کار خفتہ ضمیری کی میت اٹھائے ہوئے
    اور مسلمان حاکم محلات میں سہم کر چھُپ گئے
    ایسے حالات میں بھی ہیں اپنے حرم کو سجائے ہوئے
    اے عرب اور عجم کے مسلمان حاکمو
    ارضِ بغداد و لبنان کی موت کے بعد اب تمہیں
    موت پر سرزمینِ ‘‘غزہ‘‘ کی مبارک کہیں
    تم نے اپنے ہی دین اور تہذیب کا جس طرح سے جنازہ نکالاہے اُس پر مبارک تمہیں
    تم نے اپنی شجاعت و جرآت کے زرین ابواب کو
    جس طرح پارہ پارہ کیا
    اُس پہ بھی تم کو تحسین ہو

    اور ابد تک تمہارے ان عشرت کدوں میں اُجالا رہے
    سب جہانوں میں تمہاری اس بے ضمیری کا بھی بول بالا رہے
    بے ضمیری کے نشے میں مدہوش حاکمینِ عرب اور عجم کو ہمارا سلام
    ایسے فرمانرواؤں کی زریں عباؤں قباؤں پہ جانیں نثار
    جن کو ہے صرف اپنی حکومت سے پیار
    بصرہ و کوفہ و شہرِ بغداد کے بعد اب آپ کو
    ہو مبارک فلسطین بھی لُٹ چکا
    اب غزہ حذبِ شیطان کی ملکیت بن گیا
    اور ہر اک گھر پہ جسطرح سے موت کا راج ہے
    اوریہ ساری فضا
    خون اور بارود کی بو میں ہے جس طرح سے نہائی ہوئی

    اور یہ عزت مآب حکمراں
    سامراجی خداؤں کے پٹھو یہ فرمانروا
    قحبہ خانوں میں مدہوش سوئے ہوئے
    پاسبانِ حرم

    مصلحت کی قبا کو منافق بدن پہ سجائے ہوئے
    تاج اور تخت کے عشق میں بے ایماں،دوغلے حکمراں

    چند دن اور ہیں
    دیکھنا ہوں گے یہ سب بھی عبرت نشاں
    کعبئہ دل میں اب کوئی دے تو اذاں

  • ملک محمد عالمگیر اعوان

    معزرت اردو نھیں لکھا۔
    A dog is worth more than a Palestinian child
    Does the title shock you?
    Good! Because it should.
    It is a sad statement on the lives of the poor Palestinians in Gaza whose lives have been shattered since 1948. This huge prison that is Gaza, had been so-called liberated in 2005.
    Yet would you like to live there?
    The state that the people there live in has been described as the biggest open spaced prison with good reason. They are not allowed freedom of movement to and from the territory.

    They have no proper access to continued electricity or running water. And they are run by different militias all who are trying to prove a point that is useless — they all want to be the top dog in the junkyard.
    The Israelis are the masters of deception by their own admittance — “By way of deception we do war.” They always seem to find a way to blame the victim for their barbarity. They know fully well that they are transgressors but because the truth hurts, they find ways of placing the blame on others.

    In this latest act of savagery, the Israeli government headed by the now disgraced caretaker Prime Minister Olmert said that it is Hamas’ fault and that they have no issues with the people of Gaza. Please let me state quite clearly that I am not excusing Hamas’ acts of the past 3 years nor do I side with the regime of Mr Abbas.

    However, if you put people in an open air prison, take away all the amenities of life such as electricity, water and medicine then kidnap and, in some cases kill, legally elected officials from the Palestinian state under whatever guise best fits the moment, what do you expect the people to do? Sit back and take it?

    The Israelis don’t so why should the Palestinians? The Government of Israel has made it quite clear that they will continue with the carnage until they are satisfied. So more of the same.

    A while ago, I saw a wonderful interview with Mr. Norm Finkelstein, a person worth reading more about and is famous for his book, “The Holocaust Industry”, where he said that Israel took a beating in the 2006 invasion of Lebanon when Hizbullah politically trounced it.

    Now Israel cannot be seen as the weak party because that would empower others to strike it…oh so the argument went. However as Israel is still licking its wounds from Lebanon, it needs to make a point that it is the dominant factor. What better way than killing the defenseless?

    When dogs get abused, the civilized world comes to a standstill and the criminal is severely punished. When a child in Gaza is killed, the world talks for a while because no one wants to look as though they are doing nothing but in reality, they are doing nothing.

    Indeed, a dog is worth more than a Palestinian child.

  • تانیا رحمان

    میری سمجھ میں تو کچھ نہیں آ رہا کہ کیا کہوں ، سواے اس کے کہ آج بھی مسلم امہ سو رہی ھے کیوں ؟

  • افتخار اجمل بھوپال Post author

    ملک محمد عالمگیر اعوان صاحب
    اس مضمون کا کچھ حوالہ تو دیجئے ۔ کس نے کہاں لکھا ؟ اگر انٹرنیٹ پر ہے تو ربط کیا ہے ؟ پھر اس کے متعلق کچھ کہا جا سکتا ہے ۔

  • افتخار اجمل بھوپال Post author

    تانیا رحمان صاحب
    آپ نے درست کہا ۔ واقعی سمجھ نہیں آتا کہ کیا کیا جائے ۔ تمام مسلمان حکمران حکومت کے مزے لوٹ رہے ہیں کوئی مرتا ہے مرے ان کی بلا سے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ دست و گریباں ہونے کا وقت قریب آ رہا ہے

  • محب علوی

    افسوس کا مقام تو ہے ہی یہ مگر سب سے افسوسناک مقام یہ ہے کہ اسرائیل کی جارحیت میں مصر پوری طرح مدد کر رہا ہے اور سیکرٹ سروس کی مدد بھی فراہم کر رہا ہے ۔

  • افتخار اجمل بھوپال Post author

    محب علوی صاحب
    مصر میں حُسنی مبارک کی حکومت امریکی حکومت کی مدد سے قائم ہوئی اور قائم ہے جس طرح اپنے ملک میں آصف زرداری کی حکومت ۔ یہ پیپلز پارٹی کی حکومت نہیں ہے ۔

  • شاہدہ اکرم

    محترم اجمل انکل جی
    السلامُ عليکُم
    اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے آپ کی ميل مِل گئ تھی ليکِن وُہی بات کہ دِل کو کيسے سنبھالُوں اور لِکھنے کے لِۓ جِس ہِمّت کی ضرُورت ہے وہ خُود ميں نہيں پا رہی نِگہت نسيم صاحبہ نے جو نظم نقل کی وُہ ايسی ہر دِل کی آواز ہے کہ پڑھ کر دِل کانپ گيا ہے ہم لوگ عام عوام اِس ظُلم پر صِرف آواز اُٹھا سکتے ہيں جو اِن کے لِۓ کُچھ کر سکتے ہيں وُہ کُچھ کر نہيں رہے اور ہم جو خُود عام عوام ہيں اپنے جيسے لوگوں پر ہوۓ ظُلم کو ديکھ کر صِرف دُکھی ہو رہے ہيں وہ بچہ جو اپنے کِسی پيارے کی بانہوں ميں جُھول رہا تھا ناجانے زِندہ بھی تھا يا نہيں کِتنا پيارا کِتنا معصُوم اور بچے تو سبھی بہت معصُوم اور پيارے ہُوا کرتے ہيں نيا سال چاہے وہ ہِجری تھا يا عيسوی اِتنی دُعاؤں کے ساتھ شُرُوع کيا تھا پُوری دُنيا کے لِۓ امن و امان کی خُوشيوں کی دُعا کی تھی ليکِن يہ کيا نۓ اِسلامی سال کے ساتھ ہی شُرُوعات ہو گئ ايک نۓ کربلا کی جِس ميں کوئ تخصيص روا نہيں رکّھی گئ ،کِسی عُمر کی اور يہ ہمارے بڑے بڑے ناموں والے لوگ نشے باز صِرف اپنے کو بچانے والے شايد يہ بُھولے بيٹھے ہيں کہ جو آج ہماری اِتنی بڑی تعداد ہونے کے باوجُود زور آور ہو رہے ہيں وُہ ہماری ہی ذلالتوں کی وجہ سے ہے کہ وُہ جانتے ہيں سب صِرف اپنے آپ کی اپنے نفس کي غُلامی کر رہے ہيں يہ جانے بغير کہ اگلوں نے لکڑی کا گٹھا توڑ کر سب کو تِنکا تِنکا کر ديا ہے تا کہ آرام سے توڑا جا سکے کون جانے اگلا نِشانہ کون ہو يہی ڈر ہے سو يہ سوچ کر اپنی بُکل ميں مُنہ چُھپا ليا ہے کہ اے کاش ہم نا ہوں کيا تکليف دِہ بات ہے کہ ہم آج اِتنی بے شرمی کی زِندگی کيسے گُزار رہے ہيں اپنے اِن کرم فرماؤں کی وجہ سے
    خير انديش
    شاہدہ اکرم

  • Leave a Reply

    Your email address will not be published. Required fields are marked *

    :wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

    This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.