منافق بڑے پُر اعتماد طریقہ سے جھوٹ بولتا ہے ۔ اس طرح کہ اُسے اچھی طرح نہ جاننے والا اگر سب نہیں تو اُس کی بہت سی باتوں پر یقین کر لیتا ہے ۔
منافق پر جب مکمل بھروسہ کر لیا جائے تو وہ دغا دے جاتا ہے
اگر اس کے پاس کوئی امانت رکھی جائے یا اُسے روپیہ یا کوئی اور چیز مستعار دی جائے تو واپس نہیں کرتا یا واپس کرنے میں بلاجواز لیت و لعل کرتا ہے
لڑائی جھگڑے میں سب آداب بھول جاتا ہے ۔ توہین آمیز رویّہ اختیار کرتا ہے یا شیطانیت پہ اُتر آتا ہے
آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث کا مفہوم بھی کچھ اس طرح کا ہے کہ “منافق کی تین نشانیاں ہیں، بات کرے تو جھوٹ بولے، امانت دی جائے تو خیانت کرے اور جھگڑا ہو تو گالی گلوچ پر اتر آئے۔”
ابو شامل صاحب
آپ نے درست کہا ۔ میں نے حدیث مبارک سے ہی استفادہ کیا ہے اور جان بوجھ کر حوالہ نہیں دیا
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
جزاک اللہ۔ منافقت کے بارے آپ نے درست کہا مگر اس بیماری کا علاج اپنے طویل تجربے کی روشنی میں آجکل کے حالات کیا ہو سکتا ہے۔
خوف خدا !!!!
محمد ریاض شاہد صاحب
ابھی تو منافقت کو واضح کرنے کی کوشش میں ہوں پھر انشاء اللہ اس سے بچنے کی بھی بات ہو گی ۔ ویسے روسی شہری صاحب جو کہ محبِ وطن پاکستانی ہیں نے درست کہا ہے “اللہ کا خوف”
روسی شہری صاحب
آپ نے درست کہا ۔ جزاک اللہِ خیرٌ مگر مشکل تو یہی ہے کہ ہموطن جانتے نہیں کہ خوفِ خُدا کا مطلب کیا ہے