ملک بھر کے ہزاروں طلبہ کے حقوق کو بڑے پیمانے پر رد کرتے ہوئے وفاقی بورڈ برائے ثانوی اور اعلی ثانوی تعلیمی بورڈ نے ملک کے سب سے بڑے [پی سی او] جج کی صاحبزادی کو غیر قانونی طور پر اضافی نمبر دیکر ان کے امتحانی نتیجے کو بہتر بنا دیا ہے ۔ چیئرمین فیڈرل بورڈ آف اِنٹرمِیڈِیئٹ اینڈ سیکنڈری ایجوکیشن کے تحریری احکامات ۔ نامناسب عُجلت میں تمام قواعد کی خلاف ورزی اور ان میں نرمی ۔ یہاں تک کہ اعلٰی عدالت کے کچھ فیصلوں کی بھی خلاف ورزی کرتے ہوئے فرح حمید ڈوگر کے ایف ایس سی کے نتیجے کو اس طرح بہتر بنایا کہ 640 نمبر میں گریڈ ” سی “ کو بڑھا کر اسے ” بی “ گریڈ 661 نمبر میں تبدیل کر دیا اور اس طرح انہیں ملک میں کسی بھی میڈیکل کالج میں داخلے کی درخواست دینے کیلئے اہل بنا دیا ۔ اسلام آباد بورڈ نے فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں اپنے معمول سے ہٹ کر دوبارہ چیکنگ ۔ دوبارہ جائزہ لینے اور یہاں تک کہ ان کے امتحان کی جوابی کاپیوں پر ان کو فائدہ پہنچانے کیلئے اور 642 سے 660 کے درمیان نمبر لینے والے ہزاروں طالب علموں سے انہیں آگے کرتے ہوئے دوبارہ نمبر دینے کے پورے عمل کو نہایت تیزی سے مکمل کیا ۔
سپریم کورٹ نے اکتوبر 1995 ء ۔ جنوری1996 اور نومبر 2001 ء میں اپنے فیصلوں میں کسی بھی امیدوار کو خواہ وہ کتنا ہی بااثر یا طاقتور کیوں نہ ہوامتحانی نظام میں اس طرح کی گڑبڑ کی خاص طور پر ممانعت کی تھی۔ سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے میں کہا تھا کہ امتحا ن کے عمل کو مصلحت کی بنیاد پر قربان کرنے نہیں دیا جا سکتا اور اس عمل کی اجازت نہیں دی جا سکتی ۔
امتحانی نظام کے ماہرین کا اصرار ہے کہ قواعد چیئر مین کو یا کسی بھی بااختیار اہلکار کو اس بات کی اجازت نہیں دیتے کہ وہ حاصل کردہ نمبروں کو بڑھانے کیلئے پہلے سے مارک کردہ پیپرز کا دوبارہ جائزہ لے یا دوبارہ امتحان لے یا ان پر دوبارہ نمبر لگائے ۔ درحقیقت 24 جولائی 2007 کی تاریخ کے ایف بی آئی ایس ای کے جاری کردہ اعلامیہ کے تحت طلبہ کو بتایا گیا تھا کہ گریڈ یا نمبر بہتر بنانے کی سہولت کو امیدواروں کیلئے اس طرح توسیع دی گئی ہے کہ وہ اپنی پسند کے دو مضامین یا پرچوں میں دوبارہ بیٹھ سکتے ہیں اور اسی دوران وہ پالیسی بھی برقرار رہے گی کہ وہ متعلقہ امتحان پاس کرنے کے ایک سال کے اندر پارٹ ون یا پارٹ ٹو یا دونوں پارٹس یا پورے امتحان میں بھی بیٹھ سکتے ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ فرح حمید ڈوگر جو اسلام آباد کالج برائے خواتین سے ایف ایس سی [پری میڈیکل] کے پرچے دے چکی تھیں ۔ قواعد کے مطابق اپنی بعض امتحانی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کی درخواست دے چکی تھیں ۔ ان کی کاپیاں دوبارہ چیک کرنے پر ان کے نمبروں میں صرف ایک نمبر کے اضافے سے ان کے مجموعی نمبر 640 سے 641 ہوگئے تھے۔ لیکن بعد میں بورڈ کے چیئرمین نے حکم دیا کہ ان کے پرچوں کی دوبارہ پڑتال کی جائے جس کے لئے وہ 4 ممتحن طلب کئے گئے جنہوں نے پہلے انکی کاپیاں چیک کی تھیں اور ان سے کہا گیا کہ وہ دوبارہ نمبر دیں ۔ اس مشق کے نتیجے میں فرح حمید ڈوگر کو مزید 20 زائد نمبر دیئے گئے
ہائر سیکنڈری اسکول سرٹیفکیٹ پارٹ ٹو سالانہ امتحان برائے 2008ء کے رزلٹ گزیٹ بتاریخ 4 اگست 2008ء کے صفحہ نمبر 350 پر واضح طور پر ظاہر ہوتا ہے کہ فرح حمید ڈوگر [رول نمبر 545207] بنت عبدالحمید ڈوگر نے 640 نمبر یعنی گریڈ سی حاصل کیا ہے ۔ 20 اگست کو امیدوار نے رسمی طور پر 4 مضامین انگریزی ۔ اردو ۔ مطالعہ پاکستان اور فزکس کی کاپیاں دوبارہ چیک کرانے کی درخواست دی اور اس مقصد کیلئے 300 روپے فی پرچہ کے حساب سے 1200 روپے کی ادائیگی کی ۔ 29 اگست کو انہوں نے فیڈرل بورڈ کو ایک اور درخواست دی جس میں کیمسٹری اور بائیولوجی کی کاپیاں چیک کرنے کیلئے کہا گیا ۔ دوسری درخواست کے ساتھ 600 روپے کی بینک رسید اور رزلٹ کارڈ [مارکس شیٹ] بھی منسلک کی ۔
درخواست فارم کی پشت پر واضح طور پر درج تھا کہ ”کسی بھی امتحان میں اُمیدوار کی جوابی کاپی کی کسی بھی صورت میں دوبارہ پڑتال نہیں کی جائے گی“۔ درخواست فارم پر مزید درج تھا کہ ”کاپیاں دوبارہ چیک کرنے کو ان کی دوبارہ پڑتال ہرگز نہ سمجھا جائے“۔ ان ہدایات سے یہ بھی واضح تھا کہ کاپیوں کی دوبارہ چیکنگ میں صرف اس بات کا اطمینان کیا جائیگا کہ
1 ۔ جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر مجموعی نمبروں میں کوئی غلطی نہیں
2۔ سوالات کے مختلف حصوں میں دیئے گئے نمبروں کو صحیح طریقے سے جمع کیا گیا ہے اور انہیں ہر سوال کے آخر میں صحیح طریقے سے لکھا گیا ہے
3 ۔ تمام کل نمبروں کو جوابی کاپی کے ابتدائی صفحے پر صحیح طریقے سے جمع کرکے تحریر کیا گیا ہے
4 ۔ جواب کا کوئی حصہ بغیر نمبروں کے نہیں رہ گیا
5 ۔ جوابی کاپی میں درج نمبر مارک شیٹ سے مطابقت رکھتے ہیں
6 ۔ امیدوار کی ہاتھ کی لکھائی جوابی کاپی جیسی ہی ہے ۔
اگلے ہی روز جب فرح حمید ڈوگر نے فیڈرل بورڈ میں ایک اور درخواست دائر کی تو اس وقت کے چیئرمین ریٹائرڈکموڈور محمد شریف شمشاد نے اپنی ہینڈ رائٹنگ میں فارم پر لکھا کہ ”میں ان کی کاپیاں بذات خود بھی دیکھنا چاہتا ہوں“۔ فائل پر ان کے ریمارکس یہ ظاہر کرتے ہیں کہ وہ اس معاملے میں ذاتی طور پر دلچسپی رکھتے تھے۔ عام طور پر ری چکینگ کے معاملے جو ہزاروں کی تعداد میں بورڈ میں آتے ہیں ایف بی آئی ایس ای کا متعلقہ خفیہ ونگ نمٹتا ہے ۔
اس بات کو مد نظر رکھتے ہوئے کہ ملک بھر میں ایک ہی وقت میں 30 انٹر میڈیٹ بورڈز نے ہزاروں طلبہ کا امتحان لیا 21 اضافی نمبروں کا مطلب یہ ہے کہ اس ایک اقدام سے کم از کم مذکورہ طالبہ کو ایک لاکھ طلبہ پر فوقیت دی گئی لیکن چیف جسٹس کی صاحبزادی کے معاملے میں ان کے 6 پرچے ایف بی آئی ایس ای کے قواعد کے تحت ری چیکنگ کمیٹی کے سامنے پیش کئے گئے جس نے 30 اگست کو صرف ایک نمبر بائیولوجی کے مضمون میں دینے کی سفارش کی کیونکہ نمبر درست طور پر جمع نہیں کئے گئے تھے ۔ بائیولوجی کے ممتحن نے لکھا کہ ”ری چیک کرلیا ہے اور دیئے گئے نمبر سختی کے ساتھ مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں لیکن سوال نمبر چار میں صرف ایک نمبر کا اضافہ کیا گیا ہے کیونکہ نمبروں کو جمع کرنے میں غلطی ہوگئی تھی اور اب حاصل شدہ نمبر 13 میں سے 12 ہیں۔ لہٰذا اب مجموعی نمبر 70 ہیں“۔
مطالعہ پاکستان کے ممتحن نے لکھا کہ ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں ۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔ کیمسٹری کے ممتخن نے لکھا کہ ”کاپی دوبارہ چیک کی گئی اور یہ پایا کہ دیئے گئے نمبر بالکل درست اور مارکنگ اسکیم کے مطابق ہیں ۔ مزید نمبر نہیں دیئے جاسکتے“۔ تاہم دستاویزات اس بات کا انکشاف کرتے ہیں کہ 13 ستمبر کو انگلش کے پرچے کی پڑتال ایف جی کالج فار مین ایچ 9 اسلام آباد کے منیر حسین انجم نے کی اور امیدوار کی کاپی میں دیئے گئے نمبروں کو 58 سے بڑھا کر 67 کردیا ۔ اردو کی کاپی کی پڑتال ایف جی سرسید کالج راولپنڈی کے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے کی اور 62 نمبروں کو 67 کردیا ۔ فزکس کا پرچہ کی پڑتال کرنے والے اعجاز احمد نے 32 نمبروں کو بڑھا کر 38 کردیا ۔ اس غیر معمولی پڑتال کے بعد فائل کو چیئرمین کی منظوری کیلئے ایک دفتر سے دوسرے دفتر بھیجا گیا ۔ چیئرمین سے سفارش کی گئی تھی کہ ” مذکورہ بالا تبدیلی کے باعث، نمبر بڑھ گئے ہیں اور نتیجے کی صورتحال پہلے کے 640 مجموعی نمبروں کی بجائے 661 نمبر ہوگی ۔ زیر غور نمبروں کا یہ معاملہ منظوری کیلئے آگے بڑھایا جارہا ہے اور ہدایت کے مطابق موجودہ قواعد [وولیم 2] میں رعایت دیکر نمبر 640 سے بڑھا کر 661 کردیئے گئے ہیں“۔ 15 ستمبر کو چیئرمین نے اس کی منظوری دیدی جس کے بعد چیئرمین کی ہدایت پر اُمیدوار کو اسی دن تبدیل شدہ نمبروں کی مارک شیٹ جاری کردی گئی
اس وقت کے کنٹرولر منظور احمد سے جو ا بھی ایف بی آئی ایس ای میں خدمات انجام دے رہے ہیں اور چیئرمین شمشاد کے تحت کام کر چکے ہیں نے تصدیق کی کہ چیئرمین نے فرح حمید ڈوگر کے پرچوں کی ازسرنو پڑتال کا حکم دیا تھا ۔ احمد نے یہ تصدیق بھی کی کہ قواعد ایسی کسی از سرنو پڑتال کی اجازت نہیں دیتے لیکن انہوں نے اصرار کیا کہ مجاز حکام کے احکامات کی پیروی کی گئی ۔ ایک ذریعے کے مطابق قائم مقام ڈائریکٹر جاوید اقبال ڈوگر نے اس معاملے میں سہولت بہم پہنچانے میں بہت اہم کردار ادا کیا ۔ اگرچہ ڈوگر کا دعوی تھا کہ وہ اس معاملے کے متعلق کچھ نہیں جانتے لیکن ایک بہت قابل بھروسہ ذریعے نے بتایا کہ وہ کچھ اعلی عدالتی حکام اور اس وقت کے چیئرمین ایف بی آئی ایس ای کے مابین رابطہ کار رہا ہے اور انہیں اسلام آباد میں کچھ اہم جگہوں پر لے کر گیا ہے ۔ رابطہ کرنے پر بورڈ کے اس وقت کے ڈپٹی کنٹرولر طارق پرویز نے بھی اس بات کی تصدیق کی کہ قواعد میں کاپیوں کی دوبارہ پڑتال کی اجازت نہیں البتہ فرح حمید ڈوگر کے معاملے میں فیڈرل بورڈ کے چیئرمین کے فیصلے کے تحت ایسا کیا گیا تھا۔ فرح ڈوگر کے نمبروں میں اضافہ کرنے والے ممتحنوں میں سے ڈاکٹر آلِ اظہر انیس نے اعتراف کیا کہ انہوں نے بورڈ کے کہنے پر اردو کے پرچے کی از سرنو پڑتال کی تھی اور اس کیلئے بورڈ کے چیئرمین نے تحریری طور حکم جاری کیا تھا۔
خدا کا شکر ہے کہ سب کام قانون کے تقاضوں اور مجاز حکام کے مجاز قانونی حکم کے تحت ہوا ہے۔ اب کسی کو تکلیف ہے تو جناب قاضی القضاۃ جناب ڈوگر کی عدالت میں مقدمہ دایر کر سکتا ہے۔ ورنہ جس اخبار نے یہ فضول خبر چھاپی ہے اس اخبا ر کی اگر بتیاں بنا کر ۔ ، دھونی سےلطف اندوز ہو سکتا ہے ۔
Pingback: » اندھے منصف میرا پاکستان:
یہ خبر پڑھ کر بہت دکھ ہوا مگر کوئی حیرت نہیں ہوئی فرح ڈوگر ایسی پہلی طالبعلم نہیں ان سے پہلے نام نہاد اشرافیہ کی اولادیں اس قسم کے کئی ناجائز فائدے اٹھا چکے ہیں۔
محمد ریاض شاہد صاحب
اگر آپ نے طنز لکھا ہے تو اس کے ساتھ اللہ کا نام ایک بُرا فعل ہے اور اگر آپ اس کاروائی کو جس کی طرف میری تحریر میں اشارہ کیا گیا ہے درست سمجھتے ہیں تو میں پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ تعلیمی بورڈز اور یونیورسٹیوں کے قوانین سے مکمل طور پر نا واقف ہیں ۔ بہتر ہو گا کہ آپ تبصرہ کرنے سے قبل متعلقہ اصل دستاویزات کا مطالعہ کر لیا کریں
نعمان صاحب
آپ نے درست کہا ۔ میں تعلیمی بورڈ سے دو سال کیلئے اور انجنیئرنگ یونیورسٹیوں سے پانچ سال کیلئے بطور انسپکٹر امتحانات منسلک رہا ہوں اور اس سلسلہ میں کئی جنگیں لڑی ہیں ۔ کبھی کامیاب ہوا اور کبھی ناکام ۔ اسی لئے یہ آنریری کام چھوڑ دیا تھا ۔ یہ تو پرانے وقتوں کی بات ہے اب تو سنا ہے کہ اثرو رسوخ یا مال سب چلتا ہے ۔
محترم بھوپال صاحب
اسلام علیکم
مقصد تو طنز ہی تھا کیونکہ میرے والد صاحب تعلیم کے پیشے سے منسلک رہے ہیں اور مجھے ان قوانین کا علم ہے۔ اس طرح قانون کی بے حرمتی ہوتی دیکھ کر دل دکھ سا گیا تھا۔ اور کیا کہتے ایک کمزور آدمی بس صرف یہی کہ سکتا تھا۔ مگر اس کے پیچھے اور خیالات بھی تھے۔
مثلااجس کسی نے بھی بیوروکریٹ کے ذمے یہ کام لگایا گیا تھا یقینا وہ قانون میں موجود کسی سقم اور اس سے پیدا ہونے والی الجھن سے آگاہ تھا جس نے اس کو حد درجہ بے خوف کر دیا تھا۔آپ نے دیکھا کہ بورڈ نے اسی دن کیا موقف اپنایا تھا ۔ اب آپ اس معاملے کو عدالت میں بھی لے جاییں تو پانی میں مدھانی والی بات ہو گی۔بات یہ ہوتی ہے کہ آپ کا لیڈر یا افسر کس اخلاقی درجے پر ہے۔ بانی پاکستان کا واقعہ یاد آ گیا
قاید اعظم خرابی صحت کی وجہ زیارت میں مقیم تھے ڈاکٹروں کے مشورہ پر اآپ کو کویٹہ یا کراچی منتقل کرنے کا پروگرام بنایا گیا۔آخر کار قرعہ فال ملیر کے نام پڑا۔ سٹاف نے قاید سے کہا کہ آپ نواب صادق عباسی سے کہیں کہ ان کے پیلس قیام کرنا چاہتے ہیں وہ یقینا اسے اپنی سعادت سمجھیں گے۔قاید نے کہا کہ” وہ بحیثیت گورنر جنرل درخواست کرنے کو رد کرتے ہیں۔ کہنے لگے کہ اچھے ججز کا دستور ہوتا تھا کہ وہ جب کسی شہر میں پوسٹ ہوتے تھے تو مقامی لوگوں سے بلکل نہیں ملتے تھے بلکہ مقامی اخبارات کا مطالعہ بھی نہیں کرتے تھے مبادا ان کی راے میں فرق آ جاے اور کسی مقدمے میں جانبداری نہ ہو جاے”۔ میں کسی کا احسانمند نہیں ہونا چاہتا۔ یہ ہے اس پاکستان کا بانی اور ہم۔۔
ہے زاغوں کے تصرّف میں عقابوں کا نشیمن
اللہ اللہ کیا پروگرام لکھا ہے
ایک عرصہ سے سنتا آ رہا ہوں یھ قصے
لیکن جو قوانین بناے گیے ہیں اچھے معلوم ہوتے ہیں
اب انکا استعمال کیسے کیا جاتا ہے یھ دوسری بات ہے
اللہ کرے انصاف پسندی عام ہو جاے
قاَِید اعظم کی مثال سن کر ایک واقعھ یاد آیا جو قدرت اللہ شہاب کی کتاب میں درج ہے
وہ قاید اعظم سے ملنے دہلی گیے ایک بہت اہم پیغام دیا لیکن شہاب مرحوم نے اس بات کے جاننے کو اپنے باس کا خط کھولا تھا۔ آپ نے سن کر کہا ٹھیک ہے پھر کہا کہ ایسی غلطی پھر نہ کرنا اور مسکرارہے تھے
اس میں غصہ کرنے کی کیا بات ہے
ہم لوگوںکو کبھی کسی دوسرے کی خوشی میں بھی خوش ہونا چاہئے
ایک تو ہم پاکستانی بھی نا