آج ایک خبر پڑھ کر ماضی کے دِل شِکن اور ہِمت توڑ واقعہ کی مووی فلم میرے ذہن کے پردۂ سِیمِیں پر چل گئی کہ جسم کے رونگٹے کھڑے ہوتے محسوس ہوئے ۔ اور یوں محسوس ہوا کہ وطنِ عزیز کے پی سی او چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح کے خیر خواہوں نے صرف جسٹس غلام مصطفٰے مُغل کی بیٹی مصباح ہی کے ساتھ ظُلم نہیں کیا بلکہ وہ اُن ظالموں کے ساتھی ہیں جنہوں نے آدھی صدی قبل افتخار اجمل بھوپال پر ظُلم کیا تھا ۔
میں نے اللہ کے فضل و کرم سے میٹرک میں وظیفہ حاصل کیا اور ایف ایس سی بھی اچھے نمبروں پر پاس کی تو انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخلہ لینے کی خواہش ہوئی ۔ اس زمانہ میں جموں کشمیر کے باشندوں کو پاکستان میں کوئی حقوق حاصل نہ تھے ۔ ان کیلئے پاکستان کے کچھ کالجوں میں ایک سے پانچ تک نشِستیں مختص تھیں جن کے استعمال سے وہ متعلقہ کالج میں داخل ہو سکتے تھے ۔ پاکستان بننے سے قبل بھی جموں کشمیر میں تعلیم عام تھی اور وہاں کا تعلیمی معیار بھی عمدہ تھا ۔ اگست 1947ء کے بعد تمام تر محرومیوں کے باوجود ہجرت کر کے پاکستان آنے والے جموں کشمیر کے خاندانوں کے بچے اس معیار کو برقرار رکھے ہوئے تھے ۔ اسلئے مختص کردہ نشِستیں نہائت قلیل تھیں جن پر داخلہ لینے کیلئے جموں کآشمیر کے طلباء کو ہائی میرِٹ کی ضرورت ہوتی تھی ۔ انجنیئرنگ کالج لاہور میں ہمارے لئے پانچ نشِستیں مختص تھیں جن میں میرا تیسرا نمبر بنتا تھا ۔ درخواستیں آزاد جموں کشمیر کی حکومت کو دینا ہوتی تھیں جہاں کے محکمہ تعلیم کے افسران ایک خاص بارسوخ گروہ سے تعلق رکھتے تھے ۔ نامزدگی کرتے ہوئے میرا نام چھٹے نمبر پر رکھ دیا گیا کہ اگر اوپر والوں سے کوئی رہ جائے تو چھٹے پر توجہ دی جائے ۔ جن تین طلباء کو مجھ سے مقدّم کیا گیا ان کے ایف ایس سی کے نمبر مجھ سے 20 سے 60 نمبر تک کم تھے کم تھے ۔ اس زمانہ میں ایف ایس سی کے کُل نمبر 650 ہوتے تھے ۔
جب والد صاحب کو اس چیز کا علم ہوا تو وہ بہت پریشان ہوئے ۔ کچھ بزرگوں نے مشورہ دیا کہ بیٹے کو کہو کہ براہِ راست پنجاب میرٹ کی بنیاد پر درخواست دے دے ۔ اس صورت میں پنجابی ہونے کی سند بھی درخواست کے ساتھ لگانا تھی جو میرے پاس نہیں تھی ۔ ایک بزرگ جو محکمہ تعلیم میں تھے نے کہا “داخلہ کی درخواست جمع کرانے میں صرف تین دن ہیں ۔ اس دوران کچھ نہیں ہو پائے گا ۔ تم داخلہ کی درخواست اور اپنی میٹرک اور ایف ایس سی کی اسناد لے کر لاہور چلے جاؤ اور انجنیئرنگ کے پرنسِپل صاحب کو مل کر سارا ماجرہ بیان کرو”۔ چنانچہ میں اگلے دن فجر کے وقت بس پر سوار ہو کر لاہور پہنچا اور 11 بجے پرنسِپل صاحب کے دفتر میں تھا ۔ ان دنوں ممتاز حسین قریشی صاحب قائم مقام پرنسِپل تھے ۔ اللہ اُنہیں جنت میں اعلٰی مقام عطا فرمائے نہائت مُشفق انسان تھے ۔ بڑے انہماک کے ساتھ میری عرض سنی اور میرا تعلیمی ریکارڈ دیکھنے کے بعد بولے “بیٹا ۔ درخواست میں لکھ دو کہ میں پنجابی ہونے کی سند حاصل نہیں کر سکااور ملتے ہی جمع کرا دوں گا”۔ پھر کسی صاحب کو بُلا کر کہا “فلاں صاحب سے کہو کہ اس کی درخواست لے لے ۔ پنجابی ہونے کی سند یہ بعد میں جمع کرا دے گا”۔ وھ شخص مجھے ساتھ لے گیا اور درخواست جمع ہو گئی ۔
اُس زمانہ میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخلہ کیلئے امتحان ہوا کرتا تھا جس میں ایک پرچہ انگریزی ۔ طبیعات اور الجبراء اور دوسرا علمِ ہندسہ کا ہوتا تھا ۔ اگر داخلہ کے امتحان میں کوئی ناکام رہے تو اسے داخلہ نہیں ملتا تھا ۔ اور داخلہ کا میرٹ اس طرح تیار ہوتا کہ اُس امتحان کا وزن 30 ۔ ایف ایس سی کا 50 اور میٹرک کا 20 ۔ پنجاب میرٹ پر کُل 120 طلباء لئے جانے تھے ۔ امتحان کے بعد میرٹ لِسٹ لگی تو میرا نام اللہ کے فضل سے 64 نمبر پر تھا ۔ جو تین طلباء غلط طور پر جموں کشمیر کی فہرست میں شامل کئے گئے تھے وہ تینوں داخلہ کے امتحان میں ناکام رہے چنانچہ کالج نے حکومت آزاد جموں کشمیر سے مزید نامزدگی مانگی ۔ اس موقع پر انجیئرگ کالج کے پرنسپل صاحب نے مجھے بُلا کر ہدائت کی کہ میں پنجاب کی بنیاد پر داخلہ لے لوں تو بہتر ہو گا ۔ میں نے پنجابی ہونے کی سند کا کہا تو اُنہوں نے کہا “فیس جمع کرا دو اور جا کر راولپنڈی کے ڈپٹی کمشنر سے راولپنڈی میں رہائش کی سند لے آؤ”۔
سو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی کرم نوازی سے میرا داخلہ ہو گیا اور میں انجنیئر بن گیا ورنہ شاید مونگ پھلی بیچ رہا ہوتا یا منڈی میں ٹوکرا اُٹھا رہا ہوتا ۔
اور تم اللہ کی کو کون سی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟
میرے نزدیک تو یہ جو متخلف کوٹاز ہیں اورسیز، سیلف فنانس، آرمی وغیرہ کے۔۔۔ سراسر ناانصافی ہے ان طلباء سے جو پروفیشنل جامعات میں جانے کے لیے دن رات ایک کر دیتے ہیں اور یہ کوٹا سسٹم والے حضرات بڑے آرام سے آکر ان کی سیٹوں پر براجمان ہو جاتے ہیں جن کا حق بنتا ہے۔۔۔۔ میں اس کوٹا کی بات نہیںکر رہا جو کہ مختلف علاقہ جات کے لیے مختص ہیں کیونکہ میں اس کو بالکل اور عین جائز سمجھتا ہوں کہ کم ترقی یافتہ علاقوں کی ترقی کے لیے یہ ضروری ہے۔۔۔۔ لیکن مختلف محکمہ جات (فوج، عدلیہ، گورنز کی سیٹ وغیرہ۔۔۔ کے کوٹے جن کے بچوں کو برابر کی سہولیات یا زیادہ ہی میسر ہوتی ہیں انھیں مزیذ سہولت دیتے ہوئے کسی محنتی حق دار کی زندگی تباہ کردیا کہاں کا انصاف ہے؟؟
انکل انجنئرنگ مبارک ہو۔
http://www.ummatpublication.com/2008/11/28/lead23.html
اسلام علیکم اجمل صاحب ۔
جناب یہ ہی تو خرابی ہے ہمارے تعلمی نظام میں کے کوٹہ سسٹم پھر یہ ٹیسٹ سسٹم کیونکہ اب اس میں بھی ہراپھری ہوتی ہے ۔
محترم بھوپال صاحب
اسلالم علیکم
اللہ نے آپ پر کرم کیا۔مجھے خوشی ہوی۔اللہ اسی طرح سب کی آرزوییں پوری کرے۔ بات یہ ہے کہ سسٹم کوی بھی ہو اگر اس کو دیانتداری سے چلایا جاے تو تبھی معاشرے میں سکون اور آرام آ سکتا ہے۔ ماضی میں مسلمانوں کے کردار کی بنیادی چییز ہی عدل اور خوف خدا تھا۔ یہی چیز وہ دنیا کے سامنے پیش کرتے تھے۔ہمارے ہاں اگر اسی طرح حکام بالا قوانین کی خلاف ورزی کرتے رہے اور عدالتیں خاموش رہیں تو وہ دن دور نہیں جب مجبور اور بیکس لوگ انصاف کے لیے کسی اور کی طرف دیکھنا شروع کر دیں گے۔
عادل جاوید چوہدری صاحب
میں آپ سے متفق ہوں ۔ ایسے علاقے جہاں مناسب تعلیمی سہولیات موجود نہیں ان کیلئے تو متعلقہ تعلیمی اداروں میں نشِستیں مُختص ہونا چاہئیں لیکن فوجیوں ۔ ججوں ۔ گورنر وغیرہ کیلئے نشِستیں مُختص کرنا جمہوریت اور انسانی حقوق کے منافی ہے ۔
شکاری صاحب
شکریہ لیکن آپ نے شکار صرف 46 سال تاخیر سے کیا ہے
محبِ پاکستان صاحب
میرا تو اول روز سے خیال ہے کہ یہ ایک بڑا بھیانک ڈرامہ ہے جو اس دنیا کی طاقتوں نے کھیلا ہے ۔ آخر دو درجن اسلحہ بردار اتنی اہم جگہوں میں کیسے داخل ہو گئے ؟ باقی سب خبر میں موجود ہے
اکرام صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ کا کہنا درست ہے ۔ لیکن جو امتحان آدھی صدی قبل انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخلہ کیلئے ہوتا تھا اس میں کسی کے ساتھ کوئی رعائت نہیں کی جاتی تھی کیونکہ بڑے بڑے بُرج گِر جاتے تھے ۔ اس زمانہ میں رَٹہ لگا کر نمبر لینے والا انجنیئرنگ کالج میں کامیاب نہیں ہو سکتا تھا کیونکہ سلیبس مقرر تھا کتابیں نہیں ۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ کا کہنا درست ہے ۔ ہموطنوں کی اکثریت جب تک اللہ کی طرف رجوع نہیں کرے گی حالات بہتر ہونے کی اُمید نہیں
آپ کے بیٹے کے ساتھ بھی شاید کچھ ایسا ہوا تھا؟
قدیر احمد صاحب
کیوں بھولے زخم یاد کراتے ہیں ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا کو راولپنڈي بورڈ میں پوزیشن لینے سے روکا گیا تھا لیکن اللہ کی مہربانی سے انجیئرنگ میں چاروں سال اول آنے سے بورڈ کی حقیقت کھُل گئی تھی البتہ پنجاب یونیورسٹی کے عملہ اور سپرنٹنڈنٹ ایگزیمینیشن نے ملی بھگت سے بی کام کے امتحان میں ایک سفارشی نالائق طالب علم کو کامیاب کروانے کیلئے میرے چھوٹے بیٹے کے ساتھ بہت خطرناک کھیل کھیلا تھا ۔ اللہ کی خاص مہربانی ہوئی کہ بیٹے کے کالج کے پرنسپل صاحب نے ہمارا ساتھ دیا اور کچھ خُفیہ ریکارڈ کی فوٹو کاپیاں کرنے کی اجازت دے دی اور ہدائت کی کہ میں درخواست لکھ کر فوراً پنجاب یونیورسٹی لاہور کے کنٹرولر آف ایگزیمینیشن کو ملوں ۔ اس کے نتیجہ میں میرا بیٹا جس کے پرنسپل صاحب کو اسکے کم از کم گریڈ اے کی اُمید تھی گریڈ بی میں پاس کیا گیا ۔ اللہ کا لاکھ شکر ہے کہ وہ آئی بی اے کراچی کے داخلہ کے امتحان اچھے نمبروں سے کامیاب ہو گیا ۔ ایم بی اے کرنے کے بعد چار سال ملازمت کی پھر برطانیہ سے ایم ایس سی فاننس پاس کیا اور اچھی ملازمت مل گئی ۔میں تو ہر دم اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کی مہربانیوں کا شکر ادا کرتا رہتا ہوں ۔
یہ سب کرم ہے ہمارے اللہ کا ۔ ہم میں تو ایسی کوئی بات نہیں ہے
اسے پڑھ کر یہی پہلا خیال یہ آرہا ہے کہ بہت آخر میں ہی صحیح جیتتا سچ ہی ہے
امید سے لفظ بلفظ متفق ہوں، مسلم سکول میں ہمارے ایک استاد اسد ساحب تھے جو اکثر ایک آیت کا ترجمہ سنایا کرتے تھے کہ ”حق آ گیا اور باطل بھاگ گیا، بے شک باطل بھاگنے کے لئے ہی ہے“