رومی صاحب نے ایک اچھا نظریہ پیش کیا ہے کہ انسانیت کے تحفظ کے لئے کام کیا جائے ۔ امید ہے قارئین رومی صاحب کے منصوبے کواپنی ذاتی کاوشوں سے عملی جامہ پہنائیں گے اور اسے اس پیرائے میں نہیں لیں گے جس میں آجکل اسی طرح کے اعلانات کو لیا جاتا ہے جو کھوکھلے نعرے اور ٹی پارٹی یا ڈنر کے سوا کچھ نہیں ہوتے
ہمارے موجودہ معاشرہ کو دیکھا جائے تو سائینس کا یہ اصول سامنے آتا ہے کہ جس چیز پر زیادہ زور ڈالا جائے وہ ٹوٹ جاتی ہے ۔ میرے خیال میں اس اصول کا اطلاق ہر عمل پر ہوتا ہے ۔ دور حاضر میں انسانی حقوق اور ان کی حفاظت پر اتنا زور ڈالا گیا ہے کہ انسانیت کا جنازہ ہی نکل گیا ہے ۔ اسے اعتراض نہ سمجھئے گا میں صرف وضاحت کی کوشش کر رہا ہوں ۔
دنیا کی ترقی کے ساتھ علم وسیع ہوا اور اس کی ان گنت شاخیں بن گئیں ۔ پہلے ناک کان اور گلے کی بیماریوں کا
ایک ہی طبیب ہوتا تھا تو مریض جلدی فارغ ہو جاتا تھا ۔ پھر ہر ایک کا الگ یعنی تین طبیب ہو گئے اور مریض کو دو یا تین گنا وقت دینا پڑا ۔ سنا ہے کہ اب ناک کے بائیں حصے کا الگ ہے اور داہنے حصے کا الگ ۔
آپ سوچ رہے ہونگے کہ کیا الا بلا لکھ رہا ہوں ۔ محترم ۔ بات یہ ہے کہ دور حاضر کا انسان ستائشی ہے اور دور حاضر کے اجارہ داروں نے انسانیت کی بھی متعدد تعریفیں بنا دیں ہیں ۔ اسی لئے رومی صاحب کو لکھنا پڑا
“ہم صرف انسانوں کا ہی نہیں ، جانوروں ، بے جان اشیا اور پودوں کا بھی تحفظ چاہتے ہیں”
دد اصل ۔ انسان ہوتا ہی وہ ہے جو ہر جاندار اور بے جان کے حقوق کی حفاظت ذاتی خواہشات پر مقدم رکھتا ہے ۔ اسی کا نام ہے تحفظ حقوق انسانی ۔
جب میں بچہ تھا اس زمانہ میں اگر چیونٹیاں زمین پر چلتی نظر آ جائیں تو ہمارے بزرگوں میں سے کوئی کہتا کہ ایک چٹکی آٹا لے کر چیونٹیوں کے قریب ڈال دو تاکہ انہیں خوراک کیلئے پشیماں نہ ہونا پڑے ۔ قریب ہر گھر کی چھت پر دو ڈبے یا رکابیاں لٹکی ہوتیں ایک میں دانہ یا چوگا اور دوسرے میں پانی تا کہ پرندے بھوکے پیاسے نہ رہیں ۔ علی ہذا القیاس ۔ اس زمانہ میں انسانی حقوق کا رولا نہیں تھا ۔ اب انسانی حقوق کا رولا ہر طرف ہے مگر چونٹیاں تو چونٹیاں انسانوں کو بھی روندا اور مسلا جا رہا ہے ۔
محترم بھوپال صاحب
جو شخص سچے دل سے خداے واحد کا پرستار ہوتا ہے اس اس کو انسانیت کے تحفظ کے لیے کسی لمبی چوڑی مہم چلانے کی ضرورت نہیں پڑتی بلکہ وہ خدای صفات کا پر تو بنتے ہوے کمر کس اٹھ کھڑا ہوتا ہے سب سے پہلے اپنے گھر سے آغاز کرتا ہے۔اس کے بعد گلی محلہ اور شہر کی باری آتی ہے۔ میرے خیال میں آجکل انسان صرف اہنے آپ کو انسان میں ڈھال لے تو بہت بات ہے۔ دوسرؤن کو تبدیل کرنے اتنا آسان نہین ہوتا ایسا ہوتا تو پیغمبروں کو اس دنیا میں خدا کو نہ بھیجنا پڑتا۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔ میں نے اسی لئے لکھا ہے کہ رولا ہی رولا ہے یعنی صرف شور مچایا جاتا ہے عمل نہیں ہے ۔ کوئی پانچ دہائیاں قبل ریڈیو پر ڈرامہ کا ایک کردار درویش تھا ۔ جس کے پاس لوگ اپنے دنیاوی مسائل لے کر جاتے تو وہ کہتا “مولا ای مولا باقی سب رولا ای رولا”
جناب افتخار اجمل بھوپال: ہماری تحریر کا حوالہ دینے کا بہت بہت شکریہ۔
ہم آئندہ جو تحریریں شائع کرنے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ انہیں پڑھ کر آپ برا منا جائیں۔ کیونکہ ہم عامۃ المسلمین اور پاکستانیوں کے ایسے افعال،اقوال اور نظریات پر روشنی ڈالیں گے جن کی نشاندہی اکثر مسلمانوں اور پاکستانیوں کو مرنے مارنے پر آمادہ کر دیتی ہے۔
امید ہے کہ آپ ہمارے ساتھ رہیں گے اور ہمارے سوالات کے تشفی بخش جوابات دے کر ہماری رہنمائی کریں گے۔
جناب محمد ریاض شاہد:
جو شخص سچے دل سے خداے واحد کا پرستار ہوتا ہے، وہی کلمہِ حق کہتا ہے اور وہی انسانیت کے تحفظ کی تحریک چلاتا ہے، جو کہ خدا کے بندوں کی مہربانی سے خود بخود لمبی چوڑی ہو جاتی ہے۔ آپ کے خیال میں خدا نے دنیا میں نبی اور رسول کس مقصد کے لیے بھیجے تھے؟ انسانیت کے تحفظ کی جو تعریف ہم نے اور جناب اجمل نے بیان کی ہے، اسے سامنے رکھ کر جواب دیجیے۔
آپ نے کہا کہ دوسروں کو تبدیل کرنا آسان نہیں ہوتا۔ ہم کہتے ہیں کہ اگر سامع نیوٹرل ہو کر حق بات سنے اور عدل کو بنیاد بنا کر اس پر غور کرے تو کچھ مشکل نہیں رہتا۔
جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب اور رومی صاحب۔ شکریہ
آپ کی تحریر کے مقاصد نیک ہیں اور میری دعاییں آپ کے ساتھ ہیں۔ میں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ یہ ایک بہت بڑا کام ہے اس کے لیے اپنے اندر ایک بڑا انسان ہونا بہت ضروری ہے۔ خدا نے اپنے نیک بندوں اور نبیوں کی بڑی سخت تربیت کی تاکہ وہ اپنے مقصد کی تکمیل میں جان مال اولاد اور دیگر محبوب چیزوں کی پرواہ نہ کریں۔ بیعت رضوان سے قبل انصار کے ایک شخص نے اپنے ساتھیوں سے کہا “سوچ لو کہ تم کس شے کی بیعت کرنے جا رہے ہو۔اس کام میں تمہاری جان مال اور جنگوں کا خطرہ ہو گا۔اپنے پیارے عزیزوں سے جنگیں کرنا ہو گی”۔ تبلیغ صرف اس صورت میں اثر پزیر ہوتی جب انساں اپنا یسا کردار دوسروں کے سامنے پیش سکنے کی جرآت رکھتا ہو۔ میرے خیال میں انسان کو اپنی ذات کے خلاف جہاد سب سے پہلے شروع کرنا چاہیے۔ اس کے بعد افراد خانہ اور معاشرہ کا نمبر آتا ہے۔ میرے سامنے تو اسلام کی مثال ہے -یاد رے مکہ میں اسلام کی جدو جہد کا عرصہ باییس سال ہے اور مصیبتوں کی انتہا تھی۔ کونسی مصیبت ہے جو نبی صلی علیہ پر اور ان کے خانوادہ پر نہیں آی۔
بر صغیر میں بہت سی تحریکیں نیک مقاصد لے کر اٹھیں جن کے رہنما کے مقاصد نیک اور لیڈر اپنے زمانے کے مانے ہوے ذہین انسان تھے مگر مقصد کی تکمیل کی سعادت صرف ان لیڈروں کے حصے میں آی جن کا کردار شفاف،جرات آزما اور اللہ اور نبی کی تعلیمات کے کھونٹے سے بندھا تھا۔ اور جن کا یہ کہنا تھا کہ ہم اہنے مقصد سے نہیں ہٹیں گے چاہے دشمن ہمیں بحیرہ عرب میں پھینک دے۔ اگر ایسا ہے تو میں آپ کی متابعت میں سعادت محسوس کروں گا۔
پچھلی ہوسٹ میں سہواٰ بییعت رضوان چھپ گیا یہ بیعت عقبہ تھی
رومی صاحب
آپ نے لکھا ہے “ہم آئندہ جو تحریریں شائع کرنے جا رہے ہیں، ہو سکتا ہے کہ انہیں پڑھ کر آپ برا منا جائیں۔”
محترم ۔ مجھے شیر آیا کہہ کر نہ ڈرایئے ۔ صرف اتنا کیجئے کہ جب آپ کچھ لکھیں تو مجھے اطلاع کر دیجئے کیونکہ میں بعض اوقات مصروفیت کی وجہ سے اردو سیارہ کئی دن کھولتا نہیں
محمد ریاض شاہد صاحب
بلاشبہ سب سے مشکل کام با ہمہ صفت انسان بننا ہے ۔ اٹھارہ بیس سال قبل پروفیسر ڈاکٹر غلام مرتضے ملک مرحوم کے ساتھ میں کھڑا تھا تو ایک معتقد نے آ کر ان سے کہا “ہمیں ٹھیک ہونے کیلئے آپ کی ضرورت ہے”۔ ملک صاحب نے اپنے جسم کی طرف اشارہ کر کے مسکراتے ہوئے کہا “بھئی ۔ مجھ سے یہ پانچ فٹ کا پتلا ہی ٹھیک ہو جائے تو غنیمت ہے”۔ باقی میرے بلاگ کے بائیں حاشیئے میں بالکل اوپر ایک آیت کا حصہ لکھا ہے وہ پڑھ لیجئے
محترم بھوپال صاحب
سبحان اللہ ۔ ڈاکٹر غلام مرتضی کی یاد دلا دی۔ مرحوم ہمہ صفت انسان تھے۔لاہور میں خالد مسجد میں نماز جمعہ کے دن ان کے خطبات سننے کا اتفاق ہوا کرتا تھا۔ مرحوم بڑے دھیمے اور دلنشیں اندز میں اسلام کی سادہ تعلیمات کی تلقین کرتے تھے۔ خدا انہیں غریق رحمت کرے۔ پتہ نہیں وہ شقی القلب کون تھا جس نے ان کی زندگی کا چراغ گل کر دیا۔ فرعون کی بھی یہی عادت تھی کہ کسی قوم میں اگر کسی فرد میں جوہر قابل ہونے کا اندشہ بھی ہوتا تھا تو اسے قتل کرا دیتا تھا۔ خدا ہمارے درمیان اپنے اہل علم اور صالح بندوں کا سایہ قایم رکھے۔آمین
اجمل صاحب آپ کے بلاگ کے سائیڈ بار میں پی ایچ پی کی کئی ساری وارننگس نظر آرہی ہیں اور سیدھے ہاتھ والا سائیڈ بار شاید درست کام نہیں کرہا۔ غالبا پوسٹ ویوز والے سیکشن سے مسئلہ شروع ہو رہا ہے۔
محمد ریاض شاہد صاحب
ًعبداللہ صاحب لال مسجد اسلام آباد والے ۔ ملک غلام مرتضے صاحب ۔ شامزئی صاحب بنوری ٹاؤن کراچی والے اور اسی طرح کے کچھ اور علماء دین کا قتل سوائے اللہ کے دین اور اللہ کے دیئے ہوئے ملک کے دشمنوں کے سوا کسی اور کا کام نہیں ہو سکتا ۔ ان کی زندگی میں مجھے تینوں حضرات سے استفادہ کرنے کا موقع ملا ۔
افتخار اجمل: ہمیں افسوس ہے کہ آپ نے ہماری بات کو منفی طور پر لیا۔ نہ ہمیں شیر جیسا چوپایہ ہونے کا دعویٰ ہے اور نہ ہی ہم کسی پر اپنی دھاک بٹھانا چاہتے ہیں۔ ہمارا مقصد آپ کو ڈرانا نہیں، محض مطلع کرنا تھا۔
راشد کامران صاحب
یھ میرے علم میں ہے ۔ دراصل چار روز قبل ورڈپریس کی نئی ورژن کرتے ہوئے پی ایچ پی کی فائل گڑبڑ ہوگئی تھی اور میرا بلاگ پورے کا پورا باغی ہو کر روپوش ہو گیا تھا ۔ میرے بڑے بیٹے زکریا نے بہت کچھ ٹھیک کر دیا ہے تھوڑی سی کسر رہ گئی ہے
رومی صاحب
میں نے آپ کی بات کو منفی نہیں لیا ۔ صرف ایک بے ضرر ضرب المثل کا استعمال کیا ہے