میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ایک جناب حمائت علی شاعر سے معذرت کے ساتھ
کیسے کیسے لوگ یہاں پہ ہمیں بیوقوف بنانے آ جاتے
اپنے اپنے ٹوٹکے ہمارے ذہن میں بٹھانے آ جاتے ہیں
میرا سب سے چھوٹا بھائی جو راولپنڈی میڈیکل کالج میں پروفیسر اور راولپنڈی ڈسٹرکٹ ہیڈکوارٹر ہسپتال میں کنسلٹینٹ سرجن اور سرجیکل یونٹ کا سربراہ ہے خاندان میں بہت عقلمند سمجھا جاتا ہے ۔ بہرکیف وہ میرا بہت احترام کرتا ہے ۔ جون جولائی 2008ء میں میرے اس بھائی نے متعدد بار مجھ سے کہا “بھائیجان ۔ آپ وقت نکال کر ٹی وی ون پر براس ٹیکس ضرور دیکھیں ۔ حقائق جاننے کیلئے زبردست پروگرام ہے “۔ پروگرام رات گیارہ بجے شروع ہوتا تھا اسلئے میں سُستی کرتا رہا ۔ ایک روز میری بڑی بہن نے لاہور سے ٹیلیفون پر بات کرتے ہوئے یہی تقاضہ کیا تو میں نے اگست میں ایک پروگرام زید حامد کا براس ٹیکس دیکھ ہی لیا ۔ اور میرا شوق بُلبلے کی طرح پھٹ گیا ۔ زید حامد صاحب جس موضوع پر بات کر رہے تھے اس کے کئی حقائق میری سرکاری ملازمت کی وجہ سے میرے علم میں تھے اور وہ یاوا گوئی کر رہے تھے ۔ میرا خیال ہے کہ زید حامد صاحب کی معلومات کی بنیاد سستے اخبار اور سینہ گزٹ ہیں
۔جیسا کہ میں نے براس ٹیکس دیکھنے والوں سے سُنا ہے زید حامد صاحب کی کچھ باتیں حقائق پر مبنی ہوتی ہیں اس وجہ سے سامعین متاثر ہوتے ہیں لیکن متاثر ہونے کی اس سے بڑی وجہ زید حامد صاحب کا طرزِ بیان ہے جس کی وہ مہارت رکھتے ہیں ۔
زید حامد صاحب کے متعلق معلومات کیلئے یہاں کلک کیجئے اور فیصلہ خود کیجئے
بالکل صحیح لکھا آپنے
میں بھی پروگرام کی مشہوری سے متاثر ہو کر ایک پروگرام دیکھ بیٹھا یہاں پر
http://kadnan.com/blog/2008/10/01/zaid-hamid-about-baitullah-mehsud/
لیکن پورا نہیں دیکھا جا سکا۔ کچھ لوگوں کا جھوٹ ان کے اندازِ بیاں سے عیاں ہو جاتا ہے یا انکے بھرپور اعتماد سے
محترم بھوپال صاحب
بہرحال ان کا انداز بیاں اوراپنےمقصد سے لگن قابل تعریف ہے۔ معلومات میں غلطی ہو جاتی ہے۔مگر میرا مشورہ ہے کہ ان کے تمام پروگرام دیکہ کر ان کے متعلق راے قایم کریں تو مناسب ہو گا۔ اگرچہ میں سمجھتا ہوں کہ ان کے انداز فکر پر جزباتیت اور تاریخی رومان پسندی زیادہ غالب ہے۔
ہم نے شعیب صفدر صاحب کی بھیجی ہوئی ای میل زید حمید کو بھیجی اور ان کے ایک ٹیم ممبر نے اس کا جواب دو منٹ میں دے دیا۔ اس ای میل کے سوال جواب یہ ہیں۔
—– Original Message —– From: “Afzal”
To:
Sent: Friday, October 03, 2008 12:31 AM
Subject: Fwd: Who is Zaid Hamid??????
> Dear,
> I need to verify if it is true that as per following article, you are a
> Khalifa of Yousaf Ali and still leading his cult. Do you know N.
> Shahrukh because he claims your friend.
> Afzal
Zaid Hamid
to me
show details 4:15 PM (15 hours ago)
Reply
Zaid sb,s full name is Zaid Zaman Hamid and that is NO secret. it is on our website http://www.brasstacks.biz, his ID card and visiting cards.
other than this, We have answered your quesitons brother. these are all allegations and zaid sb have got nothing to do with these. all lies. He is NOT khalifa of Yusuf and NOT leading any cult.
By believing this accusaiton brother, you are accusing Zaid sb to be a kafir. Pl be very very carefull, as it is a greatest of sins.
Jazak Allah
BT team
آدھا سچ اور حقائق کو اپنی عینک سے دِکھانا، پھر علم الکلام کا افسوں، جادو تو سر چڑھ کر بولے گا۔
زید حامد صاحب نے جدید وسائل اور موجودہ دور کی تشہیری ٹیکنیکس استعمال کیں ورنہ زیادہ تر منبر و محراب والے یہی راگ الاپ رہے ہیں بس کسر ان کی کج علمی کی وجہ سے رہ جاتی ہے ورنہ ہر جامع مسجد ایک گولڈن ٹیکس والے تھنک ٹینک چلارہی ہوتی۔
اللہ ہمیں حق شناسی کی توفیق دے۔
انکل میں نے آپ کو آرٹیکل آپ کی رائے معلوم کرنے کے لئے ای میل کیا تھا! کہ آپ کے پاس اس بارے میں کچھ حقائق ہو گے؟ تا کہ سچ و جھوٹ کا اندازہ لگایا جا سکے!
مجھے زید حامد کے آئی ایس آئی کے mouth piece ہونے پر اصل میں کوئی اعتراض ہی نہیں!! اگر وہ ہےتو۔ جب ہمارے ملک میں سی آئی اے کے پے رول پر کئی لوگ ہیں تو ایک آدھ آئی ایس آئی کا بندہ بھی ہو جائے کیا حرج ہے؟ بلکہ میں تو اس کے حق میں ہوں!!!
اصل میں میں اس کے یوسف کذاب سے تعلق کے بارے میں جاننا چاہتا ہوں! کہ وہ کتنا سچ ہے؟
باقی آپ کے علاوہ میں نے دیگر دوستوں اور ساتھوں (کوئی اایک درجن سے اوپر) کو بھی آرٹیکل ای میل کیا تھا، میں نے جان بوجھ کر آپ کو ڈیکٹیٹرشپ واچ کا لنک نہیں دیا تھا! اس کے بجائے دل دل پاکستان کا دیا تھا وجہ یہ ہے کہ دیکٹیٹرشپ واچ کا دیگر میٹیریل کچھ اُلجھا اُلجھا ہے! آپ ذرا اُس پر ایک نظر ڈالے آپ کو دال میں کچھ کالا کالا نظر آئے گا! سمجھ نہیں آتی یہ پاکستان کے ہامی ہیں یا دشمن!
افضل صاحب نے جسے بتا دیا ہے کہ انہوں نے براس ٹریک والوں سے خود بھی رابطہ کیا اور اُن سے ہونے والی بات سے مجھے بھی آگاہ کیا! اچھا ہو اگر وہ دوسری میل بھی یہاں پیسٹ کر دیں! یا اُس کا خلاصہ ڈال دیں کہ دونوں طرف کا نقطہ نظر سامنے آ جائے!
ہم نے دوسری ای میل کی طوالت کی وجہ سے اسے یہاں نقل نہیںکیا تھا۔ اس کی کاپی حاضر ہے۔
from Zaid Hamid
to Afzal
date Thu, Oct 2, 2008 at 3:48 PM
subject Re: Who is Zaid Hamid??????
mailed-by dsl.net.pk
hide details Oct 2 (2 days ago) [bilatehqeeqbatainurana.gif]
Reply
dear brother Afzal,
Assalam alaikum and dua.
Pl read the enclosed Hukm from Allah (swt) for bohtan is a great sin. Alhamdolillah, we reject each and every word of this non-sence allegaitons. each and every word is false and Bohtan without proof. Have you seen any proof ???? Then read what Allah has to say and be very very carefull in declaring a Muslim as Kafir. This is very serious.
Is Zaid sb an ISI mouth piece and Musharraf sympathiser ??? is this true ?? do they have proof of what they say ?? tell them to bring proof ….. Allah demands that we dont accuse without proof.
Is brasstacks a self sponsoeed program as Shahrukh claims ??? By Allah these are all lies and deceptions. be carefull and dont fall for the trap.
Zaid sb does not know any N. Shahrukh. He does not know any Abid Ullah jan execpt through some e-mails exchnages.
. You have seen our work and mission. We have done over 70 stunning programs on TV already, in love of Allah, Rasul Allah (saw) and Pakistan . Is there anything, repeat anything that you have found to be against Quran and Sunnah and against interests of Pakistan.
Do we have to reply to allegations from dubious sources, from unknown non-existent characters, with blasphemous slandering and accusations ? What is the credibility of that site and who is their patron? do you know their intention and backers? The website you mention works on the same lines as Indians and CIA to attack and destroy Pakistan army and ISI. Cant you see what is its game and whose interests this so called Abid ullah jan is serving. ? Where is he based, who is he, who is funding him to follow India and CIA line against ISI and army ? We are not surprised that he is after us.
Total non-sense. we need to Fear Allah and not be instrument of shaitan who wants to block our powerful message for revival of Ummah. Basically, what this site is saying that we are not Muslims, involved in every kind of corruption and serving CIA interests !!! does this rubbish even require a response and are Muslims so naive that they believe this also?
Alhamdolillah, we have a sacred mission and we are not distracted by whatever people say about us. Zionists and Indians are now attacking us from all sides and we expect this. We are being called Qadianis, CIA agents, ISI assets and what not. We don’t need to respond to anything as our message and mission is strong enough for all to see, alhamdolillah. Those with noor and baraka can see that our ideal and role model is Rasul Allah (saw) and we strive to unite the Ummah and protect Pakistan.
The work we are doing is critical for national security and blocking Zionists and Hindu extremism. They will use all their weapons to block this message. Be watchful of the shaitan which puts waswasa in people’ hearts. Guidance remains from Allah alone.
Wassalam and dua
Jana Shah
BT team
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ کے اندازے سے میں متفق ہوں کہ “انداز فکر پر جزباتیت اور تاریخی رومان پسندی زیادہ غالب ہے”
میں بچوں یعنی آجکل کے جوانوں کی باتیں سن کر محظوظ ہوتا ہوں ۔ میں نے ایک پروگرام ٹی وی پر دیکھا ۔ ۔میں زید حمید صاحب کے آٹھ پروگراموں کی سی خرید لایا ۔ باقی پروگراموں کے متعلق میرا بھائی اور دوسرے احباب بتاتے رہتے ہیں ۔ سو زید زمان حمید صاحب کی تقاریر پر میرا مخرتصر بیان میری تحریر کے آخری بند میں موجود ہے ۔ میں اگر اپنے عمل کیا ساری تفصیل لکھوں تو تحریر بہت طویل ہو جاتی ہے ۔ بلاگ میں لمبی تحاریر لکھنا اسے رسالہ یعنی میگزین یا آپ بیتی کی کتاب بنانے کے مترادف ہے
رضوان صاحب
آپ نے زبردست مثال دی ہے ۔ وطنِ عزیز کی اکثر مساجد پر اَن پڑھ لوگوں کا قبضہ ہے اور وہ اپنی تقریری سلاحیت کے بل بوتے کم علم مسلمانوں کو گھیرے ہوئے ہیں ۔ یہ تو آپ بھی جانتے ہوں گے کہ ہمارے ہموطنوں کی اکثریت دینی علم سے بیگانہ ہے ۔
شعیب صفدر صاحب
جب آپ کی ای میل مجھے ملی تو میں براس ٹیکس پر مضمون کی تیاری کر چکا تھا لیکن اس سے قبل مجھے کچھ بہتر تحاریر شائع کرنا تھیں ۔ میری مندرجہ بالا تحریر کا آخری بند ثابت کرتا ہے کہ میں نے زید حامد کی ہر بات کو غلط نہیں کہا ۔ یہ صرف اتفاق ہے کہ جو پروگرام میں نے ٹی وی پر دیکھا اس میں غلط قیافہ آرائی کی گئی تھی ۔
کسی بھی کہانی کو سننے یا کوئی پروگرام دیکھنے کے بعد اس میں بتائے گئے واقعات کی تصدیق ضروری ہوتی ہے ۔ رسول اکرم سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کا فرمان ہے کہ کسی کے جھوٹا ہونے کیلئے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ بات کو سُنے اور تصدیق کئے بغیر آگے بیان کر دے ۔
اگر زید حامد آئی ایس آئی کے ماؤتھ پیس ہیں تو مجھے اس پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ آئی ایس آئی بذاتِ خود بُرا ادارہ نہیں ہے ۔ اسے حُکمران غلط کاموں کیلئے استعمال کرتے رہے ہیں ۔ اس ادارے میں اب بھی اکثریت محبِ وطن پاکستانیوں کی ہے ۔
میں شاہ رُخ اور فصیح ذکاء کے مضامین سے متفق نہیں ہوں ۔ ان دونوں نے جذباتیت سے کام لیا ہے ۔ البتہ ڈاکٹر فیاض عالم کا مضمون حقیقت سے قریب لگتا ہے ۔
یوسف کذاب اور اس سے زید حامد کے تعلق بارے میں کچھ نہیں بتا سکتا ۔ 1987ء سے 1994ء تک میں یکے بعد دیگرے 4 سرکاری پروجیکٹس میں بہت زیادہ مصروف رہا ۔ والد صاحب جولائی 1991ء میں فوت ہوگئے تو میرا ذاتی کام بھی بڑھ گیا ۔ میں اگست 1994ء میں ملازمت سے مستعفی ہو کر اسلام آباد آ گیا اور سوا سال خانگی معاملات میں اُلجھا رہا پھر پیٹ کی خاطر یونیورسٹی میں پڑھانا شروع کر دیا ۔ وہاں سے ستمبر 1999ء میں فراغت ہوئی تو عام دنیا میں واپسی ہوئی ۔ چنانچہ 2000ء میں پہلی خبر جو میں نے اس بارے پڑھی یہ تھی کہ کسی قیدی نے یوسف کذاب کو جیل میں گولی مار کر ہلاک کر دیا ۔ میرا ایک ہی سوال تھا کہ قیدی کے پاس پستول کہاں سے آیا تھا ؟
افضل صاحب نے آپ کی بات مان لی ہے ۔ زید حامد کے ساتھی کا استدلال درست بھی ہو سکتا ہے اور غلط بھی ۔ اس کیلئے مطالعے اور صبر کی ضرورت ہے ۔ سردست اتنا کہنا کافی ہے کہ اگر میں آپ کا مداح ہوں تو آپ کے خلاف ہر بات کو رَد ہی کروں گا ۔
یہ اپنے پروگرام میں ایسی کیا باتیں کرتا ہے؟
میرا خیال ہے میں نے اس کا ایک ہی پروگرام یوٹیوب پر دیکھا تھا۔ جس میں سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔ ایک بیوقوف سی لڑکی میزبان بننے کی اداکاری کررہی تھی اور بہت بری کررہی تھی۔ صاف پتہ چل رہا تھا کہ اسے اسکرپٹ لکھ کر دیا ہوا ہے۔
افضل صاحب کو لکھی گئی ای میلز میں املا اور گرامر کی غلطیاں ہیں۔ غالبا زید حامد صاحب نے کسی غیر ماہر شخص کو ای میلز کا جواب دینے کے لئے ملازم رکھا ہوا ہے۔
السلام علیکم! اجمل صاحب میں نوفل شاہ رخ کو اچھی طرح جانتا ہوں، بہت نفیس اور سلجھے ہوئے آدمی ہیں جبکہ زید حامد کم از کم ماضی میں مشکوک کردار کے حامل ضرور رہے ہیں اس لیے میں اپنی ذاتی معلومات کی بنیاد پر نوفل صاحب کے بیان کو ترجیح دوں گا۔ باقی اس حوالے سے میں کچھ معلومات مزید اکٹھی کر کے اپنے بلاگ پر پیش کروں گا وہ ملاحظہ کر لیجیے گا۔ والسلام
نعمان صاحب
زید حامد صاحب تقریر کا فن جانتے ہیں اور ہمارے ہموطنوں کی اکثریت کورس کی کتابوں اور ناولوں کے علاوہ کچھ نہیں پڑتی سو زید حامد اس کا بھرپور فائدہ اُٹھا رہے ہیں ۔
ابو شامل صاحب
شکریہ
افتخار صاحب لیکن جو لوگ جانتے ہیں وہ اس کی تقریروں کے سچ جھوٹ کا پردہ فاش کرسکتے ہیں۔ اور ان مضامین سے لگتا ہے کہ لوگ کر بھی رہے ہیں۔ میں بالکل کسی لکھی ہوئی بات یا ٹیلیوژن پر آنے نام نہاد دانشوروں کا تب تک یقین نہیں کرتا جب تک اس کی تصدیق نہ کرلوں اگر یہ ممکن نہ ہو تو اپنی سمجھ سے کام لینے کی کوشش کرتا ہوں۔
ایسا ایک پروگرام غامدی کے نام سے بھی آتا ہے۔ وہاں آنے والے نام نہاد اسلامی اسکالر غامدی بھی بہت کنٹروورشیل ہیں اس کے باوجود وہ مشہور ترین ٹی وی چینلز کے پرائم ٹائم پر موجود ہیں۔ میں نہیں سمجھتا کہ ان کا پروگرام مقبول ہے لیکن سوال یہ ہے کہ غیرمقبول ہونے کے باوجود وہ پرائم ٹائم پر کیسے موجود ہے؟
ہر کوئی میڈیا کو اپنے مقاصد کے لئے ایکسپلائٹ کررہا ہے۔ ایسے میں ہمیں اپنی خود کی سمجھ سے کام لینا چاہئے۔
نعمان صاحب
ہمارا قومی المیہ تعلیم کا غلط نظام ہے ۔ اوّل تو بہت کم لوگ تعلیم حاصل کر سکتے اور جو حاصل کرتے ہیں اُن کی اکثریت رٹہ بازی سے اسناد حاصل کرتی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ تقریر کا جادو جگانے والے انہیں بیوقوف بناتے رہتے ہیں ۔
جاوید احمد غامدی کو بھی آپ نے خوب پہچانا ۔ میں اسے کے بارے میں 15 اکتوبر 2007ء کو لکھ چکا ہوں ۔
https://theajmals.com/blog/?p=1038
کئی ٫ڑھے لکھے لوگ کہتے ہیں کہ “غامدی ہر مسئلے کو بڑے پراگمیٹک طریقہ سے ڈیل کرتا ہے”
ویسے افضل صاحب کو جو جوابی ای میل آئی ہے اس میں چند جملے ایسے ہیں جو اس بات کو ثابت کرتے ہیں کہ زید حامد اور براس ٹیکس ماضی قریب میں فوج کی کی گئی بھیانک غلطیوں پر پردہ ڈالنے اور اسے پوتر کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہیں۔ ذیل کے یہ جملے ذرا ملاحظہ کیجیے:
The website you mention works on the same lines as Indians and CIA to attack and destroy Pakistan army and ISI.
Cant you see what is its game and whose interests this so called Abid ullah jan is serving. ? Where is he based, who is he, who is funding him to follow India and CIA line against ISI and army ?
حالانکہ پاکستان کی تاریخ گواہ ہے کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ فوج اور فوجی آمریت رہی ہے اس دور میں صیہونی و ہندو سازش کا نام لے کر فوج کو دودھ میں مکھی کی طرح نکال دینا، بڑا حیران کن لگتا ہے۔
——————————————————————
میں نے ابھی تک زید حامد کا ایک ہی پروگرام دیکھا جس میں وہ ہندوؤں کی سازشوں کو بے نقاب اور ماضی میں مسلمانوں پر کیے گئے ان کے مظالم کو نمایاں کرتے دکھائی دیے۔ نرا جذبات سے کھیلنے والا پروگرام تھا۔ ایک جگہ موصوف یہ جملہ فرماتے ہیں کہ
“دیکھو ہندوؤں کے جھانسے میں کبھی مت آنا، ہم نے ان کو ہرانا ہے اور اپنی ان ہزاروں زریناؤں اور فاطماؤں کے سروں پر چادر رکھنی ہے جو تقسیم کے وقت مسلمان سے سکھ بن گئیں”
جبکہ حقیقت یہ تھی کہ ان کے برابر میں بیٹھی خاتون تک دوپٹے سے عاری تھیں۔ اب مجھے بتائیے کہ ان باتوں کا اثر سوائے جذباتی افراد کے کون قبول کرے گا؟
یوسف کذاب کے مقدمے کے حوالے سے 13 اگست 2000 کی زید حامد عرف زی زی حامد کی یہ پوسٹ ملاحظہ ہو: http://www.chowk.com/interacts/4863/1/0/64
کیا اب بھی وہ کہہ سکتا ہے کہ اس کا اس کذاب سے کوئی تعلق نہیں تھا؟
#61 Posted by jay on August 13, 2000 10:13:41 am
FATWA-FOBIA
There are a lot of allegedly moderates pakistanis on the chowk, who believe in human rights, who have woRn out their fingers posting about kashmir, the jinnah speach, the tolerant islam in pakistan, the 2% extremists. In supporting the killing of kashmir in the guise of human rights, selfdetermination etc. they are in tune with the mullahs, who prefer the word jihad.
In the following story, if the alleged moderates criticise the blasphemy laws they will be in conflict with the mullah. No, the moderates cannot afford to do that because of the fatwafobia. The human rights blah blah does not apply to pakistani nationals.
Convicted for blasphemy
A kind, benevolent and honourable Muslim Sufi of a small order has been sentenced to death on blasphemy charges by a court in Lahore. I am an eyewitness to what happened in the court and how the prosecution murdered justice, human dignity, Islamic and contemporary law and all norms of humanity in the name of Islam. Mohammad Yusuf Ali is a staunch Muslim and a scholar of the Holy Quran. He has rendered meritorious services to Islam, Pakistan and humanity in his career. It was only a difference of interpretation which was exploited by extremist mullahs and some Urdu newspapers. Yusuf Ali had already spent two years in jail and now he has been convicted.
I was present in the courtroom to assist the defence lawyers. It was barred to the outside world. I am witness to what happened inside and how he has been convicted. The prosecution had based their case on four items: audio cassette of Juma Khutba, video cassettes of Juma Khutba, Yousuf Ali`s purported diary, and one Pir and his few followers, who claimed that he had claimed to be “Muhammad“ in front of them many years ago!
There was nothing objectionable in the cassettes, and even according to Qanoon-i-Shahadat, they were inadmissible, as the one who had made these was not known. They were highly edited, doctored and manipulated.
The diary was not of Yusuf Ali`s at all, and even the prosecution admitted that they were not sure of its origin. It had no name, no handwriting match, no owner. It was simply alleged on Yusuf Ali and was torn to shreds in its originality and credibility.
The Pir and his followers were again torn to shreds, as none of them was the complainant. They never reported the alleged blasphemy to the police or any other authority, which supposedly happened many years ago. Their credibility did not exist at all in terms of contradictions in cross examinations.
One of them was on bail on fraud charges. The complainant had all the info on hearsay. He had never met the accused in his life. All his info was through Urdu newspapers. He accused Yusuf Ali of adultery, but even in the FIR, the relevant section was not mentioned for lack of evidence, making the complainant liable to “Qazaf“. His testimony was not admissible at all.
Yusuf Ali had categorically, even before the registration of the FIR, made it clear through paid ads that he had not claimed to be a prophet and he was a staunch Muslim. Top religious scholars like Maulana Abdul Sattar Niazi had declared him a true Muslim and asked the charges to be dropped. According to all legal and Shariat requirements he had proved himself to be a true Muslim. Still the prosecution insisted that he called himself a prophet. How can anyone be the judge of someone`s faith? The prosecution lawyers went so overboard that even the judge had to stop them from committing blasphemy in trying to prove Yusuf Ali wrong. Even though Yusuf Ali was on bail, he was arrested one day earlier against all rules, laws and norms. It is extraordinary how the bail given by a High Court was cancelled by the Sessions Court and the accused was arrested.
The whole trial was in camera and the media was not allowed in to hear Yusuf Ali`s explanations, his speeches and comments. The media was also barred from seeing the hopelessness of the prosecution witnesses and their lawyers.
It was on this quality of evidence that a great living sufi has been condemned to death on so many counts that we have lost count.
Now Yusuf Ali is in the line for gallows. Will we wait and let the evil win or raise our voices for our own survival?
Z.Z. HAMID
Rawalpindi
ظفر اقبال
zafariqbaldr@gmail.com
السلام علیکم
جو حضرات اردو اور انگریزی سے واقف ہیں۔آنکھیں اور معمولی عقل رکھتے ہیں،ان کے لئے ،زید صاحب کے ماضی اور حال کے خیالات کو سمجھنا ،ان کے یوسف علی کے ساتھ تعلقات کا انداذہ کرنا کوئی بڑا کام نہیں رہا۔ اللہ رب العلمین نے تمام حقائق بہت کم کاوشوں کے نتیجے میں خودظاہر کر دیئے ہیں۔
چوک پر کئی سال پہلے بھیجے جانا والا خط اگر دیافت نہ بھی ہوتا تو بھی ہمارے پاس زید صاھب کے یوسف علی کے خلیفہ ہونے کے کئی ثبوت موجود ہیں۔
اچھا ہوا ذید صاھب کی اپنی میل میں ہی اس کا اعتراف موجود ہے۔
ورنی ہو اس سے پہلے ایسے کسی تعلق سے انکاری تھے۔
اب ناقل تردید ثبوت آ چکے ہیں۔ان کے اپنے اعترافات کے بعد جن لوگوں کو یوسف علی کی گستاخیوں اوراپنے آپ کو محمد صلی اللہ علیہ وسلم کا پرتو قرار دینے کا ثبوت چاہیے وہ بھی اطمینان کرلیں کہ یہ سب سیشن کورٹ اور لاہور ہائی کورٹ میں ثابت ہو چکا۔جلد ہی اس مقدمہ کی مکمل تفصیلات بھی منطر عام پر آ جائیں گی۔
یوسف علی کے خلیفہ اگر تائب نہ ہوں تو انہیں بنوری ٹاءون کے علماء کے فتویٰ کی روشنی میں مسلمان تصور کرنا ممکن نہیں۔دیگر تمام مکتبہ فکر کی بھی یہی رائے ہے،بشمول اہل تشیع۔
رہا سوال یہ کی آئی ایس آئی ایسے لوگوں کو کیوں پالتی ہے تو اس کا جواب وہ خود ہی دے سکتے ہیں۔عوام الناس کے پاس نہ اس کا جواب ہے اور نہ ہی عابد اللہ جان یہ بتا سکتے ہیں۔ بلکہ عوام تو یہ بھی نہیں سمجھ سکتے کہ حساس اداروں کی کلئرنس کیسے حاصل ہوئی جس کے بعد یوسف علی کو خصوصی پاسپورٹ دیا گیا تھا اور وہ ملک کے وی آی پی کی حیثیت سے رہے۔
عوام تو یہ بھی نہین جانتے کی آئی ایس آئی جیسے ادارے کیوں عافیہ سدیقی جیسی بیٹیوں کو امریکہ کے حوالے کرتی ہیں? کیوں باراتوں اور بستیوں پر بمباری کرنے والے غاصبوں کو مدد فراہم کرتی ہے?کیوں ملک کے چوروں کو بار بار بلا کر ہمارا حکمراں بنانے کے لئے دبئی معاہدے کرتے ہیں۔کیوں خاکی وردی کو ذلت کا نشان بناتے اور قوم میً فوج سے نفرت کے لئے کوشاں رہتے ہیں? کیون ملک توڑنے والے ہر شخص اور گروہ کی سرپرستی کرتے اور عوام کو اپنا غلام سمجھتے ہیں۔ کیوں یذیدیت کو ملک کا دستور بنانے پر تلے ہوئے ہیں اور کیوں ملک کو ختم کرتے کے درپے ہیں۔کیوں امریکی فوج جیسے جذبات عوام میں اپنی فوج کے لئے پیدا کرنا چاہتے ہیں?
کیؤں ملک میں عدالت اور انصاف اور جوابدہی اور چیک ایڈ بیلنس کے نظام کی بجائے فوجی راج کا دستور جاری رکھناچاہتے ہیں?
کیوں ہم پر کبھی ضود اور کبھی اپنے ٹائوٹ سوار کر دیتے ہیں?
عبدالرحمان صاحب
شکریہ ۔ میں چوک پر گیا تھا لیکن یہ ای میل مجھے مل نہیں رہی تھی ۔
ظفر اقبال صاحب
آئی ایس آئی ایک مقدس مقصد کیلئے بنایا گیا تھا لیکن مختلف حکمرانوں نے اپنے خوشامدی اس میں تعینات کر کے انہیں ذاتی اغراض کیلئے استعمال کیا ۔
http://www.jasarat.com/unicode/detail.php?category=8&coluid=77
یوسف کذاب اور زید حامد کے شکار
جسارت کے ان صفحات پر ڈاکٹر فیاض عالم کے زید (زمان) حامد سے متعلق مضامین چھپے جن پر کچھ قارئین کا بہت سخت ردعمل آیا۔ جن دنوں یہ مضامین چھپے’ ہمیں بھی دستیاب معلومات کی بنیاد پرکچھ لکھنے کا خیال آیا۔ لیکن زید حامد کے متاثرین کا، جن میں اکثریت خواتین کی ہے، سخت ردعمل دیکھتے ہوئے ارادہ ترک کردیا اور اس مسئلے پر تحقیق شروع کردی۔ “یوٹیوب” پر ان کے پروگرام بھی دیکھے اور مختلف ناموں سے چھپنے والے ان کے مضامین اور تجزیاتی رپورٹوں کا مطالعہ شروع کیا۔ زید حامد جو کچھ کہتے ہیں اس سے کلی طور پر اتفاق ممکن نہیں۔ تاہم ان کے ماضی اور اس کے صحیح ہونے پر اصرار کو دیکھتے ہوئے ان کی صحیح باتیں بھی تحقیق کی متقاضی ہیں۔ زید حامد کے خیالات سے متاثر جسارت کی ایک قاری کا استدلال ہے کہ ہمیں یہ نہیں دیکھنا چاہیے کہ “کون کہہ رہا ہے بلکہ یہ دیکھنا چاہیے کہ کیا کہہ رہا ہے”۔ یہ کلیہ غلط ہے’ اگر غلط نہ ہوتا تو جب کفارِ مکہ نے یارِ غار سیدنا ابوبکر صدیق ؓ سے کہا کہ آپؓ کے دوست محمد(صلی اللہ علیہ وسلم) کہہ رہے ہےں کہ وہ رات کے ایک حصے میں مسجد حرام سے مسجداقصیٰ اور وہاں سے آسمانوں کی سیر کرکے آئے ہیں؟ ابوبکر صدیق ؓ نے بغیر کسی تامل کے یہ کیوں کہہ دیا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں تو سچ کہہ رہے ہیں۔ اس گواہی پر سیدنا ابوبکر ؓکو قرآن نے صدیق کا لقب دیا۔ کیا اتنی بڑی گواہی دینے سے قبل ابوبکر ؓ نے اس دعوے کو عقل کی بنیاد پر پرکھا؟ یا یہ دےکھ کر گواہی دی کہ کون کہہ رہا ہے؟ خود اللہ نے اُس وقت تک کسی نبی پر نبوت کی ذمہ داری نہیں ڈالی جب تک اس کے اخلاق اور کردار کی گواہی اُس زمانے کے لوگوں نے نہیں دی۔ اور نبوت کے اعلان سے قبل نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے اہلِ مکہ کے سامنے جو سوال رکھا وہ بھی ہم سب کو یاد ہے۔ تو پھر ہم کس طرح سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ نہ دیکھو کہ کون کہہ رہا ہے؟ ٹی وی ون کے “مرد ِمومن” کے یوسف کذاب ملعون کے ساتھ تعلق کے ناقابلِ تردید شواہد موجود ہےں۔ فی الوقت اس کالم کے ذریعے آپ کو یوسف کذاب، زید حامد اور ان کے فرقہ ¿ باطنیہ کے دو نواجون تائبین سے ملواتے ہیں جنہوں نے برسوں اس فرقے کے لیے کام کیا لیکن اللہ تعالیٰ نے ان پر خاص کرم کیا اور ان کو ہدایت نصیب ہوئی۔ یوسف کذاب کے مقرب خاص اور زید حامد کے دوست رضوان طیب کے بھائی منصور طیب کہتے ہیں: “میں زید حامد کو اُس وقت سے جانتا ہوں جب اس کا یوسف علی سے تعلق نہیں بنا تھا۔ زید 1988ءکے انتخابات میں بہت سرگرم تھا۔ 1989ءمیں اس نے ایک تصویری نمائش کا اہتمام کیا اور اس کے لیے ایک وڈیو فلم بھی تیار کی تھی۔ اس نمائش کا اہتمام علاقہ سوسائٹی میں مختلف مقامات پر کیا گیا۔ اُس زمانے میں یہ مختلف جہادی رہنماﺅں کے ترجمان کی صورت میں بھی نظر آیا۔ اس کی شخصیت سے ہم بہت زیادہ متاثر تھے۔ یہ اپنے آپ کو بہت بڑا جہادی رہنما سمجھتا تھا۔ اُس زمانے میں اس نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک وڈیو فلم “قصص الجہاد” بھی تیار کی۔ پھر 1993ءمیں جہادِ افغانستان ختم ہوگیا۔ یہ وہ دور تھا جب اس نے تمام مجاہد رہنماﺅں کو گالیاں دینی شروع کردیں۔ 1993-94ءمیں یہ لاہور سے اپنے ساتھ یوسف کذاب کو لے آیااور اس کو علاقہ سوسائٹی کے تحریکی ساتھیوں سے متعارف کرایا اور کہا کہ یہ ایک بزرگ ہے جو صرف ذکر کی بات کرتا ہے۔ اگر کوئی سوا لاکھ دفعہ ورد کرے گا تو اس کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دیدار نصیب ہوجائے گا۔ میرے بڑے بھائی رضوان طیب’ یوسف علی کے خاص مقربین میں شامل ہوگئے تھے اس وجہ سے یوسف علی اور زید زمان میرے گھر آتے تھے۔ زید زمان جس کا پہلے سے ہمارے گھر آنا جانا تھا’ یوسف کذاب کو ہمارے گھر لے آیا تھا۔ اُس زمانے میں علاقہ سوسائٹی کے جمعیت اور جماعت سے متاثر اور متعلق تین درجن سے زائد افراد اس سے متاثر ہوئے۔ میرے بھائی تو اس حد تک متاثر تھے کہ انہوں نے ہماری دکان کا ایک حصہ بیچا اور یوسف کذاب کو ایک گاڑی خرید کر دی اور لاکھوں روپے نقد دیئے۔ زید حامد یوسف کذاب کا مقرب اوّل تھا اس لیے پیسوں کی وصولی وہ کرتا تھا۔ میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ زید زمان نے خود اپنی جیب سے ایک ہزار روپے بھی نہیں دیئے ہوں گے۔ یوسف کذاب کو جو رقم دی جاتی تھی اس کو مختلف وقتوں اور مواقع کے حساب سے کبھی تحفے کا نام دیا جاتا تھا اور کبھی نذر و نیاز کا۔ زید حامد نے مجھے یوسف کذاب کے نظریات پر مبنی پمفلٹ دیے اور مختلف مساجد کے باہر تقسیم کرنے کو کہا۔ ہمارا پورا گھرانا اس چکر میں پڑگیا تھا لیکن میرے بڑے بھائی رضوان طیب کے سوا سب یوسف کذاب اور زید زمان کے شر سے محفوظ رہے۔ میرا مولانا مودودیؒ کے لٹریچر کا اچھا خاصا مطالعہ تھا۔ یہ مطالعہ شاید اس فتنے سے بچنے کے لیے اللہ تعالیٰ نے مجھ سے کروایا تھا۔ مجھ سے کبھی بھی زید زمان اور یوسف کذاب کی باتیں اور اس کی شخصیت ہضم نہیں ہوئی۔ ایک دفعہ کسی کے گھر پر نمازکی امامت کرتے ہوئے یوسف کذاب کی کال آئی۔ وہ نماز چھوڑ کرکافی دیر تک موبائل پر باتیں کرتا رہا، سب نمازی ہاتھ باندھ کر اس کا انتظار کرتے رہے’ جب اس نے سکون سے بات مکمل کرلی تب آیا اور باقی نماز مکمل کی۔ اس کی جماعت میں خواتین اور حضرات ایک ہی صف میں کھڑے ہوتے تھے۔ یہ اپنی طرز کی مخلوط نمازیں ہوتی تھیں۔ میرے بھائی کو بھی بالآخر اس بات کا احساس ہوگیا کہ یہ سب کچھ غلط تھا۔ سوچ سوچ اُن کی دماغی حالت خراب ہوگئی۔ آج بھی وہ زید زمان اور یوسف کذاب کو گالیاں دیتے ہیں۔ ان کا علاج ذہنی امراض کے معالج ڈاکٹر مبین اختر کے پاس چل رہا ہے۔ ہم تو فرقہ باطنیہ کے دست و بازو بن بیٹھے تھے’ یہ تو اللہ کا کرم تھا کہ اس نے ہدایت دی۔ میری تمام مسلمانوں خصوصاً مذہبی فکر اور تحریکوں سے وابستہ لوگوں سے گزارش ہے کہ وہ اس فتنے کا ادراک کریں اور زید زمان کی صورت میں یوسف کذاب کی دوسری انٹری کو ناکام بنادیں تاکہ لوگ گمراہ نہ ہوں۔” سعد موٹن منصور طیب کے بڑے بھائی اور یوسف کذاب کے خاص مقرب رضوان طیب کا دوست تھا۔ علاقہ سوسائٹی سے تعلق رکھنے والا سعد شروع ہی سے مذہبی رجحان رکھتا تھا، اس لیے وہ رضوان طیب کے ذریعے اس فرقہ باطنیہ کے قریب آیا۔ اس کے ساتھ پانچ سال رہا لیکن اس کے دل نے کبھی اس فرقے کو دل سے تسلیم نہیں کیا’ بلکہ ان لوگوں کی عجیب و غریب حرکتوں کی وجہ سے بالآخر وہ اس فرقے سے الگ ہوگیا اور پھر اللہ نے اس کو اس فرقے کے خلاف کام کرنے کی توفیق دی۔ سعد موٹن کہتا ہے: “زید زمان سے میرا تعارف رضوان طیب نے کرایا تھا۔ یہ اُس زمانے کی بات ہے جب افغان جہاد کے آخری دن چل رہے تھے اور طالبان کابل کو فتح کرکے وہاں حکومت بنانے کی پوزیشن میں آگئے تھے۔ کراچی سے کچھ لوگ تیار ہوکر افغان جہاد میں حصہ لینے جارہے تھے۔ جب طالبان کی حکومت بنی تو کچھ لوگوں نے سوچا کہ کیوں نہ پاکستان میں بھی طالبان کی طرز پر خلافت قائم کی جائے۔ مذہبی سوچ رکھنے والوں کو اپنی طرف راغب کرنے کے لیے یہ کہنا ہی کافی تھا۔ اللہ کی راہ میں جان قربان کرنے سے زیادہ خوشی کی بات اور کیا ہوسکتی ہے! رضوان طیب کی اسلامک سینٹر کے پلیٹ فارم پر زید زمان سے ملاقات ہوئی۔ پھر یہ دنوں مسلم ایڈ کے لیے کام کرنے لگے اور میں بھی ان کے ساتھ مل گیا۔ مسلم ایڈ کا کارڈ آج بھی میرے پاس موجود ہے۔ میں ان کے ساتھ فنڈز اکٹھا کرتا تھا۔ ہم نے افغان جہاد کے حوالے سے ایک مووی “قصص الجہاد” کے نام سے تیار کی تھی۔ زید زمان اس کا ڈائریکٹر تھا۔ اس سی ڈی کی سیل کی ذمہ داری میری تھی۔ اس کے بعد زید زمان کی ملاقات یوسف کذاب سے ہوئی۔ یہ اس کو کراچی لے آیا۔ رضوان طیب، سہیل احمد اور عبدالواحد کراچی میں اس کے شروع کے ساتھیوں میں سے تھے۔ ان لوگوں نے خلافت کا آسرا دے کر کراچی سے ایک تحریک کا آغاز کیا اور جمعیت اور جماعت کے لوگوں کو ٹارگٹ بنایا۔ ہر آدمی کو اس کے رجحان کے حساب سے گھیرنے کی حکمت عملی وضع کی گئی۔ اگر کوئی جہاد سے متاثر تھا تو اس کو اس حوالے سے راغب کرنے کی کوشش کی۔ کوئی کسی اور فکر سے وابستہ تھا تو اس کو قریب لانے کے لیے اس فکر کے قصیدے پڑھے گئے۔ مذہب کو بنیاد بنایا گیا اور تاثر دیا گیا کہ ان کا مقصد خلافت کا قیام ہے۔ اس کے بعد کراچی میں نشستوں کا انعقاد شروع کیا گیا۔ یہ لوگ یوسف کذاب کو حضرت کہتے تھے۔ اس کو ان نشستوں میں بلایا جاتا تھا۔ اس نے شروع میں اپنے آپ کو عاشقِ رسول کہنا شروع کیا۔ پھر اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے نور کی باتیں کرنے لگا۔ پھر کہنے لگا کہ محمد کا نور حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک رہے گا۔ یہ نور کسی بشر کی صورت میں ظاہر ہوتا رہتا ہے جس کو دیکھنے کے لیے خاص بصیرت کی ضرورت ہوتی ہے جو ایک خاص طریقہ کار سے حاصل ہوتی ہے۔ اُس وقت تک اس نے یہ دعویٰ نہیں کیا تھا کہ موجودہ دور میں وہ بشر (نعوذباللہ) وہ خود ہے۔ جو لوگ اس کی گرفت میں آجاتے تھے اُن کے متعلق وہ کہتا تھا کہ یہ آگے درجے کے ہوگئے ہیں۔ وہ اس موقع پر کہا کرتا تھا: اقبال تیری دید کی آج عید ہوگئی کہ یار لباسِ بشر میں آن ملا وہ دعویٰ کرتا تھا کہ یہ اقبال کا غیر مطبوعہ شعر ہے جس پر حکومت ِہند نے پابندی عائد کردی تھی۔ ایک خاص وظیفے کے بعد یہ اپنے پیروکار کو بشارت دیتا تھا کہ محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے آپ کی عاجزی کو قبول فرمایا ہے، اس لیے وہ لباسِ بشر میں یعنی (نعوذباللہ) یوسف کذاب کی صورت میں حاضر ہے۔ اور اس طرح یہ خودکو محمد ظاہر کرتا تھا۔ مجھے کافی عرصے تک ذکر کرایا گیا۔ میرا تعلق چونکہ مذہبی گھرانے سے ہے اس لیے بہت ساری باتیں مجھ سے ہضم نہیں ہوتی تھیں۔ کئی مرتبہ مخلوط محفلوں پر اعتراض کی وجہ سے کہا گیا کہ اس کو نشستوں میں نہ لایا جائے۔ میرا دل کھٹکتا تھا کہ کہیں نہ کہیں گڑبڑ ہے۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ قرآن کے سات ترجمے اتارے گئے جس میں ایک صرف ان لوگوں کے پاس محفوظ ہے۔ جیسا کہ میں نے پہلے عرض کیا یوسف کذاب کے کام کے لیے پنڈی کے زید حامد اور کراچی کے رضوان طیب، سہیل احمد اور عبدالواحد کو خاص ذمہ داریاں سونپ دی گئی تھیں۔ ان کو (نعوذباللہ) صحابیوں کے درجوں سے نوازا گیا تھا۔ ان لوگوں کا اصل مقصد پیسے بٹورنا’ عقائد کو بگاڑنا اور مریدوں کو خواتین کی طرف راغب کرنا تھا۔ ہر محفل مخلوط ہوتی تھی۔ حتیٰ کہ نمازیں بھی مخلوط ہوتی تھیں۔ خواتین اور مردوں کو ایک مقام دیا جاتا تھا۔ایلیٹ گھرانوں کی خواتین ان کی طرف راغب ہوتی تھیں۔ان محفلوں میں عشق و محبت کی باتیں ہوتی تھیں، عشقیہ اشعار سنائے جاتے تھے۔ اکثریت ان لوگوں کی تھی جو صاحب ِمال اور صاحب ِاثر و رسوخ تھے۔ بڑے بڑے تاجر، فوج اور بیوروکریسی کے لوگ اس کے جال میں پھنس چکے تھے۔ بیعت کرنے والوں کو اہلِ بیت کہا جاتا تھا۔ یہ لوگ پابند ہوتے تھے کہ اپنے مال کا ایک حصہ جمع کرائےں۔ یوسف کذاب کی کراچی آمد پر “جشنِ آمد ِ حضرت” کے نام سے تقریب منعقد کی جاتی تھی۔ قیام و طعام کا اہتمام ہوتا تھا۔ قیمتی تحائف دینے پڑتے تھے۔ ایک خاص قیمت سے کم کے تحائف قبول نہیں کیے جاتے تھے۔ محفلوں میں عام لوگوں کو شرکت کی اجازت نہیں تھی۔ جو ان کے عقیدے سے اختلاف کرتا تھا وہ نقصان اُٹھاتا تھا۔ لوگ اس حد تک یوسف کذاب کے عشق میں مبتلا تھے کہ اپنی بیٹیاں اور بیویاں پیش کردی تھیں۔ تقریباً ڈھائی سو خواتین نے اپنے شوہروں سے طلاق لیے بغیر نئی شادیاں کرلیں۔ یوسف کذاب اپنے اہلِ بیت سے کہتا تھا کہ نکاح سے پہلے اپنی ہونے والی بیوی کو میرے پاس بھیجو۔ اس عمل کو معراج کے سفر کا نام دیا جاتا تھا۔ خواتین گھنٹوں اُس کے ساتھ خلوت میں رہتی تھیں۔ اگر کوئی ان بے ہودگیوں کو دیکھ کر انہیں غلط کہتا تو اس کا انجام برا ہوتا تھا۔1994ءمیں ایک نوجوان نے علی الاعلان یوسف کذاب کو برا بھلا کہا۔ اس کا قتل ہوا۔ اس قتل کو ڈکیتی کہا گیا۔ لیکن یہ ایک ایسی ڈکیتی تھی جس میں اس نوجوان کے پیسے چھینے گئے اور نہ ہی اس کی موٹر سائیکل۔ جب بیت المکرم مسجد میں اس کی نمازہ جنازہ پڑھی جارہی تھی اُس وقت یوسف کذاب ایک مقرب کی شادی میں شریک تھا۔ نوجوان لڑکے اور لڑکیاں اس فرقے کا ہدف ہوا کرتے تھے۔ میرے دل ودماغ نے کبھی اس کو قبول نہیں کیا، لیکن پھر بھی پانچ سال تک ان لوگوں کے ساتھ رہا۔ شاید ڈر کی وجہ سے کہ کہیں مارا نہ جاﺅں، یا پھر شاید اللہ نے اس لیے مجھے ان کے ساتھ رکھا تاکہ ان کو قریب سے دیکھوں اور معاشرے پر یہ سب کچھ واضح کردوں کہ یہ لوگ کون ہیں۔ میں نے مختلف مکاتب فکر کے علماءسے رابطہ کیا، سب نے ان لوگوں کو گمراہ کہا۔ آخر میں اس کے جرائم افشا ہوئے اور تحریک ختم نبوت نے یوسف کذاب کے خلاف کیس کیا۔ مقدمہ چلا’ اس مقدمے کے دوران یوسف کذاب کو بچانے کے لیے یہ زید حامد ہی دوڑ دھوپ کرتا رہا۔ کبھی بااثر لوگوں سے ملتا اور کبھی اخبارات میں خطوط لکھتا۔ یوسف کذاب کو عدالت نے سزائے موت سنائی، 13اگست 2000ءکو زید حامد نے روزنامہ ڈان میں ایک خط لکھا اور عدالت کے فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دیا۔ اس کی ضمانت کی کوششیں جاری تھیں کہ ایک قیدی نے اس کو موت کے گھاٹ اُتار دیا۔ یوسف کذاب کے ختم ہونے کے بعد زید زمان حامد غائب ہوگیا۔ اور پھر صرف زید حامد کے نام سے نمودار ہوا۔ اور پھر براس ٹیکس پروگرام میں سامنے آیا۔ آج اس کے ساتھیوں میں وہی لوگ شامل ہیں جو یوسف کذاب کے ساتھی تھے۔ آج انٹرنیٹ پر اس کو سپورٹ کرنے والے اور اس کی ویب سائٹ “براس ٹیکس” چلانے والے یہی لوگ ہیں۔ یہ بہت اچھی اچھی باتیں کرکے لوگوں کو راغب کررہا ہے۔ یوسف کذاب نے بھی یہی کیا تھا۔ کذاب نے اس کو اپنے صحابیوں میں ابوبکر کا درجہ دیا تھا۔ زید حامد کے اصل خیالات وہی ہےں۔ آج انٹرنیٹ اور ای امیل کے ذریعے جب اس سے یوسف کذاب سے تعلق اور اس کے موجودہ نظریات کے حوالے سے سوال کیا جاتا ہے تو یہ کوئی جواب دینے کے بجائے دھمکیوں پر اتر آتا ہے۔ اللہ توبہ کرنے والوں کی توبہ قبول فرماتا ہے۔ میں نے صدق دل سے توبہ کی اور پھر ان لوگوں کے خلاف کام کیا۔ اللہ ہمیں معاف کردے اور ان دجالوں کے فتنوں سے محفوظ فرمائے۔ میری آپ سے درخواست ہے کہ آپ میرے دوست رضوان طیب کے لیے دعا کریں کہ اللہ اس کی ذہنی حالت ٹھیک کردے اور اس کو معاف فرمائے۔ آمین” قارئین آپ نے منصور طیب اور سعد موٹن کی کہانی ان کی زبانی پڑھ لی۔ یہ لوگ آج بھی موجود ہیں۔ یوسف کذاب اور زید حامد کے ڈسے ہوئے اور بھی ہیں۔ موقع ملا تو ان کو بھی اس کالم کے ذریعے آپ سے مخاطب کرائیں گے۔ آپ کو ان سے کچھ پوچھنا ہو تو ای میل کرسکتے ہیں۔ بالمشافہ بھی مل سکتے ہیں۔ زید حامد کے یوسف کذاب سے تعلق کے ناقابل تردید شواہد بہت زیادہ ہےں۔ پھر کسی کالم میں لاہور کی عدالت میں دائر یوسف کذاب کے خلاف کیس کی سماعت کے اقتباسات درج کریں گے۔ اگر آپ اصل دیکھنا اور پڑھنا چاہتے ہیں تو اس کے لیے بھی رابطہ کرسکتے ہیں۔ اللہ ہم سب کو ہدایت دے اور دورِحاضر کے دجالی فتنوں سے بچائے۔ آمین
عبدالرحمان صاحب
آپ نے کافی محنت کی ہے ۔ اللہ جزائے خیر دے
زید حامد کے متعلق عنقریب بہت سے نئے انکشافات ابو سعد کے نئے کالم میں شائع ہوں گے۔ خدا را لوگوںکو اس فتنے کی حقیقت سے آگاہ کریں کہ یہ ہمارا فرض ہے۔
خان لالا جی
تبصرہ کا شکریہ
میں نے آپ کے نام کے ساتھ صاحب نہیں لکھا کیونکہ ہمارے علاقہ میں لالا بڑے بھائی کو مخاطب کرتے ہیں اور صرف لالا یا لالا جی کہتے ہیں ۔
سب جھوٹ صرف اللھ اور رسول سچ :neutral:
ٍفقیر مھمد صاحب
بلا شبہ شرف اللہ اور اسکے رسول ہی سچ ہیں ۔ میرے بلاگ پر آنے کا شکریہ
سلام
بہت معذرت کے ساتھ بھوپالی صاحب، پہلے تو مہنگے اور سستے اخبار کا فرق بیان کر دیں۔ اس کے بعد سستی اور مھنگی خبر کا فرق بھی۔
اور جہاں “محب وطن” کا لفظ ہو وہاں جزباتیات کے علاوہ اور کون سا انداز نمایاں ہو سکتا ہے۔ طنزیہ، مزاح یا اعتدال پسندی (کہ بقول عقلمندوں کہ کچھ تم سناوٰ اور کچھ ہم سنایئں)۔
تاریخ سے سبق سیکھنا عروج اور زوال کے اسباب کے ساتھ رومان پسندی نہیں۔ نصیحت ہے۔ قرآن میں بھی تاریخی حوالوں سے تنبیہ اور نصیحت بیان کی گئ ہیں۔
اس بلاگ میں جن عالم و فاضل لوگوں نے زید صاحب کی مخالفت میں بیان دئے ہیں۔ انھوں نہ کبھی مسلمہ اماّ کیلیے کبھی پہلے کبھی سوچا تھا؟ اگر سوچا تو فعل؟ جب کچھ نہیں کیا تو تنقید کا جواز؟
جہاں تک جمعیت کا تعلق ہے مودودی سے لیکر قاضی تک کے قول و فعل میں تضاد بلکل واضح ہے۔ اس وجہ سے آج تک انکو عوام میں کوئ پزیرائ نہ مل سکی۔ بلکہ اگر غور کیا جائے تو پاک و ہند میں فرقہ وارانہ فتنہ ان ہی کا پیدہ کردہ ہے۔ تاریخ سے بھی ظاھر ہے کہ پاکستان بننے کی سب سے زیادہ مخالفت بھی اسی جماعت نے کی تھی۔ تو فیاض صاحب کی لغویات تو ویسے بھی کسی دلیل سے عاری ہیں۔
ویسے بھی زید صاحب جس طرح کے صاف گو اور سچے انسان ہیں، اگر انکا تعلق یوسف سے ہو تا تو وہ کھلے عام اور سب کے سامنے ضرور قبول کر چکے ہوتے۔ صرف عبدالرحمن صاحب کو بذریعئہ ای-میل لکھ کر قبول نہ کر رہے ہوتے۔
برائے کرم اگر کوئی سچ بولنے جا رہا ہو تو اسکی راہ میں روڑے مت اٹکاؤ۔ خدا کیلیے اس امت کو متحد ہونے دو۔ ذاتیات اور مخالفت میں شیطان کے غلام نہ بنو تمھیں بھی اک دن اوپر جواب دینا ہے۔
زید صاحب کا جواب بھی پڑھ لیجئے
> From: info@brasstacks.biz
> To:
> Subject:
> Date: Tue, 7 Oct 2008 10:34:43 +0500
>
> you may send this to your friends:
>
>
> ******************
>
>
> My Dear Kamran,
>
> aa. This is Zaid Hamid here. lets get to the brasstacks !!
>
> We need to fear Allah and lets not make mockery of deen and Sharia.
> Sharia, Sunnat and Deen demands that I must wait until some critical
> sharia conditions are met. Burdon of proof is on accusers NOT on me.
>
> They have accused me of gravest of sins, called me a Kafir and Murtid,
> follower of false prophets, running cults, doing khiyanat in wealth of
> orphans and widows, working for secret services against the State, and
> sponsoring my own program on News1 through secret funding of dubious
> agencies. Also, being a fraud by pretending to be a doctor or Professor !
> http://www.dictatorshipwatch.com/modules.php?op=modload&name=News&file
> =article&sid=6156&mode=thread&order=0&thold=0
>
>
> I will respond to each one of them but Before any of the allegation is
> responded, Sharia demands that it MUST be established:
>
> That:
> a.. Who are the accusers ? Names, full details. Let us all see their
> faces and backgrounds. Let them take responsibility for their actions.
> b.. What is their credibility. ? Are they Fasiqs, qualified to be
> witnesses according to Sharia. ?
> c.. What is the evidence provided ? Does the evidence on all allegations
> qualify sharia and Islamic requirements or is it just Bohtan?
> d.. What punishment would be awarded to those who falsely accuse
> Muslims for Kufr and Khiyanat in baseless Bohtan.
> e.. Who would be the judge to decide on evidence produced. ?
>
> This MUST be established. These are serious Sharia requirements and
> CANNOT be avoided nor decided on e-mailing matches. If none of the
> above has been established, why and what do you want me to respond ??
> These are only evil whispers of satanic shadows on the wall ???
>
>
> Do we know the accusers or are they still shadows ???? — Who are
> they and what are their credentials ?? Have you met any of the
> accusers or know them ?? Have they asked me and seeked clarification before making their Bohtan ??
> Are they willing to come and confront me face to face with proof on
> all bohtans ??? What they are doing, is it according to sunnah and Shariat ??
>
>
> There are four names we see: None of them know me despite their claims.
> a.. Abid Ullah Jan — He has never met me in life.
> b.. Tahir (reporter) He too has never met me in life.
> c.. N. Shahrukh, (who does not expose his name or address)
> whom I sure I have never met in life or at least never in last 17
> years since I left Karachi.
> d.. Faiyyaz Alam, whom I am also sure have never met in life
> or at least never in the last 17 years.
> How on earth can they claim to know me ?????
>
> What evidence they have provided? What they present as evidence is
> only fabricated allegation of Kufr and Khiyanat not proof !!! Each and
> every allegation must be backed by proof. Quran, Sunnat, Sharia, law
> and truth demands it. They respond allegation with more allegation
> which even you seem to believe.
>
> Lastly, it should be decided what should be the punishment of the
> above four accusers if they fail to provide the Sharia complient proof
> for all their allegations ??? All allegations !!!
>
> You ask them to conply on all five conditions and I shall respond on
> each one, else Allah deen and sharia reject them as bohtan, nonsence and lies.
>
> my dear brother, It would have been dignified and honorable if you had
> asked them for proof and checked their credentials before making
> global broadcasts and doubting my Imaan and love for Rasul Allah
> (saw). Calling a Muslim as Kafir is greatest of sins. Be very very careful here. Don’t spread rumors.
>
> It would have been even more dignified if you had come to me and asked
> for clarification first rather than making global broadcast of rumors
> creating doubts in the hearts and minds of innocent people. May Allah
> forgive you and forgive us all. Read what Allah has to say in the
> attached file. There is great wisdom and khair in it.
>
> Alhamdolillah, all my life has been spent keeping my self under tests
> and trials of fire, sword and blood for the sake of this deen and in
> love of Rasul Allah. My prayers, sacrifices, my life and death remains
> for Allah and His Prophet (saw). My izzat, life, parents, property,
> family and even good deeds are sacrificed on Rasul Allah. I am not mad
> to follow false prophets after Sayyadna Rasul Allah (saw).
>
> Those with noor can see the rehma, baraka and khair from Allah and
> love of Rasul Allah in the life and mission of this humble faqeer.
> Hasbu nallah Naimul Wakeel, Naimul Maula wa naimun Naseer.
>
> Curse of Allah, angels and momineen be on those liars who claim to be
> “prophets” after Sayyadna Khatim un Nabiyyeen Muhemmed Rasul Allah (saw).
> Also cursed and Rajeem are those who follow such liar “prophets” and
> also cursed are those who accuse innocent Muslims of following such
> false prophets. There will be no prophet after our beloved Sayyadna,
> Maulana, Muhemmed Rasul Allah, Rehmat ul lil Aalimeen (saw). May Allah
> keep us in His serene and blessed noor and Rehma in dunya and Akhira.
>
> May Allah be my witness in both the worlds and forgive our errors,
> mistakes and sins and have mercy on Ummat e Sayyadna Rasul Allah
> (saw). Indeed Allah is the best of Protector and most merciful on His slaves.
>
> We will inshallah, will not be distracted and continue our mission of
> protecting Pakistan against all threats, internal and external.
>
> Wassalam and duago
>
>
>
>
>
> Zaid Hamid
>
رضوان شیخ صاحب
آپ کا تبصرہ اور آپ کا نقل کیا ہوا زید حامد صاحب سے منسوب خط میں نے پڑھ لئے ۔ آپ نے زید حامد صاحب کے بیان کردہ فلسفہ کی خود ہی خلاف ورزی کرتے ہوئے مودودی صاحب سے قاضی حسین احمد صاحب تک سب کے قول و فعل میں تضاد بتا دیا گویا انہیں منافق قرار دیا اور ان ہی کو پاک و ہند میں فتنہ پھیلانے کا ذمہ دار قرار دے دیا ۔
میں نہیں جانتا کہ آپ کی عمر کیا ہے لیکن آپ کے اس دعوی سے ظاہر ہوتا ہے کہ آپ اسی سال کے ہوں گے ۔ اور اگر آپ کی عمر ستر سال سے کم ہے تو آپ کی بہتان تراشی ثابت ہو جاتی ہے ۔ آپ اپنے قومی شناختی کارڈ کی سکینڈ کاپی ارسال کیجئے جس سے اگر آپ کی عمر ستر سال سے زیادہ ثابت ہو گئی تو آپ سے مزید بات ہو سکتی ہے۔
آپ نے بغیر ثیوت کے تبصرہ لکھنے والے سب حضرات کو غلط قرار دیا ہے اور اپنے سچ کو ثابت کرنے کیلئے صرف زید حامد صاضب کا خط پیش کیا ہے جس کے مندرجات سے عام طور پر کوئی اختلاف نہیں کرے گا کیونکہ اس سے ثابت نہیں ہوتا کہ جو زید حامد صاحب براس ٹیکس میں کہتے ہیں وہ درست ہے اور جو ان پر دوسروں نے الزام لگائے ہیں وہ غلط ہیں
سلام بھوپالی صاحب
معاف کیجئے گا یہ ستر اور اسی سال سے بہتان تراشی کا کیا تعلق :smile: اور بلفرض میری عمر ستر یا اسی سال کی بھی ہے تو آپ کیا سمجھتے ہیں کہ انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں میں کتنے لوگ کمپیٹور کی واقفیت رکھتے ہوں گے اس عمر میں۔
لازمٌ پچاس سے تو کم ہی ہوں گے۔ یہ شرط کیوںآپ نے ان صاحبان کیلئے نہ رکھی جو زید صاحب کے خلاف لکھ رہے ہیں۔
مولانہ مودودی کے متعلق تو صرف پڑھتا ہی رہا ہوں مختلف اداریہ اور کتب میں ماسوائے انکی اپنی جماعت کے حوالے سے انکی تعریف کی جاتی رہی ہے۔
باقئ علماء مولانا فضل الرحمن اورقاضی صاحب و غیرہ جیسے لیڈرز کا حال تو ہمارے سامنے ہی ہے
اور جہاں تک زید صاحب کے جواب کا تعلق ہے وہ سادہ سا ہے جن حضرات کو جانتے تک نہیں تو انکے بیان میں کیا صداقت رہے جاتی ہے؟ اور کیا وہ انکی فضولیات کے ایک ایک کر کے جواب دیں گے؟ اگر میں آپ پر کوئی الزام لگاؤں تو تو آپ کا کیا جواب ہو گا؟ “کہ آپ پر لگایا گیا الزام صرف ایک بہتان ہے اور آپ مجھے نہیں جانتے”۔
عقل کی با ت تو یہ ہے کہ جسکا مذہب پر تھوڑا بھی مطالعہ ہو۔ وہ فتنہ اور گمراہ کن عقیدوں سے خود ہی اجتناب کرے گا۔ پھر کیسے زید صاحب ایک گمراہ عقیدے کی پیروی اور تبلیغ شروع کر دیں گے۔ جنکا ان اسلامی تاریخ کے ساتھ دور حاضر پر انتہائی گہرا مطالعہ رہا ہے۔ پھر انکی گفتگو کا سارا محور پاکستان اور اسلام ہے، مسلمانوں کے خلاف تسلسل سے ہونے والے سازشوں کا علم دے رہے ہیں۔اگر کبھی انھوں نے کوئی گمراہ کن عقیدہ کی تبلیغ کی تو ہر مسلمان لازمِٕ” اسکی مخالفت بھی کرے گا اور تصیح بھی۔ آپ لوگ کیوں بلاوجہ ان کے خلاف ایک مہم چلا رکھی ہے۔
فطری بات ہے کہ آپ کسی سے بھی کتنے ہی متاثر کیوں نہ ہو لیکن اگر وہ اسلام کی بنیادی تعلیمات کو رد کرے تو کون ذی ہوش مسلمان اسکی پیروی کرے گا؟ ماسوائے جاہل اور بدعقیدہ انسان کے! وہ بھی جو اسلام کے بنیادی اراکان سے نابلد ہو جسکا اپنا مذہب سے کبھی واسطہ ہی نہ رہا ہو۔ جیسے کہ گوہر شاہی یا مرزا غلام احمد قادیانی وغیرہ۔
جہاں تک ان کے آئ ایس آئ کے ماؤتھ پیس ہونے کا تعلق ہے تو پاک سرزمین کی حفاظت کی زمہ دار کون ہے؟ لہذا جب بھی پاکستان کی بقاء کا تذکرہ ہوگا ان اشخاص اور اداروں کا بھی تذکرہ آئے گا۔ تو وہ راٰ اور موساد کی تعریف تو کرنے سے رہے۔
اگر میر جعفر، میر صادق، الہی بخش جیسے ننگ ملت کی خیر خبر رکھی جا رہی ہوتی تو تاریخ کا رخ شائد کچھ اور ہی ہوتا۔
میری آپ سب حضرات سے گزارش ہے کہ برائے مھربانی، عقل سے کام لیں اپنے دل کو کشادہ کریں اسلام اور مسلمانوں کی اہمیت اور تاریخ کو سمجھنے کی کوشش کریں۔
اللہ ہم سب کو ہدایت نصیب فرمائے۔
رضوان شیخ شاحب
آپ کی طویل تحریر ن بجائے وضاحت کے آپ کا مسلک اور دھندلا دیا ہے ۔ اب آپ فضل الرحمان صاحب کو بھی بیچ میں لے آئے ہیں ۔ اس کے بعد کسی اور کو لے آئیں گے تو کیا اس سےثابت ہو جائے گا کہ جو کچھ تبصرہ کرنے والوں نے اعلی عدالت کے ایک فیصلے اور زید حامد صاحب کے اپنے بیانات کے حوالے سے لکھا ہے وہ سب غلط ہے یا جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں وہ حقیقت ہے ۔
آپ نے ہند و پاکستان کی بات کی تھی جبکہ میرا خیال ہے آپ پاکستان بننے سے بہت بعد میں پیدا ہوئے ہوں گے تو آپ کی وہ بات کیسے مستند ہو سکتی ہے جو اس وقت کے ارے میں ہوں جب آپ پیدا بھی نہیں ہوئے تھے ۔ آپ کی اطلاّع کیلئے لکھ رہا ہوں کہ میرے نام کا آخری حرف بھوپال ہے جبکہ آپ آنھیں بند کر کے بھوپالی لکھتے جا رہے ہیں ۔ دوسرے جب پاکستان بنا اس وقت میری عمر دس سال تھی ۔
بجائے اپنا مزید وقت ضائع کرنے کے آپ صرف اس کا ثبوت مہیا کر دیں کہ تبصرہ کنے والوں نے جو حوالے دیئے ہیں وہ بے بنیاد ہیں
افتخار بھوپال صاحب
الحمدللہ میں ایک خالص مسلمان ہوں، اللہ اور رسولٌ دق دل سے یقین رکھتا ہوں۔خلفائے راشدین اور تمام بذرگانِ دین سے عقیدت رکھتا ہوں۔ حیدرآباد سے میرا تعلق ہے۔
میرا ثبوت تو زید صاحب کی میل ہی ہے۔ جس میں انھوں نے ان صاحبان کو پہچانے سے انکار ہی کر دیا۔اور اس دعویٰ کو بہتان قرار دیا ہے۔زید صاحب کو میں میڈیا ان کی پروفائل کے حوالے سے جا ننے لگا ہوں۔بحیثیتِ مسلمان ان کے خیلات سےمتاثر ہو کران کی حمایت کر رہا ہوں۔
میرا التماس صرف اتنا ہے کہ بجائے زید حامد کےخلاف کچھ کہنے اور لکھنے کے آپ حضرات اپنا علم، تجربہ اور تماترکاوشیں اسلام کے احیاء اور بقا کیلئے اور تمام تر توانائ مسلمانوں کے دشمنوں کی افواہوں اور پیدہ کردہ غلط فہمیوں کے مقابلے کیلیے خرچ کریں۔اسی میں ہم سب کی بھلائ ہے۔یہ ہمارے آپس کے مسائل ہیں ان کو بعد میں بھی سلجھایا جا سکتا ہے۔
خدارا حسد اور کدورت کے باعث لوگوں کو وسوسوں میں مت مبتلا کریں۔
جن حضرات نے تبصرہ کیئے ہیں۔ ان کے پاس کیا ثبوت ہیں کہ یہ وہی” زید زمان ” جسکا تعلق یوسف کذاب سے تھا؟ اور آپ کی ان حضرات پر یقین کرنے کی وجہ۔اور ان بے دلیل بیانات پر کیوں کر اعتبار کیا جائے؟
آپ کا اسرایئل کے بارے میں آرٹیکل پڑھا۔ یقینا” مجھ ناچیز کی معلومات میں اضافہ ہوا۔اور خاص طور پر اپنے حلقئہ احباب کے ان نافہم لوگوں میں جو اسریئل کو تسلیم کرنے کے حق میں ہیں۔آپ کی ویب سائٹ کا حوالہ دیا ہے۔ اللہ تعلیٰ آپ کو جزائے خیر عطا فرمائے۔
رضوان شیخ صاحب
آپ تبصروں کو پڑھنے کے بعد میری تحریر کو بھول گئے ہیں اور تبصرے پر تبصرہ کئے جا رہے ہیں جس سے کچھ حاصل نہیں ہو رہا ۔
آپ میری تحریر پڑھ کر اس پر تبصرہ کیجئے ۔ میں نے زید حامد صاحب کے مذہب یا مسلک کے متعلق کچھ نہیں لکھا
رہی یہ بات کہ تبصرہ کرنے والوں کی سچائی کا کیا ثبوت ہے تو محترم انہوں نے اپنے پاس سے کم ہی لکھا ہے باقی وہ کچھ نقل کیا ہے جو مختلف ڈاکومنٹس میں بطور ثبوت موجود ہے ۔
اجمل صاحب
زید حامد کے ساتھی ان کے کلاف الزامات لو لغو قرار دیتے ہین اور فرماتے ہیں،ان کو چھوڑ کر آج کی باتیں سنی جائیں۔مگر حقائق بہت بھیانک ہیں۔یوسف کذاب کی وہ تقریر ج میں اس نے بیت الرضا لاہور میں “ورلڈ اسمبلی” نامی ایک نام نہاد عالمی اجلاس میں زید زمان اور عبدالواحد نامی دو حضرات کو صحابی کا اعلان کر کے بلایا اور ان دونوں جاہلوں نے یوسف کذاب کی تعریفیں کیں۔تازہ بات یہ ہے کہ وہ تقریر مین نے آج ہی سنی ہے۔سارے حقائق کے بعد اب معاملہ عین الیقین سے حقالیقین تک پہنچ چکا ہے۔زید اور سک ساتھیون کے جھوٹ ،جو ہر مرحلہ اور ہر موقع پر بدلتے ہیں،اب صاف جھوٹ کے سوا کچھ نہیں۔اب اس دھوکہ بازون کا آخر ہے۔
سلام بھوپالی صاحب اور صاحبان
ان جاہلوں کا تو کچھ نہیں کہا جا سکتا، پرآپ لوگوں کی جاہلت کا ضرور ہم سب کو یقین ہوتا جا رہا ہے۔ :smile:
رضوان صاحب کی جانب سے جاہلیت کے خطاب پر میں ان کا شکر گذار ہوں۔وہ علمی بنیاد کی بجائے شائد ٹی وی پر تاچر پر یقین رکھتے ہیں۔اللہ انہیں ایسے لوگوں سے محفوط رکھے۔وہ اندھے کنویں مین چھلانگ لگائیں تو ہم آخری وقت تک انہیں روکنے کی کوشش کریں گے۔
ملاحظہ کیجئیے
http://www.esnips.com/web/completebookfitnayousufkazzabzaidzaman
فتنہ ء یوسف کذاب پر یہ مکمل دستاویز ہے جو 1997 مین شائع ہوئی تھی۔ اس کی اہمیت اب بھی ہے۔ بالخصوس زید زمان حامد کے ہاتھوں دوبارہ اس گروہ کی تنظیم اور ٹی وی ون پر اسلامی اسکالر اور ماہر دفاع کے طور پر طاقتور حلقوں کے تعاون سے ابھارے جانے کے بعد اس کی اہمیت بڑھ گئی ہے۔
حقائق ہوش ربا ہیں۔کم از کم میں تو اب زید حامد صاحب کا پرہگرام سے متاثر ہونے والا نہیں۔انہیں پروموٹ کرنے والے حقائق تو جان لیتے۔ظفر اقبال صاحب بھی اگر پہلے ہی ان حقائق کو منظرِ عام پر لے آتے تو اچھا ہوتا۔خواہ مخواہ بحث طول نہ پکڑتی۔ایسے افراد کا نفسیاتی تضزیہ بھی ہونا چاہیے۔ یہ میرا مخلصانہ مشورہ ہے۔
سلام صاحبان
کم از کم سلام یا اسکا جواب ضرور لکھ دیا کریں۔
ظفر صاحب آپ کے دئیے گئے لنک میں سے صفاحات کا مطالعئہ کیا۔مگر اس سے یہ معلوم نہیں پڑتا کہ زید حامد کا تعلق یو سف کذاب سے ہے یا تھا ما سوا ئے ایک دو جگہ نام انڈر لائن کیا گیا ہے- بلکہ یہ پڑھ کر معلوم پڑتا ہے کہ آپ لوگ خود یہود لابی کہ زیر اثر زید حامد کیخلاف ایک منظم مہم چلانا چاہتے ہیں۔ تا کہ ایک ایسی آواز جس نے مسلمانوں کو متحد کرنے کیلئیے آواز اٹھائی ہے جو مسلمانوں کو تاریخ کے حوالے سے آشنا کر رہا ہے اسکو دبا سکیں۔
اور جہاں تک متاثر ہونے کا تعلق ہے حمزہ صاحب، ضروری نہیں کہ ہر کوئی متاثر ہو، پر جو سچ کہے جو حق بات کرے اسکی مخالفت بھی گناہ ہے۔میرا زید حامد سے کوئی رشتہ نہیں مگر اس بلاگ پر اپنا اور آپ کا قیمتی وقت ذائع کرنے کا مقصد صرف اتنا ہے کہ بلاوجہ ذاتی مفاد اور مخالفت میں مسلمانوں میں وسوسے، شکوک و شہبات پیدا نہ کریں، اگر وہ سچ بول رہا ہے تو بولنے دیں۔ اسکی حمایت کرنے کی ہمت نہیں ہے تو کم از کم بہتان طرازی بھی نہ کریں۔
حمزہ صاحب نفسیات تھوڑا پچیدہ مسئلہ ہے۔کسی کو بھی یہ مشورہ دینے سے پہلے اپنا تجزیہ نفسی کرالینا زیادہ مناسب رہے گا۔ :smile:
اور جہاں تک قاضی صاحب نے ںوازشریف کے ساتھ ملکر جہاد کے نام پر سعودی حکومت سے جسطرح پیسہ کھایا ہے آپ حضرات وہ معاملات منظر عام پر کیوں نہیں لاتے۔ تاجٍ برطانیہ نے مولانا مودودی کو کتابوں کے نام پر شر و فتنہ پہلانے کیلئے پیسہ خرچ کیا اس کے بعد ساری مودوی کو تمام کتابوں کو راستے میں ہی سمند برد کردیا گیا۔ اور پھر حکومت وقت نے اسکو گرفتار کیا بعد میں سامراجی طاقتوں کی مداخلت پر مودودی کو رہا کیا گیا۔ یہ اسکینڈل پر آپ نے کبھی لکھنے کی جسارت کی؟
آج کے نوجوان اور پڑھے لکھے طبقہ میں سچ اور جھوٹ پہچانے کا وصف ہے۔ آپ لوگوں کے ان گھٹیا اور اوچھے ہتھکنڈوں سے نہ سچ بدلے گا نہ ذہن۔
وسلام
رضوان شیخ صاحب
و علیکم السلام ۔ ذاتیات سے پرہیز کیجئے ۔ نوازش ہو کی
رضوان صاحب
زید صاحب کے خلاف یہ سازش کیا 1997 میں ہی تیار کرنا شروع کر دی گئی تھی؟جو اب 2008 میں استعمال ہو رہی ہے۔عقل کا استعمال کوئی مشکل کام نہیں۔ صرم بیس صفحات پر 1997 میں لکھی گئی کتاب میں یوسف کذاب کے ساتھ تعلق کے ثبوت کے لئے ناکافی ہو گی مگر زید حاند صاحب خوب جانتے ہیں کہ یہ صاحب وہی ہیں۔آپ خود فراموشی اور جماعت والوں کے ساتھ دشمنی نمٹائیے۔جہاد کے نام پر کمانے والوں اور جانیں لٹانیں والوں میں فرق سے آپ بھی واقف ہیں۔نواز شریف الزامات سے اپنے آپ کو بری قعاع دیتے ہیں۔آپ کوئی ثبوت رکھتے ہیں تو قاضی صاحب کو بتائیےگا۔
اسلام و علیکم
ناراض دوستوں :smile:
بالفرض یوسف کی کتاب میں نام “زید زمان” کی جگہ “رضوان شیخ” ہوتا تو یقیناً میرا تعلق آپ یوسف کذاب سے جوڑ چکے ہوتے۔
جہاں تک بات ہے یوسف کی تو بھائی میرے خیال سے صرف بیوقوف ہی اس کے تقلید کر سکتے ہیں۔ کم از کم کوئی ایسا آدمی جس کو ذرا سا علم اور عقل ہے وہ یوسف کی اندھی تقلید نہیں کرے گا۔
اور زید حامد کہیں سے بیوقوف اور جاہل نہیں لگتے اور ان کی علمیت کا اندازہ آپ کو ہو ہی چکا ہو گا۔اگر آپ نے ان کے چند پروگرامز کو ملاحظہ کیا ہو۔ خاص طور پر “اکانمک ٹیرارزم” یا “ہندو زائنزم”۔ آگر آپ نے ان کے یہ پروگرام نہیں دیکھے پھر مجھے آپ کی دانش پر شبہہ کرنے کا حق حاصل ہونا چاہیے۔ :smile:
اب بات آتی ہے نواز اور قاضی کی تو جناب سب سے حاضر مثال “رحمت شاہ آفریدی” کی ہے۔ جن کے انٹرویوز مختلف ٹی وی چینل پر پیش کیئے جا چکے ہیں۔ اور یو ٹیوب پر بھی باآثانی دستیاب ہیں۔
http://www.dailytimes.com.pk/default.asp?page=2007%5C01%5C12%5Cstory_12-1-2007_pg7_31
http://thepathans.blogspot.com/2008/08/nawaz-sharifs-corruption-shocking.html
یوسف کذاب کے کیس کا فیصلہ نامی انگریزی کتاب کا دیباچہ اسماعیل قریشی ایڈووکیٹ نے لکھا۔یہ کتاب بھی 2000 مین شائع ہوئی۔دیباچہ کا اردو ترجمہ ملاحظہ کیجیئے۔زید حامد صاحب اس میں بھی موجود۔۔۔یاد رہے 2000 سے
http://www.jasarat.com/2008/11/21/columns/details/03.gif
اجمل صاحب
آپ رضوان شیخ صاحب کو جتنا بھی کہیں وہ اب موضوع کی بجائے ادھر ادھر، نواز شریف قاضی حسین احمد،مولانا مودودی،عمران خان ،وغیرہ کرتے رہیں گےان کا کچھ پرانا ادھار لگتا ہے۔ بات اب چونکہ واضح ہو گئی ہے اسلئے اب زید صاحب کے پاس اور ان کے حامیوں کے پاس صرف یہی دلیل رہ گئی ہے کہ ہم اب تو صرف پاکستاناور ملت اسلامیہ کے دفاع کی بات کر رہے ہیں اس لئیے ہمارے “صحابی” ہونے کی باتیں نہ کی جائیں۔
رضوان صاحب خدا کا خوف کریں۔ کل مرنا بھی ہے۔زید کام نہیں آئے گا۔ یہ مجہول 1997 مین بیت رضا میں یوسف کے منہ سے اپنے آپ کو “صحابی” کا اعلان سن کر بھی ہوش میں نہ آیا اور جوابی تقریر میں یوسف کا آسمان تک پہنچا دیا۔زید کو نوکری کرنے دیجئے۔آپ اس کے ماضی کی وکالت اندھیرے میں کر کے صرف رسوائی اور گناہ کمائیں گے۔ کیا کورٹ کا فیصلہ جس میں زید کا نام موجود ہے۔وہ بھ آہ کو مطمئن کرنے کو ناکافی ہے؟ تو کیا ٹائم مشین سے آپ کو بیت رضا 1997 پہنچا کر وہ تقریر سنائی جائے؟؟
کسی کی حمائت میںتعصب کی حد ہوتی ہے۔گمراہی کا کہاں تک ساتھ دیں گے
اب مین سمجھا کہ رضوان شیخ صاحب اور اس طرح کے لوگ آج کل ہر سوال کے جواب میں قاضی حسین احمد صاحب کا نام کیوں لے رہے ہیں۔حالانکہ موجودہ بحچ سے ان کا کیا تعلق؟
ذرا مطالع فرمائیے
http://www.jasarat.com/2008/11/22/columns/details/02.gif
چلئے صاحب جن کو یوسف صاحب کی آواز سنے بغیر یقین نہیں آ رہا تھا کہ وہ اپنے ساتھیوں(زید حامد) وغیرہ کو صحابی کہتا تھا۔اب اس کی اور زید حامد کی تقریر سن لیں ۔ جو فروری 1997 میں بیت رضا لاہور میں نام نہاد “ورلڈ اسمبلی” بلا کر کی گئی۔یوسٍف کذاب نے زید زمان حامد کو صحابی کہہ کر بلایا اور زید بے غیرتی کی آخری حدوں کو چھو کر یوسف علی کی تعریفیں کرتا رہا۔ یہ تقریر سیشن کورٹ لاہور میں سنی اور جرح کی گئی اور کورٹ ریکارڈ میں محفوظ ہے۔
اب سنیے پہلے یوسف علی کو،پھر عبدالواحد کو اور پھر زید زمان کو ۔
انا للہ وانا الیہ راجعون
Here is the audio recording of the speech of Yousuf Kazzab and Zaid Zaman Hamid delivered in a “world assembly” held at “bait e raza” Lahore in February 1997.yousuf announces Zaid Zaman(ZZ Hamid) as “Sahabi”. Zaid Zaman Hamid in response praises him.
The audio was presented and testified in session court Lahore
http://www.esnips.com/web/audiospeachbaiterazayousufaliandzaidzaman
اسلامآباد آبزرور کی آبزرویشن
ملاحظہ فرمائیے
Earlier we have been discussing here
about the private TV show ‘Brasstacks’ by Zaid Hamid or Zaid Zaman Hamid in two topics “Zaid Hamid Responds” and Brasstacks, Zahid Hamid: A fake Khalipha II?.
There has been a lengthy debate on issue and both side including his employee and aide Kashif Sheraz, presented their view far and against Zaid Hamid. None of the views were censored or deleted in order to provide an equal opportunity to both sides. We have also contacted Mr. Zaid Himd and requested to respond to these allegations against him; his e mail response (posted in Zaid Hamid Responds) was nothing more then irrelevant and swears against people who exposed him initially.
Some members have already posted ‘Court Judgments’, ‘References from Books’ and ‘evidence of people’ who were misguided by Yousaf Kazab’s cult, each associating Zaid Zaman Hamid to be Khalifah and Sahabi of fake Prophet. Also his nominated Khalifah and present head of the cult.
However an audio tape of Kazab Yousaf which was presented in court which sentenced Kazb to death, in which he claimed himself to be ‘Prophet’ and Zaid Hamid as his ‘Sahabi’ remained unavailable. The supporters of Zaid Hamid were insisting that no such tape exists.
Today a member of this blog Mr. Ahmad Hamza has posted the much sought tape.
The link states:
“Here is the Evidence about Zaid Zaman Hamid’s murshid yousuf kazzab.A speach delievered in ‘Bait e Raza Lahore’ in a so called world assembly. Yousuf kazzab announces Zaid Zaman Bamid of Brasstacks as his “sahabi” and Zaid Zaman praises Yusuf in response”.
Apart from claiming to be a fake prophet, the Yousaf kazab Cult is believed to be involved in;
1. Recruting educated female members and raping them,
2. Preaching his followers to present their wife to Yousaf Kazab and his associates,
3. Sex with ‘female followers’ of well to do educated families and later blackmailing them;
4. Extorttion of moeny under religious and emotional expliotation;
5. A father of a girl from a well known ‘Induatrialist’ family filed a suit in family court Karachi to get divorce for his daughter who was ‘presented’ to Kazab yousaf by her misguided follower, as close associate of Zaid Hamid and Kazab Yousaf. That too is part of court record and details published in a book ‘Fitna Yousaf Kazab’.
Similarly, several controversies surrounds Mr. Zaid Hamid and his speehes, specially when he started a campaign against Banking System in Pakistan at a time when Pakistan was facing financial difficulities. Critics cliam that he presents distorted facts from Islamic History and use to mix cheap idealism to attract semi-litrate crowd, espacially females. Some even claim that he is ‘forwarding’ the ‘mission‘ of his ‘prophet’ in wake of recruting youth and a Jihadi group to become a ‘Khalifah’.
Some people accuse him as a CIA agent who is trying to radiclise and divide the educated youth which played a decisive role in struggle against American backed dirtator Pervez Musharraf and for restoration of Judiciary. Others claim that he is wroking on American agenda to bring down Pakistan’s economy and develop a distrust of investors on Banking System and push in an economic squeez. His sponsors and clients are mostly American Corportes and Oil Companies according his website these corporates mostly sponsor overseas assets of CIA, although aparently he speaks agsinst CIA and USA but still gets finaces from same sources. Some even see him as developing a new ‘Jihadi Group’ of educated youth from middle class families.
According to his own website he claims to be;
1. Participated in CIA backed Afghan war against Soviet Union for six years on frontline;
2. To be a close associate of top Talban leadership and Osama Bin Ladens metor,
3. To be a ’security expert for several ‘Multinational Companies’
4. A support fo former Dictator and a critic of democracy and advocating for ‘Khilafat’;
The ‘Hate speech’ is the last thing our society needs at this point of time when we are facing worst kind of religious extremism and sucide attacks. But if a person spreading such hatred is also associated with a false prophet and his nominee, then he needs to be questioned.
I think this tape would be helpful for both sides to decide, as Zaid Hamid himself has chosen to keep silent on issue rather he is breeding further controversies with his speeches. If, it was a matter of an ‘individual’ and his personal beliefs, it would not have been of any importance for others.
However, as Mr. Zaid Hamid has chosen to be a public figure, it is right of every one to have knowledge of his past, his future plans and ideology behind his sermons.
As Mr. Zaid Hamid is not willing to clarify his position on these isuues, readers can make their minds based of discussion in these topics and after listening the speech in this audio recording, which is said to be part of court record.
Here is the Audio
You can also follow this link:
http://www.esnips.com/doc/9ea006f1-fa0e-41d5-a6ea-185ec9e68bf0/yousuf-kazzab
حقیقت یہ ہے کہ زید حامد کا سحر سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ ٹی وی چینلز پر بہت اچھی گفتگو کرتے ہیں‘ ایسی گفتگو کہ دین دار طبقہ کہہ اٹھے کہ یہ تو اس کے دل کی آواز ہے۔ زبان کا ایسا ہی کمال ”جاہل آن لائن“ میں بھی نظر آتا ہے۔ خطابت کے زور پر ذہنوں کو مسحور کرنا کوئی نئی بات نہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر فیاض عالم کا‘ جنہوں نے انکشاف کیا کہ زید حامد جھوٹے نبی یوسف کذاب کے خلیفہ تھے۔ لیکن شاید جسارت کے کئی قارئین نے اس پر توجہ نہیں دی۔ یوسف کذاب کا دعویٰ ¿ نبوت اور اس کا انجام زیادہ پرانی بات نہیں۔ اسے لاہور کی عدالت نے سزائے موت دی تھی اور زید حامد نے نہ صرف فیصلے کی مخالفت کی بلکہ اس کی ضمانت کی کوشش بھی کرتے رہے‘ مگر اسے کسی غیرت مند نے جیل میں ہی موت کے گھاٹ اتار دیا۔ زید حامد نے جھوٹے نبی کی اطاعت سے توبہ کا اعلان نہیں کیا۔ وہ توبہ کرلیں تو ہمارے سر آنکھوں پر، لیکن تب تک اُن سے متاثر ہونے والے ان کا پس منظر اپنے ذہن میں رکھیں۔ یوسف کذاب کون تھا، یادداشت تازہ کرنے کے لیے اس پر چلنے والے مقدمے کی تھوڑی سی روداد بیان کرنا مناسب ہوگا تاکہ زید حامد کا پس منظر بھی تھوڑا سا سامنے آجائے۔ سیشن جج لاہور کی عدالت میں چلنے والے اس اہم مقدمے کی پوری تفصیل ایک کتابی شکل میں شائع ہوچکی ہے جس کا عنوان ہے:”Judgment of yousuf kazzab blasphemy case” اسے جناب ارشد قریشی نے مرتب کیا ہے اور اس کاپیش لفظ سپریم کورٹ کے سینئر ایڈووکیٹ محمد اسماعیل قریشی نے لکھا ہے۔ قریشی صاحب ہی نے یوسف کذاب کے خلاف مقدمہ کی پیروی کی تھی جس کے نتیجے میں 5 اگست 2000ءکو جج میاں محمد جہانگیر نے مجرم کذاب کو موت کی سزا سنائی۔ اس فیصلے کو انہی زید حامد نے انصاف کا قتل قرار دیا۔ ان کے خیال میں توہینِ رسالت کا مرتکب اور خود نبوت کا دعویدار، اپنے دور کا کذاب ِعظیم ایک معزز صوفی اسکالر تھا۔ اب بھی وقت ہے کہ زید حامد یوسف کذاب سے برا¿ت کا اعلان کریں، جس نے بے شمار لوگوں کو اپنی خطابت کے سحر سے گمراہ کیا۔ اب آپ محمد اسماعیل قریشی کے قلم سے مقدمہ کی مختصر سی روداد اور تبصرہ ملاحظہ کریں۔ اللہ ہم سب کو دجالوں اور ابو جہل کے پیروکاروں سے محفوظ رکھے: …………٭٭………… میں فاضل سیشن جج لاہور میاں محمد جہانگیر کے تفصیلی فیصلے مجریہ 5 اگست 2000ءپر تبصرہ کرتے ہوئے جھجک رہا تھا جس میں فاضل جج نے یوسف علی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین کے جرم میں موت کی سزا دی ہے جب اس نے مدینہ منورہ سے اپنی واپسی پر نبوت کی آخری اور حتمی منزل طے کرلینے کا دعویٰ کیا تھا۔ مجرم کو سزائے موت کے ساتھ ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر دھوکا اور جعلسازی کے گھناﺅنے جرم کے ارتکاب کی سزا بھی دی گئی ہے۔ اس کو بلند مرتبت اہلِ بیت (علیہ السلام) اور صحابہ کرامؓ کا تقدس مجروح کرنے کی سزا بھی دی گئی۔ دوسرے یہ کہ میں نے اس پر کوئی تبصرہ کرنے سے اس لیے بھی گریز کیا کہ میں اس فیصلے کا حصہ ہوں اور میری کتاب ”ناموسِ رسالت اور قانون توہین ِ رسالت“ کا حوالہ مجرم نے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت کے سامنے بار بار دیا۔ دریں اثناءمجرم کے ایک نام نہاد صحابی زید حامد نے ڈان شمارہ 13 اگست 2000ءمیں فیصلے کے بارے میں اپنی رائے کا اظہار کیا اور شر انگیزی کی اس پست ترین سطح تک گرگئے کہ اس فیصلے کو انصاف کا قتل قرار دے دیا اور مجرم کو ایک مہربان اور اسلام کے معزز صوفی اسکالر کے طور پر پیش کیا ہے۔ فیصلے کے بارے میں تبصرے سے ظاہر ہوتا ہے کہ قانون کے بارے میں تبصرہ نگار کا علم کس قدر سطحی ہے۔ ان کے بیان کردہ حقائق سچائی کا مذاق اڑانے کے مترادف ہیں۔ اسی طرح ڈیلی نیوز لاہور میں اسی دن شائع ہونے والے مجرم کے بیان میں بھی مقدمے کے اصل متن کو مسخ کیا گیا ہے۔ اس گمراہ کن مہم نے مجرم کے ایک سابق قریبی ساتھی اور اسکالر جناب ارشد قریشی کو جو قادریہ صوفی سلسلے سے تعلق رکھتے ہیں‘ فاضل سیشن جج کا مقدمہ کتابی شکل میں شائع کرنے پر مجبور کردیا تاکہ عوام مجرم کا اصلی روپ اس تاریخی مقدمے کی روشنی میں دیکھ سکیں۔ انہوں نے مجھ سے اپنی اس زیرِ طبع کتاب کے لیے پیش لفظ لکھنے کی درخواست کی۔ اس کتاب کے مو¿لف ایک اور کتاب ”فتنہ یوسف کذاب“ کے مصنف بھی ہیں جو تین جلدوں میں ہے۔ نہ صرف مقدمے کی سماعت کرنے والے فاضل جج بلکہ خود میرے اور ممتاز وکلا سردار احمد خان، ایم اقبال چیمہ، غلام مصطفی چوہدری، یعقوب علی قریشی اور میاںصابر نشتر ایڈووکیٹ پر مشتمل میرے پینل کے خلاف مجرم کی مسلسل ناجائز مہم جوئی کے پیش نظر میں نے یہ پیش لفظ لکھ کر عوام پر یہ بات واضح کرنا ضروری سمجھا کہ آدھا سچ صریح جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہے۔ جج صاحبان خود اپنے فیصلوں کا دفاع نہیںکرسکتے بلکہ وہ اپنے فیصلوں کے ذریعے کلام کرسکتے ہیں۔ اس لیے جو معاملہ عدالت سے تعلق رکھتا ہے تو عدالت خود ہی اس توہین آمیز مواد پر گرفت کرے گی لیکن میں صرف مدعی کے وکلا کی اس کردارکشی کو زیربحث لاﺅں گا جو بعض اخبارات کے ذریعے کی گئی ہے۔ جہاں تک مجرم کے طرزعمل اور کردار کا تعلق ہے تو اس نے عدالت میں پیش کردہ خود اپنی دستاویزات کے ذریعے ہی اپنی اصلیت ثابت کردی ہے کہ جدید مشینی طریقوں کے ذریعے انسانی ذہن اتنے بڑے فراڈ کو شاید ہی کبھی احاطہ¿ خیال میں لاسکا ہو۔ اس نے ایک دستاویز پیش کی جسے مقدمے کی سماعت کرنے والی عدالت نے سند ڈی 1 کے طور پر پیش کیا ہے اور جو اس کتاب کے شیڈول Iکا حصہ بھی ہے۔ اس دستاویز کے بارے میں اس لیے یہ دعویٰ کیا ہے کہ یہ وہ سرٹیفکیٹ ہے جو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو براہِ راست بھیجا ہے جس کی رو سے اس کو خلیفہ اعظم قرار دیا گیا ہے۔ میری جرح پر اس کے اعتراف کے مطابق تمام انبیاءکرام کو خلفائ‘ زمین پر اللہ کے نائب مقرر کیا گیا تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خلیفہ اعظم، نائبین کے سربراہ اعلیٰ ہیں‘ لہٰذا اس سرٹیفکیٹ کی رو سے اب وہ زمین پر خلیفہ اعظم ہے۔ جرح میں اس نے یہ بات بھی تسلیم کی کہ چاروں خلفاءمیں سے کوئی بھی خلیفہ اعظم کے مرتبے پر فائز نہیں تھا۔ ایک سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے خلیفہ اعظم کا یہ سرٹیفکیٹ اس کو کراچی کے ایک بزرگ عبداللہ شاہ غازی کی وساطت سے ان کے لیٹر پیڈ پر کمپیوٹر کے ذریعے بھیجا گیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کراچی کے مذکورہ بزرگ 300 سال قبل وفات پاچکے ہیں۔ نبی کریم کی جانب سے انگریزی زبان میں مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو خلیفہ اعظم حضرت امام الشیخ ابو محمد یوسف کے طور پر مخاطب کیا گیا ہے۔ مذکورہ سرٹیفکیٹ میں مجرم کو علم کا محور اور عقل و دانش میں حرف ِآخر قرار دیا گیا ہے۔ اس اعلان کی وضاحت کرتے ہوئے مجرم نے کہا کہ وہ قرآن پاک کا مفسر ہے۔ وہ حدیث اور فقہ کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے۔ وہ تصوف کا ماہر ہے اور دنیاوی سائنسی علوم سے بھی واقف ہے۔ اس کے ہمہ جہت علم و دانش کا اندازہ لگانے کی غرض سے میں نے اس سے دینی علم کے بارے میں جرح کی اور جدید سائنسی تحقیق کے بارے میں بھی سوالات پوچھے۔ میں یہاں بتانا چاہوں گا کہ مجرم نے عدالت میں یہ بیان دیا تھا کہ اس کو تمام پیغامات براہِ راست رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلم سے عربی یا انگریزی میں موصول ہوتے ہیں۔ میں نے اس سے قرآنی لفظ ”تقویٰ“ کی دلیل کے بارے میں سوال کیا لیکن وہ اس کا جواب نہیں دے سکا۔ میں نے اس سے خلیفہ اعظم سرٹیفکیٹ کی پیشانی پر تحریر الفاظ ”وسعت“ اور ”حشر“ کے معنی پوچھے مگر وہ ان الفاظ کے آسان معنی بتانے میں بری طرح ناکام رہا۔ یہاں تک کہ وہ صحاح ستہ کے نام سے مشہور اور قرآن کے بعد پوری دنیا کے لیے انتہائی محترم حدیث کی چھ کتابوں کے نام بتانے سے بھی قاصر رہا۔ آل رسول کا دعویدار ہونے کے باوجود اس کو رسول اللہصلی اللہ علیہ وسلماور حضرت علی ؓ کے بارے میں مدینتہ العلم کی انتہائی مشہور حدیث کا بھی کوئی علم نہیں۔ اسکول سرٹیفکیٹ اور اس کے سروس ریکارڈ کے مطابق اس کا نام یوسف علی ہے۔ (شیڈول II) ریٹائرمنٹ کے بعد اس نے لوگوں کو دھوکا دینے اور نبی کریم کے نام پر جعلسازی کے ذریعے بے تحاشہ پیسہ حاصل کرنے اور لاکھوں روپے مالیت کی جائداد بنانے کے مذموم مقاصد کے پیش نظر اپنے نام میں ”محمد“ کا اضافہ کرلیا۔ یہ حقائق اس کے اپنے اعترافات اور پیش کردہ دستاویزات سے ثابت ہیں ۔ اس کا دعویٰ ہے کہ اس نے اقبال کا گہرا مطالعہ کیا ہے‘ لیکن وہ ان کے 6 خطبات سے نابلد ہے اور ان کی شاعری میں استعمال ہونے والی اصطلاحات کا مطلب جانتا ہے نہ ہی وہ اقبال کے فلسفہ¿ خودی کی وضاحت کرسکا۔ اس کا مولانا مودودی کے ساتھ منسلک رہنے کا دعویٰ بھی صریح غلط بیانی پر مبنی ہے اور جماعت اسلامی کی طرف سے اس کی تردید کی جاچکی ہے۔ اسی طرح وہ جدید سائنس کی الف، ب بھی نہیں جانتا اور ڈی این اے کا مطلب نہیں بتا پایا۔ اس نے یہ لفظ عدالت کے سامنے خود اپنے بیان میں استعمال کیا تھا۔ اپنے اس مذموم منصوبے کو تقویت بخشنے کی غرض سے اس نے نوجوانوں کی عالمی تنظیم ورلڈ اسمبلی آف مسلم یوتھ (WAMY) کا ڈائریکٹر جنرل ہونے کا دعویٰ کیا تھا جس کا صدر دفتر جدہ میں ہے اور جس کے دفاتر پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں۔ میں اس تنظیم کا ایسوسی ایٹ ممبر رہا ہوں لہٰذا میں نے فوری طور پر سیکریٹری جنرل ڈاکٹر مانج الجہنی سے رابطہ قائم کیا تو انہوں نے فوراً ہی فیکس کے ذریعے مجھے آگاہ کیا کہ ”وامی“ یوسف علی نام کے کسی شخص سے واقف نہیں ہے اور نہ ہی اس نام کے کسی شخص کو کبھی ڈائریکٹر جنرل مقرر کیا گےا تھا۔ مذکورہ خط میں واضح طور پر کہا گیا کہ اگر مذکورہ یوسف علی نے اپنا دعویٰ ثابت کرنے کے لیے کوئی دستاویز یا کوئی دوسرا مواد پیش کیا ہو تو اسے غلط اور جھوٹ تصور کیا جائے۔ سیکریٹری جنرل وامی نے اس کے خلاف قانونی کارروائی کرنے اور سزا دلانے کا اختیار بھی دیا۔ مذکورہ خط عدالت میں پیش کیا گیا اور یہ بھی شیڈول III کے طور پر منسلک ہے۔ مجرم نے اس جعلسازی پر ہی اکتفا نہیں کیا بلکہ اس نے خود کو سعودی عرب سے قبرص کے سفیر کے مرتبے پر بھی فائز کردیا اور ہزایکسیلنسی بن کر سابق چیف جسٹس حمودالرحمن اور جسٹس (ر) محمد افضل چیمہ کے ساتھ اپنی تصویر بھی کھنچوائی۔ (شیڈول IV)۔ تاہم جسٹس چیمہ نے اسلام آباد سے ٹیلی فون پر میرے استفسار پر ایسے کسی ہز ایکسیلنسی سے واقفیت کی تردید کی۔ مجرم نے اپنے بیان میں اس بات سے انکار کیا کہ وہ مرزا غلام احمد قادیانی کو جانتا ہے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ اس نے بھی وہی طریقہ کار اختیار کیا جو قادیان کے اس مرزا نے اختیار کیا تھا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ برطانوی حکومت نے بھارت کے مسلم حکمرانوں سے اقتدار غصب کرنے کے بعد انیسویں صدی میں توہینِ رسالت کا قانون منسوخ کردیا‘ جبکہ انگلینڈ میں اُس وقت بھی یہ قانون آئین کا حصہ تھا۔ مرزا غلام احمد کو برطانوی حکومت کی طرف سے اسلام کے لبادے میں اپنے نئے مذہب کی مکمل حمایت حاصل تھی۔ لیکن اپنے آقاﺅں کی اس یقین دہانی کے بعد کہ برطانوی حکومت اس کے خلاف کسی بھی مذہبی تحریک کو پوری سختی سے کچل دے گی اس نے یہ اعلان کردیا کہ جو کوئی بھی اس پر ایمان نہیں لائے گا وہ دائرہ¿ اسلام سے خارج ہوجائے گا۔ اس کا یہ اعلان مکتوبات مطبوعہ مارچ 1906ء(شیڈولVI) میں موجود ہے۔ اس پس منظر کے ساتھ مجرم یوسف علی بھی مرزا غلام احمد کے نقش قدم پر چلا اور اس نے زبانی اور دستاویزی شہادت کے ذریعے یہ ثابت کردیا کہ وہ بھی اپنے مشن اور نبوت کے جھوٹے دعویدار کا حقیقی جانشین ہے۔ پہلے اس نے مذہبی حلقوں میں اسلام کے مبلغ کی حیثیت سے رسائی حاصل کی، پھر مرد ِ کامل، اس کے بعد امام الوقت یعنی مہدی ہونے کا دعویٰ کیا اور پھر خود کو خلیفہ اعظم قرار دے دیا۔ پھر اس نے ”غار حرا“ سے موسوم اپنے بیسمنٹ میں اپنے پیروکاروں کے سامنے اپنے نبی ہونے کا اعلان کردیا۔ وہ مرزا غلام احمد کی طرح اپنے اس جھوٹے دعوے پر بھی مطمئن نہیں ہوا اور اس نے خود کو نبی آخرالزماں سے (نعوذ باللہ) برتر ہستی ظاہر کرنے کے لیے یہ اعلان کردیا کہ 1400 سال قبل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلمایک فریضہ سرانجام دے رہے تھے مگر دور حاضر میں اس نے نبوت اور اس کے حسن کو عروج کمال پر پہنچا دیا ہے۔ مجرم کے اس شرانگیز اور اشتعال انگیز دعوے کے ثبوت میں استغاثہ نے 14 گواہ پیش کیے جن میں کراچی سے بریگیڈیئر (ر) ڈاکٹر محمد اسلم (گواہ استغاثہ1)، محمد اکرم رانا (گواہ استغاثہ2 )‘ محمد علی ابوبکر (گواہ استغاثہ7) اور لاہور سے حافظ محمد ممتاز عدانی، (گواہ استغاثہ نمبر4)‘ میاں محمد اویس (گواہ استغاثہ5) شامل تھے جنہوں نے مجرم کی جانب سے نبوت اورختمی فضیلت کے جھوٹے دعوے کی براہِ راست عینی شہادتوں پر مبنی واقعات بیان کیے۔ سماجی اور مذہبی مرتبے کے حامل ان گواہوں کے ساتھ مجرم کی کوئی عداوت نہیں ہے۔ اس کے برعکس یہ لوگ اس کے اندھے عقیدت مند اور پیروکار تھے‘ بالخصوص محمد علی ابوبکر تو اس سے اتنا قریب تھا کہ اسے مجرم آقا سے مکمل وفاداری اور اس کے احکام کی تعمیل اور بھرپور اطاعت کی بناءپر ابوبکر صدیق کا خطاب دیا گیا تھا۔ کراچی کے اس مرید نے اس کو لاکھوں روپے مالیت کے چیک اور ڈرافٹ دیئے اور اس کے لیے آراستہ و پیراستہ محل تعمیر کیا جس میں غار حرا بھی بنایا گیا تھا۔ مجرم نے نقد یا چیک اور ڈرافٹ کی شکل میں رقم وصول کرنے کی حقیقت سے انکار نہیں کیا۔ اپنے اس نام نہاد نبی کے حق میں اپنی تمام جائداد سے دستبردار ہونے پر اس کے صحابی کو صدیق کا خطاب عطاکیاگیا تھا۔ اس طرح مجرم نے رسول پاک کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسایا اور انہیں مفلسی اور محتاجی سے دوچار کردیا۔ جب اس نے اپنے خلاف مسلمانوں کے غیظ وغضب اور شدید اشتعال کی کیفیت دیکھی تو اپنی گردن بچانے کے لئے مرزا غلام احمد قادیانی کی طرح وہ بھی اپنے دعوے سے مکر گیا۔ اس کی تردید صریح دجل وفریب اور ”محمد“ ”آل رسول“ اور ”صحابہ“ کے مقدس الفاظ کی غلط ترجمانی کی عکاس تھی جیسا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہے۔ یوسف علی نے مسلمان ہوکر بھی اپنے مذموم مقاصد کے لئے لوگوں کو دھوکا دینے اور مال ودولت اور جائداد کی خاطر رسول پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے نام پر معصوم لوگوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لےے توہین رسالت کے سنگین جرم کا ارتکاب کیا۔