اگر 2004ء میں قبائلی علاقوں میں فوج بھیجنے کے بعد وہاں ہلاکت خیز فوجی کاروائی کی بجائے سکول ۔ ہسپتال اور سڑکیں بنائی جاتیں تو شاید آج حالات مختلف ہوتے ۔
دیانتدار اور بے خوف قلم کار بہت کم ہیں .ایسے قلمکار امریکا میں بھی موجود ہیں جو اپنے ہی ملک کے خفیہ اداروں کے انسانیت دشمن منصوبوں کو ادھیڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ رون سسکنڈ بھی ایک ایسا ہی امریکی صحافی ہے جس نے اپنی کتاب ”دی وے آف دی ورلڈ“ میں افغانستان میں اقوام متحدہ کے سابق نمائندے ٹام کوئننگز [2005ء تا 2007ء] کے بارے میں لکھا ہے کہ ایک دن اُسے پاکستان کے قبائلی علاقوں کے عمائدین کا ایک وفد ملنے آیا ۔ وفد کے ارکان نے ٹام سے کہا کہ کیا وہ پاکستان کے قبائلی علاقوں کو افغانستان میں شامل کرانے کے لئے کوئی کردار ادا کر سکتا ہے؟ ٹام نے ان قبائلی عمائدین سے کہا کہ وہ اس سلسلے میں کچھ نہیں کر سکتا ۔ یہ سن کر ایک بزرگ بولا کہ وہ لکھ پڑھ نہیں سکتا اور اس کا پوتا بھی لکھ پڑھ نہیں سکتا لیکن اب قبائلی لکھنا پڑھنا سیکھنا چاہتے ہیں تاکہ وہ بھی دنیا کے ساتھ چل سکیں لیکن ان کے علاقوں میں اسکول نہیں ۔
رون سسکنڈ مزید لکھتا ہے کہ ایک معمولی واقعے نے اسلامی شریعت کے متعلق ٹام کی سوچ کو بدل دیا ۔ ہوا یوں کہ ٹام کے بنگالی ڈرائیور نے ایک دن کابل میں ایک افغان کو کار کے حادثے میں مار ڈالا ۔ بنگالی ڈرائیور حادثے کے بعد مرنے والے کے ورثاء کے پاس چلا گیا اور ان سے کہا کہ وہ بھی مسلمان ہے اور مرنے والا بھی مسلمان تھا اس سے غلطی ہوگئی ہے کیا اسے معافی مل سکتی ہے ؟ مرنے والے کے باپ نے کہا کہ تم نے جسے مار ڈالا وہ ہمارے خاندان کا واحد سہارا تھا وہ تو چلا گیا لیکن آج سے تم ہمارا سہارا بن جاؤ ۔ اور یوں بنگالی ڈرائیور کو معافی مل گئی ۔ ٹام کو اس واقعے کا پتہ چلا تو اسے احساس ہوا کہ اسلامی قوانین مظلوم کو فوری انصاف مہیا کرتے ہیں لہٰذا اس جرمن سفارت کار نے اقوام متحدہ کو یہ سمجھانا شروع کیا کہ افغانستان کے لوگوں کو اسلامی قوانین کے صحیح نفاذ سے انصاف فراہم کرنا زیادہ آسان ہوگا ۔
یہ سب کچھ اقوامِ متحدہ کا ایک غیر مسلم نمائندہ جس کا پاکستان سے کوئی تعلق نہیں وہ تو سمجھ سکتا ہے لیکں صد افسوس کہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کی سمجھ میں یہ سادہ سی بات نہیں آتی ۔ اللہ ہمارے حکمرانوں اور ہموطنوں کو چشمِ بِینا اور انسان کا دِل عطا کرے ۔ آمین
ہالی وڈ کی ایک فلم “چارلی ولسنز وار” میں بھی بالکل یہی مسئلہ اٹھایا گیا تھا کہ اگر سوویت یونین کے خاتمے کے ساتھ ہی تھوڑی سی توجہ ان علاقوں کی ترقی کی طرف لگائی جاتی تو آج کی دنیا اور ان علاقوں کی صورت حال یکسر مختلف ہوتی لیکن اقوام عالم کی بے توجہی نے آج پاکستان افغان سرحد کو ایک آتش فشاں بنادیا ہے اس پر ہمارے نااہل اور مفاد پرست حکمران سونے پر سہاگہ۔
جو اسکول پہلے سے ہیں طالبان بھائی اور دوسرے بھائی لوگ انہی کو ختم کررہے ہیں – حالات جب لوگ اپنے خیالات بدلتے ہیں دکیانوسی خیالات کے ساتھ کچھ نہیںبدلتا
میںصرف یہ ہی کہونگا کہ حکومت اکیلے کچھ نہیںکرسکتی جب تک لوگ اس کے ساتھ نہ ہوں – لوگ پہلے اپنا فرض پورا کریں اور اسکول تباہ نہ کریں
راشد کامران صاحب
اچھی مووی فلموں میں حقیقت کی جھلک ہوتی ہے ۔
شیپر صاحب
اس میں کوئی شُبہ نہیں کہ عوام اور حکومت سب کو مل کر کام کرنا ہو گا ۔
دیگر میرا خیال ہے آپ کو حالات کا علم نہیں ۔ اول ۔ پاکستان کے قبائلی یا افغانستان والے طالبان سکولوں کو تباہ نہیں کر رہے ۔ دوم ۔ قبائلی علاقہ میں کسی سکول کو نقصان نہیں پہنچایا گیا ۔ جو سکول جلائے گئے ہیں وہ سب سوات کے سیٹلڈ علاقہ میں ہیں اور ملک دشمنوں نے جلائے ہیں ۔ ہمارے حکمران اپنے آقا امریکہ کی بولی بول رہے ہیں اور امریکہ نیوکان اور صیہونیوں کے قبضہ میں ہے جو پاکستان اور مسلمان کے دُشمن ہیں ۔ مجھے بلکہ اسلام آباد سے طورخم تک بسنے والوں کی اکثریت کو یقین ہے کہ سکول جلانے اور دھماکے کرنے کا سب کام بھارت ۔ افغانستان اور امریکہ کی حکومتوں کے زرخرید جرائم پیشہ لوگ کر رہے ہیں