کہا جاتا ہے کہ جمہوریت جو ہوتی ہے وہ جمہور یا عوام کی حکومت ہوتی ہے وہ اس طرح کہ عوام مقررہ وقت پر اپنی پرچی کے ذریعے اپنے نمائندے کا انتخاب کرتے ہیں ۔ یہ نمائندے شورٰی میں جاتے ہے اور وہاں مل بیٹھ کر عوام کی خواہشات کو مدِنظر رکھتے ہوئے صوبائی اور قومی سطح کے فیصلے کرتے ہیں ۔
آٹھ سالہ آمریت کے بعد جمہوریت قائم کرنے کیلئے انتخابات کا موقع 18 فروری 2008ءکو آیا ۔ دعوٰی ہے کہ اس کے نتیجہ میں جمہوری حکومت قائم ہو گئی ہے اور یہ دعوٰی 18 فروری 2008ء کے انتخابات کے نتیجہ میں بننے والے حکمرانوں کی طرف سے ہر روز عوام کو یاد دِلایا جا رہا ہے ۔ یہ جمہوری حکومت بنے 6 ماہ سے زیادہ کا عرصہ ہو کیا ہے لیکن ابھی تک آمریت کے دور کے عوام دُشمن فیصلوں پر پوری تَندہی سے عمل جاری ہے اور جو چند فیصلے کئے گئے ہیں وہ اُن میں شورِٰی کا عندیہ لینا تو درکنار ۔ شورٰی کو اُن فیصلوں کا عِلم بھی ذرائع ابلاغ سے ہوتا ہے
اعلٰی عدالتوں کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ تو زبان زدِ عام ہے ۔ وزیرِ اعظم صاحب کچھ کہتے ہیں اور عملی طور پر کچھ اور ہو رہا ہے ۔ پچھلے 6 ماہ میں مُلک و قوم کے انتہائی اہم معاملات میں سے کوئی شورٰی میں پیش نہیں ہوا ۔ صدر آصف علی زرداری صاحب نے کچھ دیگر معاملات بھی واضح کر دئیے ہیں جن سے شورٰی کی اہمیت کچھ نہیں رہی ۔
صدر آصف علی زرداری صاحب نے امریکی اخبار “وال سٹریٹ جرنل” کے کالم نویس بریٹ اسٹیفنس کو دیئے گئے انٹرویو میں کہا ہے
کہ امریکہ اور پاکستان کے درمیان اس بات پر مفاہمت ہے کہ ہم مشترکہ طور پر ایک دشمن کا تعاقب کررہے ہیں، امریکی اخبار لاس اینجلس ٹائمز کو دیئے گئے انٹرویو کی مزید تفصیلات کے مطابق انہوں نے اعتراف کیا کہ امریکہ کے ڈرون ( بغیر پائلٹ کے جاسوس) طیارے ان کی حکومت کی اجازت سے پاکستانی علاقوں پر حملے کررہے ہیں، تاہم انہوں نے حساس عسکری معاملات پر بات کرنے سے گریز کیا۔
کہ مقبوضہ کشمیر میں سرگرم مسلح افراد ’دہشت گرد‘ ہیں۔
کہ ان کی جمہوری حکومت بیرون ملک بھارتی اثر و رسوخ سے خوفزدہ نہیں اور نہ ہی انہیں بھارت امریکہ ایٹمی معاہدے پر کوئی اعتراض ہے ۔ [گویا دریائے چناب کا پانی بند کرنا کوئی خطرے والی بات نہیں ۔ بھارت دریائے جہلم کا پانی بھی بند کر دے ۔ پھر بھی ہمیں کوئی خطرہ نہیوں ہو گا]
عقل ہے بے زمام ابھی ، عشق ہے بے مقام ابھی
نقش گر ، ازل! ترا نقش ہے نا تمام ابھی
خلق خدا کی گھات میں رند و فقیہ و میر و پیر
تیرے جہاں میں ہے وہی گردش صبح و شام ابھی
تیرے امیر مال مست ، تیرے فقیر حال مست
بندہ ہے کوچہ گرد ابھی ، خواجہ بلند بام ابھی
دانش و دین و علم و فن بندگی ہوس تمام
عشق گرہ کشاے کا فیض نہیں ہے عام ابھی
جوہر زندگی ہے عشق ، جوہر عشق ہے خودی
آہ کہ ہے یہ تیغ تیز پردگی نیام ابھی!
جو جمہوریت کا فلیور ہمارے ہاں موجود ہے اس کے بارے میں کہا جا سکتا ہے
کسطرح سے ہے یہ شعر؟
اٹھاکر باہر پھینک دو گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے
معاف کیجئے گا
اس جمہوریت کے انڈے ہیں گندے
بلکہ مرغیاں ہی گندی ہیں :smile:
ازراہ کرم روابط میں میرے بلاگ کا ایڈریس اپڈیٹ کردیں (راہبر کی بیاض کے بجائے ابنِ ضیاء کردیں اور ربط یہ: http://ibnezia.com/blog)
نوازش
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » مسئلہ کشمیر پیپلز پارٹی نے اُجا گر کیا ؟ ؟ ؟
جمہوریت ایک طر زِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے