آج تو دنیا کا تقریبا سارا کارو بار ہی [نجی ہو یا اجتماعی] منافقت کے دوش پروان چڑھ رہا ہے ۔ غربت کو ختم کرنے کے نام پر غریب کو ختم کیا جا رہا ہے ۔ دہشت گردی ختم کرنے کے بہانے کھُلے عام اصول پرستوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے ۔
یار لوگوں نے منافقت کا رُوپ ہی بدل دیا ہے ۔ اب اس کا نام “معاملہ فہمی”۔ “حکمت عملی”۔ فراست”۔ “چھریرا پن”۔ “ذہانت” وغیرہ رکھ دیا گیا ہے ۔ اور جو کوئی منافقت نہ کرے اسے “بیوقوف” اور بسا اوقات “پاگل” کا خطاب دیا جاتا ہے ۔ حال بایں جا رسید کہ دفتر ہو تو منافق کامیاب اور جلد ترقیاں پانے والا ۔ سیاست ہو تو سب سے بڑا منافق سب سے زیادہ ووٹ حاصل کرتا ہے
کچھ استثناء تو بہر حال ہوتا ہی ہے۔
علامہ اقبال فلسفی تھے ۔اُنہیں منافقت پسند نہ تھی ۔ اُن وقتوں میں تو شاید اتنی منافقت نہ تھی ۔ انہوں نے ستّر برس پہلے جو تحریر کیا ۔ یوں لگتا ہے کہ آج کے لئے لکھا تھا ۔ جواب شکوہ سے اقتباس
ہاتھ بے زور ہيں’ الحاد سے دل خوگر ہيں
اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں
بُت شکن اُٹھ گئے’ باقی جو رہے بُت گر ہيں
تھا براہيم پدر اور پسر آزر ہيں
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں
کيا زمانے ميں پنپنے کي يہی باتيں ہيں
کون ہے تارک آئين رسول مختار؟
مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار؟
ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار؟
قلب ميں سوز نہيں’ روح ميں احساس نہيں
کچھ بھی پيغام محمد کا تمھيں پاس نہيں
اچھی بات ہے.. ویسے ‘اجتمائی’ نہیں ‘اجتماعی’ ہوتا ہے..
محترم بھوپال صاحب
مرض کی نشاندہی آپ نے ٹھیک کی ہے مگر صرف نشاندہی کافی نہیں۔ کچھ علاج بھی تجویز کیا کریں۔ آپ نے اک عمر اس دشت کی سیاحی میں گذاری ہے۔
میری ناقص راے میں اس کا علاج نہ قانون میں ہے نہ شریعت میںِ۔ ورنہ منافق اتنا عرصہ مدینہ میں اور اس کے بعد کیسے چل سکے۔ اور ویسے بھی منافق اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے ہاں شاید صوفیا کا طریق آجکل دوسرے انسانوں کو اپنے اندر بہتری لانے کی طرف مانل کر سکتا ہے۔ صوفیا محبت اور ذاتی مثال کے زریعے دوسرے انسانوں کے اندر کا زہر کھینچ کر باہر نکالنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ہم صوفیا کی نقل کرنے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔
مکی صاحب
غَلِطی بتانے کا شکریہ
محمد ریاض شاہد صاحب
کچھ علاج بغیر منافقت کا حوالہ دئیے لکھ چکا ہوں اور انشاء اللہ منافقت کی وضاحت میں بھی کچھ علاج ملے گا اور اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مہلت دی تو آئندہ بھی لکھوں گا ۔
درست ہے کہ منافقت کا علاج قانون میں نہیں ہے لیکن دین ہی اس کا مکمل علاج ہے ۔ منافقت اللہ کی بجائے دوسری چیزوں میں یقین رکھنے سے پیدا ہوتی ہے
عوام کا شعور بڑھے گا تو وہ نیک اور صالح حکمران چنیں گے۔ نیک اور صالح حکمران ہوںگے تو مناقت کو جڑ سے اکھاڑ دیںگے۔ عوام کا شعور بیدا ہو گا ان کی آنے والی نسل کی تربیت اور تعلیم سے اور یہ فرض ہم سب کا ہے کہ ہم اپنی اولادوں کو تعلیم اور شعور دیں۔
اگر تعلیم سے یعنی پڑھنے لکھنے سے انسان بننا آسان ہوتا تو کراچی میں سب سے زیادہ انسان ہوتے
ایک وقت میں وہاں 40 سے 45 لاشیں گرتی رہی ہیں اور آج بھی بس وہاں سے حکم ہو تو ماضی دہراسکتے ہیں
اللہ کا خوف اور آخرت میں جواب دہی ہی وہ واحد چیز ہے جس سے منافقت ختم ہوتی ہے
قوم اپنے اعمال میں جب احتساب کرے گی ، اللہ کی رضا کو ہی سب کچھ جانے گی تو حکمران بھی اپنے جیسے پائے گی ورنہ دنیا میں ہی ایک مشکل میں گرفتار رہے گی
افضل صاحب
آپ نے بالکل ٹھیک کہا ۔ موجودہ حال غلط تعلیم و تربیت کا نتیجہ ہے ۔ آج اگر قوم کی اکثریت فیصلہ کر لے کہ محنت کرنا ہے اور حرام نہیں کھانا تو یہی مُلک یہی قوم بڑی تیزی سے ترقی کر سکتے ہیں
احمد صاحب
پڑھا لکھا ہونا اور تعلیم یافتہ ہونا دو مختلف عمل ہیں ۔ پڑھے لکھے کے پاس اسناد ہوتی ہیں مگر کردار نہیں ہوتا جبکہ کہ تعلیم یافتہ کے پاس سند ہو نہ ہو کردار ضرور ہوتا ہے ۔ دین اسلام ایک مکمل علم ہے جو زندگی کے ہر شعبہ کو احاطہ میں لیتا ہے ۔دین کو اپنانے کیلئے بھی علمی ذہن ہونا ضروری ہے نہ کہ یونیورسٹی کی سند ۔
ارشاد فخر رسل صلی اللہ علیہ وسلم گانا باجا دل میں نفاق کو ایسے اگاتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اگاتا ہے
آج ہر طرف موسیقی کو عام کر دیا گیا چاہے وہ نیوز چینل ہوں چاہے ریڈیو بی بی سی ہو چاہے چاہے قاتل قیو ٹیوی ہو چاہے وہ شادی بیاہ کی تقریبات چاہے وہ عقیقہ کی تقریبات ہوں چاہے اسکول مین تقسیم انعامات کی تقریبات ہوں چاہے وہ عرس مدفون ہو چاہے وہ جشن مولود ہو چاہے وہ بھیک منگون کی جھولی ہو چاہے وہ باراتیوں کی ٹولی ہو چاہے وہ چاے کے ہوٹل ہوں چاہے وہ پیپسی کے بوتل ہوں چاہے کار کا سفر ہو چاہے بس کا سفر ہو چاہے وہ جہاز بحری ہو چاہے وہ رمضان کی سحری ہو چاہے وہ شب برات کی رات ہو چاہے لیلۃ الجائزہ کی ساعتین ہون
چاہے وہ موبائل کی رنگٹوں ہو چاہے لیپٹاپ کا ہیڈ فون ہو چاہے بازیچہ اطفال ہو چاہے باغیچہ کبار ہو چاہے مسجد کے اطراف ہو چاہے نماز کے اوقات ہون الغرض ہر جگہ یہ موسیقی مسلط ہے
ہم سبھی کو چاہیے کہ ہم اس موسیقی کو مٹانے کی کوشش کریں اور خود اس سے جہاں تک ہو سکے بچیں تو انشا اللہ ہمارے اوپر بھی اللہ رحم فرما دینگے اور ہم کو بھی اپنے نیک بندوں میں شامل فرما لینگے جب تک ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات کو اپنا عمل بناتے رہینگے اور آپ نے جن چیزوں سے بچنے کا حکم فرا یا ان سے بچتے رہینگے اور جنکے کرنے کو فرمایا انکو کرتے رہینگے ہم کبھی گمراہ نہیں ہو سکتےیا اللہ ہم سبھی کو اس موسیقی سے محفوظ فرما اور سبھی مسلمانوں کو توبہ کی توفیق عطا فرما آمین
عمادالدین حقی بھائی اللہ پاک آپکو اجر خیر دیں آپ نے بہت خوب نشاندہی کی
بس بات یہ ہے کہ پتا تو سب کو ہے مگر توفیق کم کم کو ہے وجہ ایمان کا نہ ہونا یا بہت کم ہونا
جو بات ہمارے بھائی کائق توجہ نہیں جانتے وہ وہی ھے کہ اگر ایمان راسخ ہوگا تو زرا زرا سی بات میں بھی اللہ اور اسکے رسول کو سامنے رکھے گا اگر ایمان کمزور ہوگا تو بڑی بڑی بات میں بھی اپنے نفس کو سامنے رکھے گا
ایمان بنانے کلیئے نسخہ ہے اللہ کا زکر اٹھتے بیٹھتے
اور لوگوں کو خیر کی یعنی ایمان کی دعوت دینا مگر یہ کام نفس پر بھاری ہیں سب سے بھاری
اجمل صاحب اگر بندہ ایمان والا ہوگا تو گاؤں کا معمولی زہن اور تعلیم کا آدمی بھی اللہ سے ڈرے گا اور اگر ایمان کمزور ہوگا تو عالم ہو کر بھی نفس کی پوجا کرے گا
علم اتنا فرض ہے کہ حدوداللہ کا پتا رہے جبکہ ایمان اتنا کہ جیسا صحابہ لائے کا حکم ہے
مراکش کے لوگ ایمان کی بات سے بھاگتے ہیں علم علم کرتے رہتے ہیں اور انکے اعمال کا کیا حال ہے انکے قریب رہنے والے بخوبی جانتے ہیں
جواب شکوہ کا اقتباس نھایت موزوں ھے ما شا اللہ۔
جناب دادا جان اجمل صاحب پچھلے تبصرےمیں ویب ایڈریس غلط ہو گیا آپ سے درخواست ہے کہ درست فرمادیںجناب کی بہت نوازش ہوگی
عمادالدین حقی صاحب
بزرگی عنائت کرنے کا شکریہ ۔ میری ابھی ایک ہی پوتی ہے اور وہ ابھی سوا چار سال کی نہیں ہوئی ۔