Monthly Archives: September 2008

ہِبہ

دیکھنے میں آیا ہے کہ لفظ “ہِبہ ” کا کئی دوسرے الفاظ کی طرح غلط استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ یہاں تک کہ ہِبہ نام کی دُکانیں تک کھول دی گئی ہیں جن میں ہِبہ نہیں ہوتا بلکہ چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ کچھ بے عقل لوگ اپنی بہن یا بیٹی کسی کے حوالے کر کے اسے ہِبہ کا نام دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے ۔

ہبہ وہ چیز ہے جو ایک شخص کی خالص اپنی ملکیت ہو اور وہ بغیر معاوضہ اور بغیر کسی لالچ کے دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دے خواہ لینے والا شخص مالدار ہو یا غریب ۔

اگر کوئی شخص اپنا قرض مقروض کو ہِبہ کر دے تو مقروض کا وہ قرض معاف ہو جاتا ہے اور قرض دینے والا پھر اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔

عورت اپنے خاوند کو حق مہر اپنی مرضی سے معاف کر دے تو یہ ہِبہ کہلاسکتا ہے

ہبہ نہ تو صدقہ ہے اور نہ ہدیہ ۔

صدقہ صرف مستحق یعنی غریب کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے

ہدیہ آپس کے تعلقات قائم کرنے یا بہتر بنانے کیلئے دیا جاتا ہے ۔ کسی ناحق مطلب براری کیلئے نہیں

ہبہ اور ہدیہ میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ رشتہ دار بشمول بیوی یا خاوند ۔ دوست محلے دار وغیرہ کو کوئی چیز ہبہ کر سکتے ہیں اور تحفہ یعنی ہدیہ بھی دے سکتے ہیں ۔ ان میں دینے اور لینے والا مالدار بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی ۔ یعنی ایک گداگر بھی کسی مالدار کو کوئی چیز ہبہ کر سکتا ہے یا ہدیہ دے سکتا ہے ۔

ایک بار جو چیز ہِبہ کر دی جائے اس کا واپس لینا ممنوع ہے

ہِبہ نام بھی رکھا جاتا ہے جس کے معنی اللہ کا دیا ہوا تحفہ لئے جاتے ہیں ۔

اسماء الحسنہ میں ایک وہاب بھی ہے جس کے معنی ہیں ہِبہ کرنے والا

اشیاء ۔ مال اور مویشی ہِبہ کئے جا سکتے ہیں انسان نہیں

تن آسانی دُشمن ہے خودداری و غیرت کی

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک با ہمت اور خوددار لڑکے کودیکھ یہ تحریر لکھ رہا ہوں ۔ خودداری اور غیرت وہ صفات ہیں جو انسان کو بلند و بالا کر دیتی ہیں لیکن ہماری قوم ہولناک گہرے کھڈ کی طرف پھسلتی جا رہی ہے ۔ ہموطنوں نے خودغرضی کو غیرت کا نام دے دیا ہے اور وطنِ عزیز میں [جھوٹی] غیرت کے نام پر قتل کے واقعات نے غیرت کا تصور ہی مسخ کر کے رکھ دیا ہے ۔

وطن عزیز میں ہمیں ہر گلی ہر سڑک پر بھکاری نظر آتے ہیں ۔ عورتیں مرد بچے ۔ جن کو اللہ تعالٰی نے کامل جسم کے ساتھ صحت بھی دی ہوتی ہے لیکن وہ محنت کرنے کی بجائے بھیک مانگتے ہیں ۔ ان کے مختلف عُذر ہوتے ہیں جو درُست بھی ہو سکتے ہیں ۔ کوئی اپنے آپ یا اپنے باپ یا ماں کو مریض بتاتا ہے تو کوئی ملازمت یا مزدوری نہ ملنے کا بہانہ بناتا ہے ۔

یہ عِلّت صرف وطنِ عزیز ہی میں نہیں بلکہ ترقی یافتہ اور امیر ممالک میں بھی ہے مگر بھیک مانگنے کے طریقے مختلف ہیں ۔ مثال کے طور پر یورپ میں بھیک مانگنا چونکہ جُرم ہے وہاں بھکاری کوئی ساز لے کر بازار میں بیٹھ جاتا ہے ۔ اپنے سامنے ایک کپڑا بچھا دیتا ہے اور ساز بجانا شروع کر دیتا ہے ۔ لوگ بھیک دینے کی بجائے اسے موسیقی کا نذرانہ دیتے ہیں گو سب جانتے ہیں کہ وہ بھیک مانگ رہا ہے اور وہ بھیک دے رہے ہیں ۔ کچھ ایسے بھی ہوتے ہیں جو اپنی ٹوپی اُلٹی کر کے خاموش کھڑے ہو جاتے ہیں اور راہگذر اس میں کچھ ڈالتے رہتے ہیں ۔

اب بات اللہ کے خود دار اور غیرتمند بندوں کی ۔یہ لوگ جو کہ تعداد میں اتنے کم ہیں کہ انگلیوں پر گِنے جا سکتے ہیں بلند ہمت اور مضبوط قوتِ ارادی سے اپنی مجبوریوں پر فتح پالیتے ہیں ۔ انہیں دیکھ کر آدمی ماشاء اللہ اور سُبحان اللہ کہتے ہوئے اپنے اعضاء سلامت ہونے پر اللہ کا شکر ادا نہ کرے تو اَس جیسا بدقسمت کم ہی ہو گا

کچھ روز قبل ٹی وی پر ایک لڑکے کو دکھایا گیا جس کے دونوں بازو کٹے ہوئے تھے اور وھ کٹے ہوئے بازوؤں کے سِروں میں قلم دبوچ کر لکھ رہا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین

دس بارہ سال قبل میں نے ایک ایسا شخص دیکھا تھا جس کے دونوں بازو کُہنیوں کے اُوپر سے کٹے ہوئے تھے اور وہ سلائی کا کام کرتا تھا ۔ ایک پاؤں سے وہ کپڑے کو قابو رکھتا اور دوسرےپاؤں سے سلائی کی مشین چلاتا جس میں بجلی کی موٹر نہیں لگی تھی ۔ وہ بائیسائکل بھی اس طرح چلاتا تھا کہ ایک پاؤں سے ہینڈل کو سنبھالتا اور دوسرے سے پیڈل کو گھماتا ۔ وہ پاؤں کی انگلیوں میں قلم پکڑ کر لکھ بھی لیتا تھا ۔ ماشاء اللہ سُبحان اللہ و الحمد للہ رب العالمین

فرق صرف سوچ کا ہے

زندگی 10 فیصد وہ ہے جو کوئی شخص بناتا ہے اور 90 فیصد وہ جو اس شخص کی سوچ ہوتی ہے ۔

ایک شخص کا بیان کردہ واقعہ جس نے اس کی زندگی کو خوشگوار بنا دیا

میں ایک دن گھر سےکسی کام کیلئے نکلا ۔ ٹیکسی لی اور منزلِ مقصود کی طرف چل پڑا ۔ ٹیکسی شاہراہ کے بائیں حصے پر دوڑتی جا رہی تھی کہ بائیں طرف سے شاہراہ میں شامل ہونے والی ایک پتلی سڑک سے ایک گاڑی بغیر رُکے اچانک ٹیکسی کے سامنے آ گئی ۔ ٹیکسی ڈرائیور نے پوری قوت سے بریک دباتے ہوئے ٹیکسی کو داہنی طرف گھمایا اور ہم بال بال بچ گئے گو میرا کلیجہ منہ کو آ گیا تھا ۔

بجائے اس کے کہ دوسری گاڑی کا ڈرائیور اپنی غلطی کی معافی مانگتا ۔ کھُلے شیشے سے سر باہر نکال کر ہمیں کوسنے لگا ۔ میرا خیال تھا کہ ٹیکسی ڈرائیور اُسے تُرکی بہ تُرکی جواب دے گا لیکن اس نے مُسکرا کر بڑے دوستانہ طریقہ سے ہاتھ ہلایا ۔

میں نے ٹیکسی ڈرائیور سے کہا “اُس نے تو تمہاری ٹیکسی کو تباہ کرنے اور ہم دونوں کو ہسپتال بھیجنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی تھی اور تم نے مُسکرا کر اُسے الوداع کہا ؟”

ٹیکسی ڈرائیور کہنے لگا “کچھ لوگ محرومیوں یا ناکامیوں یا کُوڑ مغز ہونے کی وجہ سے بھرے ہوئے کُوڑے کے ٹرک کی طرح ہوتے ہیں ۔ جب اُن کے دماغ میں بہت زیادہ کُوڑا اکٹھا ہو جاتا ہے تو جہاں سے گذرتے ہیں گندگی بکھیرتے جاتے ہیں ۔ اور بعض اوقات اچھے بھلے لوگوں پر بھی یہ گندگی ڈال دیتے ہیں ۔ ایسا ہونے کی صورت میں ناراض ہونے کا کوئی فائدہ نہیں ۔ اپنے اُوپر بُرا اثر لئے بغیر گذر جانا چاہیئے ۔ ورنہ آپ بھی اُس سے لی ہوئی گندگی اپنے ساتھیوں پر اُنڈیلنے لگیں گے ۔ ”

میں نے اُس دن سے ایسے لوگوں کے بے جا سلوک پر کُڑھنا چھوڑ دیا ہے اور میرے دن اب بہتر گذرتے ہیں ۔ یہ مجھ پر اُس ٹیکسی ڈرائیور کا احسان ہے ۔

مسلمانوں پر امریکی حملہ کی خُفیہ اجازت ؟

امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی [produced or manufatured] القاعدہ و طالبان تحریک کی جو سیاسی حکمت اپنا رکھی ہے کہ اس تحریک کو تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ عوام کو ڈرانے و دھمکانے کیلئے اجاگر کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس سے عالم کے مسلمانوں پر رعب جمانے کیلئے اس کا دھشت گرد چہرہ پیش کرکے اس پر زبردشت حملہ کردیا جاتا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ملکوں کو امداد کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ تخلیقی القاعدہ و طالبان تحریک کو پوری دنیا میں زندہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس امداد کی حصولیابی کیلئے ملکوں میں مداخلت کرکے ان ملکوں کو مذکورہ تحریک سے تحفظ کے نام پر وہاں اپنی افواج مسلط کرکے اپنی افواج کی تنخواہوں کا بوجھ ان پر ڈال کر ۔ دی گئی امداد سے سات گنا زیادہ وصول کرلیا جاتا ہے۔ امریکہ کی نصف افواج کا خرچہ بیرونی ملکوں سے اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی امداد کا بدل خوبصورت طریقہ سے واپس لے لیتا ہے۔ ہر دو یا تین سال بعد کسی نہ کسی ملک کے حصہ کی پنجرہ نما آزادی دلانے کی تحریک سرگرم عمل ہوتی ہے۔ اور وہ تحریک اس پنجرہ نما ملک میں امریکی افواج کی تعیناتی سے ہوتی ہے۔ پھر اس پنجرہ نما آزادی والے ملک کے پنجرہ کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ اور اس کا انسانیت کے خون سے لت پت جھنڈا اقوام متحدہ کے دفتر پر لہراتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکن ری پبلیکن پارٹی نے کامیاب حریت کی ڈکیتی کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔

مذکورہ ملکوں کے حصہ کے لوگوں کے پَر کُتر کر ا س پنجرہ نما آزادی کے اس خوبصورت پنجرہ میں آزادی کے نام پر قید کردیا جاتا ہے۔ وہ وہاں سے بھاگنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ وہ اب اڑنے کے قابل بھی نہیں رہے ہوتے۔ ان کو آزادی کے نام پر معاہدے کرکے اپنی خدمات کی طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔

امریکن ری پبلیکن پارٹی تخلیقی دھشت گردی کے عنوان سے پنجرہ نما آزادی کو پکاتی ہے۔ دلائی لامہ ، یاسر عرفات ، میر واعظ طرح کے لوگ اس بے نظیر تحریک کے ساتھ پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے ملکوں کے حصوں میں امریکہ کیلئے فصل تیار کرتے ہیں۔ اور اس فصل کو امریکہ کی قیادت پنجرہ نما آزادی کے عنوان سے کاٹ کر لے جاتی ہے۔ اس لئے دھشت گردوں و دھشت گردی کا وجود ایک طے شدہ حکمت عملی ہے۔ جو امریکہ کو دھمکیاں دینے کیلئے وجود میں لائی جاتی ہیں۔ القاعدہ و طالبان کے یہ تخلیقی دھشت گرد تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ کو جب دھمکیاں دیتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے۔ کہ یہ اسی کی خوبصورت حکمت عملی ہے۔ اور اس حکمت عملی کی زد پر مسلمان ہیں ۔ اور پھر ان پر امریکی حملوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔

امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی طور پر القاعدہ و طالبان کا پلان تیار کیا گیا کہ افغانستان کے پہاڑی علاقے اور پاکستان کے قبائلی علاقے پر مذکورہ جماعت کی قیادت کے حکم پر امریکہ کے صدارتی الیکشن سے عین قبل شدید و بھیانک حملہ ہوگا۔ اس سے قبل مشق کے طور پر چھوٹے موٹے حملے ہوتے رہیں گے۔ اور ان حملوں کیلئے افغانستان اور پاکستان کی سرکاروں سے منظوری لی جائے گی۔

اب اُگائی کا وقت ہے۔ یہ اگائی کا سلسلہ شروع ہوا ہی تھا کہ پاکستان میں جمہوری انقلاب کی آمد سے حالات بدل گئے۔ پاکستان کی نئی حکومت اس حکمت عملی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے پرہیز کررہی ہے۔ اس لئے کہ اس پر میاں نواز شریف صاحب اور وہاں کے عوام کا
زبردشت دباؤ ہے کہ امریکہ کو مسلمانوں پر حملہ کی اجازت کسی طور پر نہ دی جائے۔

تخلیقی القاعدہ وطالبان تحریک امریکن ری پبلیکن پارٹی کا محض ایک تخلیق [product] اور سیاسی پروپیگنڈہ ہے۔ اس پروپیگنڈے کی تشہیر کیلئے الجزیرہ کے عربی چینل کو وجود میں لایا گیا ہے۔ اس خاص فائدے کے تحت مسٹر جارج بش کی ہدایت پر امریکہ میں خصوصی طور پر الجزیرہ کا انگریزی چینل قائم ہوا۔ جہاں سے تخلیقی کیسٹوں کے ذریعہ القاعدہ وطالبان کی دھمکیاں میں منظر عام پر آئیں۔ منصوبہ بندی ہوئی کہ تخلیقی القاعدہ و طالبان کو امریکہ پر حملہ آور دِکھاکر پاکستان و افغانستان کے علاقوں پر حملے کئے جائیں جس سے امریکی عوام کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے مسٹربارک اوبامہ کی امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو اس ایشو کو سامنے رکھ کر شرمناک شکست دی جاسکے ۔

اس حکمت میں تعاون کیلئے پاکستان کا اشتراک ضروری تھا۔ اس کیلئے پاکستان کا جمہوری اتحاد کمزور کیا گیا۔ اور حالات ایسے پید ا کئے گئے۔ کہ نواز لیگ حکومت سے از خود ہی الگ ہوجائے۔ عوام کی بھرپور مخالفت کے نتیجہ میں پرویز مشرف کو اقتدار سے اس لئے الگ کیا گیا کہ اس کی جگہ پی پی پی کو ملے اور پی پی پی سے اعلانیہ نہیں تو خفیہ مفاہمت ہوسکتی ہے ۔ اور یہ خفیہ مفاہمت کا ہی نتیجہ ہے۔ کہ پاکستان کے مذہبی مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ان حملوں کیلئے خفیہ اجازت پی پی پی کی حکومت نے امریکہ کو دے دی ہے۔ گویا اب مسٹر آصف علی زرداری کی جماعت مسٹر بارک اوبامہ کو شکست دینے کے لئے مسٹر جارج بش کے ساتھ کھڑی ہے۔اسی لئے ان کو صدارت کے عہدہ کا تاج مسلمانوں پر حملہ کرانے کیلئے پہنایا جارہاہے۔

بہر حال حکومت پاکستان کی طرف سے مذہبی مسلمانوں پر امریکہ کے خفیہ حملوں کی اجازت افسوس ناک ہے۔ اگر پاکستان میں اسی طرح دھشت گردی پھیلتی رہی اور مذہبی مسلمانوں پر حملہ ہوتے رہے ۔ تو پھر ان میں اور پرویز مشرف میں کیا فرق رہ گیا؟

پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی پر حالیہ حملہ کو دنیا اس طورپر دیکھ رہی ہے کہ ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ مذہبی مسلمانوں پر امریکی حملہ میں معاون بنیں ورنہ انجام بے نظیر کی طرح قتل ۔۔۔۔۔۔؟

دنیا کے عوا م یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ امریکہ کے پاکستان میں خفیہ حملے کی اجازت کے پیچھے کون ہے؟
زرداری یا گیلانی؟
آخر امریکہ اب کس کی اجازت سے مذہبی مسلمانوں پر حملہ کررہا ہے۔ پاکستان میں مذہبی مسلمانوں کا اصل اور خفیہ قاتل کون ہے؟ گیلانی پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا۔ کہ وہ امریکہ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ کہیں یہ حملہ ان کو امریکہ کے آگے جھکنے پر مجبور کرنے کیلئے تو نہیں ہوا؟

بشکریہ ۔ ایاز محمود صاحب ۔ قلمکار القمر آن لائین

شاید ایاز محمود صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ افغانی مسلمانوں پر بم اور گولیاں برسانے والے امریکی اور اُن کے اتحادی فوجیوں کیلئے رسد [supplies] پاکستان سے جاتی ہیں جو قبائلی علاقہ سے گذرتی ہیں ۔ پاکستان کے اندر افغانستان کی سرحد تک ان کی حفاظت پاکستانی فوجی کرتے ہیں ۔ پاکستانی فوج اور پاکستان کے قبائلیوں کی آپس میں جنگ اسی وجہ سے شروع ہوئی کہ قبائلی ان سپلائیز کے ٹرکوں پر حملے کرنے لگے ۔ قبائلیوں کا مسلک یہ تھا اور ہے کہ پاکستانی فوجی اپنے مسلم افغان بھائیوں کو ہلاک کرنے میں امریکہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں ؟

صاحب آفاق

جس بندہء حق بیں کی خودی ہو گئ بیدار
شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار
ہر ذرّے میں پوشیدہ ہے جو قوّت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو
تو بندہء آفاق ہے ۔ وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی
وہ پاکیءِ فطرت سے ہوا محرم اعماق

میرا روزہ ہے ؟

سب بزرگان ۔ بہنوں ۔ بھائیوں ۔ بھتیجیوں ۔ بھتیجوں ۔ بھانجیوں اور بھانجوں کو رمضان مبارک ۔ اللہ آپ سب کو اور مجھے بلکہ تمام مسلمانوں کو رمضان کا صحیح اہتمام اور احترام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین

آج پاکستان میں دوسرا روزہ ہے ۔ میں اس اظہارِ خواہش میں تاخیر کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ وجوہ زیادہ تر دنیاوی ہی ہیں ۔ دو فوتگیاں ہو گئیں اور کچھ دوسرے عُجلت طلب گھریلو کاموں نے پچھلے کچھ دن سے گھیرے رکھا ۔

روزہ صبح صادق سے غروبِ آفتاب تک بھوکا رہنے کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ ہر برائی سے بچنے کا نام ہے مگر پرانے تجربات بہت دِل شکن ہیں

ایک صاحب سنیما ہاؤس سے باہر نکلے تو ان سے پوچھا “آپ کا روزہ نہیں ہے کیا ؟” جواب دیا “روزے سے ہوں ۔ بس وقت گذارنے کیلئے آ گیا تھا”۔ آجکل سنیما ہاؤس تو لوگ کم ہی جاتے ہیں گھر میں ہی وی سی آر پر وڈیو کیسٹ یا کمپیوٹر پر سی ڈی لگا کر دیکھ لیتے ہیں ۔

روزہ رکھ کر جھوٹ بولنا ۔ کم تولنا ۔ ناقص مال بیچنا تو عام سی بات ہے

غیبت کرنا ۔ چغلی کھانا اور کسی لڑکی یا عورت کی طرف جان بوجھ کر دیکھنا تو وطنِ عزیز میں گناہ سمجھا ہی نہیں جاتا ۔

کسی پر گرمی کھانا تو شاید روزے میں فرض سمجھا جاتا ہے ۔

جس روزے کا اللہ سُبْحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے حُکم دیا ہے وہ مندرجہ بالا کسی بھی عمل یا کوئی دوسری غلطی سے ناقص ہو جاتا ہے اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ کوئی ذی شعور شخص ناقص مال لینا پسند نہیں کرتا ۔ اگر مندرجہ بالا میں سے یا کوئی اور کئی غلطیاں ہو جائیں تو روزہ فاقہ بن جاتا ہے ۔