امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی [produced or manufatured] القاعدہ و طالبان تحریک کی جو سیاسی حکمت اپنا رکھی ہے کہ اس تحریک کو تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ عوام کو ڈرانے و دھمکانے کیلئے اجاگر کیا جاتا ہے۔ اور پھر اس سے عالم کے مسلمانوں پر رعب جمانے کیلئے اس کا دھشت گرد چہرہ پیش کرکے اس پر زبردشت حملہ کردیا جاتا ہے۔ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کیلئے ملکوں کو امداد کا سلسلہ شروع کیا جاتا ہے۔ اس کے ذریعہ تخلیقی القاعدہ و طالبان تحریک کو پوری دنیا میں زندہ کیا جاتا ہے۔ پھر اس امداد کی حصولیابی کیلئے ملکوں میں مداخلت کرکے ان ملکوں کو مذکورہ تحریک سے تحفظ کے نام پر وہاں اپنی افواج مسلط کرکے اپنی افواج کی تنخواہوں کا بوجھ ان پر ڈال کر ۔ دی گئی امداد سے سات گنا زیادہ وصول کرلیا جاتا ہے۔ امریکہ کی نصف افواج کا خرچہ بیرونی ملکوں سے اس کو حاصل ہوتا ہے۔ اور وہ اپنی امداد کا بدل خوبصورت طریقہ سے واپس لے لیتا ہے۔ ہر دو یا تین سال بعد کسی نہ کسی ملک کے حصہ کی پنجرہ نما آزادی دلانے کی تحریک سرگرم عمل ہوتی ہے۔ اور وہ تحریک اس پنجرہ نما ملک میں امریکی افواج کی تعیناتی سے ہوتی ہے۔ پھر اس پنجرہ نما آزادی والے ملک کے پنجرہ کو اقوام متحدہ کی چوکھٹ پر ٹانگ دیا جاتا ہے۔ اور اس کا انسانیت کے خون سے لت پت جھنڈا اقوام متحدہ کے دفتر پر لہراتا ہے۔ جس سے پتہ چلتا ہے کہ امریکن ری پبلیکن پارٹی نے کامیاب حریت کی ڈکیتی کو پایہ تکمیل تک پہنچادیا ہے۔
مذکورہ ملکوں کے حصہ کے لوگوں کے پَر کُتر کر ا س پنجرہ نما آزادی کے اس خوبصورت پنجرہ میں آزادی کے نام پر قید کردیا جاتا ہے۔ وہ وہاں سے بھاگنے کی جسارت نہیں کرسکتے۔ اس لئے کہ وہ اب اڑنے کے قابل بھی نہیں رہے ہوتے۔ ان کو آزادی کے نام پر معاہدے کرکے اپنی خدمات کی طویل فہرست ان کے سامنے رکھ دی جاتی ہے۔
امریکن ری پبلیکن پارٹی تخلیقی دھشت گردی کے عنوان سے پنجرہ نما آزادی کو پکاتی ہے۔ دلائی لامہ ، یاسر عرفات ، میر واعظ طرح کے لوگ اس بے نظیر تحریک کے ساتھ پیدا کئے جاتے ہیں۔ وہ اپنے اپنے ملکوں کے حصوں میں امریکہ کیلئے فصل تیار کرتے ہیں۔ اور اس فصل کو امریکہ کی قیادت پنجرہ نما آزادی کے عنوان سے کاٹ کر لے جاتی ہے۔ اس لئے دھشت گردوں و دھشت گردی کا وجود ایک طے شدہ حکمت عملی ہے۔ جو امریکہ کو دھمکیاں دینے کیلئے وجود میں لائی جاتی ہیں۔ القاعدہ و طالبان کے یہ تخلیقی دھشت گرد تخلیقی کیسٹوں سے امریکہ کو جب دھمکیاں دیتے ہیں۔ تو پتہ چلتا ہے۔ کہ یہ اسی کی خوبصورت حکمت عملی ہے۔ اور اس حکمت عملی کی زد پر مسلمان ہیں ۔ اور پھر ان پر امریکی حملوں کا نہ رُکنے والا سلسلہ جاری رہتا ہے۔
امریکن ری پبلیکن پارٹی نے اپنے سیاسی حریف جماعت امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو شکست دینے کیلئے تخلیقی طور پر القاعدہ و طالبان کا پلان تیار کیا گیا کہ افغانستان کے پہاڑی علاقے اور پاکستان کے قبائلی علاقے پر مذکورہ جماعت کی قیادت کے حکم پر امریکہ کے صدارتی الیکشن سے عین قبل شدید و بھیانک حملہ ہوگا۔ اس سے قبل مشق کے طور پر چھوٹے موٹے حملے ہوتے رہیں گے۔ اور ان حملوں کیلئے افغانستان اور پاکستان کی سرکاروں سے منظوری لی جائے گی۔
اب اُگائی کا وقت ہے۔ یہ اگائی کا سلسلہ شروع ہوا ہی تھا کہ پاکستان میں جمہوری انقلاب کی آمد سے حالات بدل گئے۔ پاکستان کی نئی حکومت اس حکمت عملی میں امریکہ کا ساتھ دینے سے پرہیز کررہی ہے۔ اس لئے کہ اس پر میاں نواز شریف صاحب اور وہاں کے عوام کا
زبردشت دباؤ ہے کہ امریکہ کو مسلمانوں پر حملہ کی اجازت کسی طور پر نہ دی جائے۔
تخلیقی القاعدہ وطالبان تحریک امریکن ری پبلیکن پارٹی کا محض ایک تخلیق [product] اور سیاسی پروپیگنڈہ ہے۔ اس پروپیگنڈے کی تشہیر کیلئے الجزیرہ کے عربی چینل کو وجود میں لایا گیا ہے۔ اس خاص فائدے کے تحت مسٹر جارج بش کی ہدایت پر امریکہ میں خصوصی طور پر الجزیرہ کا انگریزی چینل قائم ہوا۔ جہاں سے تخلیقی کیسٹوں کے ذریعہ القاعدہ وطالبان کی دھمکیاں میں منظر عام پر آئیں۔ منصوبہ بندی ہوئی کہ تخلیقی القاعدہ و طالبان کو امریکہ پر حملہ آور دِکھاکر پاکستان و افغانستان کے علاقوں پر حملے کئے جائیں جس سے امریکی عوام کو اپنا ہمنوا بناتے ہوئے مسٹربارک اوبامہ کی امریکن ڈیموکریٹک پارٹی کو اس ایشو کو سامنے رکھ کر شرمناک شکست دی جاسکے ۔
اس حکمت میں تعاون کیلئے پاکستان کا اشتراک ضروری تھا۔ اس کیلئے پاکستان کا جمہوری اتحاد کمزور کیا گیا۔ اور حالات ایسے پید ا کئے گئے۔ کہ نواز لیگ حکومت سے از خود ہی الگ ہوجائے۔ عوام کی بھرپور مخالفت کے نتیجہ میں پرویز مشرف کو اقتدار سے اس لئے الگ کیا گیا کہ اس کی جگہ پی پی پی کو ملے اور پی پی پی سے اعلانیہ نہیں تو خفیہ مفاہمت ہوسکتی ہے ۔ اور یہ خفیہ مفاہمت کا ہی نتیجہ ہے۔ کہ پاکستان کے مذہبی مسلمانوں پر حملے ہورہے ہیں۔ ان حملوں کیلئے خفیہ اجازت پی پی پی کی حکومت نے امریکہ کو دے دی ہے۔ گویا اب مسٹر آصف علی زرداری کی جماعت مسٹر بارک اوبامہ کو شکست دینے کے لئے مسٹر جارج بش کے ساتھ کھڑی ہے۔اسی لئے ان کو صدارت کے عہدہ کا تاج مسلمانوں پر حملہ کرانے کیلئے پہنایا جارہاہے۔
بہر حال حکومت پاکستان کی طرف سے مذہبی مسلمانوں پر امریکہ کے خفیہ حملوں کی اجازت افسوس ناک ہے۔ اگر پاکستان میں اسی طرح دھشت گردی پھیلتی رہی اور مذہبی مسلمانوں پر حملہ ہوتے رہے ۔ تو پھر ان میں اور پرویز مشرف میں کیا فرق رہ گیا؟
پاکستان کے وزیر اعظم یوسف رضاگیلانی پر حالیہ حملہ کو دنیا اس طورپر دیکھ رہی ہے کہ ان کو مجبور کیا جارہا ہے کہ مذہبی مسلمانوں پر امریکی حملہ میں معاون بنیں ورنہ انجام بے نظیر کی طرح قتل ۔۔۔۔۔۔؟
دنیا کے عوا م یہ جاننے کے خواہش مند ہیں کہ امریکہ کے پاکستان میں خفیہ حملے کی اجازت کے پیچھے کون ہے؟
زرداری یا گیلانی؟
آخر امریکہ اب کس کی اجازت سے مذہبی مسلمانوں پر حملہ کررہا ہے۔ پاکستان میں مذہبی مسلمانوں کا اصل اور خفیہ قاتل کون ہے؟ گیلانی پر یہ حملہ ایک ایسے وقت ہوا ہے۔ جب انہوں نے کہا تھا۔ کہ وہ امریکہ کے آگے نہیں جھکیں گے۔ کہیں یہ حملہ ان کو امریکہ کے آگے جھکنے پر مجبور کرنے کیلئے تو نہیں ہوا؟
بشکریہ ۔ ایاز محمود صاحب ۔ قلمکار القمر آن لائین
شاید ایاز محمود صاحب کے علم میں نہیں ہے کہ افغانی مسلمانوں پر بم اور گولیاں برسانے والے امریکی اور اُن کے اتحادی فوجیوں کیلئے رسد [supplies] پاکستان سے جاتی ہیں جو قبائلی علاقہ سے گذرتی ہیں ۔ پاکستان کے اندر افغانستان کی سرحد تک ان کی حفاظت پاکستانی فوجی کرتے ہیں ۔ پاکستانی فوج اور پاکستان کے قبائلیوں کی آپس میں جنگ اسی وجہ سے شروع ہوئی کہ قبائلی ان سپلائیز کے ٹرکوں پر حملے کرنے لگے ۔ قبائلیوں کا مسلک یہ تھا اور ہے کہ پاکستانی فوجی اپنے مسلم افغان بھائیوں کو ہلاک کرنے میں امریکہ کی مدد کیوں کر رہے ہیں ؟