دیکھنے میں آیا ہے کہ لفظ “ہِبہ ” کا کئی دوسرے الفاظ کی طرح غلط استعمال کیا جانے لگا ہے ۔ یہاں تک کہ ہِبہ نام کی دُکانیں تک کھول دی گئی ہیں جن میں ہِبہ نہیں ہوتا بلکہ چیزیں فروخت کی جاتی ہیں ۔ کچھ بے عقل لوگ اپنی بہن یا بیٹی کسی کے حوالے کر کے اسے ہِبہ کا نام دیتے ہیں جو کہ بالکل غلط ہے ۔
ہبہ وہ چیز ہے جو ایک شخص کی خالص اپنی ملکیت ہو اور وہ بغیر معاوضہ اور بغیر کسی لالچ کے دوسرے شخص کی ملکیت میں دے دے خواہ لینے والا شخص مالدار ہو یا غریب ۔
اگر کوئی شخص اپنا قرض مقروض کو ہِبہ کر دے تو مقروض کا وہ قرض معاف ہو جاتا ہے اور قرض دینے والا پھر اس کی واپسی کا مطالبہ نہیں کر سکتا ۔
عورت اپنے خاوند کو حق مہر اپنی مرضی سے معاف کر دے تو یہ ہِبہ کہلاسکتا ہے
ہبہ نہ تو صدقہ ہے اور نہ ہدیہ ۔
صدقہ صرف مستحق یعنی غریب کو صرف اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے دیا جاتا ہے
ہدیہ آپس کے تعلقات قائم کرنے یا بہتر بنانے کیلئے دیا جاتا ہے ۔ کسی ناحق مطلب براری کیلئے نہیں
ہبہ اور ہدیہ میں ایک قدرِ مشترک ہے کہ رشتہ دار بشمول بیوی یا خاوند ۔ دوست محلے دار وغیرہ کو کوئی چیز ہبہ کر سکتے ہیں اور تحفہ یعنی ہدیہ بھی دے سکتے ہیں ۔ ان میں دینے اور لینے والا مالدار بھی ہو سکتا ہے اور غریب بھی ۔ یعنی ایک گداگر بھی کسی مالدار کو کوئی چیز ہبہ کر سکتا ہے یا ہدیہ دے سکتا ہے ۔
ایک بار جو چیز ہِبہ کر دی جائے اس کا واپس لینا ممنوع ہے
ہِبہ نام بھی رکھا جاتا ہے جس کے معنی اللہ کا دیا ہوا تحفہ لئے جاتے ہیں ۔
اسماء الحسنہ میں ایک وہاب بھی ہے جس کے معنی ہیں ہِبہ کرنے والا
اشیاء ۔ مال اور مویشی ہِبہ کئے جا سکتے ہیں انسان نہیں
میری معلومات کے مطابق یہ ٹرم جائیداد وغیرہ کی منتقلی میں بھی استعمال ہوتی ہے اور وہاں تو ہبہ کی گئی جائیداد ہبہ کرنے والا کسی بھی وقت واپس لے سکتا ہے۔ قانوناٌ ہمارے ہاں شاید ہبہ کی یہ تعریف نہیں۔ غلط ہوں تو پلیز رہنمائی فرمائیے۔
ڈفر صاحب
جو چیز ہبہ کی جائے وہ واپس نہیں لی جا سکتی ۔ اگر کوئی واپس لیتا ہے تو گناہ کا مرتکب ہوتا ہے ۔ البتہ ہِبہ لینے والا شخص وہ چیز کسی کو ہِبہ کر سکتا ہے ۔
مجھے کچھ یاد پڑتا ہے کہ غیر منقولہ جائیداد کی منتقلی کے سلسلہ میں ہِبہ کے لفظ کا غلط استعمال کیا جاتا ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ ایسا کسی عیب کو چھپانے کیلئے کیا جاتا ہو ۔ یعنی ٹیکس نہ دینا چاہے ۔
غیر منقولہ جائیداد کے سلسلہ میں ہِبہ کا بہترین استعمال بھی ہو سکتا ہے ۔ مثال کے طور پر تین بھائیوں میں ان کے باپ کی جائیداد باپ کی وفات کے بعد تقسیم ہونا ہے ۔ باپ کے نام جو جائیداد تھی اس میں سے کچھ ایک بھائی نے بنائی تھی چنانچہ قانونی تقسیم پر وہ گھاٹے میں رہے گا ۔ ایسی صورت میں دوسرے بھائیوں کو چاہیئے کہ جو جائیداد اُن کے ایک بھائی نے بنائی تھی وہ پہلے اُسے ہِبہ کر دیں پھر باقی جائیداد قانون کے مطابق تقسیم کریں
میرے تایا نے ایک مکان میرے چچاؤں کے نام کیا تھا مطلب ہبہ کیا تھا۔ آجکل وہ اسکو کینسل کروانے کے چکروں میں ہیں۔ انکے وکیل تو انکو یہی مشورے دے رہے ہیں کہ اسکی کوئی قانونی حیثیت نہیں۔ اب مجھے صحیح قانون کا تو نہیں پتہ نا!
ڈفر صاحب
اوّل یہ کہ ہمارے ملک کا قانون ہے تو غیر اسلامی لیکن اس کو اسلام کا تڑکا لگایا ہوا ہے ۔ اسلئے زبانی ہِبہ کرنے سے کچھ نہیں ہوتا ۔ ہِبہ کو رجسٹر کروانا ہوتا ہے مگر ملک کا قانون بیٹی یا بیٹے کے نام ہِبہ کو مانتا ہے ۔ بھائی یا بہن کے نام نہیں ۔ چنانچہ اس کیلئے رجسٹریشن فیس دینا ہوتی ہے ۔ خیال رہے کہ میں قانون دان نہیں ہوں ۔ یہ سب میری ذاتی حاصل کردہ معلومات ہیں ۔
مجھے لگتا ہے کہ آپ کو ڈفر لکھتے لکھتے میں اصلی ڈفر ہو جاؤں گا ۔ آپ لوگ ایسے نام کیوں رکھتے ہیں جس سے دوسرے کو تکلیف ہو ؟