پہلے دھماکے ابھی ذہن سے محو نہیں ہو پا رہے مگر اسلام آباد میں رہنے والوں کیلئے میریئٹ ہوٹل کا دھماکہ بھُولنا بہت مشکل ہو گا ۔ اب تک کچھ حقائق اور کچھ افواہیں ذرائع ابلاغ کے ذریعہ سب تک پہنچ چکی ہیں مگر میں ابھی تک اس گورکھ دھندے میں پھنسا ہوں کہ اس تباہی کی ذمہ داری کسی پر عائد ہوتی ہے ؟
ہوٹل کے سکیورٹی سٹاف بالخصوص گارڈز نے تو اپنا فرض خُوب نبھایا اور تعریف اور دعائے خیر کے مستحق ہیں کہ آخر وقت تک وہ ڈمپر ٹرک کے انجن میں لگی آگ کو بجھاتے رہے اور اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر دیا ۔ اللہ اُنہیں جنت میں جگہ دے اور اُن کے پسماندگان پر بھی اپنی رحمتیں نازل کرے ۔ آمین
معمول سے ہٹ کر اس بار حکومت نے طالبان کی بجائے کسی تحریک جہاد اسلامی پر شُبہ ظاہر کیا ہے ۔ جس نے بھی دھماکہ کروایا وہ پاکستان کا دشمن ہے ۔ دشمن کی کاروائی کیلئے دفاعی نظام مضبوط ہونا ضروری ہے ۔ لیکن ہر دھماکہ پر دفاعی نظام غائب محسوس ہوتا ہے ۔
دھماکہ میں استعمال ہونے والی تین چیزیں ہیں ۔ ایک شخص ۔ دھماکہ خیز مواد اور گاڑی جس پر لایا گیا ۔ چوتھی مگر بڑی اہم چیز دھماکہ ہو جانے کے بعد بچانے کا عمل ہوتا ہے ۔
1 ۔ ٹرک بیریئر سے ٹکرانے کے تین چار منٹ [بقول حکومتی ترجمان 7 منٹ] بعد دھماکہ ہوا ۔ اس دوران کسی حکومتی سکیورٹی والے نے نہ ٹرک کی آگ بُجھانے کی کوشش کی اور نہ ٹرک چلانے والے تک پہنچ کر اسے دیکھنے کی کوشش نہ کی کہ تفتیش میں آسانی ہوتی
2 ۔ بتایا گیا ہے کہ اس دھماکہ میں 600 کلو گرام ٹی این ٹی اور آر ڈی ایکس استعمال کیا گیا ہے ۔ اتنی بڑی مقدار میں یہ ہائی ایکسپلوسوز دھماکہ کرنے والے لوگ کہاں سے لاتے ہیں ؟ سرکاری ادارے پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایکسپلوسوز بنتے ہیں لیکن اُنہیں وہاں بننے والے گولوں اور بموں میں بھرا جاتا ہے جو کہ افواجِ پاکستان کو بھیجے جاتے ہیں ۔ کوئی ایکسپلوسِو کھُلا یا پیکٹوں میں کسی کو نہیں دیا جاتا ۔ اگر یہ درآمد کیا جا رہا ہے تو کیسے ؟ کیا یہ شک نہیں کیا جا سکتا کہ جو ٹرک افغانستان میں موجود امریکی فوج کو لاجسٹک سپورٹ دینے کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں واپسی پر ان ٹرکوں پر ایکسپلوسِوز اور دھماکہ کرنے کے دیگر آلات پاکستان بھیجے جا رہے ہیں ؟
3 ۔ ڈمپر ٹرک ۔ یہ ٹرک صرف بڑے پیمانے کی تعمیرات میں استعمال کیا جاتا ہے ۔ میریئٹ ہوٹل کے گرد و نواح میں کوئی تعمیراتی کام نہیں ہو رہا تو یہ ڈمپر ٹرک اس ہائی سکیورٹی زون میں پولیس اور خفیہ والوں کی نظروں سے بچ کر کیسے آ گیا ؟ بالخصوص جبکہ اس پر بجری یا ریت کی بجائے ڈبے لدے ہوئے تھے ۔ ڈمپر ٹرک مٹی ۔ ریت ۔ بجری اور اینٹیں گرانے کیلئے استعمال کئے جاتے ہیں ۔
4 ۔ ہوٹل کی پانچویں منزل میں آگ لگی اور بڑھتی چلی گئی ۔ فائر بریگیڈ دیر سے پہنچی اسلئے آگ پھیل چکی تھی ۔ اس کے دیر سے پہنچنے کا کیا جواز ہے ؟ پہنچنے کے بعد بھی وہ اپنی مہارت کا مظاہرہ نہ کر سکے لیکن اس میں اُن کا قصور نہ تھا ۔ فائر ٹینڈر تو جدید ترین منگوا لئے گئے لیکن ان کے استعمال کی کسی کو تربیت نہ دی گئی تھی اور نہ ان سب کو منظم کرنے والا کوئی نہ تھا ۔ ہر فائر ٹنڈرز کا عملہ خود مختار تھا جو جس کی سمجھ میں آیا اْس نے کیا ۔
آگ بجھانے میں ناکامی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اُن کے پاس اِنٹرسٹیج بُوسٹر پمپ ہی نہ تھے جن کی مدد سے پانچویں منزل اور اس سے اُوپر پانی پھینکا جا سکتا ۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ سب انتظامات کسی کی ذمہ داری تھی ؟ کیا حکومت کا یہ فرض نہیں ؟
یہ بات بھی سمجھ سے باہر ہے کہ آگ بجھانے کیلئے ہیلی کاپٹر کیوں استعمال نہ کئے گئے ؟ جب کہ دو منٹ کی اُڑان پر راول جھیل موجود تھی جو پانی سے بھری ہوئی تھی ۔ کیا کوئی نشان مٹانا مقصود تھا ؟
اپنی ذمہ داری نہ نبھانے والے اہلکار سارا ملبہ کبھی طالبان ۔ کبھی جہادیوں اور کبھی مُلا پر ڈال دیتے ہیں ۔ جب تک متعلقہ ادارے اور حکمران امریکہ کی حسب منشاء الزام تراشی چھوڑ کر اپنا کام درست طریقہ سے نہیں کریں گے یہ دھماکے رُک نہیں سکتے ۔
میں تو اب بھی کہتا ہوں حکومتی آشیرباد سے ہو رہا ہے سب کچھ۔ مَنّو بھاویں نا مَنّو
آج تو ٹِکر چل رہا تھا کہ ’اسلام آباد میں بارود سے بھرے چار ٹرک داخل‘
یہ خبریں آتی کہاں سے ہیں؟ پولیس کا بھی اپنا ٹی وی چینل ہونا چاہیے
ڈفر صاحب
میں نے اس رویّے کا نام بُش ٹیکنالوجی رکھا ہوا ہے ۔ ایسی خبریں پھیلاؤ کہ عوام پڑیشان دہیں اور حکمرانوں کے کارناموں کی طرف اُن کا دھیان نہ جائے
محترم بھوپال صاحب
حکومت سے انصاف کے کٹہرے میں بلا کر سوال کرنے والی عدلیہ تو گھر بیٹھی ہے۔ اب آپ کے سوالوں کا جواب کہاں سے آے۔ اب تو گلیوں میں رانجھا یار ہی پھرے گا۔
محمد ریاض شاہد صاحب
آپ نے درست کہا لیکن کیا کریں ہماری قوم کا جسے سمجھ نہیں آ رہی
محترم بھوپال صاحب
آجکل کے یاس انگیز حالات میں علامہ اقبال کے اشعار گنگناتا ہوں۔ حیرت ہے کہ وہ مرد قلندر اس وقت آنے والے زمانے کو دیکھ رہا تھا۔ قندا مکرر کے طور پر حاضر ہیں
ابلیس کی مجلس شوری
1936ء
ابلیس
یہ عناصر کا پرانا کھیل، یہ دنیائے دوں
ساکنان عرش اعظم کی تمناؤں کا خوں!
اس کی بربادی پہ آج آمادہ ہے وہ کارساز
جس نے اس کا نام رکھا تھا جہان کاف و نوں
میں نے دکھلایا فرنگی کو ملوکیت کا خواب
میں نے توڑا مسجد و دیر و کلیسا کا فسوں
میں نے ناداروں کو سکھلایا سبق تقدیر کا
میں نے منعم کو دیا سرمایہ داری کا جنوں
کون کر سکتا ہے اس کی آتش سوزاں کو سرد
جس کے ہنگاموں میں ہو ابلیس کا سوز دروں
جس کی شاخیں ہوں ہماری آبیاری سے بلند
کون کر سکتا ہے اس نخل کہن کو سرنگوں!
پہلا مشیر
اس میں کیا شک ہے کہ محکم ہے یہ ابلیسی نظام
پختہ تر اس سے ہوئے خوئے غلامی میں عوام
ہے ازل سے ان غریبوں کے مقدر میں سجود
ان کی فطرت کا تقاضا ہے نماز بے قیام
آرزو اول تو پیدا ہو نہیں سکتی کہیں
ہو کہیں پیدا تو مر جاتی ہے یا رہتی ہے خام
یہ ہماری سعی پیہم کی کرامت ہے کہ آج
صوفی و ملا ملوکیت کے بندے ہیں تمام
طبع مشرق کے لیے موزوں یہی افیون تھی
ورنہ قوالی سے کچھ کم تر نہیں علم کلام!
ہے طواف و حج کا ہنگامہ اگر باقی تو کیا
کند ہو کر رہ گئی مومن کی تیغ بے نیام
کس کی نومیدی پہ حجت ہے یہ فرمان جدید؟
ہے جہاد اس دور میں مرد مسلماں پر حرام!
دوسرا مشیر
خیر ہے سلطانی جمہور کا غوغا کہ شر
تو جہاں کے تازہ فتنوں سے نہیں ہے با خبر!
پہلا مشیر
ہوں، مگر میری جہاں بینی بتاتی ہے مجھے
جو ملوکیت کا اک پردہ ہو، کیا اس سے خطر!
ہم نے خود شاہی کو پہنایا ہے جمہوری لباس
جب ذرا آدم ہوا ہے خود شناس و خود نگر
کاروبار شہریاری کی حقیقت اور ہے
یہ وجود میر و سلطاں پر نہیں ہے منحصر
مجلس ملت ہو یا پرویز کا دربار ہو
ہے وہ سلطاں، غیر کی کھیتی پہ ہو جس کی نظر
تو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن، اندروں چنگیز سے تاریک تر!
تیسرا مشیر
روح سلطانی رہے باقی تو پھر کیا اضطراب
ہے مگر کیا اس یہودی کی شرارت کا جواب؟
وہ کلیم بے تجلی، وہ مسیح بے صلیب
نیست پیغمبر و لیکن در بغل دارد کتاب
کیا بتاؤں کیا ہے کافر کی نگاہ پردہ سوز
مشرق و مغرب کی قوموں کے لیے روز حساب!
اس سے بڑھ کر اور کیا ہوگا طبیعت کا فساد
توڑ دی بندوں نے آقاؤں کے خیموں کی طناب!
چوتھا مشیر
توڑ اس کا رومہ الکبرے کے ایوانوں میں دیکھ
آل سیزر کو دکھایا ہم نے پھر سیزر کا خواب
کون بحر روم کی موجوں سے ہے لپٹا ہوا
گاہ بالد چوں صنوبر، گاہ نالد چوں رباب،
تیسرا مشیر
میں تو اس کی عاقبت بینی کا کچھ قائل نہیں
جس نے افرنگی سیاست کو کیا یوں بے حجاب
پانچواں مشیر
ابلیس کو مخاطب کرکے
اے ترے سوز نفس سے کار عالم استوار!
تو نے جب چاہا، کیا ہر پردگی کو آشکار
آب و گل تیری حرارت سے جہان سوز و ساز
ابلہ جنت تری تعلیم سے دانائے کار
تجھ سے بڑھ کر فطرت آدم کا وہ محرم نہیں
سادہ دل بندوں میں جو مشہور ہے پروردگار
کام تھا جن کا فقط تقدیس و تسبیح و طواف
تیری غیرت سے ابد تک سرنگون و شرمسار
گرچہ ہیں تیرے مرید افرنگ کے ساحر تمام
اب مجھے ان کی فراست پر نہیں ہے اعتبار
وہ یہودی فتنہ گر، وہ روح مزدک کا بروز
ہر قبا ہونے کو ہے اس کے جنوں سے تار تار
زاغ دشتی ہو رہا ہے ہمسر شاہین و چرغ
کتنی سرعت سے بدلتا ہے مزاج روزگار
چھا گئی آشفتہ ہو کر وسعت افلاک پر
جس کو نادانی سے ہم سمجھے تھے اک مشت غبار
فتنۂ فردا کی ہیبت کا یہ عالم ہے کہ آج
کانپتے ہیں کوہسار و مرغزار و جوئبار
میرے آقا! وہ جہاں زیر و زبر ہونے کو ہے
جس جہاں کا ہے فقط تیری سیادت پر مدار
ابلیس
اپنے مشیروں سے
ہے مرے دست تصرف میں جہان رنگ و بو
کیا زمیں، کیا مہر و مہ، کیا آسمان تو بتو
دیکھ لیں گے اپنی آنکھوں سے تماشا غرب و شرق
میں نے جب گرما دیا اقوام یورپ کا لہو
کیا امامان سیاست، کیا کلیسا کے شیوخ
سب کو دیوانہ بنا سکتی ہے میری ایک ہو
کارگاہ شیشہ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہذیب کے جام و سبو!
دست فطرت نے کیا ہے جن گریبانوں کو چاک
مزدکی منطق کی سوزن سے نہیں ہوتے رفو
کب ڈرا سکتے ہیں مجھ کو اشتراکی کوچہ گرد
یہ پریشاں روزگار، آشفتہ مغز، آشفتہ مو
ہے اگر مجھ کو خطر کوئی تو اس امت سے ہے
جس کی خاکستر میں ہے اب تک شرار آرزو
خال خال اس قوم میں اب تک نظر آتے ہیں وہ
کرتے ہیں اشک سحر گاہی سے جو ظالم وضو
جانتا ہے، جس پہ روشن باطن ایام ہے
مزدکیت فتنہ فردا نہیں، اسلام ہے!
(2)
جانتا ہوں میں یہ امت حامل قرآں نہیں
ہے وہی سرمایہ داری بندہ مومن کا دیں
جانتا ہوں میں کہ مشرق کی اندھیری رات میں
بے ید بیضا ہے پیران حرم کی آستیں
عصر حاضر کے تقاضاؤں سے ہے لیکن یہ خوف
ہو نہ جائے آشکارا شرع پیغمبر کہیں
الحذر! آئین پیغمبر سے سو بار الحذر
حافظ ناموس زن، مرد آزما، مرد آفریں
موت کا پیغام ہر نوع غلامی کے لیے
نے کوئی فغفور و خاقاں، نے فقیر رہ نشیں
کرتا ہے دولت کو ہر آلودگی سے پاک صاف
منعموں کو مال و دولت کا بناتا ہے امیں
اس سے بڑھ کر اور کیا فکر و عمل کا انقلاب
پادشاہوں کی نہیں، اللہ کی ہے یہ زمیں!
چشم عالم سے رہے پوشیدہ یہ آئیں تو خوب
یہ غنیمت ہے کہ خود مومن ہے محروم یقیں
ہے یہی بہتر الہیات میں الجھا رہے
یہ کتاب اللہ کی تاویلات میں الجھا رہے
(3)
توڑ ڈالیں جس کی تکبیریں طلسم شش جہات
ہو نہ روشن اس خدا اندیش کی تاریک رات
ابن مریم مر گیا یا زندہ جاوید ہے
ہیں صفات ذات حق، حق سے جدا یا عین ذات؟
آنے والے سے مسیح ناصری مقصود ہے
یا مجدد، جس میں ہوں فرزند مریم کے صفات؟
ہیں کلام اللہ کے الفاظ حادث یا قدیم
امت مرحوم کی ہے کس عقیدے میں نجات؟
کیا مسلماں کے لیے کافی نہیں اس دور میں
یہ الہیات کے ترشے ہوئے لات و منات؟
تم اسے بیگانہ رکھو عالم کردار سے
تا بساط زندگی میں اس کے سب مہرے ہوں مات
خیر اسی میں ہے، قیامت تک رہے مومن غلام
چھوڑ کر اوروں کی خاطر یہ جہان بے ثبات
ہے وہی شعر و تصوف اس کے حق میں خوب تر
جو چھپا دے اس کی آنکھوں سے تماشائے حیات
ہر نفس ڈرتا ہوں اس امت کی بیداری سے میں
ہے حقیقت جس کے دیں کی احتساب کائنات
مست رکھو ذکر و فکر صبحگاہی میں اسے
پختہ تر کر دو مزاج خانقاہی میں اسے
جنگ اخبار نے کہانی کا دوسرا رخ بھی پیش کیا ہے۔
http://ejang.jang.com.pk/9-24-2008/pic.asp?picname=1317.gif
میں سمجھتا ہوں کہہ اقبال ایک ولی تھا
اسکی نظر نے وہ کچھ دیکھا اور قلم نے وہ کچھ لکھا جو اسکے بعد آنے والی نسلیں نہ دیکھ سکیں
محمد ریاض شاہد صاحب
میں علامہ اقبال کو ایک فلسفی سمجھتا ہوں اور فلسفی اگر اللہ کو مانتا ہو تو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اسے بصیرت عطا کرتے ہیں اور اس کی لکھی باتیں ہر دور کیلئے ہو جاتی ہیں ۔
افضل صاحب
موجودہ دور میں کامیاب اس کو کہا جاتا ہے جو حقیقت کسی کو معلوم نہ ہونے دے