مادیت پرستی نے دنیا کو اتنا محسور کر دیا ہے کہ آج کے دور کا انسان حقائق کو تسلیم کرنا تو کُجا حقائق سمجھنے کی بھی کوشس نہیں کرتا اور صرف اپنے تخلیق کردہ مادہ اور اطوار کو ہی حقیقت سمجھتا ہے ۔ انسان کی دین سے دُوری کا بنیادی سبب بھی یہی ہے ۔ ہم لوگ طبعیات ۔ کیمیا ۔ ریاضی ۔ معاشی ۔ معاشرتی ۔ وغیرہ مضامین کی کتابوں کو جس انہماک اور محنت کے ساتھ پڑھتے اور یاد رکھتے ہیں اگر اسی طرح دین کی بنیادی کتاب “قرآن شریف” کو بھی پڑھیں تو کوئی وجہ نہیں کہ ہم اسے سمجھ نہ سکیں ۔ جس قوم کے افراد کا یہ حال ہو کہ دوسرے مضامین کی سینکڑوں سے ہزاروں صفحات پر مشتمل غیر زبان میں لکھی کُتب کے مقابلہ میں اسلامیات کی پچاس صفحوں کی کتاب بھی بوجھل محسوس ہو ایسے افراد سے دین کو سمجھنے کی توقع کیسے کی جا سکتی ہے ۔
آمدن برسرَ مطلب ۔ دین ہے کیا ؟
دنیا میں ہر مصنوعی پرزہ کے استعمال کا طریقہ اس کے ساتھ لکھ کر دیا جاتا ہے اور ساتھ ہی احتیاطی تدابیر [Procedure; Operation layout or Process chart; Does and don’ts; Warning, etc] ہوتی ہیں ۔ مختلف اداروں میں کام کرنے والوں کو بھی لکھا ہوا یا زبانی طریقہ کار [Job description] مہیا کیا جاتا ہے جس میں بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے اور کیا نہیں کرنا ۔ اسی طرح ہر اچھے معاشرہ میں زندگی گذارنے کا طریقہ بھی مروّج ہوتا ہے ۔
ہماری روزمرہ کی زندگی میں ہر کام کے کرنے کے طریقہ کو آج کی ترقی یافتہ دنیا نے اتنی اہمیت دی ہے کہ اسے آئی ایس او [ISO 2000 to ISO 14000] میں شامل کر لیا ہے اور مشہور ادارے اور کارخانے اس کی سندیں حاصل کرتے پھر رہے ہیں ۔
دین یہ کہتا ہے کہ اچھی زندگی کس طرح گذاری جاتی ہے ۔ اپنے خاندان کے افراد سے ۔ رشتہ داروں سے ۔ محلے والوں سے ۔ ہمسفر سے ۔ مُحتاجوں سے ۔ اپنے افسر سے ۔ اپنے ماتحت سے غرضیکہ ہر انسان سے اچھی طرح پیش آنے کا دین حُکم دیتا ہے اور دین جسم کی صفائی ۔ لباس ۔ کھانا پینا ۔ چلنا پھرنا ۔ لین دین ۔ تجارت ۔ ملازمت ۔ زندگی کے ہر شعبہ اور ہر فعل کے متعلق خوش اسلوبی کی طرف رہنمائی کرتا ہے ۔ اور ہر بات تفصیل سے بتاتا ہے ۔
اگر غور کیا جائے تو معلوم ہو گا کہ چودہ صدیاں قبل قرآن شریف میں جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے احکام آئے آج کے جدید ترین انتظامی قوانین اُنہی سے ماخوذ ہیں مگر عمدگی میں اتنے کامل نہیں ہیں ۔ بات سمجھ سے باہر یہ ہے کہ اگر دین کو دنیا سے الگ ہی رکھنا ہے تو پھر دین کیا چوپایوں اور پرندوں کیلئے ہے ؟
المیہ یہ ہے کہ دیندار ہونے کا دعویٰ کرنے والے گھرانے بھی عملی طور پر مال و دولت کو ہی اہمیت دیتے ہیں۔ لیکن جس نے دین کو اپنا لیا اس کی زندگی میں سکون ہی سکون اور خوشیاں ہی خوشیاں۔
بہت خوب ۔ آپ کا آخری جملہ ساری بحثوں کا نچوڑ ہے۔
آپ کا “طالبان اور پاکستان” والے مضامین کا حتمی مسودہ ارسال کردیا گیا ہے۔
آمدن برسرَ مطلب ۔
شائد ٹائیپنگ مسٹیک ہے ۔۔۔ کیونکہ درست فارسی محاورہ میں لفظ “آمدم” ہے غالباً
اُردودان صاحب ۔ السلام علیکم
نوازش کیلئے مشکور ہوں ۔ میں آپ کابھیجا ہوا مسودہ ابھی پڑھ نہیں پایا ۔
حیدرآبادی صاحب ۔ السلام علیکم
کاوش کا شکریہ ۔ محاوروں میں عام طور پر مصدر ہی استعمال ہوتا ہے جو کہ اس محاورہ میں آمدن ہے ۔ البتہ آمدم بھی کہا جا سکتا ہے اگر بولنے والا اسے اپنے سے منسوب کر لے