امریکا جو کہ پسِ پردہ سوویٹ فوجوں کے خلاف افغان مجاہدین کی مدد کر رہا تھا کو اُس وقت پریشانی لاحق ہوئی جب اسلامی حکومت قائم کرنے کا نعرہ بلند کرنے والے افغان مجاہدین بظاہر کامیاب نظر آنے لگے ۔ اس وقت امریکا نے یکدم ہاتھ کھینچ لیا کہ کہیں مسلمانوں کی ایک اور حکومت قائم نہ ہو جائے ۔ 10 اپریل 1988ء کو ہونے والا مشہور اوجڑی کیمپ راولپنڈی کا حادثہ جس میں مسلم لیگ نواز کے لیڈر اور منیجنگ ڈائریکٹر ایئر بلیو شاہد خاقان عباسی کے والد محمد خاقان عباسی سمیت بہت سے پاکستانی شہری ہلاک ہوئے امریکہ کی مہربانی کا نتیجہ تھا کیونکہ پنٹیگون نے افغان مجاہدین کی امداد بند کرنے کا حُکمنامہ جاری کر دیا تھا مگر بغیر وار ہیڈ کے دُور مار کرنے والے راکٹ لے کر امریکا کے 2 سی130 پاکستان کی فضائی حدود میں داخل ہو چکے تھے ۔
امریکا نے اُس وقت بھی خیبر ایجنسی کے مقام جمرود میں دو گروہوں کی لڑائی کا بہانہ بنا کر جنرل ضیاء الحق کو مجبور کیا کہ یہ راکٹ راولپنڈی ہی میں کہیں رکھ دیئے جائیں اور بتایا کہ راکٹ بغیر وار ہیڈ کے ہیں اسلئے ان سے کوئی خطرہ نہیں ۔ کوئی اور جگہ نہ ہونے کی وجہ سے یہ راکٹ اوجڑی کیمپ کی متروکہ بیرکوں میں وقتی طور پر رکھ دیئے گئے ۔ پھر کسی طرح سے اس راکٹس کے انبار میں دھماکہ کیا گیا جس سے وہ راکٹ یکے بعد دیگرے ہوائیاں بن کر اِدھر اُدھر اُڑنے لگے ۔ خیال رہے کہ اوجڑی کیمپ اُس وقت کئی سال سے خالی پڑا تھا اور بیروکوں کے اندر کوئی ایسی چیز نہ تھی جو آگ لگنے یا دھماکہ کا سبب بنتی ۔ البتہ ذرائع ابلاغ میں یہ خبر آئی تھی کہ بعد ميں رات کے پچھلے پہر امریکا کا ایک ہوائی جہاز بغیر شیڈول کے پہنچا تھا جس سے کچھ اسلحہ رات کی تاریکی ہی میں اوجڑی کیمپ پہنچایا گیا تھا ۔ اُس رات کے اگلے دن ہی دس بجے کے قریب اوجڑی کیمپ میں دھماکا ہوا تھا ۔
دھماکہ اتنا شدید تھا کہ اس کی دھمک میں نے اوجڑی کیمپ سے 40 کلو میٹر دُور واہ چھاونی میں اپنے دفتر میں بیٹھے محسوس کی تھی ۔ ہلاکتیں اور دوسرا نقصان ان راکٹوں کے براہِ راست ٹکرانے سے ہوا تھا کیونکہ وار ہیڈ ساتھ لگے نہ ہونے کی وجہ سے آگ لگنے پر راکٹ صرف اُڑ سکتے تھے پھٹ نہیں سکتے تھے یا اگر راکٹ کسی شعلہ آور شئے کے پاس گرا اور علاقہ میں آگ لگ گئی ۔ ایک راکٹ سٹیلائٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارے گھر میں بھی گرا تھا اور برآمدے میں لگی چِخوں اور لکڑی کے چوکھٹوں کو آگ لگ گئی تھی ۔ ہمارا گھر اوجڑی کیمپ سے 2 کلو میٹر کے ہوائی فاصلہ پر تھا ۔ اُس وقت کے وزیرِ اعظم محمد خان جونیجو کو اس سانحہ کی حقیقت کی کچھ سُدھ بُدھ ہو گئی تھی جس کے نتیجہ میں اُن کی حکومت توڑ دی گئی تھی حالانکہ یہ حکومت خود جنرل ضیاء الحق نے بنائی تھی اور محمد خان جونیجو کو بھی خود جنرل ضیاء الحق نے چُنا تھا ۔
اسی پر بس نہ ہوا بلکہ افغان مُسلم سلطنت کو بننے سے روکنے کیلئے امریکہ نے افغانیوں کے مختلف گروہوں کو آپس میں لڑانے کی منصوبہ بندی کی ۔ پہلے ڈالر سے متحارب گروہ پیدا کئے اور پھر اسلحہ اور ڈالر سے ان کی پُشت پناہی کی ۔ امریکہ کی پشت پناہی سے شروع کی گئی خانہ جنگی میں 1994ء تک افغانستان میں افغانیوں کیلئے حالات اتنے بگڑ گئے کہ لوٹ مار ۔ اغواء اور زنا روزانہ کا معمول بن گیا ۔ ایسے میں ایک بوڑھی عورت نے ایک گاؤں میں مسجد کے امام اور دینی اُستاد مُلا عمر کو اپنی بپتا سُنا کر جھنجوڑ دیا ۔ اُس نے اپنے پاس کھڑے شاگردوں کی طرف دیکھا جنہوں نے ہاں میں سر ہلایا اور مُلا عمر اپنے آٹھ دس شاگردوں کے ہمراہ بوڑھی عورت سے یہ کہتا ہوا مسجد سے نکل گیا ”مُلا عمر اُس وقت تک واپس نہیں آئے گا جب تک تمہاری جوان بیٹیوں پر ہونے والے ظُلم کا بدلا نہ لے لے“۔ یہ ایک نئے جہاد کا آغاز تھا جو صرف سولہ سترہ افغانیوں نے شروع کیا اور بڑی تیزی سے بڑھتا گیا ۔ عام لوگ لوٹ مار اور ظُلم سے تنگ آ چکے تھے ۔ وہ جوق در جوق مُلا عمر کے جھنڈے تلے جمع ہوتے گئے اور بہت کم مدت میں افغانستان کے 85 فیصد سے زائد علاقے پر مُلا عمر کی حُکمرانی ہو گئی ۔ افغانستان جہاں کسی کا مال محفوظ رہا تھا نہ کسی عورت کی عصمت وہاں اللہ کے فضل سے یہ حال ہوا کہ عورت ہو یا مرد دن ہو یا رات مُلا عمر کے زیرِ اثر افغانستان میں بلا خوف و خطر سفر کرتا تھا ۔ اس زمانہ میں اسلام آباد کے کچھ لوگ افغانستان کی سیر کر کے آئے تھے اور مُلا عمر کی تعریفیں کرتے نہ تھکتے تھے ۔
مُلا عمر کا قائم کردہ امن و امان امریکہ کو ایک آنکھ نہ بھایا اور ایک بار پھر کچھ دولت پرست افغانیوں کو ڈالروں سے مالا مال کرنے کے بعد زر خرید جنگجوؤں کو شمالی افغانستان میں مُلا عمر کے خلاف لڑایا ۔ دوسری طرف مُلا عمر سے مذاکرات جاری کئے کہ جھیل کیسپین کے ارد گرد ممالک سے آنے والی معدنیات کی ترسیل کے افغانستان والے حصہ کا ٹھیکہ امریکی کمپنی کو دیا جائے ۔ امریکی کمپنی کے مقابلہ میں ارجنٹائینی کمپنی کی پیشکش زیادہ مفید ہونے کے باعث ٹھیکہ ارجنٹائنی کمپنی کو دے دیا گیا ۔ اس پر مذاکراتی ٹیم نے مُلا عمر کو بُرے نتائج کی دھمکی دی اور امریکی ٹیم کے واپس جاتے ہی امریکہ نے افغانستان پر حملہ کی منصوبہ بندی کر لی ۔ یہ جون جولائی 2001ء کا واقعہ ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ اس مذاکراتی ٹیم میں ایف بی آئی کے لوگ شامل تھے ۔
امریکہ نے باقی دُنیا کو اپنے ساتھ ملانے کیلئے نیویارک کے ورڈ ٹریڈ سینٹر کو تباہ کرنے کا منصوبہ بڑی کامیابی کے ساتھ انجام تک پہنچایا اور اس کا الزام نام نہاد القاعدہ پر لگا کر اُسامہ بن لادن کو القاعدہ کا سربراہ قرار دیا ۔ یہاں یہ بنا دوں کہ امریکا نے اُسامہ کا اُن 2000 کے قریب گوریلہ جنگجوؤں کا سالار بننا قبول کيا تھا جنہیں امریکہ نے تربیت دی تھی ۔ لیکن اُسامہ کے مطالبہ پر کہ امریکا عرب دنیا سے چلا جائے امریکا اوسامہ کا دشمن ہو گیا تھا اور اُسے دہشتگرد قرار دے دیا تھا ۔
امریکا نے افغانوں کی رسم کہ ان کے ہاں دُشمن بھی پناہ لے لے تو وہ اُس کے محافظ کا کردار ادا کرتے ہیں سے استفادہ کرتے ہوئے اُسامہ بن لادن کی حوالگی کا مطالبہ کر دیا جس پر انکار ہونا ہی تھا ۔ چنانچہ افغانستان پر امریکا اور اُس کے اتحادیوں نے 7 اکتوبر 2001ء کو بھرپور حملہ کر دیا ۔ یہ دنیا کے بدترین ظُلم ۔ قتل و غارتگری کی مثال تھا جو اب تک جاری ہے ۔ امریکا بدترین دہشتگردی کرتے ہوئے اپنا دفاع کرنے والوں کو دہشتگرد قرار دیتا ہے ۔ ذرا سا غور کیا جائے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اسلام کے نام لیواؤں کو ختم کرنے کیلئے یہ دوسرا مگر بہت بڑا اور دہشتناک کروسیڈ ہے ۔
افسوس کی بات یہ ہے کہ کئی نام نہاد مسلمان حکمران صرف اپنی کُرسی بچانے کیلئے اس قتل و غارتگری میں امریکا کا ساتھ دے رہے ہیں یا اُس کے خلاف آواز اُٹھانے سے ڈرتے ہیں ۔ نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ کا تاریک ترین پہلو پرویز مشرف کا کردار ہے جس نے امریکا کے اس بیہیمانہ قتلِ عام میں پاکستانی قوم کی خواہش کے خلاف نہ صرف تعاون کیا بلکہ پاکستان کی سرزمین امریکا کو اس مُسلم کُش جنگ میں استعمال کرنے کی کھُلی چھُٹی دے دی ۔ اور آج تک پرویز مشرف امریکی حکومت کے ہاتھ میں کھلونا بنا ہوا ہے ۔ پاکستان کی سر زمین پر تاحال امریکی فوجی موجود ہیں ۔ پاکستان کے دورہ پر آئے ہوئے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ باؤچر نے یکم جولائی 2008ء کو اس کا اقرار کیا ۔ پرویز مشرف قوم کے سامنے متواتر جھوٹ بولتا رہا ہے ۔ اندیشہ کیا جا رہا ہے کہ خدانخواستہ موجودہ حکمران آصف زرداری بھی امریکا کے ہاتھ میں کھیل رہا ہے ۔
ویسے کیا یہ بات سچ ہے کہ ملا عمر کے افغانستان میں برقعہ نہ پہننے والی خواتین کو طالبان سڑکوں پر سربازار پیٹا کرتے تھے؟ شاید یہ محض امریکی پروپگینڈہ ہوگا۔
اور کیا بات بھی محض امریکی پروپگینڈہ ہے کہ طالبان نے افغانستان فتح کرنے کے لئے پوست کی کاشتکاری اور اس کی فروخت سے حاصل ہونے والی رقم سے اسلحہ خریدا؟ پروپگینڈہ تو یہ بھی ہے کہ اس وقت بھی طالبان پوست کی کاشت کے علاقوں کو تحفظ فراہم کررہے ہیں اور اس سے حاصل ہونے والی رقم سے اپنی کاروائیوں کو سپورٹ کررہے ہیں۔
آپ کی بعض معلومات تو سراسر مفروضات پر مبنی ہوتی ہے۔ جیسے کسی بڑھیا کا ملا عمر کی خدمت میں آکر دہائی دینا۔ ایسی ایک کہانی ہمارے یہاں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے جہاں ایک بڑھیا حجاج بن یوسف کو دہائی دیتی ہے کہ اس کی بیٹی کو راجہ داہر نے قید کررکھا ہے۔ یہ دلچسپ کہانیاں ہیں مگر اتنی ہی غیر حقیقی جتنی اس بڑھیا کی کہانی ہے جو چاند پر بیٹھی چرخا کات رہی ہے۔
آئایسآئ کدھر گئ کہ اس کا ذکر ہی نہیں؟
یہ وہی مجاہدین ہیں جو سوویت فوج کے جانے کے بعد بھی پاکستان سرحد کے پاس ہی جلالآباد پر قبضہ کرنے میں ناکام رہے۔
ورلڈ ٹریڈ سینٹر میں ہمارے 3 ہزار لوگوں کی موت کا ایسا مذاق؟
اور اوجذری کیمپ کے بارے میں ان افواہوں کا کیا کریں کہ آڈٹ کے ڈر سے اسے اڑا دیا گیا تھا۔
اجمل صاحب میری گزارش ہوگی کے ان عوامل پر بھی روشنی ڈالیں جن کی وجہ سے “مجاہدین” کو جنگ کے لیے بھی امریکہ کی مدد درکار اور امن کے لیے بھی امریکہ درکار۔ آپ کے پچھلے مضامین معلوماتی تھے لیکن یہ مضمون حقیقت سے زیادہ عقیدت معلوم ہوتا ہے ۔۔
نعمان صاحب ۔ زکریا بیٹے اور راشد کامران صاحب
جو معلومات میرے پاس تھیں وہ میں لکھ رہا ہوں ۔ ہر شخص کو اپنے سے متفق کرنا میرا کام نہیں ہے ۔ جو حقیقت ہے وہ حقیقت ہے میرے یا آپ کے اُسے جھٹلانے سے حقیقت بدل نہیں جائے گی ۔ آپ لوگ جوان اور اعلٰی تعلیم یافتہ ہیں اور شائد مجھ سے زیادہ ذہین اور تجربہ کار بھی ۔ تحقیق کیجئے اور سچائی تک پہنچنے کی کوشش کیجئے ۔ بحث کرنے سے کچھ حاصل نہ ہو گا ۔
ایک حقیقت تو واضح ہے کہ آپ میں سے کبھی کوئی اُس علاقہ میں نہیں گیا جس سے طالبان کا تعلق ہے پھر بھی آپ بڑے زور دار طریقہ سے اُن لوگوں کی کردار کُشی کے حق میں ہیں ۔ سُبحان اللہ
اسلام علیکم۔
ھمارازیادہ ترعلم انھی باتوںپرمشتمل ہوتاہےجوہمیںمیڈیادکھاتاہےیا جو تھوڑا بہت ہم لوگوں سے سنتے ہیں۔ بعض اوقات اسی علم کوہمارے کچھ حضرات ریسرچ کا نام دے دیتے ہیں۔
بہرحال اب توطالبان کی حکومت نہیں رہی، ورنہ جوپراپیگنڈے کیے جارہے ہیں،اورجولوگ انسے متاثرہوتے ہیں،انکومیں یہی کہتاکہ وہاں جاکرخود دیکھ کر فیصلہ کریں۔
ٍطالبان معصوم نہیں تھے، ان سے بھی غلطیاں ہوییںتھی لیکن اس میں کوئی شک بھی نہیں کہ انکے دورحکومت میں افغانستان کا امن وامان مثالی تھا۔
معراج خٹک صاحب ۔ السلام علیکم
ذرائع ابلاغ کا میں انشاء اللہ آخر میں ذکر کروں گا ۔ پانچ چھ دن تک انٹظار کیجئے ۔
جو لوگ امریکی حکومت کی تقلید میں گیارہ ستمبر کے حملوں میں طالبان کو ملوث قرار دیتے ہیں، انہیں چاہیے کہ تصویر کا دوسرا رخ بھی دیکھ لیں۔
اچھا ہو اگر تصویر کا دوسرا ہمارے بلاگرز زیک، نعمان یا راشد کامران دکھا دیں۔ ان کی تحاریر سے معلومات میںاضافہ بھی ہو گا اور ان کے نقطہ نظر سے واقفیت بھی حاصل ہو گی۔
دریا کو اگر کوزے میںبند کریںتو حقیقت یہی معلوم ہوتی ہے کہ زیادہ تر افغان بکاؤ مال ہیں اور نیک لوگ آٹے میںنمک کے برابر ہیں جن کی کوششوں سے تبدیلی جلد آنے والی نہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس کی طرحجنگ اکثر بہتر ٹیکنالوجی والی فوج جیتے گی یہ الگ بات ہے کہ اس جنگ میںوہ اپنے ہتھیار کن سے استعمال کرواتی ہے یعنی اس کے سپاہی اپنے ہوتے ہیںیا خریدے ہوئے غدار۔
اسلام علیکم۔
ایسا کہنا شائد بلکل نامناسب بات ہوکہ “زیادہ تر افغان بکاؤ مال ہیں اور نیک لوگ آٹے میںنمک کے برابر ہیں” کیونکہ صرف چند لوگوں کو دیکھ کرجوصاحب اقتداریا طاقتورہیں، اوروہ اپنی وفاداری تبدیل کردیتے ہیں۔ یہ کہنا مناسب نہیں۔
اگرپاکستان کے موجودہ حالت کودیکھا جائےتوھمارے صاحب اقتدارلوگ تقریبا سارے کے سارے بکے ہوئے ہیں۔ تو کیا یہ کہنا مناسب ہوگا کہ سارے پاکستانی بکنے والے لوگ ہیں؟
یقینایہ ایک غلط مفروضہ ھوگا۔
افضل اور معراج خٹک صاحبان ۔ السلام علیکم
اگر زیادہ افغانی دولت پرست ہوتے تو پھر امریکہ سے ٹکر کیوں لیتے ؟
بات تو صرف دولت پرست افغانیوں کی ہوئی تھی ۔ بہرحال میں نے لفظ ” کچھ ” کا اضافہ کر دیا ہے تا کہ کسی کو غلط فہمی نہ ہو ۔
اسلام علیکم۔
اجمل صاحب، تصیح کے لیے شکریہ۔ اللہ سبحانہ تعالٰئ آپ کو اسکی بہترین جزا دے۔ آمین۔
میں نے اپنا تبصرہ میراپاکستان صاحب کے تبصرے کودیکھنےکےبعد کیا تھا۔
السلام علیکم!
دوستو! طالبان کے بارے میں میری کوئی تحقیق نہیں۔۔۔ نہ میں اُن کے حق میں ہوں اور نہ مخالف۔۔۔ کیونکہ جب مجھے کسی چیز کا ٹھیک طرح پتہ نہیں تو میں کیسے مفروضوں کی بنیاد پر مخالفت شروع کر دوں۔۔۔ ایک طرف سرعام کابل فٹ بال سٹیڈیم میں سزا دی جاتی تھی تو دوسری طرف پوست کی کاشت بھی تو بند ہو گئی تھی۔ ایک طرف جو اب کہا جاتا ہے کہ بغیر برقعہ کے عورتوں کو مارا جاتا تھا تو دوسری طرف برطانوی صحافی کی داستان بھی موجود ہے۔۔۔ ایک طرف سنا ہے کہ افغانی عوام طالبان سے تنگ تھی تو دوسری طرف ایک بہت بڑی تعداد ان کے ساتھ تھی بلکہ مل کر لڑ بھی رہی تھی اور ابھی تک لڑ رہی ہے۔۔۔
میں تو آج تک اس معاملہ کو ٹھیک طرح سمجھ نہیں سکا۔۔۔ کبھی لگتا ہے کہ امریکہ کا پروپیگنڈہ ہے کبھی طالبان ٹھیک لگتے ہیں۔ جب طالبان کی حکومت تھی تو تب امریکہ نے اتنا شور مچایا ہوتا تو ہم خود افغانستان جا کر دیکھ لیتے کہ کیا معاملہ ہے۔۔۔ اب جانے کا سوچو یا تو امریکہ کے ہاتھوں مرو یا پھر طالبان کے ہاتھوں۔۔۔کیونکہ جنگ جنگ ہوتی ہے۔۔۔
ویسے جو دوست طالبان کے حق میں ہیں کیا انہوں نے خود طالبان کی اچھائی دیکھی ہے۔۔۔ اور اسی طرح جو مخالف ہیں کیا انہوں نے خود ظلم ہوتا دیکھا ہے یا پھر امریکہ کی بنائی ہوئی ویڈیوز پر اندھی عقیدت لگائے بیٹھے ہیں۔۔۔
والسلام۔۔۔
ایم بلال صاحب
آپ نے صحیح نقطہ پکڑا ہے ۔ مسئلہ ہے ہی یہی کہ جس نے کچھ دیکھا نہیں وہ سب سے زیادہ جانتا ہے ۔
iftkhair ajmal sahib 9\11 waly wakya pa zra tafzel bty jb k ma ny suna ha wo hamla taliban ny kia ha.
منصور خالد صاحب
کیا آپ آئس لینڈ میں رہائش پذیر ہیں ؟
حضور ۔ اگر طالبان اس قابل ہوتے تو اس وقت تک پورے امریکہ پر قبضہ کر چکے ہوتے