ظاہر شاہ یورپ کی سیر پر تھا جب 17 جولائی 1973ء کو محمد داؤد خان نے اس کی حکومت کا تختہ اُلٹ دیا اور افغانستان کو جمہوریہ قرار دے کر خود صدر بن گیا ۔ دو تین سال بعد داؤد خان نے نئے آئین کا اعلان کیا جس میں عورتوں کے حقوق بھی شامل تھے ۔ لباس میں اُس نے یورپ کی تقلید بھی شروع کی ۔ تاثر یہی تھا کہ داؤد خان روس نواز ہے لیکن 1977ء کے آخر یا 1978ء کے شروع میں داؤد خان نے اپنے غیرمُلکی دورے کے دوران ایک تقریر میں اسلامی سلطنت کا ذکر کر کے دنیا کو حیران کر دیا ۔ میں اُن دنوں لیبیا میں تھا ۔ میرے منہ سے بے اختیار نکلا تھا “اب اس کی خیریت نہیں”۔ پسِ منظر اُس وقت کے افغانستان میں حالات تھے ۔ یہاں یہ عرض کرتا چلوں کہ سوویٹ یونین ہو یا امریکہ جب بھی انہیں کوئی اپنے ہاتھ سے نکلتا محسوس ہوا وہ کم ہی زندہ بچا ۔
روس افغانستان میں متواتر درپردہ کاروائیاں کرتا آ رہا تھا اور 1965ء میں زیرِ زمین ایک افغان کمیونسٹ پارٹی تشکیل دی تھی جن کے بنیادی ارکان میں ببرک کارمل بھی شامل تھا ۔ اس پارٹی نے ظاہر شاہ کی حکومت کا تختہ اُلٹنے میں داؤد خان کی مدد کی تھی ۔
جولائی 1973ء میں محمد داؤد کے افغانستان کا حکمران بن جانے پر ببر کامل پر واضح ہوا کہ محمد داؤد کیمیونسٹ ایجنڈے پر نہیں چلے گا تو اُس نے محمد داؤد کے خلاف کاروائی کیلئے زیرِ زمین جنگجو اکٹھے کرنا شروع کر دیئے ۔ چنانچہ 1975ء میں ببرک کارمل کے جنگجوؤں نے (جنہیں اسلامی کا نام دیا گیا تھا) محمد داؤد کی حکومت ختم کرنے کی کوشش کی مگر یہ سازش کامیاب نہ ہوئی
محمد داؤد خان کے مُلک میں واپس آنے کے کچھ عرصہ بعد 1978ء میں کمیونسٹ پارٹی جو خفیہ طور پر پرورش پا چکی تھی اور زرخرید افغان فوجیوں کی خاصی تعداد اپنے ساتھ ملا چکی تھی نے شب خون مار کر حکومت پر قبضہ کر لیا ۔ داؤد خان اور اس کے بہت سے ساتھی مارے گئے ۔ تریکی کو صدر اور کارمل کو وزیرِاعظم بنا دیا گیا ۔ بے شمار افغانوں کو گرفتار کر کے اذیتیں دی گئیں ۔ افغانستان کا جھنڈا بدل دیا گیا ۔ تریکی نے سویٹ یونین کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کیا ۔
خیال رہے کہ جون 2008ء میں افغانستان میں اتفاقیہ طور پر دو اجتمائی قبریں ملی ہیں جن میں سے ایک میں 16 اور دوسری میں 12 انسان دفن کئے گئے تھے ۔ تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ یہ لاشیں محمد داؤد خان ۔ اُس کے رشتہ داروں اور ساتھیوں کی ہیں ۔
سویٹ یونین نے سمجھا کہ ان کا مدعا پورا ہو گیا لیکن وہ افغانوں کو سمجھ نہ سکے تھے ۔ اُن کی اس یلغار اور بیہیمانہ قتل و غارت نے افغان گوریلا جنگ کو جنم دیا جو جون 1978ء میں شروع ہوئی اور پہلی بار افغانوں نے اپنی جدوجہد آزادی میں شامل لوگوں کو مجاہدین کا نام دیا ۔ یہ جنگ افغانستان پر قابض ہر غیر مُلکی استبداد کے خلاف تھی ۔ دسمبر 1979ء میں سوویٹ یونین کی باقاعدہ فوج افغانستان میں داخل ہو گئی اور بڑے پیمانے پر قتل و غارت گری شروع کی ۔ حکمران پر حکمران قتل ہوتے رہے ۔ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین کی تعداد میں اضافہ ہوتا گیا اور حملوں میں بھی شدت آتی گئی ۔ ہوتے ہوتے پورا افغانستان میدانِ کارزار بن گیا ۔ اور سوویٹ فوجوں کو بھاری نقصان پہنچتا رہا ۔
جب افغان مجاہدین سوویٹ یونین اور اس کی کٹھ پُتلی حکومت کے خلاف خاصی کامیابی حاصل کرنے لگ گئے تو باوجود اس کے کہ مجاہدین کے شروع کے حملوں ہی میں امریکی سفیر بھی مارا گیا تھا اپنے دیرینہ حریف سوویٹ یونین کو نیچا دکھانے اور وسط ایشیا کے معدنی وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے امریکا نے پاکستان کی فوجی حکومت کے ذریعہ افغانوں کو اسلحہ فراہم کیا اور جہاد کے نام پر مختلف ممالک سے 2000 کے قریب لوگ بھرتی کر کے اُنہیں گوریلا جنگ کی تربیت دے کر افغانستان بھجوایا ۔ ان لوگوں ميں چونکہ زيادہ تر عرب تھے سو انہوں نے اُسامہ بِن لادن کو اپنا کمانڈر بنا ليا
آخر کار سوویٹ یونین کو شکست ہوئی اور فروری 1989ء تک سوویٹ فوجیں افغانستان سے نکل گئیں ۔ کہا جاتا ہے افغانستان کی اس جنگ میں 50000 سے زائد سوویٹ فوجی مارے گئے ۔
کچھ ریفرنسز کی ضرورت ہے:
1۔ سردار داؤد کا اسلامی سلطنت کا ذکر
2۔ سوویت یونین کے 50 ہزار فوجیوںکا مارے جانا کہ میری معلومات کے مطابق 15 ہزار مارے گئے تھے۔
3۔ امریکی امداد سے پہلے مجاہدین کی کامیابیوں کی فہرست۔
4۔ اسامہ بن لادن کو امریکی جنگی تربیت۔
امریکہ کی امداد سے قبل مجاہدین کو پاکستان اسلحہ سپلائی کر رہا تھا جس کی بنا پر مجاہدین نے روس کے پاؤںافغانستان میں ٹکنے نہیںدیے اور اسے برابر مزاحمت کا سامنا رہا۔ ہمیںنہیںمعلوم کہ مجاہدین نے اس دوران کوئی بڑی کامیابی حاصل کی ہو لیکن مجاہدین نے زمین پر روس کو تنگ کئے رکھا۔ دراصل جب امریکہ نے مجاہدین کو سٹنگر میزائل دیے تو پھر روس کی فضائی برتری ختم ہو گئی اور اسے پسپا ہونا پڑا۔
زیک کے سوالات اہم ہیں ؛ میں بھی جواب کا منتظر ہوں ۔
زکریا بیٹے
آپ کے سوالات کے جواب یہ ہیں
1 ۔ یہ میری ذاتی یاد داشت ہے جیسا کہ میں اشارہ دے چکا ہوں ۔ میں جھوٹ نہیں بولا کرتا ۔
2 ۔ آپ نے سوویٹ یونین کی دی ہوئی سرکاری تعداد دی ہے جوکہ 14453 روسی فوجی ہلاک اور 11600 روسی فوجی اپاہج ہوئے ہے ۔ میں نے اُس زمانہ کے ذراعِ ابلاغ کی دی ہوئی تعداد لکھی ہے ۔ اصل تعداد میری دی ہوئی تعداد سے 5 فیصد کم یا زیادہ ہو سکتی ہے
3 ۔ یہ اب میرے لئے مشکل ہے ۔ میری تحریر اُس دور کے ذرائع ابلاغ کی اطلاعات پر مبنی ہے
4 ۔ میں جو لکھ چکا ہوں وہ درست ہے ۔ ویب پر سرچ کر لیں ضرور اس کا ثبوت مل جائے گا ۔ ایک ویب سائٹ ابھی ابھی مل گئی ہے http://www.greenleft.org.au/2001/465/25199