یری ماں کی ایک آنکھ تھی اور وہ میرے سکول کے کیفیٹیریا میں خانسامہ [cook] تھی جس کی وجہ سے میں شرمندگی محسوس کرتا تھا سو اُس سے نفرت کرتا تھا ۔ میں پانچویں جماعت میں تھا کہ وہ میری کلاس میں میری خیریت دریافت کرنے آئی ۔ میں بہت تلملایاکہ اُس کو مجھے اس طرح شرمندہ کرنے کی جُراءت کیسے ہوئی ۔ اُس واقعہ کے بعد میں اُس کی طرف لاپرواہی برتتا رہا اور اُسے حقارت کی نظروں سے دیکھتا رہا ۔
گلے روز ایک ہم جماعت نے مجھ سے کہا “اوہ ۔ تمہاری ماں کی صرف ایک آنکھ ہے”۔ اُس وقت میرا جی چاہا کہ میں زمین کے نیچے دھنس جاؤں اور میں نے ماں سے علیحدگی کا فیصلہ کر لیا ۔ میں نے جا کر ماں سے کہا “میں تمہارھ وجہ سے سکول میں مذاق بنا ہوں ۔ تم میری جان کیوں نہیں چھوڑ دیتی ؟” لیکن اُس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیا کہہ رہا تھا ۔ میں ماں کے ردِ عمل کا احساس کئے بغیر شہر چھوڑ کر چلا گیا ۔
یں محنت کے ساتھ پڑھتا رہا ۔ مجھے کسی غیر مُلک میں تعلیم حاصل وظیفہ کیلئے وظیفہ مل گیا ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں نے اسی ملک میں ملازمت اختیار کی اور شادی کر کے رہنے لگا ۔ ایک دن میری ماں ہمیں ملنے آ گئی ۔ اُسے میری شادی اور باپ بننے کا علم نہ تھا ۔ وہ دروازے کے باہر کھڑی رہی اعر میرے بچے اس کا مذاق اُڑاتے رہے ۔
یں ماں پر چیخا ” تم نے یہاں آ کر میرے بچوں کو درانے کی جُراءت کیسے کی ؟” بڑی آہستگی سے اُس نے کہا “معافی چاہتی ہوں ۔ میں غلط جگہ پر آ گئی ہوں”۔ اور وہ چلی گئی ۔
ایک دن مُجھے اپنے بچپن کے شہر سے ایک مجلس میں شمولیت کا دعوت نامہ ملا جو میرے سکول میں پڑھے بچوں کی پرانی یادوں کے سلسلہ میں تھا ۔ میں نے اپنی بیوی سے جھوٹ بولا کہ میں دفتر کے کام سے جا رہا ہوں ۔ سکول میں اس مجلس کے بعد میرا جی چاہا کہ میں اُس مکان کو دیکھوں جہاں میں پیدا ہوا اور اپنا بچپن گذارہ ۔ مجھے ہمارے پرانے ہمسایہ نے بتا یا کہ میری ماں مر چکی ہے جس کا مُجھے کوئی افسوس نہ ہوا ۔ ہمسائے نے مجھے ایک بند لفافے میں خط دیا کہ وہ ماں نے میرے لئے دیا تھا ۔ میں بادلِ نخواستہ لفافہ کھول کر خط پڑھنے لگا ۔ لکھا تھا
“میرے پیارے بیٹے ۔ ساری زندگی تُو میرے خیالوں میں بسا رہا ۔ مُجھے افسوس ہے کہ جب تم مُلک سے باہر رہائش اختیار کر چکے تھے تو میں نے تمہارے بچوں کو ڈرا کر تمہیں بیزار کیا ۔ جب مجھے معلوم ہوا کہ تم اپنے سکول کی مجلس مین شمولیت کیلئے آؤ گے تو میرا دل باغ باغ ہو گیا ۔ مُشکل صرف یہ تھی کہ میں اپنی چارپائی سے اُٹھ نہ سکتی تھی کہ تمہیں جا کر دیکھوں ۔ پھر جب میں سوچتی ہوں کہ میں نے ہمیشہ تمہیں بیزار کیا تو میرا دل ٹُوٹ جاتا ہے ۔
کیا تم جانتے ہو کہ جب تم ابھی بہت چھوٹے تھے تو ایک حادثہ میں تمہاری ایک آنکھ ضائع ہو گئی تھی ۔ دوسری ماؤں کی طرح میں بھی اپنے جگر کے ٹکڑے کو ایک آنکھ کے ساتھ پلتا بڑھتا اور ساتھی بچوں کے طعنے سُنتا نہ دیکھ سکتی تھی ۔ سو میں نے اپنی ایک آنکھ تمہیں دے دی ۔ جب جراحی کامیاب ہو گئی تو میرا سر فخر سے بلند ہو گیا تھا کہ میرا بیٹا دونوں آنکھوں والا بن گیا اور وہ دنیا کو میری آنکھ سے دیکھے گا ۔
اتھاہ محبتوں کے ساتھ
تمہاری ماں”
سورت 17 ۔ الْإِسْرَاء / بَنِيْ إِسْرَآءِيْل ۔ آیات 23 و 24
اور آپ کے رب نے حکم فرما دیا ہے کہ تم اﷲ کے سوا کسی کی عبادت مت کرو اور والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کیا کرو، اگر تمہارے سامنے دونوں میں سے کوئی ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو انہیں ”اُف“ بھی نہ کہنا اور انہیں جھڑکنا بھی نہیں اور ان دونوں کے ساتھ بڑے ادب سے بات کیا کرو
اور ان دونوں کے لئے نرم دلی سے عجز و انکساری کے بازو جھکائے رکھو اور [اﷲ کے حضور] عرض کرتے رہو ۔ اے میرے رب ۔ ان دونوں پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے [رحمت و شفقت سے] پالا تھا
رسول اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی حدیث
والدین کو کوسنا سب سے بڑے گناہوں میں سے ایک ہے ۔ صحیح البخاری 8 ۔ 4
اللہ سبحانہ وتعالی، ہم سبکو جن کے ماں باپ حیات ہیں انکی خدمت کرنی کی توفیق دے۔ امین۔
معراج خٹک صاحب ۔ السلام علیکم
میں آپ کی دُعا پر آمین کہتا ہوں
اللہ میرے ماں با پ کے سا تھ کی گئی غلطیاں معاف کر ے اور ان کے حال پر رحم کرے آپ کے لئے دعا گو
پچھلے دنوں جاوید چودھری نے ایکسپریس نیوز ٹی۔وی پر اپنے پروگرام “کل تک” میں یہ واقعہ سنایا تھا۔۔۔ جو بے اختیار آنکھیں نم کرگیا۔
یہ ای میل تو کافی عرصے سے گردش میں ہے، نہ جانے سچ بھی ہے یا نہیں لیکن بہرحال کہانی کافی انسپائرنگ ہے۔
دعا گو،
واقعی ڈراؤنی اور جذباتی کہانی ہے ساتھ میں سبق آموز بھی
شعیب، بھارت سے
حاجی اکبر صاحب ۔ السلام علیکم
میرے لئے دعا کا شکریہ ۔ جزاک اللہ خیرٌ
رہبر اور فیصل صاحبان ۔ السلام علیکم
یہ کہانی پچھلے سال انگریزی زبان کے ایک غیر ملکی رسالے میں چھپی تھی ۔ اس کے بعد ای میلز میں بھی گردش کرتی رہی ۔ میں نے انگریزی میں اسے 10 مئی کو لکھا تھا دیکھیئے
http://iabhopal.wordpress.com/2008/05/10/mother-2/
اس کا محرک ماؤں کا تہوار تھا ۔ پھر فرمائش ہوئی کہ اس کا ترجمہ اُردو میں لکھوں ۔ میں نے اسے کہانی ہی لکھا ہے سچا واقعہ نہیں کہا
شعیب صاحب
کیا آپ دُبئی چھوڑ چکے ہیں یعنی اب اپنے گھر اپنے والدین کے پاس ہیں ؟
میں جس طرح دیگر ‘بوسیدہ’ قوانین کو نہیں مانتا (شوہر کی اجازت لیکر گھر سے باہر نکلنا، بیٹیوں کیلئے صرف آدھا حصہ، صرف مرد ایک سے زائد عورتوں سے شادی کرسکتا ہے، مرد طلاق دے سکتا ہے، مردوں کیلئے پردہ نہیں) اسی طرح یہ بھی نہیں مانتا کہ والدین کی بے جا ہٹ دھرمیوں اور بلیک میل کا پابند رہوں اور اف تک نہ کروں۔ مثلا زیادہ تر والدین اولادوں کو مرضی سے شادی نہیں کرنے دیتے، انہیں کچھ نہ کچھ اعتراض ضرور ہوتا ہے، خواہ کتنا ہی بے تکا کیوں نہ ہو!
اُردودان صاحب
آپ نے مختلف چیزیں گڈ مڈ کر دی ہیں اور وہ بھی غلط جگہ ۔ اگر آپ مسلمان ہیں تو قرآن شریف کا مع اُردو ترجمہ تسلی سے مطالعہ کیجئے ۔ حقیقت کھُل کر سامنے آ جائے گی ۔ میری سمجھ میں آج تک یہ بات نہیں آئی کہ انسان کی لکھی کتاب کو اچھی طرح پڑھے بغیر کوئی اس پر تبصرہ نہیں کرتا لیکن اللہ کا کلام سمجھے بغیر اپنے آپ کو مسلمان کہنے والے اس پر تنقید شروع کر دیتے ہیں ۔
معاف کیجئے، میں خیالات کی رو میں بہہ گیا تھا۔ شاید وہ دن ہی کچھ ایسا تھا۔
متاثر کن تحریر۔ مزہ آیا۔اللہ ہم سب کو اپنے والدین کا فرمابردار بنائے۔ آمین
والدین کی نافرمانی کرنا کبیرہ گناہ ہے. ماں کے قدموں کے نیچے ج جنت ہے.