وطنِ عزیز میں ہر طرف ہر جگہ فَن کا مظاہرہ نظر آتا ہے ۔ جسے دیکھو اپنے تئیں فنکار بنا پھرتا ہے ۔ صدر ہو ۔ وزیر ہو ۔ صحافی ہو یا مداری ایک سے ایک بڑھ کر فنکار ہے ۔ لیکن میں اُن چھوٹے چھوٹے لوگوں کی فن کاری کی بات کروں گا جن کا کوئی نام نہیں لیکن وہ اپنے فن پارے سے لمحہ بھر کیلئے بہت سے لوگوں کے چہرے پر مسکراہٹ بکھیر دیتے ہیں ۔
اسلام آباد اور کوہ مری کے درمیان چھَرا پانی کے قریب ایک چھوٹی سی دُکان پر جلی حروف میں لکھا ہے ۔
شاہ جی انڈے شاپ
سڑکوں پر گومتی بسوں ۔ ویگنوں ۔ ٹرکوں پر بھی بہت سے فنکاروں نے اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہوتا ہے ۔ ان فنکاروں میں کبھی کبھی کوئی حقیقت پسند بھی نظر آ جاتا ہے ۔ ملاحظہ ہو ایک شعر ۔
ہر اِک موڑ پر ملتے ہیں ہمدرد مجھے
لگتا ہے میرے شہر میں اداکار بہت ہیں
ہمارے مُلک میں ادا کاروں کی واقعی بہتات ہے ۔ اور کیوں نہ ہو اس مُلک میں جس کا صدر سب سے بڑا اداکار ہے ۔
فن کا ایک اچھوتا مظاہرہ نتھیا گلی کے خُنکی آمیز پہاڑوں پر نظر آتا ہے ۔ نتھیا گلی کے بلند ترین حصے میں ایک ہوٹل کے باغیچہ میں داخل ہوتے ہی پھولوں کی کیاری کے قریب لکھا نظر آتا ہے
آپ کی خوشی اور تفریح طبع کی خاطر ہم نے اپنا بہت سا وقت ۔ محنت اور دولت لگا کر یہ پھُول اُگائے ہیں
آپ خیال رکھیئے اُن زائرین کا جنہوں نے یہاں آ کر ابھی یہ پھُول نہیں دیکھے
آگے بڑھیں تو باغیچہ کے دوسرے سرے پر پھولوں کی کیاریوں کے قریب یہ تحریر نظر آتی ہے
پھُول توڑنا منع ہے ۔ جس نے پھُول توڑا اُسے ایف بی آئی کے حوالہ کر دیا جائے گا تاکہ وہ اُسے دہشتگرد قرار دے کر سزا دے دے
پاکستان میں تو لوگوں کو پھولوں سے پتہ نہیں دشمنی ہوتی ہے، جہاں لگا دیکھیں توڑ لیتے ہیں۔ اب ہر کوئی اپنے باغیچے کو بچانے کے لیے ایسے ہی جملے لکھے گا۔ :grin: