اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون ۔ نعرہ تو کب کا چل بسا تھا ۔ نعرہ دینے والا بھی چل بسا ۔
کیسے کیسے اللہ کے بندے آئے اور چلے گئے ۔
اُس نے اپنی زندگی کو جس قوم کیلئے وقف کیا اُس قوم نے اُس کو سہارا دینا تو کیا اُس کا دیا ہوا سب سے زیادہ معروف نعرہ بھی کب کا بھُلا دیا
تحریکِ پاکستان کا وہ سرگرم کارکُن جس نے بابائے قوم کا گن مین بننے کو اپنے لئے باعثِ عزت سمجھا ۔
وہ مردِ مجاہد جس نے پہلی بار سیالکوٹ آمد پر فرطِ جوش میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ بابائے قوم محمد علی جناح کی کار کو کندھوں پر اُٹھا لیا تھا
وہی شخص اپنے بڑھاپے میں پچھلے نو سال کَسمپُرسی کی حالت میں بیمار پڑا رہا اور کسی حکومتی اہلکار کو اُس کی عیادت کی توفیق نہ ہوئی
نہ کسی اخبار والے نے کبھی اُس کا حال پوچھا اور نہ اُس کی آپ بیتی کو اپنے اخبار کے قابل سمجھا ۔
کیا خوب نعرہ دیا تھا کہ برِّ صغیر ہند و پاکستان کے مسلمانوں میں ایک نیا جذبہ بیدار ہوا جو پاکستان کی صورت میں نمودار ہوا ۔
پاکستان کا مطلب کیا
لا اِلَہَ اِلا اللہ
یہ تھے پروفیسر اصغر سودائی جنہوں نے پہلی بار یہ نعرہ 1944ء میں لگایا تھا ۔ پروفیسر اصغر سودائی گورنمنٹ علامہ اقبال کالج کے پرنسپل اور ڈائریکٹر ایجوکیشن پنجاب بھی رہے ۔ ریٹائرمنٹ کے بعد سیالکوٹ کالج آف کامرس اینڈ بزنس ایڈمنسٹریشن کی ایڈوائزری کونسل میں رہے ۔ ان کی شاعری کا مجموعہ چلن صباح کی طرف کافی مشہور ہوا
پروفیسر اصغر سودائی 26 ستمبر 1926ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے اور 17 مئی 2008ء کو اپنے گھر سودائی منزل ۔ کریم پورہ سیالکوٹ سے راہیٔ مُلکِ عدم ہوئے ۔ ان کی نمازِ جنازہ آج یعنی 18 مئی 2008ء کو پڑھا کر ان کے جسدِ خاکی کو سیالکوٹ کے شاہ جمال قبرستان میں سپردِ خاک کیا گیا ۔ اِنّا لِلہِ وَ اِنّا اِلَہِ راجِعُون
انا للہ و انا الیہ راجعون
مجھے بہت افسوس ہوا ہے پروفیسر اصغر سودائی صاحب کی وفات کا سن کر، اللہ تعالٰی مرحوم کو جوارِ رحمت میں جگہ دیں۔ آمین۔
انا للہ و انا الیہ راجعون۔
اللہ تعالی انھیں جنت میں جگہ دے ۔ ۔اور لواحقین کو صبر