ایک بہت پُرانا واقعہ ہے جب میں انجنیئرنگ کالج لاہور میں پڑھتا تھا ۔ میں بس پر راولپنڈی سے لاہور جا رہا تھا ۔ راستہ میں بس گوجرانوالا رُکی تھی اور میں بس چلنے کی انتظار میں وہاں ٹہل رہا تھا کہ ایک آٹھ دس سالہ لڑکا آ کر کہنے لگا “آپ پالش کروائیں گے ؟” ۔ میں نے نفی میں جواب دیا تو وہ مایوس ہو کر چل پڑا ۔ میں نے دیکھا کہ پالش کرنے والا نہیں لگتا تھا ۔ اس کے تھیلے پر نظر ڈالی تو اُس کے اندر کاپیاں کتابیں محسوس ہوئیں ۔ میں نے اُسے بُلایا اور پوچھا ” تمہارے تھیلے میں کتابیں ہیں ۔ تم سکول نہیں گئے ؟” افسردہ ہو کر کہنے لگا “میرے پاس ایک مضمون کی کاپی نہیں ہے ۔ ماسٹر جی ماریں گے”۔ میں نے کہا “میں نے دیکھا نہیں تھا کہ میرے بوٹ پالش ہونے والے ہیں ۔ چلو جلدی سے پالش کر دو”۔ اُس نے پالش کر دی تو میں نے اُسے ایک روپیہ دے کر کہا “جلدی سے کاپی خریدو اور سکول جاؤ”۔ وہ بولا “مجھے دو آنے دے دیں [آجکل کے ساڑھے بارہ پیسے] ۔ میرے پاس کوئی پیسہ نہیں ہے”۔ میں نے اُس کی جیب میں روپیہ ڈالنا چاہا تو وہ رونے لگ گیا اور کہنے لگا “میری باجی مجھے مارے گی”۔ میں نے پھر اُسے دو آنے دیئے اور وہ خوش خوش بھاگ گیا”
میں مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا پرنسپل تھا ۔ وہاں بابا شکیل میرا چپڑاسی تھا ۔ حلیم طبع اور نہائت دیانتدار ۔ ایک دن مجھے کہنے لگا “جناب بطور چپڑاسی میں کئی سال سے تنخواہ کی اُوپر والی حد پر ہوں اور ترقی ہو نہیں سکتی ۔ اب بیٹے کی دسویں جماعت کی پڑھائی اور گھر کی دال روٹی دونوں نہیں چل سکتے”۔ میں نے انتظامیہ میں ایک آفیسر سے بات کی تو اُس نے بھی بابا شکیل کی تعریف کی اور کوئی راہ نکالنے کا وعدہ کیا ۔ چند ماہ بعد مجھے اس آفیسر نے بتایا کہ چھوٹی آفس پرنٹنگ مشین کے آپریٹر کی آسامی خالی ہے اور اس کیلئے عملی امتحان دو ہفتے بعد ہو گا ۔ بابا شکیل کو فوری طور پر بھیج دوں تاکہ اُسے دو ہفتے میں تربیت دے کر امتحان کیلئے تیار کر دیں ۔ میں نے بابا شکیل کو بھیج دیا اور اس نے بڑی محنت سے ایک ہی ہفتے میں کام سیکھ لیا ۔ دو ہفتے بعد امتحان ہوا تو وہ اول رہا اور اُسے تقرری کا خط دے دیا گیا ۔ ایک ماہ وہاں کام کرنے کے بعد بابا شکیل میرے پاس آیا اور کہنے لگا “جناب آپ نے مجھ پر بہت مہربانی کی تھی مگر میں بیوقوف آدمی ہوں ۔ وہاں تنخواہ تو زیادہ ہے لیکن ماحول اچھا نہیں ہے ۔ ارد گرد لوگ گندی باتیں کرتے ہیں اور مجھے بھی نہیں بخشتے ۔ میں وہاں رہا تو بہت گنہگار ہو جاؤں گا ۔ ہم صرف ایک وقت روٹی کھا لیا کریں گے”۔ اور مجھے اس کو واپس بلانا پڑا ۔
اگست 1992ء سے اگست 1994ء میں ڈائریکٹر پی او ایف ویلفیئر ٹرسٹ تھا ۔ ایک چپڑاسی کی اسامی کیلئے درخواستیں طلب کیں ۔ اُمیدواروں میں ایک جوان ٹھیک ٹھاک کپڑوں میں تھا ۔ پوچھنے پر معلوم ہوا کہ الیکٹریکل سپروائزر کا ڈپلومہ رکھتا ہے ۔ کئی سال سے جس کمپنی کے ساتھ کام کر رہا تھا اس کا پراجیکٹ ختم ہو گیا ہے اسلئے بیکار ہے ۔ میں نے کہا “چپڑاسی کی قلیل تنخواہ اور کام آپ کے مطابق نہیں”۔ تو بولا “جناب میں ہر قسم کا کام کر لوں گا ۔ جھاڑو تک دے لوں گا ۔کچھ ملے گا ہی ۔ پلّے سے جائے تو نہیں”۔
اسلام آباد میں مانگنے والے آتے رہتے ہیں اور وہ پیسے اور کپڑے وغیرہ مانگتے ہیں ۔ چار پانچ سال قبل ایک شخص آیا داڑھی میں کالے سفید بال ۔ کہنے لگا “جناب ۔ میں بھوکا ہوں ۔ کچھ بچا کھُچا کھانا ہو تو دے دیں”۔ میں نے 20 روپے دینا چاہے تو بولا “جناب ۔ پیسے نہیں کچھ کھانے کو دے دیں بیشک کل پرسوں کا ہو”۔ میں اُسے انتظار کا کہہ کر اندر گیا بیوی سے کہا تو اس نے ملازمہ سے روٹی پکوا دی ۔ سالن یا ترکاری نہیں تھی اور گھر میں انڈے بھی نہ تھے کہ جلدی بنا دیتے ۔ روٹی لے کر میں باہر گیا اور اُسے کہا “بابا ۔ یہ لو پیسے اور یہاں قریب ہی چھوٹا سا ہوٹل ہے وہاں سے کچھ لے لو”۔ وہ کسی دوسرے شہر سے آیا لگتا تھا کیونکہ وہ پھر کچھ پریشان سا ہو گیا ۔ ہمارے ساتھ والے گھر کا ملازم اتفاق سے آ گیا میں نے اسے کہا کہ “اندر جا کر پوچھو اگر سالن ہو تو اس کو لا دو”۔ وہ اندر گیا اور کافی سارا اچار لے کر آ گیا ۔ اس شخص نے زمین پر بیٹھ کر روٹی اچار کھایا ۔ پانی پیا اور دعائیں دیتا چلا گیا ۔ میرے گھر کے بعد اس نے کسی گھر کی گھنٹی نہ بجائی ۔
میں ایک بار جلدی میں امام بارگاہ علی رضا پرانی نمائش کی طرف جانے کو نکلا ایک رکشہ پکڑا اسے پوچھا امام بارگاہ علی رضا چلو گے؟کہنے لگا بیٹھ جائیں میں نے پوچھا کتنے پیسے لوگے تو بولا میٹر سے چلیں گے۔ جو ایک انتہائی حیرت انگیز بات ہے کیونکہ کراچی میں اب کوئی رکشہ یا ٹیکسی والا میٹر سے ہرگز نہیں چلتا۔ بغیر میٹر کے وہاں جانے پر مجھے ساٹھ روپے دینے پڑتے۔ رکشے والے کے میٹر نے پینتیس روپے بنائے۔ مجھے لگا کہ جیسے میں اگر اسے کم پیسے دونگا تو اس سے نا انصافی کرونگا۔ میں نے اسے پچاس روپے دینے چاہے۔ تو وہ کہنے لگا کہ اگر مجھے پچاس روپے لینا ہوتے تو جب آپ بیٹھے تھے تبھی نہ مانگ لیتا۔ میں نے کہا کہ شاید آپ اس شہر میںنئے ہیںاور آپ کو فاصلوںاور گیس کے جلنے کا صحیح اندازہ نہیں۔ تو وہ بولا آپ مجھے پینتیس روپے ہی دیں مجھے کوئی نقصان نہیں ہوگا۔
میں سوچنے لگا کہ یہ ایسے کتنے دن تک رکشہ چلا پائے گا۔ مجھے یہ سوچ کر اکثر پریشانی ہوتی ہے کہ اگر ایماندار غیرت مند لوگوں کا جینا مہنگائی سے دشوار ہوتا رہا تو لوگوں کا کیا ہوگا۔ برائی کے اس پرفریب دلدل سے بچنا ان کے لئے روزبروز محال ہوتا جارہا ہے۔ مگر پھر مجھے لگتا ہے کہ شاید ایسے لوگوں کو غیب سے ہی مدد ملتی ہوگی۔
اکثر لوگ سوال کرتے ہیں کے اتنا ظلم ہونے کے بعد بھی ہم لوگ کس طرحقائم ہیں اور اللہ ہمیںبرباد کیوں نہیںکردیتا۔ میرا خیال ہے شاید یہی درویش لوگ ہیں جو خدا کے غضب سے ہمیں بچائے ہوئے ہیںجن کا تذکرہ آپ نے اور نعمان صاحب نے بھی کیا ہے۔
میں مارچ 1983ء سے ستمبر 1985ء تک ٹیکنیکل ٹریننگ انسٹیٹیوٹ کا پرنسپل تھا
yeah Lahore main Gulshan Iqbal wala?
نعمان صاحب
بات دیکھنے کی ہے ۔ ایسے اللہ پر بھروسہ رکھنے والے لوگ مل جاتے ہیں ۔ اِن کے دِلوں کو اللہ نے اطمینان بخشا ہوتا ہے ۔
راشد کامران صاحب
کئی لوگوں کا یہی خیال ہے کہ ہماری قوم ایسے ہی لوگوں کی وجہ سے بچی ہوئی ہے ۔
میسنا 2 صاحب
آپ بات کرنے سے قبل سوچ لیا کریں ۔ اسی بلاگ پر میرا تعارف بھی موجود ہے جہاں سے آپ دیکھ سکتے تھے کہ میں کس انسٹیٹیوٹ کی بات کر رہا ہوں ۔ ویسے آپ عام طور پر نفسِ مضمون کی بجائے غیر ضروری باتوں پر ہی تبصرہ کرتے ہیں ۔
جناب افتخار اجمل صا حب،
السلام وعلیکم،
آپ کی تحریر کر دہ معمولی سے معمولی واقعے میں کو ئی نہ کوئی بات ضرور ہوتی ہے جو سوچنے پہ مجبور کرتی ہے اور یہی ایک لکھاری کی کامیابی کی نشانی ہے۔ کہ وہ سوچنے پہ آمادہ کرے۔
یقینا دنیا میں کچھ غیرت مند ایسے ضرور موجود ہیں اور ساتھ ساتھ آپ جیسے ہمدرد دلوں کے مالک بھی ہیں جو ایسے ضرورت مند غیرت مندوں کا خیال یوں رکھتے ہیں کہ ان کی غیرت مجروح نہ ہو۔
میں بھی ٹشو پیپر کا چھوٹا پیک بیچنے والے سگنل پہ کھڑے اس بچے کو جانتی ہوں
جو کبھی مجھ سے خواہ مخواہ کے پیسے نہیں پکڑتا
وہ مجھے ٹشو پیپر کا ننھا سا پیک ضرور تھما تا ہے۔ جو وہ بیچ رہا ہوتا ہے۔
اگر سگنل پہ گاڑی چل پڑے تو ٹشو پیپر کا پیکٹ لہراتا پیچھے پیھچے دوڑتا ہے ۔
طارق روڈ پہ مسٹنڈے اور ہٹے کٹے فقیروں کے بیچ کھڑا محنت کی رو زی کماتا ہے۔
مگر مفت کا دس کا نو ٹ بھی اس کے لئے جائز نہیں۔
بچے کی عمر محض تیرہ سال ہے اور وہ پڑ ھتا بھی ہے۔
اللہ اس معصوم کو اپنے ارادوں میں کامیاب اور ثا بت قدم ر کھے۔