مطالبات کم رکھیئے اور ترجیحات اپنائیے
کوئی چیز یا عمل دسترس سے باہر ہو تو اپنے آپ کو سمجھائیے
“میں اِس کو ترجیح دیتا ہوں لیکن اگر وہ ہو جائے تو بھی ٹھیک ہے”
یہ ذہنی رُحجان اور رویّہ کی تبدیلی ہے جو ذہنی سکون مہیّا کرتی ہے
نتیجہ یہ ہو گا کہ
آپ کی ترجیح ہے کہ لوگ آپ کے ساتھ شائستگی سے پیش آئیں لیکن اگر وہ ایسا نہ بھی کریں تو آپ کا دن برباد نہیں ہو گا۔
آپ کی ترجیح ہے کہ آج دھوپ نکلے لیکن اگر بارش ہو جائے تو بھی آپ کو کوفت نہیں ہو گی
پاکستان میں آج کل حکمرانوں کی وجہ سے غریب عوام کی زندگی اجیرن ہوگئی ہے ۔ ان حالات میں ہمیں سادگی اپنانے اور زندگی کے مصیبتوں کو کم کرنے کے لئے سوچ بچار کی ضرورت ہے ۔ اس سلسلے میں آپ کی یہ تجویز نہایت عمدہ ہے ۔
حد درجہ مطالبات اور ترجیحات میں عدم توازن کی وجہ سے آج ہم کئی معاشرتی برائیوں کا شکار ہیں جس کا نتیجہ ذہنی اور معاشرتی ابتری کی صورت میں نکل رہا ہے ۔
آخر میں موجودہ حالات پر پشتو کے صوفی شاعر رحمان بابا کا تبصرہ :
(شعر رحمان بابا کا ہے لیکن آج کے حالات پر اس سے بہتر تبصرہ شعر میں نہیں ہوسکتا)
پہ سبب د ظالمانو حاکمانو
اور او گور او پیخاور درے واڑی يو دي
(ترجمہ: ظالم حکمرانو کے ہاتھوں آج آگ ، قبر اور پشاور میں فرق کرنا ممکن نہیں رہا ۔)
یعنی عذاب قبر کی سختی اور آگ کی تپش آپ پشاور آکر محسوس کرسکتے ہیں کیونکہ سخت گرمی میں بجلی نہیں اور بھوک لگے تو آٹا نہیں ۔ کاروبار ٹھپ ہوکر رہ گئے ہیں ۔ پشاور یہاں محض ایک استعارہ ہے ورگرنہ پورے مملکت خدادا کی یہی حالت بنی ہوئی ہے ۔
روغانی صاحب ۔ السلام علیکم
آپ بہت عرصہ بعد نظر آئے ۔ اُمید ہے انشاء اللہ بخیریت ہوں گے ۔
آپ نے ایک پرانے شاعر کی طرف توجہ دلائی ہے ۔ یہ پرانے وقتوں کے لوگ قوم کے سامنے حقائق رکھتے تھے اور قوم کو جگانے اور صحیح راہ پر لگانے کی کوشش کرتے تھے ۔ آجکل کے شاعر قوم کو بے عمل تخیالاتی دنیا میں لیجانا چاہتے ہیں اور قوم اکثریت حقائق کا سامنا کرنا پسند نہیں کرتی ۔