ميں نے يکم مئی 1963 کوپاکستان آرڈننس فيکٹريز ميں ملازمت شروع کی ۔ ہم اس عہدہ پر 9 لوگ بھرتی ہوئے تھے ۔ کام سے شناسائی کيلئے ہميں مختلف فيکٹريوں ميں بھيج ديا گيا ۔ تين ہفتے بعد ايک ساتھی کا ٹيليفون آيا کہ جلدی سے ميرے پاس آؤ ضروری کام ہے ميں خود آ جاتا مگر اس وقت ميرے علاوہ کوئی ميرا کام ديکھنے والا نہيں ۔ ميرے باس اُس وقت موجود نہ تھے سو میں نے دوسرے آفسر کو بتايا اور چلا گيا ۔ جونہی ميں وہاں پہنچا وہ شخص يہ کہہ کر اپنے دفتر سے تيزی سے نکل گيا کہ آپ بيٹھ کر چائے پئيں ميں دو منٹ ميں آيا۔ پانچ منٹ بعد ميں نے گھنٹی بجا کر چپڑاسی کو بلايا اور کہا جاؤ ديکھ کر آؤ [نام] صاحب کہاں ہيں ۔ اُس نے واپس آ کر بتايا ساتھ والے دفتر ميں ٹيليفون پر بات کر رہے ہيں ۔ تھوڑی دير بعد وہ صاحب آئے اور ميں ناراضگی کا اظہار کر کے بغير چائے پئے واپس آ گيا ۔
واپس پہنچنے پر پتہ چلا کہ ميرے باس آ گئے ہيں اور ياد فرمايا ہے ۔ ميں گيا تو اُنہوں نے پوچھا کہ کہاں تھے ؟ ميں نے بتايا کہ بيس منٹ پہلے ايک ساتھی [نام] نے بلايا تھا اُس کے پاس گيا تھا ۔ باس نے کہا کہ ديکھو اجمل اس کو دوست نہ سمجھنا ۔ دس منٹ بارہ پہلے مجھے تمہارے اسی دوست کا ٹیلیفون آيا تھا ۔ وہ کہہ رہا تھا کہ ميں ايک گھنٹے سے اجمل کو ڈھونڈ رہا ہوں مگر وہ مجھے نہيں ملا ۔ ميں نے اسے بہت ضروری پيغام دينا ہے ” ۔
آپ نے تو دوست نما دشمن کو بہت جلد پکڑ لیا ورنہ اکثر تو لوگ کینہ پرور دشمنوں کو سالوں تک دوست سمجھے سینے سے لگائے بیٹھے رہتے ہیں۔ ایسے لوگوں کی پیہچان کیا ہے؟ ہم کس طرح مخلص دوستوں اور بری صحبت میں فرق کریں
نعمان صاحب
آپ کا کہنا بالکل درست ہے ۔ مجھے بھی کبھی پتہ نہ چلتا ۔ وہ تو اللہ کی مہربانی ہوئی کہ میرے باس نے میری مدد کر دی ۔
محترم اجمل انکل جی
السلامُ عليکُم
اُميد ہے آپ بالکُل ٹھيک ہوں گے ، انکل جلدی پتہ چلا ليا آپ نے اپنے دوست نُما دُشمن کو ليکن آج کل نا جانے کيُوں اکثر ايسے ہی ہو گۓ ہيں لوگ ،دُکھ آتا ہے ان حالات پر ليکن کيا کريں شايد قيامت کی نشانيوں ميں سے ايک يہ بھی ہے بس دُعاؤں کی ضرُورت ہے جو ہر دم ،ہر آن رہتی ہے ہرکسی کواور شايد يہی دُعائيں ہيں جو ہميں سب بلاؤں اور آفتوں سے محفُوظ رکھتی ہے اللہ تعاليٰ ہميں ہمارے اندرُونی اور بيرُونی دُشمنوں سے پناہ ميں رکھے،آمين
اپنا خيال رکھيۓ گا
خيرانديش
شاہدہ اکرم