ہمارے خاندان میں کوئی بھی تمباکو پیتا یا کھاتا نہیں تھا اور نہ ہے ۔ میں نے بچپن ہی ميں متعلقہ مضامين پڑھنا شروع کئے اور جب میں آٹھویں جماعت میں تھا تمباکو نوشی کے خلاف پہلا مضمون لکھا ۔ وہ مضمون اپنے ہم جماعت لڑکوں کو دِکھایا ۔ اُنہوں نے پڑھنے کے بعد ہماری جماعت کے اِنچارج ٹیچر کو دے دیا ۔ ٹیچر نے مجھے بُلایا تو میں کانپتا ہوا اُن کے پاس پہنچا ۔ ٹیچر نے مُسکراتے ہوئے میرا کندھا تھپتھپایا اور شاباش کہہ کر ہدائت کی کہ میں مضمون اخبار کو بھیجوں ۔ اُس زمانہ میں راولپنڈی سے صرف اُردو روزنامہ تعمیر شائع ہوتا تھا جو جہلم سے پشاور تک اور آزاد جموں کشمیر میں مقبول تھا ۔ میں نے سکول سے گھر جاتے ہوئے تعمیر کے دفتر جا کر مضمون اُنہیں دے دیا ۔ کچھ دن بعد وہ مضمون تعمیر میں چھپ گیا ۔ مجھے اُس وقت علم ہوا جب مجھے کئی بزرگوں کی طرف سے شاباش ملنے لگی ۔ چند ماہ بعد فروری میں آٹھويں کا مقابلہ کا امتحان اور مارچ میں سکول کا آٹھویں کا سالانہ امتحان دینا تھے اسلئے میں نے مزید مضامین نہ لکھے مگر اپریل میں نویں جماعت میں جاتے ہی پھر مضمون نویسی شروع کی اور میرے مضامین گاہے بگاہے تعمیر اخبار اور بچوں کے رسالہ تعلیم و تربیت میں چھپتے رہے ۔ ميرے سگريٹ کے خلاف حقائق والے مضامين 1956 کے آخر تک چھپتے رہے ۔ اُس کے بعد ميں پڑھائی ميں اتنا مشغول ہوا کہ وقت ہی نہ ملا ۔ اب تو اخبار والے لکھنے والے کا سٹيٹس ديکھ کر کچھ چھاپتے ہيں ۔
تمباکو کے خلاف تو سب بولتے ہيں مگر عمل کی تحريک بہت کم ہے ۔ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور دينی لحاظ سے نشہ ممنوع ہے ۔ اس کے باوجود پاکستان ميں تمباکو نوشی کی شرح بڑھ رہی ہے جبکہ مغربی ممالک جنہوں نے يہ علّت ہندوستان ميں پھيلائی وہاں کم ہو رہی ہے ۔ ايک سروے کے مطابق پاکستان ميں 40 فيصد مرد اور 8 فيصد عورتيں باقاعدگی سے سگريٹ پيتے ہيں ۔ اگر گٹکا ۔ پان اور نسوار کی صورت ميں استعمال ہونے والے تمباکو بھی شامل کر ليا جائے تو شائد پاکستان ميں تمباکو کے استعمال کی شرح دنيا کے تمام مُلکوں سے زيادہ ہو ۔ ورلڈ ہيلتھ آرگنائزيشن کے اندازہ کے مطابق اگلے 20 سال ميں شاید 500 ملين انسان تمباکو نوشی کی وجہ سے پيدا شُدہ بيماريوں سے مريں گے اور ان ميں اکثريت اُن کی ہو گی جو اس وقت نابالغ ہيں ۔
تمباکو نوشی پھيلانے کا سبب اشتہار بازی ہے بالخصوص ٹی وی جو کہ گھر گھر ميں ديکھا جاتا ہے ۔ ٹی وی پر سگريٹ کی مشہوری کيلئے ايسی ايسی فلميں چلائی جاتی ہيں جيسے سگريٹ ہی ميں انسان کی جان ہو ۔ ان اشتہاروں کا زيادہ اثر نابالغ اور کم عمر بچوں پر ہوتا ہے ۔ موجودہ حکومت نے بڑے کرّ و فر سے تمباکو نوشی کے امتناع کا آرڈيننس 2002 جاری کيا تھا مگر اُسے نافذ کرنے کی عملی کوشش آج تک نہيں کی گئی ۔ پچھلے سال ستمبر ميں اسلام آباد ميں ٹريفک پوليس کے ايک آفيسر نے انسانوں سے بھری وين چلاتے ہوئے سگريٹ پينے پر ايک ڈرائيور کے خلاف کاروائی کر کے اس معاملہ ميں پہل کی مگر اس کے بعد کچھ نہ ہوا ۔
چوالیس سال قبل ميں نے اپنے ماتحت ايک آفيسر سے پوچھا کہ آپ کو تمباکو نوشی سے کيا ملتا ہے ؟ اُس نے جواب ديا کہ سَر ۔ سچ بتاؤں تو اِس سے بُری کوئی اور عادت نہيں ۔ آدمی بھوکا ہو تو کسی سے کھانے کی چيز نہيں مانگتا ۔ مگر اپنے پاس سگريٹ نہ ہو تو کِسی بھی اجنبی سے مانگ کر اُس کے منہ سے نکلا ہوا سگريٹ اپنے منہ ميں ڈال ليتا ہے ” ۔