پرویز مشرف جس کو 9 مارچ 2008ء کے میثاقِ مری کے بعد بھی اپنی تا موت حُکمرانی کی قوی اُمید ہے نے پچھلے سوا آٹھ سال میں روشن خیالی کی جو ضخیم کتاب مرتب کی ہے اس کا صرف ایک صفحہ حاضر ہے ۔ ایسے کئی باب ہمارے ملک کے ہر شہر میں لکھے جانا روزانہ کا معمول رہا ہے لیکن آج سے پہلے سرکاری پولیس کو اِسے اُجاگر کرنے کی توفیق نہ ہوئی تھی ۔ البتہ اہالیانِ اسلام آباد کی درخواست پر لال مسجد سے متعلق لوگوں نے پچھلے سال ایک صفحہ کھولنے کی جراءت کی تھی اور اس کا خمیازہ آج تک بھگت رہے ہیں ۔
اسلام آباد کے سنیئر سپرنٹنڈنٹ پولیس کو اطلاعات مل رہی تھیں کہ مکان نمبر 221 ۔ گلی نمبر 3 ۔ سیکٹر ایف 10/3 میں بااثر لوگ بِلّیاں دی سراں [Cat House] چلا رہے ہیں ۔ پنجابی میں براتھل ہاؤس [Brothel House] کو بِلّیاں دی سراں یعنی بِلّیوں کی سرائے کہا جاتا ہے ۔ ہفتہ 8 مارچ اور اتوار 9 مارچ کی درمیانی شب پولیس نے چھاپہ مار کر وہاں 19 عورتوں اور 34 مردوں کو گرفتار کر لیا جو شراب نوشی اور مخلوط ناچ میں مصروف تھے ۔ عورتوں میں 3 چینی اور 3 روسی تھیں ۔ اس مکان سے شراب کی 66 بوتلیں ۔ بیئر کے 88 ڈبے ۔ ایک 7 ایم ایم کی بندوق ۔ ایک 12 بور کی بندوق ۔ ایک 44 بور کی بندوق ۔ تین 222 بور کی بندوقیں اور گولیوں کی بھاری مقدار بھی برآمد ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ ظفر شاہد نامی ایک بااثر شخص اس گھر کو بلّیاں دی سراں [Brothel House] کے طور پر چلا رہا تھا ۔
جو لوگ پرویز مشرف کی روشن خیالی کی حمایت کرتے ہیں انہیں پولیس کے چھاپے پربھی اعتراض ہو گا کہ خواہ مخواہ کسی کی پرائیویٹلائف کو خراب کیا۔
شاید پولیس کے اس چھاپے کے پیچھے بھی کوئی غرض پوشیدہ ہوگی وگرنہ سنا ہے بلی گھر تو اسلام آباد میں اب درجنوں کے حساب کھل چکے ہیں۔
محترم اجمل انکل جی
السلامُ عليکُم
مزاج بخير،کتنے دُکھ کي بات ہے ہمارے لۓ ،مر مٹنے کا مُقام ہے نام اسلام آباد اور حالات يہ ہيں ،جب تک بااثر شخصيات کی سر پرستی حاصل رہے گی اس جيسے اور اس سے ملتے جُلتے کام ہوتے رہيں گے کاش کوئ ايسا انسان ہماری زندگی ميں ہمارے مُلک ميں آ ۓ جو مُلک کے نام اسلامی جمہُوريہ کا نام اور عزّت قائم رکھ پاۓ،آمين
دُعاگو
شاہدہ اکرم
میرا خیال ھے کہ ایس ایس پی صاحب کو بھتہ وقت پہ نہیں پہنچا سکے وہ لوگ اس ماہ
افضل صاحب
میں نے دیکھے تو نہیں لیکن سننے میں آتا ہے کہ پاکستان کے سب بڑے شہروں کا یہی حال ہے ۔ اور یہ لوگ شُرفاء کہلاتے ہیں ۔
نینی صاحبہ
یہ ہو سکتا ہے ۔ ویسے جب محلہ کے زیادہ لوگ تنگ آ جائیں تو وہ بھی اس کے خلاف جدوجہد کرتے ہیں ۔ آنٹی شمیم اور چینیووں کے مساج گھر کے سلسلہ میں متعلقہ محلہ داروں ہی نے لال مسجد والوں کو مجبور کیا تھا کہ پولیس والے کچھ نہیں کرتے ۔ آپ کیوں بُرائی کے خلاف جہاد نہیں کرتے ۔
شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم
میں بھی آپ کی دعا پر آمین کہتا ہوں
اخباری خبر پڑھ کرجو چیز میرے نوٹس میں آیا وہ یہ کہ اس ساری کارروائی کے لئے تمام ارشادات جن افسروں نے دیا انکے نام سے ایسا محسوس ہوتا ہے کہ وہ سب اھل تشیع ہیں۔
اورانہوں نے جو کچھ بھی اں تعیش پرستوں کے ساتھ کیا وہ پاکستان کے اپنے وضع کردہ قانون کے دائرے میں رہتے ھوئے کی ہیں۔ لیکن لال مسجد والوں(اھل سنی)نے جو کچھ کیا وہ شائد پاکستان کے اپنے وضع کردہ قانون کے دائرے میں فٹ نہ ہوتی ہوں۔لیکن دین کےکسوٹی پر لال مسجد والوں کا رویہ شائد قابل قبول ہوں۔
متعصب صاحب
اس میں شیعہ سُنّی کا نہیں بے راہروی کا معاملہ ہے جو ہمارے ملک میں دین سے دُوری کی وجہ سے بڑھ رہی ہے ۔ نہ شیعہ اس کی حمائت کرتے ہیں نہ سُنّی