میں نے 15 مارچ کو اسلام آباد میں ہونے والے دھماکے کی اطلاع دیتے ہوئے لکھا تھا “ان 10 کے علاوہ 4 زخمی افراد نے پاکستانی ہسپتال جانے سے انکار کیا اور کہا کہ “ہمیں ہمارے سفارتخانہ پہنچا دو”۔ سو انہیں وہاں موجود لوگوں نے ان کے سفارتخانہ پہنچایا ۔ یہ امریکی تھے اور شاید ان میں کوئی برطانوی ہو “۔
مندرجہ بالا فقرہ لکھتے ہوئے میرے ذہن میں تھا کہ وہ لوگ امریکی ایف بی آئی کے ہوں گے ۔ اب یہ بات پوری طرح واضح ہو چکی ہے کہ وہ چاروں کے چاروں امریکی ایف بی آئی کے لوگ تھے ۔ مزید یہ کہ اُنہیں وہاں موجود لوگ امریکی سفارتخانہ نہیں لے کر گئے تھے کیونکہ اُنہوں نے کسی پاکستانی کے ساتھ جانے سے انکار کر دیا تھا ۔ امریکی سفارتخانہ سے گاڑیاں بہت جلد پہنچ گئی تھیں جو اُن کو لے کر چلی گئیں تھیں ۔ یہ معلوم نہیں ہو سکا کہ اُن چار امریکی زخمیوں کا علاج کہاں ہو رہا ہے ۔ باقی 7 امریکی زخمی جو سروسز ہسپتال اسلام آباد میں تھے کو بھی 15 اور 16 مارچ کی درمیانی رات امریکی سفارتخانہ والے لے گئے تھے ۔
یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ لاہور ایف آئی اے کی عمارت کے جس حصہ سے خودکُش بمبار نے ٹرک ٹکرایا اور ماڈل ٹاؤن میں خودکُش بمبار نے جس کوٹھی کو نشانہ بنانا چاہا ان دونوں میں ایف بی آئی والے بیٹھتے تھے ۔ ان باتوں سے یہ تاثر اُبھرتا ہے کہ دو سال قبل جو خبر پاکستان میں گردش کر رہی تھی کہ پورے پاکستان میں ایف بی آئی موجود ہے وہ صحیح تھی ۔
اب تو شک کی کوئی گنجائش باقی نہیںرہی کا پاکستان اب پوری طرح امریکہ کے زیر اثر ہے۔ پاکستان میں نئی حکومت کیلیے جوڑ توڑ ہونا ہو تو امریکی سفیر کی مصروفیات دیکھنے والی ہوتی ہیں، شمالی علاقوں میںمیزائل گرا کر پاکستان کو اطلاع دی جاتی ہے، امریکی کانگریس میں پاکستان کی ہر چھوٹی بڑی بات کی قرارداد پیش ہوتی ہے، پاکستان سے کوئی بھی شہری اٹھا لیا جاتا ہے، یعنی اب اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ آنے والی حکومت امریکی اجارہ داری سے محفوظ رہ سکے۔
لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ امریکہ جو جمہوریت کا دم بھرتا ہے وہ اپنی اس کالونی میں جمہوریت کی نہ صرف نفی کرتا ہے بلکہ جمہوریت کےپھلنے پھولنے کیلیے جن لوازمات یعنی تعلیم، آزاد میڈیا، آزاد عدلیہ ضرورت کی ہوتی ہے ان کی مخالفت کرتا ہے۔
یہ تسلط تب تک برقرار رہے گا جب تک پاکستانی بکنے کیلیے دستیاب ہوتے رہیںگے۔
جی انکل آپ نے بالکل صحیح اندازہ لگایا ھے !!!
جب تک “میر” لو گو ںکا سا یہ رہے گا تب تک یہی ہو گا ۔جب تک اس ملک کو ‘ ا فتخا ر ‘ نصیب نہیں ہو تا ہے ۔تب تک ملک کے چوکیدار اس کو برائے فروخت کر دے گے
افضل صاحب اور نینی صاحبہ
کمال تو یہ ہے کہ کل وزارتِ خارجہ کے ترجمان ریٹارڈ بریگیڈیئر چیمہ منکر ہو گئے کہ کوئی ایف بی آئی کا آدمی زخمی ہوا ہے ۔
اُردو ایکس پی صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ میں نے آپ کی ویب سائٹ دیکھی ہے ۔ اچھی کوشش ہے ۔ اللہ آپ کو مزید توفیق دے ۔ آپ نے تو بڑا معرفت والا جملہ لکھ دیا ہے ۔ انشاء اللہ ہمارے مُلک کو افتخار جلد نصیب ہو گا
محترم ہمارا ملک تو برسوں پہلے ایک فوجی جرنیل کے جہاد کے لیے امریکی ایجنسیوںکو بیچ دیا تھا چناچہ پاکستانیوںکے لیے ایف بھی آئی کی موجودگی کسی انکشاف کا درجہ نہیں رکھتی ۔۔ باقی فوج اور وزارت خارجہ کا مبصر جس بات کا منکر ہو بس سمجھیں وہی درست ہے ۔۔
راشد کامران صاحب
جہاں تک میرے علم میں ہے اُس دور میں امریکی ایجنسیوں کو پاکستان میں کسی قسم کی کاروائی یا تفتیش کی اجازت نہ تھی ۔ پاکستان کے راستہ افغانستان میں سب کاروائیاں پاکستانی فوج اور ایجنسیاں کر رہی تھیں ۔ اسی وجہ سے افغانستان مسلمان ریاست کے طور اُبھرا اور امریکہ نے قلابازی لگا دی ۔ پرویز مشرف نے امریکی فوج کو افغانستان کے مسلمانوں کے خلاف کاروائیاں کرنے کیلئے تین صوبوں بلوچستان ۔ سندھ اور سرحد میں اڈے دئیے جہاں سے براہِ راست نہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان کے خلاف بھی کاروائیاں ہو رہی ہیں اور ہماری حکومت ان کا سدِباب کرنے سے قاصر ہے ۔ پڑھیئے
http://iabhopal.wordpress.com/2008/03/08/time-to-take-stock-of-us-threat
نہیں جناب میں اس بات کو نہیںمانتا۔ امریکیوں کو پاکستان میں کسی کاروائی کے لیے کبھی بھی اجازت کی ضرورت نہیں پڑھی ۔۔ بلکہ اس دور میں جب کے ضیاءکو اپنے اقتدار کے لیے امریکی آشیرباد کی ضرورت تھی امریکیوں کا اثر و رسوخ پاکستان میں ضرورت سے زیادہ بڑھ گیا تھا۔۔ اور اسکے بعد سے آج تک پاکستانی فوج امریکی مفادات کے لیے کرائے پر دی جاتی رہی ہے ۔۔
راشد کامران صاحب
اگر آپ پاکستانی حکومت اور فوج سے امریکی حکومت کے روابط کی بات کرتے ہیں تو یہ 1953ء میں شروع ہوئے جب پاکستان کی پہلی اسمبلی کو غلام محمد نے چلتا کیا اور اس کے ہم پیالہ جسٹس منیر نے نظریہ ضرورت ایجاد کر کے غلام محمد کے اُس غیرقانونی اقدام کو قانونی قرار دیا ۔ پھر جنرل ایوب خان کے دور میں امریکی افواج کو پشاور کے قریب بڈبیر میں خفیہ اڈا دیا گیا جو خود ایوب خان ہی نے 1966ء میں ختم کر دیا تھا ۔
آپ کا موقف بسروچشم لیکن میں غیر مصدقہ باتیں نہ کہتا ہوں نہ لکھتا ہوں ۔