نینی صاحبہ نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے چند اہم نقاط اُٹھائے ہیں ۔ تبصرہ کا جواب سرِ ورق پر دے رہا ہوں کہ کوئی اور بھی قاریہ ایسی یا قاری ایسا ہو سکتا ہے جس کے ذہن میں یہی سوال اُبھرے ہوں لیکن لکھنا مناسب خیال نہ کیا ہو ۔
تبصرہ کا جواب
بہت خوب ۔ آپ کی اُردو بہت پسند آئی ۔ کسرِ نفسی دیکھیئے کہ ماشاء اللہ اتنی طویل اور جامع تحریر کے بعد فرمایا ہے “اف اردو لکھنا بہت مشکل ھے”۔ محترمہ اُردو لکھتی رہیئے ۔ اِسے مت چھوڑئیے ۔ یہ آپ کی اپنی بولی ہے ۔
میری تحریر کی تشنگی کی طرف توجہ دلا نے کا شکریہ ۔ مجھے اختلاط کی تعریف پہلے ہی لکھنا چاہیئے تھی ۔ فیروز اللُغات نیا ایڈیشن کے مطابق “اختلاط” کے معنی ہیں ۔ ربط و ضبط ۔ میل جول ۔ پیار ۔ میل ملاپ ۔ محبت کی گرم خوشی ۔ چھڑ چھاڑ ۔ اور “اختلاط کی باتیں” کا مطلب ہے پیار اور محبت کی باتیں ۔
محترمہ ۔ عنوان مناسب ہے کیونکہ بات پوری دنیا کی ہو رہی ہے ۔ یہ بتاتا چلوں کہ دنیا کا کوئی مذہب عورت مرد کے اختلاط کی اجازت نہیں دیتا ۔ مگر جو ہم دیکھ رہے ہیں یہ بے راہ روی کا نتیجہ ہے ۔ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی بعثت کے وقت یہودیوں میں اختلاط کے نتیجہ میں ہونے والی بدکاری کی سزا عورت اور مرد دونوں کو سنگسار کرنا تھی ۔ یہی سزا سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے شادی شُدہ مرد یا عورت کے بدکاری کرنے پر مقرر فرمائی ۔
محترمہ ۔ میں نے اُس کشش کی بات کی تھی جو اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے فطرتِ انسان میں رکھی ہے اور جائز ہے ۔ جس کشش کا آپ نے ذکر کیا ہے یعنی ” تاجر کی لئے سود میں کشش اور سرکاری ملازم کے لئے رشوت میں”۔ یہ کشش شیطان نے انسان کو بہکانے کیلئے پیدا کی ہے اور ہر شخص میں نہیں ہوتی ۔ ہاں ۔ جب مرد عورت کی پاکیزا کشش میں شیطان کا عمل داخل ہو جائے تو نتیجہ وہی ہوتا ہے جس کی میں نے دو مثالیں دی ہیں ۔
آپ نے اسلامی حدود و قیود کا ذکر کیا ہے ۔ میں پھر کہوں گا کہ کوئی بھی مذہب اس اختلاط کی اجازت نہیں دیتا کیونکہ یہ بدکاری کی طرف لے جاتا ہے ۔ ہاں اگر ہر انسان اپنے مذہب پر چلے تو پھر کسی قسم کا کوئی مسئلہ ہی پیدا نہ ہو مگر آج کے دور میں تو اُن سیّدنا عیسی علیہ السلام کے ماننے والے جنہوں نے کہا تھا کہ “اگر ایک گال پر کوئی تھپڑ مارے تو دوسرا گا آگے کر دو” اپنے علاوہ باقی سب کا بلا جواز قتلِ عام کر رہے ہیں ۔
آپ نے درست لکھا کہ ساری بگاڑ کا سبب دین سے دُوری ہے ۔ آپ نے اللہ کے فرمان کا ذکر کیا ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا یہ حُکم سورت 2 ۔ الْمَآئِدَة کی آیت 2 کا آخری حصہ ہے ۔ وَتَعَاوَنُواْ عَلَی الْـبِـرِّ وَالتَّقْوَى وَلاَ تَعَاوَنُواْ عَلَی الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَاتَّقُواْ اللہَ إِنَّ اللّہَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
ترجمہ ۔ اور نیکی اور پرہیزگاری [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم [کے کاموں] میں ایک دوسرے کی مدد نہ کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو ۔ بیشک اﷲ [نافرمانی کرنے والوں کو] سخت سزا دینے والا ہے
میں آپ کی مشکور ہوں کہ آپ نے میرے تبصرے کو اس مشفقانہ جواب کے قابل سمجھا۔
لفظ اختلاط کے متعلق میری معلومات میں ازافہ کرنے کا بےحد شکریہ۔
میں امید کرتی ہوں کے آئندہ بھی آپ میرے اوٹ پٹانگ سوالات کے مدبرانہ جواب دیتے رہیں گے :grin:
انکل سچ میں اردو لکھنی نہیں آتی مجھے۔ ” ازافہ” لفظ ھی سے اندازہ لگا لیں ۔
موضوع سے پرے لکھنے کیلئے معاف کیجئے گا۔
صحیح لفظ غالباً نِکات ہے۔ ہاں اگر آپ نے بطورِ خاص نقاط لکھا ہو تو معذرت۔
ولسّلام۔
جناب اردو داں صاحب!
فیروزسنز اردو-انگلش ڈکشینری میں دونوں طرح سے یہ لفظ موجود ہے۔بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دونوں لفظ بھی ٹھیک ہی ہیں۔ ڈکشنری کے مطابق اصل میں یہ عربی سے اردو میں آیا ہے۔ ڈکشنری غلط بھی ہوسکتاہے۔ یہ بہت پرانا ایڈیشن معلوم ہوتا ہے۔اسکی لکھائی”ٹائپ رائٹر” سے لکھی ہوئی معلوم ہوتی ہے۔مزے کی بات یہ کہ چھپائی کی تاریخ اور ایڈیشن نامعلوم۔ اور ایک بات!!!!!! مجھے بھی کوئی خاص اردو نہیں آتی لیکن سیکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔خاس کر مذکر مؤنث کی کوئی تمیز نہیں۔ھیھیھییھ
نینی صاحبہ
آپ کی نوازش ہے ورنہ بندہ کس قابل ۔
اُردو کے متعلق میں آپ کو بذریعہ ای میل لکھوں گا ۔
اُردودان صاحب
لفظ نقطہ ہے جو عربی زبان سے مستعمل ہوا ۔
محبِ پاکستان صاحب
آپ کا شکریہ ۔ میرے پاس فیروزاللغات ہے اس میں صرف نقطہ ہی ہے ۔
میری معلومات میں دو الفاظ ہیں؛
نقطہ ۔ مثلا دو نقطوں کو جوڑنے والا خط (جمع – نقاط)
نکتہ – جیسے نکتہ چینی کرنا۔(جمع نکات)
انگریزی میں غالبا دونوں کیلئے لفظ “پائنٹ” ہی استعمال ہوتا ہے۔
نکتہ “چینی” ۔۔۔ اتنی تلخ بات پرکتنی میٹھی ۔۔۔
اردوداں کا “نکتہ” پر اٹھایا گیا “نکتہ” شک و شبہ سے بالا تر ھے کیونکہ مجھے قاید اعظم کے چودہ ” نکات” بڑی مشکل سے یاد ھوے تھے۔ جواب تو جواب سوال بھی حافظہ میں محفوظ ھے
قاید اعظم کے چودہ نکات بیان کریں- :grin:
ویسے اردوداں کی وجہ سے میری شمع تو عنقریب گل ھو جاے گی کیونکہ میری تو غلطی نہیں غلطے ھو تے ھیں
انکل برساتی نالہ بھلا کیا نوازش کرے گا سمندر پہ :grin:
اُردودان صاحب اور نینی صاحبہ
نکتہ ہوتا ہے ۔ باریک بات ۔ تہہ کی بات ۔ لطیفہ ۔ چٹکلہ ۔ رخنہ ۔ عیب ۔ چمڑا جو گھوڑے کے منہ پر رہتا ہے ۔
نکتہ بیں کا مطلب ہے نازک خیال ۔ نکتہ چیں کا مطلب عیب ڈھونڈنے والا ۔ نکتہ دان کا مطلب ذہین ۔ وغیرہ وغیرہ ۔
باریک بات کے لحاظ سے میں نکات لکھ دیتا لیکن اس کا مطلب عیوب سمجھا جاتا تو میرا کیا بنتا ؟
ھی ھی ھی ھی۔۔۔۔ اسی لیے شاید انگریزوں نے اپنی زبان میں ” نقطے” نہیں رکھے
معلومات میں ازافے کا ایکبار پھر شکریہ !! :grin:
نینی صاحبہ
اگر برساتی نالہ نہ ہوتا تو دریا نہ بنتا اور دریا نہ بنتا تو سمندر کیسے بنتا ۔ ویسے برساتی نالہ بڑے غضب کی چیز ہوتا ہے ۔ :smile:
جی جی بالکل بالکل !!! یہ تو آپ اہلیان گوالمنڈی سے پوچھیں کہ کتنا غزب کا ھوتا ھے برساتی نالہ ۔۔۔۔۔ھی ھی ھی
نینی صاحبہ
تو آپ راولپنڈی میں رہائش رکھتی ہیں ۔ہوں ںںں ۔ گوالمنڈی میں تو نہیں رہتیں جسے دریا آباد کا نام دیا گیا تھا مگر کوئی بُلاتا نہیں ؟
ماشااللہ اچھی بحث ہوئی ہے ‘نکات اور نقاط’ پر
میرے لئے یہ دو الفاظ ہمیشہ کنفویژن کا باعث رہے ہیں۔ تاہم زیادہ مستعمل ‘نکتہ یا نکات’ ہے ؛ جو دیکھنے میں صحیح لگتا ہے ۔ ہاہاہاہاہ
بات نکتے سے شروع ہوئی اور گوالمنڈی کے نالے تک جہاں پہنچی لیکن سمجھ نہیں آیا کہ کونسا لفظ صحیح ہے یا اردودانوں کی اکثریت کس لفظ کو صحیح سمجھتی ہے ۔ کیا آپ لوگ یہ بتلاکر ہم غیراردودانوں پر مہربانی کریں گے ؟
وقار علی روغانی صاحب
میں اُردودان تو نہیں لیکن تعلیم یافتہ اُردودانوں سے بچپن میں اُردو پڑی تھی ۔ آج جو اُردو یعنی اپنی قومی زبان کا جو حشر ہماری قوم کر رہی ہے ۔ اس پر رونے والا تو شاید کوئی نہیں اور میرے جیسے افسوس کرنے والے بھی بہت کم رہ گئے ہیں ۔ میرا ارادہ ہے کہ آپ کے اس تبصرہ کا جواب میں سرِ ورق دوں کہ ہوسکتا ہے کسی اور قاری کے ذہن میں بھی کچھ بات بیٹھ جائے ۔
محترم اجمل انکل جی
السلامُ عليکُم
اُمّيد ہے آپ بخير ہوں گے آ ج اتنے دنوں کے بعد آپ کے بلاگ پر آمد ہو رہی ہے وجہ نا معلُوم ہے کہ نا جانے آپ کی اور ايک دو اور سائيٹس کُھل ہی نہيں رہی تھيں شُکر خُدا کا آج بات کرنے کا موقع ملا سو،نينی نے جو کہا وہ اپنی جگہ بالکُل درُست بات ہے اور ايک مُسلمان ہونے کے ناطے ميں صرف اتنا کہنا چاہُوں گی کہ ہمارے مزہب ميں جو حدُود وقيُود رکھی گئ ہيں وہ ہر بات کو مدّنظر رکھ کر رکھی گئ ہيں انسانی صفات اور حسيات کو ملحُوظ رکھ کر ہميں ان باتوں کا پابند کيا گيا ہے اب يہ ہم پر مُنحصر ہے کہ ہم مزہب کے کتنے قريب ہيں کيُونکہ ميرے خيال ميں قُرآن پاک کو اگر صرف رٹے رٹاۓ طريقے سے پڑھنے کی بجاۓ ترجمے سے پڑھا جاۓ تو کسی اور طرف ديکھنے کی بالکُل ضرُورت باقی نہيں رہتی کہ مُکمل ہدايت ہميں اور کہيں سے نہيں مل سکتی ہر رشتے ،ہر تعلُق ،حتٰی کہ زندگی کے ہر معاملے ميں رہنُمائ موجُود ہے سو اگر کہيں کوئ غلطی يا کمی ہے تو وہ مزہب سے دُوری کی وجہ سے ہے بس
اپنا خيال رکھيۓ گا
اللہ حافظ
شاہدہ اکرم
شاہدہ اکرم صاحبہ ۔ السلام علیکم
میرا یقین ہے کہ زندگی کے ہر پہلو پر اللہ نے اپنے کلام اور اپنے پیغمبر کے ذریعہ ہماری مکمل رہنمائی کی ہے اور ساری خرابی دین سے دوری کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے ۔
اگر آپ انٹرنیٹ ایکسپلورر استعمال کرتی ہیں تو پچھلے دنوں یہ گڑبڑ کر رہا تھا ۔ میں بھی عام طور پر انٹرنیٹ ایکسپلورر ہی استعمال کرتا ہوں لیکن جب گڑبڑ کرے تو فائرفاکس استعمال کر لیتا ہوں ۔ ویسے فائرفاکس کے بھی اپنے مسائل ہیں ۔