إِنَّ الله لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ (سورت13الرعدآیت11) ترجمہ ۔ الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے ۔ ۔ ۔ وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی (سورت 53 النّجم آیت 39) ترجمہ ۔ اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی ۔ ۔ ۔ سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ ۔ ۔ ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنےعلم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے ۔ ۔ ۔ رَبِّ اشْرَحْ لِی صَدْرِی وَيَسِّرْ لِی أَمْرِی وَاحْلُلْ عُقْدة مِنْ لِسَانِی يَفْقَھُوا قَوْلِی
میری ایک تحریر پر ابو شامل صاحب نے تبصرہ کرتے ہوئے اقوامِ متحدہ کے زیرِ انتظام کرائے گئے ایک سروے کا حوالہ دیا ۔ اس ویب سائٹ پر دیئے گئے اعداد و شمار کو آسان فہم بنا کر میں نے اپنے بلاگ “حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔ Reality is Often Bitter پر شائع کیا ہے ۔ ان اعداد و شمار کا پاکستان میں متعلقہ واداتوں کے ساتھ موازنہ کرنے پر ہی معلوم ہو گا کہ ہمارے مُلک کا کیا حال ہے ۔
4 thoughts on “سروے کیا کہتا ہے”
محمد سعد
السلام علیکم۔ اس مضمون کے مطالعے کے بعد میں نے سوچا کہ کچھ تحقیق میں بھی کر لوں۔ تو اس مقصد کے لیے میں نے اپنے آس پاس کے لوگوں کا مطالعہ کیا۔ اور مجھے تو کبھی بھی کوئی شخص خواتین کو گھورتے ہوئے نظر نہیں آیا۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ زیر بحث مضمون کو لکھے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں میں کسی حد تک یہ برائی ہو لیکن جہاں تک میرے آس پاس کی بات ہے تو مجھے کبھی بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی۔
آپ لوگ اس سروے کے اعدادوشمار پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ مسلمان ملکوں اور خاص کر پاکستان میں زناہ کا کیس اکثر عورتیں درج کرانے سے ڈرتی ہیں کیونکہ اس طرح ان کا مستقبل تاریک ہونے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مممالک میںاس سروے کے مطابق کم کیس دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ یورپ میں عورتوں کیساتھ اس طرحکا مسئلہ مگر بہت کم۔
افضل صاحب
نہ صرف مسلم ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی لڑکیاں اور عورتیں زبردستی کی بدکاری کی اطلاع پولیس کو دینے سے ڈرتی ہیں ۔ اسی لئے تمام ممالک میں رجسٹرشدہ اعداد و شمار اصل اعداد و شمار سے کم ہوتے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے ۔ ایک بات جو آپ نے شاید مدِنظر نہیں رکھی یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بدکاری کی کھُلی چھٹی ہے اس کے باوجود زبردستی کی بدکاری مسلم ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔
دوسری بات کہ آپ نے اس کا موازنہ پاکستان کی صورتِ حال سے نہیں کیا ۔ پاکستان کی آبادی 150 ملین ہے اور اب تک کسی سال میں رجسٹر شدہ اور غیر رجسٹر شدہ واقعات ملا کر بھی ہیوم رائٹس کمشن آف پاکستان نے جو دو سال کی زیادہ سے زیادہ تعداد دی ہے وہ 200 سے کم ہے جس میں غیررجسٹر شدہ اور غیر مصدقہ واقعات بھی شامل ہوتے ہیں ۔ 3 سال میں یہ تعداد 300 بنتی ہے ۔ پھر بھی یہ تعداد 2 فی ملین آبادی بنتی ہے ۔
السلام علیکم۔
اس مضمون کے مطالعے کے بعد میں نے سوچا کہ کچھ تحقیق میں بھی کر لوں۔ تو اس مقصد کے لیے میں نے اپنے آس پاس کے لوگوں کا مطالعہ کیا۔ اور مجھے تو کبھی بھی کوئی شخص خواتین کو گھورتے ہوئے نظر نہیں آیا۔ حالانکہ آپ جانتے ہیں کہ زیر بحث مضمون کو لکھے ہوئے کتنا عرصہ گزر چکا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں میں کسی حد تک یہ برائی ہو لیکن جہاں تک میرے آس پاس کی بات ہے تو مجھے کبھی بھی کوئی ایسی بات نظر نہیں آئی۔
آپ لوگ اس سروے کے اعدادوشمار پڑھنے سے پہلے یہ بات ذہن نشین کرلیں کہ مسلمان ملکوں اور خاص کر پاکستان میں زناہ کا کیس اکثر عورتیں درج کرانے سے ڈرتی ہیں کیونکہ اس طرح ان کا مستقبل تاریک ہونے کے زیادہ چانسز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلم مممالک میںاس سروے کے مطابق کم کیس دکھائے گئے ہیں۔ جبکہ یورپ میں عورتوں کیساتھ اس طرحکا مسئلہ مگر بہت کم۔
محمد سعد صاحب ۔ السلام علیکم
آپ کا خیال درست ہے ۔ یہ بیماری بڑے شہروں میں زیادہ ہے ۔
افضل صاحب
نہ صرف مسلم ممالک بلکہ غیر مسلم ممالک میں بھی لڑکیاں اور عورتیں زبردستی کی بدکاری کی اطلاع پولیس کو دینے سے ڈرتی ہیں ۔ اسی لئے تمام ممالک میں رجسٹرشدہ اعداد و شمار اصل اعداد و شمار سے کم ہوتے ہیں ۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ میں یہ بات واضح کی گئی ہے ۔ ایک بات جو آپ نے شاید مدِنظر نہیں رکھی یہ ہے کہ غیر مسلم ممالک میں بدکاری کی کھُلی چھٹی ہے اس کے باوجود زبردستی کی بدکاری مسلم ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔
دوسری بات کہ آپ نے اس کا موازنہ پاکستان کی صورتِ حال سے نہیں کیا ۔ پاکستان کی آبادی 150 ملین ہے اور اب تک کسی سال میں رجسٹر شدہ اور غیر رجسٹر شدہ واقعات ملا کر بھی ہیوم رائٹس کمشن آف پاکستان نے جو دو سال کی زیادہ سے زیادہ تعداد دی ہے وہ 200 سے کم ہے جس میں غیررجسٹر شدہ اور غیر مصدقہ واقعات بھی شامل ہوتے ہیں ۔ 3 سال میں یہ تعداد 300 بنتی ہے ۔ پھر بھی یہ تعداد 2 فی ملین آبادی بنتی ہے ۔