دنیا کا سب سے پہلا خُود کُش دھماکہ جو میرے علم میں ہے وہ دوسری جنگِ عظیم کے دوران ایک جاپانی ہوا باز نے کیا تھا جو بارُود بھرے ہوائی جہاز کو اُڑاتے ہوئے ناقابلِ تسخیر کہلانے والے برطانوی بحری جہاز کی چِمنی میں گھُس گیا تھا اور دھماکہ کے نتیجہ میں بحری جہاز سمندر میں غرق ہو گیا تھا ۔ اس کے بعد مغربی دنیا کے بَل بوتے پر کئے گئے اسرائیلی مظالم سے تنگ آئے ہوئے فلسطینیوں نے اسے اپنایا اور مغربی دنیا کے جور و سِتم سے تنگ عراقیوں نے بھی اسے ہی کامیاب ہتھیار سمجھا ۔ فلسطینیوں اور عراقیوں کا خُودکُش دھماکے کرنا تو سمجھ میں آتا ہے کہ بِلک بِلک کر مرنے کی بجائے کیوں نہ دُشمنوں کے کچھ لوگوں کو مار کر خود بھی اذیْتی زندگی سے نجات حاصل کر لیں مگر پاکستان کے شہروں میں پاکستانی ہی خُودکُش حملے کریں یہ سمجھ سے باہر ہے ۔
پچھلے ایک سال سے پاکستان بارودی دھماکوں کی لپیٹ میں ہے جنہیں خُودکُش بمباری قرار دیا جاتا ہے لیکن اخبارات میں لکھے حکومتی و دیگر بیانات حقائق سے میل نہیں کھاتے ۔ ہمارے ملک میں عام علوم کا حال بھی ابتر ہے اور یہ ایک خصوصی علم ہے جس سے واقفیت عام آدمی کے بس میں نہیں ۔ میں اپنی زندگی کی تین اہم دہائیاں اسلحہ کے کارخانوں سے منسلک رہا ہوں اسلئے اسلحہ اور بارُود بشمول دھماکہ خیز مواد کے چال چلن سے کسی حد تک واقف ہوں ۔ یہ تو کوئی ڈَھکی چھُپی بات نہیں کہ خُودکُش بمبار نے اپنے جسم پر ناف سے بغلوں تک پیٹیاں لپیٹی ہوتی ہیں جن میں ارفع دھماکہ خیز مواد [High explosive] ہوتا ہے ۔ اس دھماکہ خیز مواد میں فولاد یا سِکے کی بنی گولیاں [Balls of steel or lead ] ملائی ہوتی ہیں ۔ جب دھماکہ کیا جاتا ہے تو یہ گولیاں بندوق کی گولی سے زیادہ قوتِ حرکت [momentum] کے ساتھ ہر سمت میں چلتی ہیں ۔
دھماکہ کے ساتھ ہی خُودکُش بمبار کے دھڑ کے لوتھڑے بن کر چاروں اطراف اُڑ جاتے ہیں ۔ چہرا مسخ ہو جاتا ہے اور سر اُڑ کر کہیں دور جا گرتا ہے کیونکہ تھوڑی [chin] سمیت چہرا سینہ سے باہر کی طرف نکلا ہونے کی وجہ سے گولیوں کی زد میں ہوتا ہے ۔ سر کے بھی ٹکڑے ہو سکتے ہیں ۔ ٹانگیں عام طور پر محفوظ رہتی ہیں کیونکہ دھڑ کا حلقہ ٹانگوں کے حلقہ سے زیادہ ہوتا ہے اور دھماکہ خیز مواد کی پیٹیاں دھڑ کے ارد گرد لپٹی ہوتی ہیں ۔ ارفع دھماکہ خیز مواد بہت ظالم چیز ہے ۔ اگر دھماکہ خُود کُش نہ بھی ہو تو دھماکے کی جگہ کے اِردگِرد موجود لوگوں کے جسم لوتھڑے بن کر دور دور جا گرتے ہیں اور سر تن سے جدا بھی ہو سکتے ہیں ۔ ایک ایسا ہی واقعہ میرا چشم دِید ہے جس میں وہاں موجود 11 کے 11 انسانوں کے جسم کے لوتھڑے دور دور تک پھیل گئے تھے اور کسی کا کچھ پہچانا نہیں جا سکتا تھا ۔ جس عمارت میں یہ لوگ موجود تھے اس کا ملبہ بھی چاروں طرف اس طرح بکھر گیا تھا کہ جیسے وہاں کوئی عمارت تھی ہی نہیں ۔ یہ دھماکہ وہاں موجود چند کلو گرام بارُود کے حادثاتی طور پر پھٹ جانے کا نتیجہ تھا اور یہ خالص بارود تھا یعنی اس میں گولیاں یا کوئی اور چیز نہ تھی ۔
ہمارے ملک میں جتنے بھی دھماکے خودکُش قرار دیئے گئے ان کے بعد “خُودکُش بمبار کا سر مل گیا ” کا نعرہ بلند کیا گیا مگر ٹانگوں کا ذکر کبھی نہ ہوا ۔ اس سے یہ تأثر اُبھرتا ہے کہ عوام کو بیوقوف بنانے کی کوشش کی جاتی ہے ۔ دھماکہ یا تو خُودکُش ہوتا ہی نہیں یا اس کا کوئی ثبوت حکومت کے پاس نہیں ہوتا ۔ دراصل خُودکُش دھماکہ قرار دے کر متعلقہ حکومتی کارندے تحیقیق کی بجائے اپنی جان بچانے کی کوشش کر رہے ہوتے ہیں ۔ اگر وہ اسے خُودکُش دھماکہ قرار نہ دیں تو حکومت کی نااہلی ثابت ہوجائے گی ۔
ہر دھماکے کے بعد ایک اور حکومتی اعلان کیا جاتا ہے کہ خُود کُش بمبار کا سر ڈی این اے ٹیسٹ کیلئے بھیج دیا گیا ہے ۔ یہ بھی عوام کو بیوقوف بنانے کی ایک بھونڈی کوشش ہے ۔ اگر تمام پاکستانیوں کا ڈی این اے ریکارڈ موجود ہو تو موازنہ کے ذریعہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ خُودکُش بمبار [اگر دھماکہ خُودکُش تھا] کس خاندان سے تعلق رکھتا ہے ورنہ اس کا کوئی فایدہ نہیں ۔
اہم معلومات کیلئے شکریہ۔
جی جاپانی معاشرے میںخودکشی اچھا فعل سمجھا جاتا ہے، آج بھی لوگ عزت بچانے کیلئے ایسا کرتے ہیں۔ غالبا اسے ہارا کیری یا ہارا کاری کہتے ہیں۔ خود کشی کی تاریختو پاکستانی فوج میںبھی ہے جب سپاہی بم باندھ کر دشمن ٹینک کے نیچے لیٹجاتے تھے۔ آج سری لنکا میں بھی خود کش دھماکہ ہو اہے۔ کہنے کا مطلب یہ کہ ہو ہر جگہ رہا ہے، بدنام صرف ہم ہیں اور حکومت بھی ایسی خبروںکو اچھالتی ہے کہ چند ٹکے امداد مل جائے گی۔
فیصل صاحب
ستمبر 1965ء کی جنگ کے متعلق ناعاقبت اندیش کہانی باز اخبار والوں نے سپاہیوں کے بم باندھ کر ٹینکوں کے آگے لیٹنے کی کہانیاں چھاپی تھیں اور اسی طرح کے ایک شاعر نے گیت بھی لکھ مارا تھا جو ریڈیو پر سنایا جاتا رہا ۔ اس میں کوئی حقیقت نہ تھی ۔ البتہ پاکستانی سپاہی کسی خطرہ کی پرواہ کئے بغیر بہت دلیری سے لڑتے اور شہید ہوتے رہے اور اپنے ملک کو بچا کر جنگ کا رُخ ایسا موڑا کہ بھارت کے وزیراعظم کو جنگ بندی کی بھیک مانگنا پڑی ۔