Yearly Archives: 2007

پاکستان میں کردار و معیار کا تنزّل

میں اپنی ایک پرانی تحریر دہرا رہا ہوں کہ یہ آج کے حالات کے ساتھ گہرا تعلق رکھتی ہے ۔ بالخصوص اسلئے کہ حکومتی وزیر شیخ رشید نے کل جیو ٹی وی کے ڈاکٹر شاہد مسعود کے ساتھ بات چیت میں کہا کہ ایک بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے ۔ سوات میں باقاعدہ آرمی آپریشن شروع کرنے کا تو اعلان پہلے ہی ہو چکا ہے تو اب کونسا بڑا آپریشن ہونے جا رہا ہے ؟ کیا سویلین کے کورٹ مارشل کا قانون اسی لئے بنایا گیا ہے ؟

دین اسلام ہو یا کوئی اور مذہب یا انسان کا اپنا بنایا ہوا قانون ۔ قتل ہر حال میں جُرم ہے اور قتل کرنے والا اور قتل کا حُکم دینے والا دونوں قتل کے مُجرم ہوتے ہیں ۔ میں کسی دینی کتاب سے کوئی آیت نقل نہیں کروں گا کہ اب ایسے مسلمان پیدا ہو گئے ہیں جو کہتے ہیں کہ 1400 سال پرانا قانونِ شریعت آج کے سائنسی دور میں نہیں چل سکتا ۔ میں ماضی قریب کے صرف تین واقعات لکھوں گا ۔ یہ تینوں واقعات وردی والوں کے متعلق ہیں ۔

پاکستان بننے سے پہلے پورا ہندوستان انگریزوں کا غلام تھا ۔ اس زمانہ میں سیّد صبغت اللہ راشدی [موجودہ پیر پگاڑہ کے والد] نے سندھ کے لوگوں کو حُریت [آزادی] کا سبق سکھایا اور انہوں نے انگریزوں کی غلامی کے خلاف مہم شروع کی ۔ انگریز حکومت نے انہیں غدار قرار دے کر علاقہ پر بمباری کا حُکم دیا ۔ ایک ہندوستانی پائلٹ آفیسر محمد اصغر خان کو حکم دیا گیا کہ اپنا طیارہ اُڑا لیجائے اور اُن پر بمباری کرے ۔ محمد اصغر خان طیارہ اُڑا کر لے گیا اور بغیر بمباری کئے واپس آ کر طیارہ زمین پر اُتار دیا ۔ حُکم عدولی پر محمد اصغر خان کو معطل کر دیا گیا اور اُسکا کورٹ مارشل ہوا جس میں اس نے کہا کہ مجھے باغی مَردوں [حُروں] کو مارنے کا حُکم دیا گیا تھا جب میں نے دیکھا کہ بمباری سے بہت سے بیگناہ بچے اور عورتیں بھی مر جائیں گے تو میں واپس آ گیا ۔ محمد اصغر خان کو بحال کر دیا گیا ۔ یہ شخص میرے شہر جموں کے محلہ پٹھاناں کا باسی اور پاکستان کی ہوائی فوج کا سابق مایہ ناز سربراہ ایئر مارشل محمد اصغر خان ہے ۔

ذولفقار علی بھٹو صاحب کے خلاف 1977 عیسوی میں جب سیاسی تحریک عروج پر پہنچی تو سول نافرمانی کی صورت اختیار کر گئی جو قانون اور آئین دونوں کی خلاف ورزی تھی ۔ لاہور میں لوگ احتجاج کر رہے تھے کہ پولیس نے ان پر گولی چلا دی ۔ شائد سات آدمی ہلاک ہوئے ۔ ان پولیس والوں کا سربراہ تھانیدار جب گھر پہنچا تو اسکے چچا اس کے گھر کے دروازے پر کئی گھنٹوں سے اس کی انتظار میں بیٹھے تھے ۔ اسے دیکھتے ہی اس پر برس پڑے “تو نے اپنے مرے ہوئے باپ کا بھی خیال نہ کیا ؟ تو ہمارے خاندان میں پیدا ہی نہ ہوتا یا پیدا ہوتے ہی مر گیا ہوتا ۔ تجھے اسلئے پولیس میں بھرتی کرایا تھا کہ تو اپنے بھائی بیٹوں کو مروانا شروع کر دے ۔ تو یہاں کیا کرنے آیا ہے ؟ جا دفع ہو جا ۔ یہ اب تیرا گھر نہیں ہے”۔ تھانیدار بپھرا ہوا واپس مُڑا اور سیدھا سپرننڈنٹ پولیس کے دفتر میں جا کر اپنا استعفٰے پیش کر دیا ۔ اس کے بعد لاہور پولیس نے مزید کاروائی کرنے سے انکار کر دیا ۔

پولیس کے انکار کے بعد لاہور میں فوج طلب کر لی گئی ۔ ایک دن قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ایک جلوس انارکلی میں سے ہوتا ہوا لاہوری دروازہ کی طرف جا رہا تھا ۔ حُکمِ حاکم ہوا کہ جلوس لاہوری دروازہ تک نہ پہنچ پائے ۔ مسلح فوجی انارکلی کے سرے پر کھڑے کر دئیے گئے ۔ انہوں نے اپنے سے شائد 10 میٹر دور سڑک پر لکیر لگا کر بندوقیں تان لیں ۔ جب جلوس قریب آیا تو حُکم دیا گیا کہ جو شخص یہ لکیر عبور کرے گا اسے گولی مار دی جائے گی ۔ جلوس رُک گیا ۔ چند منٹ بعد ایک شخص آنکھیں بند کئے بلند آواز میں کلمہ طیّبہ پڑھتا ہوا لکیر عبور کر گیا ۔ گولی چلنے کی آواز آئی اور وہ ڈھیر ہو گیا ۔ چند منٹ بعد ایک اور شخص اسی طرح آنکھیں بند کئے اور کلمہ پڑھتے ہوئے لکیر عبور کر گیا ۔ مگر گولی کی آواز نہ آئی ۔ اور اللہ اکبر کی فلک شگاف آواز گونجی ۔ اس نے آنکھیں کھولیں اور دیکھا کہ فوجی بھائی بندوقوں کا رُخ زمین کی طرف کر کے ایک طرف ہوگئے تھے اور جلوس نعرے لگاتا ہوا لوہاری دروازہ کی طرف چل پڑا تھا ۔ کمپنی کمانڈر کی طلبی ہوئی تو اس نے اپنے بِلّے اور پیٹی اُتار کر کور کمانڈر کی میز پر یہ کہہ کر رکھ دی کہ میں اپنے بہن بھائیوں کی حفاظت کیلئے فوج میں بھرتی ہوا تھا نہ کہ انہیں مارنے کیلئے ۔ کہتے ہیں کہ اس واقعہ کے بعد لیفٹیننٹ جنرل اقبال نے استعفٰے دے دیا تھا ۔

مندرجہ بالا واقعات کے بر عکس لال مسجد اور جامعہ حفصہ پر گوليوں اور جلادينے والے گولوں کی بوچھاڑ کر کے سينکڑوں مسلمان جن کی اکثريت نابالغ طالبات تھيں کو سنگدلی سے ہلاک کر ديا گيا ۔ 29 ستمبر کو شاہراہ دستور پر وکلاء اور صحافیوں پر باوردی پولیس اور سفید کپڑوں میں ملبوس سیکیورٹی والوں نے بیہیمانہ تشدد کیا ۔ 3 نومبر سے پھر تشدد کا بازار گرم ہے ۔ اُدھر وزیرستان کے بعد سوات میں اپنی ہی فوج اپنوں پر بم اور گولیا برسا رہی ہے ۔ 

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ ہمارے وزراء ۔ وزیراعظم ۔ جرنیل ۔ خانہ کعبہ اور روضۂ رسول میں بار بار داخل ہونے پر فخر کرنے والے صدر اور آپريشن ميں حصہ لينے والے فوجی اور غير فوجی وہ کردار اور معیار نہیں رکھتے جو آج سے تین دہائیاں پہلے پاکستانیوں کا طُرّۂ امتیاز تھا ۔

علامہ اقبال کے دو شعر

بجھی عشق کی آگ اندھیر ہے ۔ ۔ ۔ مسلماں نہیں راکھ کا ڈھیر ہے

قوم گر مسلم کی ۔ مذہب پر مقدّم ہوگئی ۔ ۔ ۔ اُڑ گیا دنیا سے تُو ۔ مانندِ خاکِ راہگذر

گھٹا ٹوپ اندھیرا

جن ٹی وی چینلز کو پاکستان میں بند کر دیا گیا تھا کچھ ہمدرد لوگوں نے انٹرنیٹ پر یہ چینلز دکھانے شروع کئے تھے ۔ کل سے ان ویب سائیٹس کو بھی بے اثر بنانا شروع کر دیا گیا ہے ۔ آج یہ خبر ملی ہے کہ انتر نیٹ پر پابندی کی تیاری زور شور سے جاری ہے ۔ مگر

نورِ خُدا ہے کُفر کی حرکت پر خندہ زن
پھُونکوں سے یہ چراغ بُجھایا نہ جائے گا

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ اُبھرے گا جتنا کہ دبا دیں گے

عوام کے حقوق کی جنگ اسلام کے عین مطابق ہے

ایک وڈیو

ہم نماز کیوں پڑھتے ہیں ؟

نعمان صاحب نے میرے بلاگ پر فرمائش کی تھی کہ میں نماز پڑھنے کا طریقہ لکھوں ۔ حالات گواہ ہیں کہ ہماری قوم کی اکثریت نے کبھی اس پر توجہ دینے کی شائد ضرورت محسوس نہیں کی کہ ہم نماز میں پڑھتے کیا ہیں ؟ اور کیوں پڑھتے ہیں ؟ ۔ وجہ وہ طاغوت کی تابعداری کا رویّہ ہے جسے لوگوں نے رواداری یا دنیاداری کا نام دے رکھا ہے ۔ یہ وہ پنجرہ ہے جس میں انفرادی اور اجتماعی طور پر بھی ہماری قوم کی اکثریت نے اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے انجانے خوف میں اِس قدر مبتلا ہیں کہ بڑے بڑے قوی لوگوں کے اعضاء حرکت کی سعی سے محروم ہیں ۔

میرا مفروضہ ہے کہ ہماری قوم کی اکثریت نماز پڑھتی ہے ۔ پانچ وقتی نہ سہی ۔ جمعہ کے جمعہ سہی یا کم از کم عیدین کی نمازیں ۔ ملاحظہ ہو کہ ہم نماز میں کہتے کیا ہیں اور عمل زندگی میں کرتے کیا ہیں


اللہ سب سے بڑا ہے
۔ یہ نماز شروع کرتے ہوئے اور بیچ میں سوائے رکوع سے کھڑے ہونے کے ہر عمل سے پہلے کہا جاتا ہے ۔


عمل
۔ عام زندگی میں جسے لوگ سب سے بڑا کہیں اس کی اطاعت نہ کرنے کی جراءت کم ہی کی جاتی ہے لیکن اللہ جو حقیت میں سب سے بڑا ہے اس کے معاملہ میں یہ اصول نہیں اپنایا جاتا ۔


کہتے ہیں
۔ اے اللہ تیری ذات پاک ہے خوبیوں والی اور تیرا نام برکتوں والا ہے اور تیری شان اُونچی ہے اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔


عمل
۔ یہ ساری خوبیاں کسی ایک انسان میں ہونا ممکن نہیں البتہ اگر ان میں سے ایک خوبی کسی انسان میں ہو تو لوگ اُس کے گرویدہ ہو جاتے ہیں جبکہ ان اور ان سے اور بہت زیادہ خوبیوں کا مالک جو پوری کائنات اور اس میں موجود ہر شے کا خالق ہے اس کی طرف اُس وقت رجوع کرتے ہیں جب انسانوں سے نا اُمیدی ہو جاتی ہے ۔

کہتے ہیں

۔ میں اللہ کی پناہ مانگتا ہو شیطان مردود سے ۔

عمل ۔ اور عام طور پر ظاہری کشش اور وقتی فائدہ کی خاطر شیطان ہی کے نرغے میں رہتے ہیں ۔


کہتے ہیں
۔ شروع کرتا ہوں اللہ کے نام سے جو بخشش کرنے والا اور مہربان ہے ۔ سب تعریف اللہ کیلئے ہے جو سارے جہانوں کا پروردگار ہے ۔ مہربان ہے رحم والا ۔ مالک ہے روزِ قیامت کا ۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں ۔ ہم کو سیدھا راستہ دکھا ۔ راستہ ان لوگوں کا جن پر تم نے انعام کیا نہ کہ اُن لوگوں کا جو تیرے غضب میں مبتلا ہوئے اور نہ گمراہوں کا ۔ الٰہی ہماری دعا قبول فرما ۔


عمل
۔ اللہ دعا کیسے قبول فرمائے گا جب مندجہ بالا الفاظ ہم صرف ہونٹوں سے ادا کرتے ہیں [Lip service] نہ یہ الفاظ دل سے نکلتے ہیں اور نہ دماغ کے بہترین حصہ سے ؟ اور دل و دماغ کی قبولیت کے ساتھ نکلیں بھی کیسے جب لوگ شکلوں کے گرویدا ہیں نہ کہ سیرت اورعمل کے ؟ جسے دیکھو کسی افسر یا وزیر ی جرنیل سے اُمیدیں لگائے بیٹھا ہے اور وہ باری تعالٰی جو افسروں ۔ وزیروں اور جرنیلوں سمیت سب کو دیتا ہے اس کی طرف کوئی توجہ نہیں بس اتنا ہی کافی سمجھ لیا جاتا ہے کہ نماز پڑھ لی ۔ روزہ رکھ لیا اور زکوٰت دے دی ۔

میں اللہ وحدہُ لا شریک کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ جو آدمی اللہ میں یقین رکھتے ہوئے اللہ سے کچھ مانگتا ہے اگر وہ اس آدمی کیلئے بہتر ہے تو اُسے ضرور ملتا ہے ۔ یہ میں اپنے تجربہ کی بنیاد پر بھی کہہ سکتا ہوں ۔

میرا خیال ہے کہ اتنا ہی کافی ہے ۔ ہر قاری جب سونے کیلئے بستر پر دراز ہو تو آنکھیں بند کر کے اپنے پورے دن کے عمل کو ذہن میں لا کر صرف نماز میں جو کچھ کہا جاتا ہے اس کے ساتھ موازنہ کرے ۔ اگر یہ عمل ایک ماہ تک روزانہ کرے تو انشاء اللہ صحیح عمل کی طرف راغب ہونے میں مدد ملے گی ۔

وما علینا الالبلاغ