Yearly Archives: 2007

احتجاج کس لئے اور کیسے ؟

امریکہ نے احتجاج کیا ۔ برطانیہ نے احتجاج کیا ۔ فرانس نے احتجاج کیا ۔ اور کئی ملکوں نے احتجاج کیا ۔ ملک کے اندر سول سوسائٹی کے علمبرداروں نے اور پھر بینظیر نے احتجاج کیا ۔ سب نے صرف جمہوری قسم کے انتخابات کا انعقاد یا زیادہ سے زیادہ ایمرجنسی [دراصل مارشل لاء] کے خاتمہ کا مطالبہ کیا ۔

صرف وکلاء صاحبان اور نواز شریف کو اصل ہدف کا خیال آیا اور اُنہوں نے سب سے اہم اور ناگزیر مطالبہ کیا ۔ آخر نواز شریف کی ایماء پر بینظیر بھٹو نے بھی اس مطالبہ کو اختیار کر لیا ہے ۔


“اعلٰی عدالتوں کے اُن تمام جج صاحبان کو بحال کیا جائے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اُٹھایا”

ان جج صاحبان نے اس ملک اوراس کے باشندوں کی بہتری کی خاطر اپنے اعلٰی عہدوں ۔ اپنے ذریعہ روزگار اور اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی عزت اور جان تک داؤ پر لگا دی ۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت اسی روزگار ۔ اسی عزت ۔ اسی جان کی خاطر اپنے منہ بند کئے کونوں کھَدروں مین دبکی بیٹھی ہے ۔ ہماری قوم کی بھاری اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ پی سی او کے تحت کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صدر ۔ چیف آف سٹاف ۔ افواج ۔ اور حکومتی نمائندوں کے خلاف یا ان کے احکام کے خلاف کسی کو بولنے یا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہو گی اور نہ پہلے سے دائر ایسے مقدموں کے سلسلہ میں مدعیان یعنی عوام کو انصاف ملے گا ۔

کسی کو یہ بھی خبر نہیں کہ آئین معطل ہونے کی صورت میں ۔ ۔ ۔>

کسی بھی شخص یعنی بوڑھا ۔ جوان ۔ بچہ ۔ عورت یا مردکو کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اسے ہر قسم کی سزا بشمول اذیت اور موت کے دی جا سکتی ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چارا جوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کی زمین ۔ مکان یا دکان پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کے کاروبار پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کا بنک اکاؤنٹ کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے منجمد کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

اسلئے ہوش میں آؤ میرے بھائیو ۔ بہنوں ۔ بھتیجو ۔ بھتیجیو ۔ بھانجو ۔ بھانجیو ۔

ہماری قوم کی بقاء کیلئے عوام کا مطالبہ ہے کہ

ایمرجنسی فوری طور پر اُٹھائی جائے
اُن تمام جج صاحبان کو جنہوں نے پی سی او تحت حلف نہیں اُٹھایا فوری طور پر اپنی اپنی جگہوں پر بحال کیا جائے
پاکستان کا آئین 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے والی حالت میں فوری طور پر بحال کیا جائے
تمام گرفتار وکلاء ۔ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے
جنرل پرویز مشرف 15 نومبر 2007 سے پہلے ریٹار ہو جائیں اور آرمی ہاؤس خالی کر دیں
پاکستان کے تمام جج صاحبان اور تمام اعلٰی افسران بشمول تمام جرنیلوں اور ان کے مساوی ہوائی اور بحری فوج کے افسران کے متذکرہ بالا آئین کے مطابق حلف اُٹھائیں ۔

اس وقت کی سرکاری ڈنڈے بازوں کے ہاتھوں تھوڑی تکلیف میرا ۔ آپ کا اور ہم سب کے بچوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ کر سکتی ہے بلکہ اس کو ماضی سے بہتر بنا سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ نے ہماری قوم کو آزمانے کا یہ آخری موقع دیا ہو ۔ اسے کھو دیا تو پھر سوائے پچھتانے کے کچھ نہ رہے گا اور پچھتانے سے سوائے اپنا خون جلانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

احتجاج کے محتاط طریقے یہ ہیں ۔

1 ۔ احتجاج میں حصہ لینے والے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ای میل یا خط بھیجیں جس میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے اپنے احتجاج کو مشتہر کرنے کی درخواست کریں ۔ اُنہیں لمبے خط نہ لکھیں بلکہ اپنا احتجاج بہت مختصر اور جامع الفاظ میں لکھیں ۔

جیو ٹی وی
gzks@geo.com

دی نیوز اور جنگ
editor@jang.com.pk
http://jang.net/features/comments/default.asp?camefrom=the%20news%20for%20editor

نوائے وقت
editor@nawaiwaqt.com.pk
webmaster@nawaiwaqt.com.pk

دی نیشن
editor@nation.com.pk
http://nation.com.pk/daily/nov-2007/9/feedback.php

ڈان
letters@dawn.com

2۔ عام لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے بتائیں کہ حقوق نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہو سکتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ترغیب دیں
3 ۔ سٹکر یا ہینڈ بل جس پر مقاصد مختصر طور پر لکھے ہوں عوام میں تقسیم کریں
4 ۔ مختصر نعروں کی وال چاکنگ کریں
5 ۔ کالا بِلا پہنیں
6 ۔ ممکن ہو تو اپنے مکان ۔ اپنی دکان ۔ اپنی گلی میں کالا جھنڈا لگائیں
7 ۔ احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے والی یونین ۔ ایسوسی ایشن وغیرہ سے رابطہ رکھیں تا کہ احتجاج اجتماعی اور مؤثر بنایا جا سکے
8 ۔ اپنے محلہ یا کالج کی قریبی عوامی جگہ پر درجن دو درجن افراد اچانک اکٹھے ہو کر مظاہرہ کریں اور دس پندرہ منٹ بعد غائب ہو جائیں تاکہ پولیس کاروائی نہ کر سکے
9 ۔اپنے مظاہرہ کا ایک دن سے زیادہ پہلے اعلان نہ کریں اور صرف جگہ اور دن بتائیں ۔ وقت کا اعلان صرف ایک گھنٹہ پہلے کریں ۔ نجی ٹی وی اور اخبارات کے کسی نمائندہ تک رسائی ہو تو اسے ضرور بُلائیں تاکہ وہ ٹی وی اور اخبار آپ کے مظاہرہ کی تشہیر کر سکیں ۔

پس ثابت ہوا کہ ۔ ۔ ۔

مندرجہ ذیل حقائق بالخصوص ان قارئین کیلئے جنہیں حکومت نے نجی ٹی وی چینلز کو بلاک کر کے حقائق جاننے سے محروم کر دیا ہے ۔

جنرل پرویز مشرف نے 2 نومبر کو امریکی اور برطانوی حکومتوں کے اہلکاروں سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور پھر 3 نومبر کو ایمرجنسی کا نام دے کر مارشل لاء نافذ کر دیا ۔

جب ساری دنیا کے عوام اور ان کی اپوزیشن پارٹیوں احتجاج کیا تو ان کی حکومتیں احتجاج کرنے پر مجبور ہوئیں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے ۔

پرویز مشرف نے اس خیال سے کہ امریکی احتجاج صرف “گونگلوآں تو مِٹی چاڑنا اے” احتجاج مسترد کر دیا ۔ [معذرت ۔ اس پنجابی ضرب المثل تشریح لمبی ہے اس لئے جو قاری نہ سمجھ سکیں کسی بڑی عمر کے پنجابی سے پوچھ لیں]

یقینی بات ہے کہ امریکہ کے سلسلہ میں بینظیر بھٹو نے بھی پاؤں دبایا ہو گا ۔

بدھ 8 نومبر صدر بُش نے پرویز مشرف کو ٹیلفون کرنے کے بعد بتایا “میں نے بے تکلف پرویز مشرف کے ساتھ بات کی اور اسے کہا کہ وردی اُتارے کیونکہ آرمی چیف اور صدر دونوں عہدے رکھنا درست نہیں اور الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرے

بُش کا ٹیلیفون آنے کے 3 گھنٹے کے اندر اسلام آباد میں پرویز مشرف کی بنائی ہوئی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس شروع ہو گیا جس کے اختتام پر پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ اسمبلیوں کے انتخابات 15 فروری 2008 تک کسی ایک ہی دن ہوں گے اور عدالتِ عظمٰی جب صدر کے انتخابی نتائج کے اعلان کی اجازت دے گی تو وہ وردی اُتار دیں گے ۔

اس اعلان کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس سے نیگرو پونٹے نے پرویز مشرف کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف دہرایا کہ پرویز مشرف نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی دوست ہے

متذکرہ بالا اور اس سے قبل کے کئی دوسرے واقعات سے پوری طرح سے ثابت ہو گیا ہے کہ

پرویز مشرف امریکہ کے بل پر ہے
گر امریکہ کی پُشت پناہی نہیں
تو پرویز مشرف کچھ بھی نہیں

حالتِ زار ہماری قوم کی

آج یومِ علامہ اقبال ہے اسلئے علامہ کا قوم کے نام پیغام پیشِ خدمت ہے جو برمحل بھی ہے

پاکستان ميں حکمتِ ديں کوئی کہاں سے سيکھے
نہ  کہيں  لذّتِ کردار  ۔  نہ افکارِ عميق
حلقۂِ شوق ميں وہ جرأتِ انديشہ کہاں
آہ ۔ محکومی و تقليد  و  زوالِ تحقيق
خود بدلتے نہيں قرآں کو بدل ديتے ہيں
ہوئے کس درجہ آج مسلمان بے توفيق
ان غلاموں کا يہ مسلک ہےکہ ناقص ہےکتاب
کہ سکھاتی  نہيں مومن  کو  غلامی کے  طريق

۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔

تيرا  وجود  سراپا  تجلّیِٔ  افرنگ
کہ تو وہاں کے عمارت کدوں کی ہے تعبير
مگر يہ پيکرِ خاکی خودی سے ہے خالی
صرف نيام ہے تو زرنگار ۔ و بے شمشير

علّامہ محمد اقبال

معذرت  ۔  میں نے “ہند” کو “پاکستان” اور “فقيہانِ حرم” کو ” آج مسلمان” لکھ دیا ہے

طلباء کا احتجاج ۔ تصویری خبرنامہ

کل یعنی بدھ بتاریخ 7 نومبر اسلام آباد کے ایف 8 مرکز میں قائد اعظم یونیورسٹی اور ہمدرد یونیورسٹی کے طلباء نے زبردست احتجاج کیا ۔ ہمدرد یونیورسٹی کا کیمپس تو ایف 8 مرکز ہی میں ہے لیکن قائد اعظم یونیورسٹی کا کیمپس ایف 8 مرکز سے 7 کلومیٹر کے فاصلہ پر ہے ۔ پولیس نے مرکز کو گھیر رکھا تھا اور کسی صحافی یا کیمرے والے کو قریب نہ آنے دیا گیا ۔ اسلئے وڈیو نہ بنائی جا سکی ۔ چند گھنٹے بعد اچانک پولیس نے لاٹھی چارج شروع کر دیا اور اشک آور گیس کے گولے پھینکے ۔

سیاسی جماعتوں میں اب تک سب سے زیادہ زیرِ عتاب مسلم لیگ نواز کے کارکن ہیں جن کے 2500 لیڈر اور کارکن گرفتار کئے جا چکے ہیں اور کارکن پولیس تشدد بھی برداشت کر رہے ہیں ۔ ان پر سب زیادہ تشدد روزانہ لاہور میں ہو رہا ہے ۔ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے کارکن اور رہنماؤں کو گرفتار و نظر بند کیا گیا ۔ گذشتہ رات میں پیپلز پارٹی کے کارکن بھی گرفتار کئے گئے ہیں ۔

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائینسز کے طلباء کے احتجاج پر سی این این کے تبصرہ کی وڈیو
http://riseofpakistan.blogspot.com/2007/11/cnn-report-about-on-campus-protest-of.html

لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائینسز کی تازہ بتازہ صورتِ حال
http://pakistanmartiallaw.blogspot.com

http://riseofpakistan.blogspot.com

فاسٹ یونیورسٹی کے طلباء کا احتجاج اور پولیس کا لاٹھی چارج
http://pakistanmartiallaw.blogspot.com/2007/11/link-to-fast-university-police-action.html

پنجاب یونیورسٹی کے آئی ٹی ڈیپارٹمنٹ میں صورتِ حال
http://pakistanmartiallaw.blogspot.com/2007/11/events-at-punjab-university-it-dept.html

احتجاج کی دو وڈیو یو ٹیوب پر

مزید ٹی وی رابطے

جیو ٹی وی
http://www.zekty.com

http://65.36.215.69

http://video.pakistanway.com/geotv.aspx

آج ٹی وی
http://www.aaj.tv/aaj_wedget.php

دیگر رابطے
http://www.pkpolitics.com/audio/emergency

http://www.channelchooser.com

http://wwitv.com/tv_channels/7142.htm

جج صاحبان کا حال ۔ احتجاج ۔ گرفتاریاں ۔ صورتِ حال

اعلٰی عدالتوں کے محترم جج صاحبا ں گھروں میں اس طرح بند ہیں کہ جیسے دُشمن کے قیدی ہوں ۔ ایک جج صاحب کی بہو جو کہ حاملہ ہیں ہسپتال گئیں ۔ واپسی پر ان کو گھر میں داخل ہونے سے روک دیا گیا ۔ کافی کوششوں کے بعد جج صاحب کے بیٹے کو ہسپتال جانے کی اجازت دی گئی ۔ وہ اب واپس گھر آ سکیں گے یا نہیں اس کے متعلق کچھ نہیں کہا جا جا سکتا ۔ ایک جج صاحب کی بیٹی اپنے والد کے متعلق بہت پریشان ہیں کیونکہ اس کے والد جج صاحب بیمار تھے اور پچھلے 4 دنوں سے کوئی رابطہ نہیں ۔ جج صاحبان کے ٹیلیفون تو پہلے دن ہی بند کر دئیے گئے تھے چند ایک کے پاس ان کے بچوں کے موبائل فون تھے جن سے انہوں نے اپنے قید بنائے گئے گھروں سے باہر رابطہ کیا لیکن اب موبائل ٹیلیفون کمپنیوں پر دباؤ ڈال کر ان کے سب ٹیلیفون بند کرا دئیے گئے ہیں ۔ کل ڈیڑھ بجے دوپہر جب چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری صاحب نے کچھ وکلاء موبائل کے ذریعہ کلام کیا تو اسلام آباد میں سارے موبائل فون جیم کر دئیے گئے جو آدھے گھنٹے سے زیادہ بند رہے ۔

اب تک سب سے شدید احتجاج لاہور میں وکلاء کا اتوار اور پیر کا احتجاج ہے ۔ گرفتاریاں لاہور میں دو ہزار کے لگ بھگ ہو چکی ہیں ۔ کراچی میں 400 لوگ گرفتار کئے جا چکے ہیں ۔ سُنا ہے شام کے قریب پاکستان سیکرٹیریٹ کے سامنے پیپلز پارٹی نے مظاہرہ کیا ہے ۔

تمام نجی ٹی پاکستان میں بند ہونے کی وجہ سے جو لوگوں نے ڈش اینٹنے خریدنا شروع کر دئیے تھے لیکن پولیس نے چھاپے مار کر دکانیں سِیل کر دیں اور سامان ضبط کر لیا اور دکانداروں کو بغیر کسی قصور کے گرفتار کر لیا ۔ ایسی کاروائیوں کے نتیجہ میں پاکستانیوں نے مجبور ہو کر کچھ بندوبست کیا ہے

مزید رابطے

http://news.independent.co.uk/world/asia/article3132476.ece
http://www.teeth.com.pk/blog/wp-content/uploads/2007/11/house-arrest-order.JPG

جیو ٹی وی کیلئے
http://www.pakistanvision.com/playLive.php?pid=1
http://www.pakistanvision.com/playLive.php?pid=6
http://geo.pakfiles.net/geo

اے آر وائی ون
http://ary.pakfiles.net/ary

آج ٹی وی
http://www.jumptv.com/en/channel/aajtv

اپنے خیالات پہچانے کیلئے جیو ٹی وی کا ای میل پتہ یہ ہے
gzks@geo.tv

کیا ہماری اکثریت بے حِس و بے غیرت ہے ؟

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
تیری ذات [ہر نقص سے] پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی [سب کچھ] جاننے والا حکمت والا ہے

یا رَحْمَنِ یا رَحِيمِ ۔ اھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ
اے نہایت مہربان بہت رحم فرمانے والے ۔ ہمیں سیدھا راستہ دکھا

ایک مکالمہ کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے کہ جب دوسری جنگِ عظیم کے بعد برطانیہ کی معاشی حالت دگرگوں ہو چکی تھی تو کچھ محبِ وطن لوگوں نے اس وقت برطانیہ کے وزیرِ اعظم سر ونسٹن چرچل کے پاس جا کے اپنی پریشانی ظاہر کی ۔ سر ونسٹن چرچل نے پوچھا “ہماری عدالتیں کام کر رہی ہیں ؟” جواب ملا “ہاں”۔ پوچھا “لوگوں کو انصاف مل رہا ہے؟” جواب ملا “ہاں”۔ سر ونسٹن چرچل نے کہا “پھر کوئی فکر کی بات نہیں”۔ صرف دس برس بعد برطانیہ پھر عروج پر تھا ۔

اب تو واضح ہو گیا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے پاکستان کے آئین سے دونوں بار صرف ذاتی حکمرانی کیلئے بغاوت کی ۔ پہلی بار جمہوری طور پر منتخب وزیرِ اعظم نواز شریف شکار ہوا اور دوسری بار عظمٰی اور اعلٰی عدالتوں کے اُن عظیم جج صاحبان کو نشانہ بنایا گیا جنہوں نے عام پاکستانی کو انصاف کی اُمید دلائی تھی اور اس نیک عمل کی پاداش میں اب کَس مپُرسی کی حالت میں اپنے اہلِ خانہ سمیت اپنی رہائش گاہوں میں قید ہیں ۔ میں نے لفظ “رہائش گاہوں” استعمال اسلئے کیا ہے کہ اِن میں سے کئی کا اپنا کوئی گھر ہی نہیں ہے ۔ وہ سوچتے ہوں گے کہ اس قید سے رہائی کے بعد وہ جائیں گے کہاں ؟

ایمرجنسی کا نام دے کر مُلک میں مارشل لاء لگایا گیا ہے ۔ چیف آف آرمی سٹاف کو اختیار نہیں ہے کہ وہ مُلک پر کسی قسم کا کوئی حُکم نافذ کرے ۔ چیف آف آرمی سٹاف صرف فوج کو آئین اور آرمی ایکٹ کے تحت حُکم دے سکتا ہے ۔ ایمرجنسی آئین میں متعلقہ شق کے تحت صدر نافذ کرتا ہے اور اس میں آئین معطل نہیں کیا جاتابلکہ صرف کچھ بنیادی حقوق معطل کئے جاتے ہیں ۔ موجودہ نام نہاد ایمرجنسی اور دراصل مارشل لاء کا حُکم چیف آف آرمی سٹاف نے جاری کیا اور آئین کو معطل یا ختم کر کے عدالتِ عظمٰی اور اعلٰی عدالتوں کے اکثر قابلِ احترام جج صاحبان کو بغیر کسی جواز کے عہدوں سے ہٹا کر قید کر دیا گیا ہے جس کا اختیار نہ چیف آف آرمی سٹاف کو ہے نہ صدر کو ۔ مزید اس پی سی او کے مطابق پرویز مشرف کے کسی حُکم کو چیلینج نہیں کیا جا سکتا ۔ تمام حقائق ثابت کرتے ہیں کہ پاکستان میں مارشل لاء نافذ ہے اور ایمرجنسی اس کے نتیجہ میں ہے

اول روز سے صرف وکلاء اور صحافی احتجاج کر رہے ہیں اور آمریتی ظُلم کا نشانہ بن رہے ہیں ۔ راولپنڈی کچہری کی پولیس نے مکمل ناکہ بندی کر رکھی ہے ۔ اس کے باوجود احتجاج اور وکلاء پر تشدد اور گرفتاریاں جاری ہیں ۔ تمام نجی ٹی وی چینلز پورے ملک میں اول روز سے بلاک کر دئیے گئے ہیں ۔ اخبارات میں حکومتی تشدد کی تصاویر چھاپنے پر پہلے دن ہی پابندی لگا دی گئی تھی ۔ اب مزید کوئی حُکمنامہ اخبارات کو شکنجے میں کسنے کیلئے تیار ہو رہا ہے ۔

اسلام آباد میں میرے گھر سے آدھے کلو میٹر کے فاصلہ پر ایف 8 مرکز آج طلباء نے مظاہرہ شروع کیا اور وکلاء ان کے ساتھ شامل ہو گئے ۔ مظاہرین ڈیڑھ دو ہزار پُرجوش ہیں ۔ مظاہرہ جاری ہے ۔ اردگرد تماش بینوں کی تعداد مظاہرین سے زیادہ ہے ۔ ہزارو وکلاء اور سیاسی کارکن گرفتار کئے جا چکے تھے جن میں زیادہ تعداد وکلاء کی ہے اور کچھ ینسانی حقوق کی تحریکوں کے ارکان بھی ہیں ۔ سیاسی جماعتوں میں مسلم لیگ نواز کے کارکن زیادہ گرفتار ہوئے ہیں ۔ ان میں بینظیر کی پیپلز پارٹی اور فضل الرحمٰن کی جُوئی کے لوگ شامل نہیں ہیں ۔ کیوں ؟ یہ پرویز مشرف ۔ بینظیر یا فضل الرحمٰن ہی بتا سکتے ہیں ۔ آج لاہور ہائیکورٹ کے سامنے اچانک ایک ویگن میں مسلم لیگ نواز کے ڈیڑھ دو درجن ارکان پہنچ گئے اور باہر نکل کر حکومت کے خلاف نعرے بازی شروع کر دی ۔ پولیس ان سب مظاہرین کو گرفتار کر کے لے گئی ۔

عوام جن کی خاطر عدالتِ عظمٰی کے 14 اور اعلٰی عدالتوں کے 60 محترم جج صاحبان نے بے مثال قربانی دی ہے اور وکلاء اور صحافی روزانہ تشدد برداشت کر رہے ہیں اور گرفتار ہو رہے ہیں محسوس ہوتا ہے کہ وہ نشہ پی کر سوئے ہوئے ہیں ۔ اگر پولیس کے ڈنڈوں یا جیل سے بہت خوف آتا ہے تو کم از کم گھر کے اندر بیٹھ کر تو احتجاج کر سکتے ہیں ۔ جس کا طریقہ یہ ہے کہ اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو خط لکھیں ۔ ٹیلیفون کریں ۔ اپنے اردگرد کے لوگوں کو سمجھائیں کہ اگر انہوں نے اب بھی کچھ نہ کیا تو جو کچھ ان کے پاس ہے وہ بھی کسی وقت چھن سکتا ہے اور ان کی شنوائی دنیا کی کسی عدالت میں نہیں ہو سکے گی ۔ مثل مشہور ہے کہ روئے بغیر ماں بھی بچے کو دودھ نہیں دیتی ۔

پاکستان میں انٹر نیٹ 256K رکھنے والے جیو ٹی وی اور اے آر وائی ٹی وی مندرجہ ذیل ربط دیکھ سکتے ہیں ۔
http://videostream.cronomagic.com/geo

پاکستانیو ۔ ہوش نہ کیا تو نہ ملک رہے گا نہ تم

میں نے انصار عباسی کا یہ مضمون 12 ستمبر کو پوسٹ کیا تھا ۔ اس کی مزید ضرورت ہے

قوم انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکی ہے لوگ سوال کرتے اور بحث کرتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اب آزاد اور خود مختار ملک رہ گئے ہیں؟ کیا ہم میں اب عزت نفس کی رمق بھی بچی ہے؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جبری جلا وطنی نے ہماری روحوں کو زخمی کر دیا ہے ۔ عدم تحفظ نے ہمیں پھر لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا ارباب اقتدار ہم میں سے کسی کے ساتھ کیا کریں گے۔ اگر سابق وزیراعظم کو قانون، آئین اور عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک بدرکیا جا سکتا ہے تو پھر عام آدمی کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی۔

صدر پرویز نے اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر میں اعتراف کیا کہ القاعدہ کے 600 سے زائد ارکان کو امریکا کے حوالے کر چکے ہیں مگر ایک پتّہ بھی نہیں ہلا اورکیا کسی کو خیال آیا کہ صدر غیر ملکیوں کو جلا وطن کرسکتا ہے اور وہ بھی صرف اُن کے اپنے ملکوں میں۔ ملک بدری کے قانون کا اطلاق اس ملک [پاکستان] کے بدقسمت شہریوں پر نہیں ہوتا۔ [اپنے] وطن کے کسی شہری کو صرف اس ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے جس کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ کیا گیاہو ۔ اس صورتحال میں بھی دو شرائط سامنے آتی ہیں اگر اس پاکستانی شہری نے متعلقہ ملک کے خلاف کوئی جرم کیا ہو اور پھر اسے حوالے کرنے کی درخواست کا مکمل عدالتی عمل کے ذریعے فیصلہ کیا جائے جس میں اس شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے ۔ اگر انکوائری افسر اسے متعلقہ ملک کے حوالے کرنے کی منظوری دیتا ہے تو ملزم شخص کو پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ یوں عدلیہ کی اجازت کے بغیر کسی مجرم کو بھی کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔

صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت سے صرف ایک سادہ سا سوال پوچھا جا سکتا ہے ۔ آیا القاعدہ کے نام نہاد ارکان اور نواز شریف کو قانون کے مطابق ملک بدر کیا گیا ؟ جو اب بہت بڑی ناں میں ملے گا۔ جن ملکوں کو ہم نے اپنے شہری بکریوں کے ریوڑ کی طرح دیے ہیں کیا ان سے ہم بھی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے آئین قانون اور لوگوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر کے ایسا ہی کرینگے؟ لہٰذا ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی فرد کو بھی کسی بھی ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ حیرت ہے کہ ہمیں آئین قانون اور پالیسیوں کی ضرورت کیا ہے جب ہمیں ان کا کوئی احترام نہیں؟ عدالتیں بند کر دینی چاہئیں کہ جب حکومت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ تو پھر لوگوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ پیر کو ایم کیو ایم کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کے اکسانے پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک لحاظ سے گھیراؤ کر لیا اور اسے 12مئی کے واقعات کے حوالے سے سماعت ملتوی کرنا پڑی۔ بہت خوب الطاف بھائی۔ الفت میں اٹھنے والی راجہ محمد ریاض کی آواز خاموش کر دی گئی جو سندھ ہائیکورٹ بار کے رکن تھے۔ اسلام آباد میں کسی کو دکھ ہوا ؟ کسی نے مذمت کی ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ حکمرانوں کو تو کوئی پریشانی نہیں مگر اس ملک کی سول سوسائٹی کیوں چپ ہے؟ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں ؟

محض ایک پارٹی یا دوسری کو لعن طعن کرنے سے کام نہیں چلتا یہ ڈرائنگ روم کی بحث ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال بہت ہی پیچیدہ ہے جس کے لیے غیر معمولی جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں معاشرے کا ہر فردشریک ہو۔ پاکستان کو بچانے اور محفوظ بنانے کے لیے ایک اپنا کوئی راستہ اختیار کر لیں مگر کچھ کریں ضرور کچھ عملی اقدام۔ عام لوگوں میں جو حکومتی مشینری کاحصہ ہیں اور کلیدی عہدوں پر بھی بیٹھے ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی چاکری کرنے کے بچائے ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہئیے۔ پُرکشش عہدے آؤٹ آف ٹرن ترقی استحقاق یا اتھارٹی یہی ان کی توجہ کے مرکز ہیں مگر یہ سب ملک سے مشروط ہیں سول بیورو کریسی کو صرف یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ حالیہ عرصے میں اگر قانون آئین اور قواعد کے خلاف اتنا کچھ ہوچکا ہے مگر کتنے افسر ہیں جنہوں نے غیر آئینی احکامات ماننے سے انکار کیا ہو ؟ اس سلسلے میں صرف ایک نام یاد آتا ہے جو سندھ کے سابق چیف سیکرٹری شکیل درانی تھے۔