میں نے اپنی ایک گذشتہ تحریر میں ضمیر کے متعلق اپنا مشاہدہ لکھنے کا وعدا کیا تھا ۔ ضمیر ایک ایسے احساسِ اچھائی و انصاف کا نام ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ہر انسان میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے رکھ دیا ہے ۔ ہر بچہ زندہ یا فعال ضمیر کے ساتھ پیدا ہوتا ہے ۔ اسی لئے کہا جاتا ہے بچہ سمجھداری کی عمر کو پہنچنے سے پہلے ہر برائی اور گناہ سے پاک ہوتا ۔
میرا مشاہدہ ہے کہ اگر ایک بچہ جو ابھی کھڑا بھی نہ ہو سکتا ہو اسے زمین پر بٹھا کر دودھ کی بوتل اور مٹی کا چھوٹا سا ڈھیلا اس کے قریب اس طرح سے رکھ کر کمرے سے باہر چلے جائیں کہ اسے پتہ نہ چلے یہ چیزیں آپ نے رکھی ہیں ۔ پھر چھُپ کر دیکھتے رہیں کہ بچہ کیا کرتا ہے ۔ اگر بچہ دودھ کی بوتل پکڑ کر منہ سے لگانے لگے اور آپ آ جائیں تو بچے پر کچھ اثر نہیں ہو گا ۔ اگر بچہ مٹی کا ڈھیلا اُٹھا کر منہ میں ڈالنے لگے اور آپ کمرے میں آجائیں تو بچہ ایک دم سے کانپ اُٹھے گا ۔ یہ عمل زندہ یا فعال ضمیر کا نتیجہ ہوتا ہے ۔
یہ بھی مشاہدے کی بات ہے کہ 2 سے 8 سال کا بچہ جس کی غلط تربیت نہ کی گئی ہو ۔ اس سے آپ کوئی بات پوچھیں تو وہ بلا تأمل سچ بات بتا دے گا ۔ بلکہ میں نے دیکھا ہے کہ دس بارہ سال کا بچہ بھی سچ بول دیتا ہے خواہ وہ سچ اس کے اپنے یا اس کے والدین کے خلاف جاتا ہو ۔
بچے کا ضمیر غلط ماحول اور والدین کی عدم توجہی یا غلط تربیت کے زیرِ اثر مجروح ہوتا رہتا ہے اور اگر بروقت مداوا نہ کیا جائے تو ضمیر داغدار ہو جاتا ہے اور پھر اس کا صحتمند یا فعال ہونا بہت مشکل ہو جاتا ہے ۔ بچوں کی نفسیات کے ماہر کہتے ہیں کہ بچہ اگر ایک ماہ کا بھی ہو تو اس کے سامنے کوئی ایسی حرکت نہ کرنا چاہیئے جو کسی بڑے یا غیر کے سامنے کرنا معیوب سمجھا جاتا ہے کیونکہ بچہ اس کا اثر لیتا ہے ۔ کچھ ماہرین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ عورت حاملہ ہو تو کوئی ایسی حرکت نہ کرے جو وہ اپنے بڑے بچے کے سامنے کرنا پسند نہیں کرتی ۔ والدین کا آپس میں جھگڑنا تو کیا آپس میں بحث کرنا یا اُونچی آواز میں بولنا بچوں پر بُرا اثر ڈالتا ہے جس میں دو ماہ کا بچہ بھی شامل ہے ۔
ضروری نہیں ہوتا کہ کسی شخص کا ضمیر ہمیشہ غیر فعال رہے ۔ اللہ سُبحانُہُ بعَدَدِ خَلقہِ نے انسان کے ضمیر میں ایسی لچک رکھی ہے کہ انسان کی ذرا سی کوشش سے ضمیر فعال ہو جاتا ہے بشرطیکہ اس میں نیکی کی رمق باقی ہو ۔ انجنیئرنگ کالج لاہور میں داخل ہوا تو سالِ اوّل میں مجھے بی ہوسٹل کے ایک بڑے کمرہ میں 2دو دوسرے لڑکوں کے ساتھ جگہ دی گئی ۔ وہ دونوں بھائی تھے جن کی عمر میں 5پانچ چھ سال کا فرق تھا ۔ چھوٹا بھائی میرا ہم عمر تھا ۔ جب ان سے دوستی پکی ہو گئی تو بڑے بھائی نے مجھے بتایا کہ وہ جب آٹھویں جماعت میں تھا اس کی غلط لڑکوں کے ساتھ دوستی ہو گئی ۔ اس نے پڑھائی چھوڑ دی اور ان کے ساتھ مل کر ڈاکے ڈالنے شروع کر دیئے ۔ جب بھی وہ گاؤں کی مسجد کے پاس سے گذرتا ۔ امام صاحب کہتے “اوئے ۔ عمر حرام توپ میں نہ گذار کچھ اللہ کا نام لے اور مسجد میں آ کر اللہ کا کلام پڑھ لے” ۔ وہ سُنی اَن سُنی کر کے چلا جاتا مگر مولوی صاحب جب بھی اسے دیکھتے یہی کہتے ۔ ایک دن وہ ڈاکہ مار کر بھاگا تو پیچھے پولیس لگ گئی ۔ اس نے اپنی گھوڑی کو خوب بھگایا ۔ پولیس سے تو بچ گیا مگر گھوڑی مر گئی ۔ اُس نے بتایا “جب میں اگلےدن گاؤں پہنچا تو ابھی فجر کی اذان نہیں ہوئی تھی ۔ میں مسجد کر پاس سے چوروں کی طرح گذر جانا چاہتا تھا کہ اچانک امام صاحب کی آواز آئی ‘اوئے ۔ یہ تیرا جُسہ کس کام آئے گا ۔ مسجد کو بڑا کر رہے ہیں اس میں دو اینٹیں ہی لگا دے شائد یہ مسجد تیری سفارش کر دے ورنہ یہ جُسہ جہنم کا ایندھن ہی بنے گا’ میں رُک گیا اور مسجد کی دیوار بنانا شروع کر دی ۔ میرے دوست آ کر مجھے طعنے دیتے کہ مُلّا کی نوکری کر رہا ہے مگر مولوی صاحب میری ہمت بڑھاتے ۔ مسجد کی دیوار بنانے کے دوران پرانے سارے واقعات مجھے یاد آتے گئے اور مجھے اپنے کردار سے نفرت ہونے لگی ۔ دیوار مکمل ہوئی تو میں مولوی صاحب کا شاگرد بن گیا ۔ نماز سیکھی اور پڑھنا شروع کی اور ساتھ ہی میں نے آٹھویں پھر دسویں اور پھر بارہویں کا امتحان دیا اور اللہ نے انجنیئرنگ کالج کا داخلہ بھی دلوا دیا”۔ 1983ء میں اس نےبطور سپرنٹنڈنگ انجیئر راولپنڈی میں تقرری کے دوران ایم اے عربی کر لیا ۔ میں نے پوچھا “اس عمر میں آپ کو عربی کی کیا سوجھی؟” تو کہنے لگا “تاکہ قرآن شریف کی تلاوت کرتے ہوئے ساتھ مطلب بھی سمجھ آئے”۔
سال 1968ء میں دفتری رابطہ کی وجہ سے ایک میجر صاحب سے میرے دوستانہ تعلقات ہو گئے ۔ اس زمانہ میں میرے پاس کار نہ تھی ۔ کہیں جانا تھا تو میں نے انہیں کہا کہ مجھے بھی ساتھ لے جائیں ۔ جب ہم واپس آ رہے تھے تو میجر صاحب کہنے لگے ” اجمل ۔ تم نیک آدمی ہو جبکہ میں کھلنڈرا آدمی ہوں ۔ بُرا نہ منانا ۔ آج تم نے کہا تو میں نے انکار بُرا سمجھا ۔ آئیندہ تم میرے ساتھ صرف دفتر کا تعلق رکھو ۔ دفتر سے باہر میرے ساتھ پھرو گے تو مفت میں بدنام ہو جاؤ گے”۔ وہ میجر صاحب ناچتے بھی تھے اور پیتے بھی تھے ۔ 1970ء میں وہ کرنل ہو گئے اور ان کا تبادلہ کھاریاں ہو گیا ۔ اوائل 1972ء میں لاہور جاتے ہوئے ان سے ملنے کھاریاں رُکے تو پتہ چلا کہ ریٹائرمنٹ لے کر گھر بیٹھے ہیں ۔ انکے گھر پہنچے تو دیکھا داڑھی رکھی ہوئی اور ہاتھ میں تسبیح ۔ خوشی کا اظہار کرتے ہوئے پوچھا “میاں صاحب ۔ آپ تو کہا کرتے تھے ۔ چھوٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی ۔ یہ سب کیسے ہو گیا ؟” بولے “وہ بات کچھ اور تھی ۔ اب تو قیامت گذر گئی ہے ہماری قوم پر ہمارے کرتوتوں کی بدولت”۔ ان کا اشارہ پاکستان کا دو ٹکڑے ہونے کی طرف تھا ۔
اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم پر اپنا کرم کرتے ہوئے ہماری افواج کے جرنیلوں کا ضمیر بھی زندہ کر دے ۔ آمین ثم آمین
بھت خوب۔ خدا سب کو سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ جھاں تک ہماری افواج کے جرنیلوں کا تعلق ھے تو اگر عوام کا ضمیر زندھ ھو جاے اور وھ ھمت پکڑ لین تو جرنل خود ھی ٹھیک ھو جاّین۔
مردانہ دنیا میں خاتون
درست خیال ہے آپ کا ۔ اگر عوام کی اکثریت ٹھیک ہو جائے تو جرنیل تو کیا بگڑے سیاستدان بھی ٹھیک ہو جائیں گے ۔
ضمیر فعال اور غیرفعال ہونے کا کرشمہ ہم نے بھی دیکھا ہے۔ ہمارے ساتھ الیکڑیکل انجنیئرنگ میں وہ پڑھتا تھا۔ یک دم دوسرے سال پہنچا تو اس نے داڑھی رکھ لی اور تبلیغ والوں میںشامل ہوگیا۔ بعد میں اس نے واپڈا جوائن کرلی۔ ایک دن دیکھا تو داڑھی صاف اور دوستوں نے بتایا کہ اس نے واپڈا میںرہ کر خوب مال بنایا۔ بعد میں اس سے رابطھ منقطعہ ہوگیا اور اب پتہ نہیںکس حال میںہوگا۔