میں نے ایک واقعہ لکھا ۔ خاور صاحب نے پہلے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے میری مذمت کی اور پھر اپنے بلاگ پر میری تحریر کو فتنہ انگیز قرار دیتے ہوئے اسے اعوذباللہ من ذالک نبوت کے دعوٰی سے ملا دیا ۔ خیر ۔ مجھے خاور صاحب سے کوئی شکائت نہیں کیونکہ ہمارے ملک میں ایسے بھی لوگ پائے جاتے ہیں کہ جن کے سامنے کہا جائے کہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم انسان تھے تو اپنی جان کو خطرہ لاحق ہو جاتا ہے ۔ میں مانتا ہوں کہ خاور صاحب نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ترقی یافتہ ممالک میں گذارا ہے اور اب بھی ایک ترقی یافتہ ملک میں رہائش پذیر ہیں جبکہ میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ پسماندہ ممالک میں گذارا ہے ۔ مزید شائد کم پڑھا لکھا ہونے یا اُردو زبان سے ناواقفیت کی بناء پر ہو سکتا ہے کہ میں بات واضح نہ کر سکا ۔ میں متعدد بار اقرار کر چکا ہوں کہ میں عالمِ دین نہیں ہوں بلکہ طالب علم ہوں ۔ اللہ مرتے دم تک میرے دل میں علم سیکھنے کی حُب قائم رکھے ۔
خاور صاحب اور ان کے ہم خیال قارئین کیلئے عرض کر دوں کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کا براہِ راست کلام اور وحی صرف انبیاء علیہم السلام کیلئے مخصوص ہے اور وہ سلسلہ سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کے بعد ختم ہو چکا ہے ۔ خواب میں یا غیر محسوس غیر ارادی طور پر کسی انسان کا کوئی فعل کر گذرنا جس سے اسے یا کسی دوسرے کو فائدہ پہنچے ہر انسان کیلئے ہے ۔ اس کیلئے ضروری نہیں کہ انسان متقی پرہیز گار ہو ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اپنی مخلوق کے فرد یا افراد کو فائدہ پہنچانا ہوتا ہے تو وہ کسی سے کچھ بھی کام لے سکتا ہے ۔ تاریخ میں اس کی کئی مثالیں ملتی ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو روز مرہ کی زندگی میں بھی کچھ ایسے فعل کی مثال مل جاتی ہے جس کے وقوع پذیر ہونے کی وجہ جواز سمجھ میں نہیں آتی ۔
ثاقب سعود صاحب نے میری تحریر پر تبصرہ کرتے ہوئے پوچھا “ اللہ تعالی نے ہر اچھی چیز اپنے انبیاء [علیہم السلام] کو دی ۔ کیا آپ اس طرح کا کوئی واقعہ جو انبیاء [علیہم السلام] کے ساتھ ہوا ہو لکھ سکتے ہیں؟” ثاقب سعود صاحب کیلئے عرض ہے کہ انبیاء [علیہم السلام] اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے منتخب کردہ بہت اعلٰی درجے کے انسان ہوتے ہیں اسلئے ضروری نہیں کہ جو عمل عام انسانوں کیلئے ہو وہ ان کے ساتھ بھی برتا جائے ۔ ویسے اس کی ایک واضح مثال موجود ہے جو نیچے درج کر رہا ہوں ۔ دیکھئیے سُورت ۔ 27 ۔ النَّمْل ۔ آیت 10
میرا صرف ایک سوال ہے ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے قرآن شریف میں بار بار فرمایا ہے کہ اللہ الرّحمٰن الرّحیم انسان کی رہنمائی کرتا ہے اور بغیر حُجت تمام ہوئے کسی کو سزا نہیں دیتا ۔ تو جب کوئی نبی دنیا میں موجود نہ ہو اور جب دنیا میں موجود بھی ہو تو ہر جگہ موجود تو نہیں ہو سکتا ۔ پھر اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کسی انسان کی کس طرح رہنمائی فرماتا ہے اور کس طرح مدد فرماتا ہے ؟ جو واقعہ میں نے بیان کی یہ بھی ان طریقوں میں سے ایک ہے یا ہو سکتا ہے ۔ میرے علم میں ہے کہ کئی قارئین دین کا بہت علم رکھتے ہیں ان سے التماس ہے کہ اس سلسلہ میں اپنے خیالات سے نوازیں ۔
خاور صاحب نے میرے اسی طرح کے سوال کا جواب ایک اور تحریر میں دیا ہے اور وضاحت کی بجائے معاملہ کو اور بھی پیچیدا کر دیا ہے ۔ وہ بات ضمیر کی کر رہے ہیں ۔ ضمیر ایک ایسے احساسِ نیکی کا نام ہے جو پیدائش سے پہلے ہی ہر انسان میں اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے رکھ دیا ہے ۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے جس پر میں انشاء اللہ پھر لکھوں گا ۔ ایک شخص اچھائی سمجھ کر نہیں بلکہ غیر ارادی طور پر ایک کام کر دیتا ہے جس سے دوسرے کو فائدہ پہنچتا ہے ۔ اس فعل کو ضمیر کی آواز کیسے کہا جائے گا جبکہ اسے معلوم ہی نہ ہو کہ وہ اچھائی کی خاطر یا اللہ کی خوشنودی کی خاطر کام کر رہا ہے ؟
ہر ذی شعور قاری کو دعوت ہے کہ اللہ کے کلام یعنی قرآن شریف کو سمجھ کر پڑھنے کی کوشش کرے ۔ انشاء اللہ ۔ اصل صورتِ حال واضح ہوتی جائے گی ۔ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے انسان سے ہمکلام ہونے کے جو طریقے قرآن شریف میں بتائے ہیں ان میں سے سرِ دست میں چند نقل کر رہا ہوں ۔
سورت ۔ 20 ۔ طہ ۔ آیات 9 تا 13
اور تجھے موسٰی [علیہ السلام] کا قصہ بھی معلوم ہے
جبکہ اس نے آگ دیکھ کر اپنے گھر والوں سے کہا ۔ تم ذرا سی دیر ٹھہر جاؤ مجھے آگ دکھائی دی ہے ۔ بہت ممکن ہے کہ میں اس کا کوئی انگارا تمہارے پاس لاؤں یا آگ کے پاس سے راستے کی اطلاع پاؤں ۔
جب وہ وہاں پہنچے تو آواز دی گئی ۔ اے موسٰی ۔ یقیناً میں ہی تیرا پروردگار ہوں ۔ تُو اپنی جوتیاں اُتار دے کیونکہ تُو پاک میدان طوٰی میں ہے ۔
اور میں نے تجھے منتخب کر لیا ہے ۔ اب جو وحی کی جائے اسے کان لگا کر سُن ۔
سُورت ۔ 4 ۔ النِّسَآء ۔ آیات 163 تا 165
بیشک ہم نے آپ کی طرف [اُسی طرح] وحی بھیجی ہے جیسے ہم نے نوح کی طرف اور ان کے بعد پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی۔ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل اور اسحاق و یعقوب [علیہم السلام] اور [ان کی] اولاد اور عیسٰی اور ایوب اور یونس اور ہارون اور سلیمان [علیہم السلام] کی طرف وحی بھیجی اور ہم نے داؤد [علیہ السلام ] کو بھی زبور عطا کی تھی ۔
اور ہم نے کئی ایسے رسول [بھیجے] ہیں جن کے حالات ہم پہلے آپ کو سنا چکے ہیں اور ایسے رسول بھی [بھیجے] ہیں جن کے حالات ہم نے آپ کو نہیں سنائے اور اﷲ نے موسٰی [علیہ السلام ] سے گفتگو کی
رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے [اس لئے بھیجے گئے] تاکہ ان پیغمبروں [کے آجانے] کے بعد لوگوں کے لئے اﷲ پر کوئی عذر باقی نہ رہے، اور اﷲ بڑا غالب حکمت والا ہے
سُورت ۔ 19 ۔ مَرْيَم آیات 2 تا 8
یہ ہے تیرے پروردگار کی اس مہربانی کا ذکر جو اس نے اپنے بندے زکریا [علیہ السلام ] پر کی تھی
جبکہ اس نے اپنے رب سے چپکے چپکے دعا دعا کی تھی
کہ اے میرے پروردگار ۔ میری ہڈیاں کمزور ہوگئی ہیں اوربڑھاپے کے باعث سر بھڑک اُٹھا ہے لیکن میں کبھی بھی تجھ سے دعا کر کے محروم نہیں رہا
مجھے اپنے مرنے کے بعد اپنے قرابت داروں کا ڈر ہے ۔ میری بیوی بانجھبھی پس تو مجھے اپنی بارگاہ سے وارث عطا فرما
جو میرابھی وارث ہو اور یعقوب [علیہ السلام ] کے خاندان کا بھی ۔ اور اے میرے رب ۔ تو اسے اپنی موبول بندہ بنا لے
اے زکریا ۔ ہم تمہیں ایک لڑکے کی خوشخبری دیتے ہیں جس کا نام یحیٰی ہے ۔ ہم نے اس سے پہلے اس کا ہم نام بھی کسی کو نہیں کیا
زکریا [علیہ السلام نے] کہنے لگے ۔ میرے رب ۔ میرے ہاں لڑکا کیسے ہو گا جبکہ میری بیوی بانجھ اور میں خود بڑھاپے کے انتہائی ضعف کو پہنچ چکا ہوں
فرمایا کہ وعدہ اسی طرح ہو چکا ۔ تیرے رب نے فرما دیا کہ مجھ پر تو یہ بالکل آسان ہے اور تو خود جبکہ کچھ نہ تھا میں تجھے پیدا کرچکا ہوں
سُورت ۔ 19 ۔ مَرْيَم آیات 22 تا 26
پس وہ [مریم] حمل سے ہو گئیں اور اسی وجہ سے یکسو ہو کر ایک دور کی جگہ چلی گئیں
پھر دردِ زہ اسے ایک کھجور کے تنے کے نیچے لے آیا ۔ وہ بولی ۔ کاش میں اس سے پہلے ہی مرگئی ہوتی اور لوگوں کی یاد سے بھی بھولی بسری ہو جاتی
اتنے میں ان کے نیچے کی جانب سے انہیں آواز دی کہ تو رنجیدہ نہ ہو ۔ تیرے رب نے تیرے پاؤں تلے ایک چشمہ جاری کر دیا ہے
اور اس کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا وہ ترے سامنے تر و تازہ پکی ہوئی کھجوریں گرا دے گا
اب چین سے کھا پی اور آنکھیں ٹھنڈی رکھ ۔ اگر تجھے کوئی انسان نظر پڑ جائے تو کہہ دینا
میں نے اللہ رحمان کے نام کا روزہ مان رکھا ہے ۔ میں آج کسی انسان سے بات نہ کروں گی
سُورت ۔ 27 ۔ النَّمْل ۔ آیت 10
اور [اے موسٰی] اپنی لاٹھی [زمین پر] ڈال دو ۔ پھر جب [موسٰی علیہ السلام نے لاٹھی کو زمین پر ڈالنے کے بعد] اسے دیکھا کہ سانپ کی مانند تیز حرکت کر رہی ہے تو پیٹھ پھیر کر بھاگے اور پیچھے مڑ کر نہ دیکھا ۔ [ارشاد ہوا] اے موسٰی ۔ خوف نہ کرو بیشک پیغمبر میرے حضور ڈرا نہیں کرتے
105 سُورت ۔ 37 ۔ الصَّافَّات ۔ آیات 100 تا
اے میرے رب ۔مجھے نیک بخت اولاد عطا فرما
تو ہم نے انہیں ایک بُرد بار بیٹے [اسماعیل علیہ السلام] کی بشارت دی
پھر جب وہ [بچہ] اتنی عمر کو پہنچا کہ اس کے ساتھ چلے پھرے تو اس [ابراہیم علیہ السلام] نے کہا ۔ میرے پیارے بچے ۔ میں خواب میں اپنے آپ کو تجھے ذبح کرتے ہوئے دیکھ رجا ہوں اب تو بتا کہ تمہاری کیا رائے ہے ؟ بیٹے نے جواب دیا ۔ ابا ۔ جو حُکم ہوا ہے اسے بجا لائیے ۔ انشاء اللہ آپ مجھے صبر کرنے والوں میں سے پائیں گے
غرض جب دونوں مطیع ہو گئے اور اس [باپ] نے اس [بیٹے] کو پیشانی کے بل گرا دیا
تو ہم نے آواز دی کہ اے ابراہیم
یقیناً تم نے اپنے خواب کو سچا کر دکھایا ۔ بے شک ہم نیکی کرنے والوں کو اسی طرح جزا دیتے ہیں
خاور کی پوسٹ پڑھ کر لگتا ھے کہ
خاور کو پند و نصایح کی نھیں، بلکہ اک بھتریں ماھرنفسیات کی اشد صرورت ھے۔۔۔۔۔ کمال ھے، آج کا انسان بھی ایسا سوچ سکتا ھے۔۔۔۔ یقین نھیں ھوتا۔۔۔۔
دوسروں کی تحریر کو فتنہ انگیز قرار دینے کا “فتوی” دینے سے قبل عزت ماب مفتی اعظم جناب خاور، کو ذرا دین کا مطالعہ کرنا چاھیے، اور “کومن سینس” کا ایک “کریش کورس” کرنا چاھیے۔۔۔۔ نہ کہ اک فرقہ پسند اور شرپسند ‘دو نمبر کے ملا’ کی ‘ٹون’ میں، کم علمی کے دریا بہانے چاھیے۔۔۔۔۔
اسلم جٹ
Allah Knows the Best.
جناب اجمل صاحب
خاور کی دونوں تحاریر میں نے پڑھ ڈالی ہیں ۔ میرے خیال میں آپ اس کا اس مسئلہ ہی نہیں سمجھ پائے ۔ دراصل اسے اس بات پر اعتراض ہے کہ آپ نے اس واقعے کو کلام خداوندی کیوں کہا ہے ۔ ویسے میرے خیال میں آپ نے بھی الفاظ کے چنائو میں احتیاط سے کام نہیں لیا ۔ اگر آپ یہ فرما دیتے کہ اللہ تعالٰی نے اس کے دل میں یہ بات ڈال دی تو مسئلہ نہیں کھڑا ہوتا ۔
بہرحال اب اگر آپ اقسام وحی پر کوئی تحریر یہاں نقل کردیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ مسئلہ حل ہوسکتا ہے اور سب دوستوں کا ، خاور سمیت ، ذہن اس معاملے میں صاف ہوجائے گا ۔
ہمیں یہ بات مدنظر رکھنی چاہیئے کہ وحی کے کئی اقسام ہیں اور یہاں تک کہ امام مودودی علیہ الرحمہ کے مطابق شہد کی مکھی پر بھی وحی ہوتی ہے اور بڑے بڑے ایجادات کرنے والے سائنسدانوں پر بھی ۔
مجھے اس وقت ‘سنت کی آئینی حیثیت’ دستیاب نہیں ورنہ میں خود یہ اقتباسات یہاں نقل کردیتا اگر آپ کو یہ کتاب دستیاب ہے تو میرے خیال یہ مباحث ادھر مل جائیں گے ۔
عام وحی اور انبیا علیہ السلام کی وحی میں زمین و آسمان کا فرق ہے جسے روا رکھا جانا چاہیئے ۔ عام وحی تو اب بھی آتی ہے جیسے شہد کی مکھی پر لیکن جو وحی انبیا علیہ السلام پر آتی تھی اور جس پر انسانوں کی ہدایت کا دارومدار ہے اس کا دروازہ لاریب بند ہوچکا ہے ۔ اب اگر کوئی صاحب اٹھے کہ مجھ سے اللہ ہمکلام ہوئے ہیں اور یہ یہ فرمایا ہے تو اس کی اس بات کی کوئی دینی حیثیت نہیں ؛ وہ اسے اپنی اصلاح کے لئے تو استعمال کرسکتے ہیں لیکن اس سے اسلام کے بنیادوں میں کوئی تبدیلی نہیں لائی جاسکتی جیسا کہ غلام احمد قادیانی صاحب نے کوشش کی تھی ۔
اجمل صاحب ہر کسی پر جلدی غصہ مت ہوجایا کریں ۔ آپ نے تو مجھے بھی ‘راندہ درگار’ قرار دیا تھا کیونکہ میں جاوید احمد غامدی صاحب کو درست سمجھتا ہوں اور ان کی باتوں سے متفق ہوں ۔ شانت رہا کیجئے ! مع سلام
جس طرح که روغانی صاحب نے لکها هے که غصه نه کریں
اور میری بهی درخواست ہے که آپ کے لکهے پر جو اعترض مجهے هیں اس سے مطلب آپ کو نیچا دیکهانا یا آپ کی عزت میں کمی کرنا نہیں ہے
آپ میرے لیے ایک محترم هیں ـ
یه تحاریر ایک قسم کی ڈسکسنگ هیں جن سے مجهے اگر کچھ مغالطے هوں تو ان کو دور کیا جاسکے
اور اگر آپ کو کہیں غلطی لگی هوتو اس کی نشاندهی کی جاسکے ـ
اپ نے اس پوسٹ میں جتنے بهی حوالے دیے هیں یه سارے حقیقت هیں کیونکه ان کا اسمانی کتابوں میں ذکر ہے
اور ان سے ثابت هوتا ہے که جب بهی اللّه صاحب نے کسی کو کوئی مرتبه دیا تو اس کی سند بهی دی که یه کلیم اللّه هیں یه خلیل اللّه هیں ـ
لیکن میری سوئی اس بات پر بهی اٹکی رہے گی که جب دین کی اکلمیت کا حکم آگیا تو اس کے بعد کسی کو اللّه صاحب سے پیغام آسکتا کیونکه اب اس بات کی سند دینے کے لیے اللّه سائیں نے ایک اور کتاب یا صحیفه نهیں اتارنا ہے ـ
اب جو کچھ بهی ہے ادمی کے اندر انسٹال کی گئی ایپلیکیشن (آپ ان کو وحی کا بهی نام دے سکتے هیں )کے هی ذریعے گائیڈ کیا جائے گا ـ
آپ ذرھ یه سوچیں که اگر آپ جیسے باشعور لوگ ایسی باتوں کو لکھنے لگیں گے تو کم علم لوگ جو پہلے هی ایسے پیروں اور فقیروں کے ہتھے چڑهے هوئے هیں جو کشف کے دعوےدار هیں
ان کو کون سمجهائے گا ؟؟
اپ کو معلوم هی هو گا که ایک خاصے مشہور مولوی صاحب نے ایسے پیغامات کو خوابوںکے ذریعے اپنے آپ پر نازل هونے کا بهی کہا تها مگر اهل علم کے شور مچانے پر ان کو بهی خواب انے بند هوگئے تهے
شہد کی مکهی پر وحی کا جو کہا گيا ہے تو یه بهی تو ایک چیز اس کے اندر انسٹال کردینے والی بات هی کی طرح ہے
جس طرح که بکری کے اندر انسٹال کر دیا گیا ہے که صرف گهاس کهائے گی مگر گوشت نہیں
شیر صرف گوشت کهائے گا گهاس نهیں ـ
لیکن انسان کو دونوں چیزوں کے کهانے کا سسٹم دے کر کتابوں میں حکم دیا که یه کها لو اور یه نه کهاؤ ـ
دیکهیں یه بڑا مشکل موضوع ہے اگر اتنا هی اسان هوتا که ہماری تهوڑی سی تحریر سے سمجھ آجاتا تو دنیا میں اتنے بت پرست اور شخصیت پرست یه هوتے ـ
آپ کا کیا خیال ہے که بتوں کی پوجا کرنے والے صرف ایک پتھر کو گهڑ کر اس کو پوجا کرنے لگتے هیں ؟؟
نہیں اس کے پیچھے بهی ایک اس طرح کی کہانی هوتی ہے که اس بت پر بهی ایشور کا پیغام اترا کرتا ہے ـ
اس لیے اہل قران بت پر حملے سے ضروری اس بات کو سمجەتے هیں که بت کو بت بنانے والی چیز پر حمله کیا جائے اور وه ہے
کائنات کے خالق سے رابطے کا کہنے
والوں کی مخالفت کی جائے
میں سکائپ پر
khawar-king
کے نام سے اون لائین مل جایا کرتا هوں
میں کفتگو میں شاید آپ کو قائل کرسکوں
اور ایک اپیل سب قارئین سے که دعا کريں که اللّه سائیں مجهے هدایت دیں اگر میں غلطی پر هوں
خاور اور وقار صاحبان کی باتوں سے میں اتفاق کروں گا، اصل بات وہی کہ سمجھنے سمجھانے میں غلطی ہوئی ہے نہ کہ نعوذباللہ کسی قسم کی کوئی گستاخی مطلوب تھی، میں نے اپنے تبصرے میں لکھا تھا کہ اس طرح کے واقعات روزمرہ زندگی میں اکثر پیش آتے رہتے ہیں مگر ہم نے کبھی ان پر غور نہیں کیا ۔
بہرحال امید ہے اب دونوں طرف سے غلط فہمی دور ہو گئی ہو گی۔
جب خاور صاحب اور اجمل صاحب دونوں نے مان لیا کہ نبوت کے خاتمے کے بعد اللہ میاں کسی سے براہ راس مخاطب نہیںہوتے تو پھر جھگڑا تو ختم ہوگیا۔ روغانی صاحب کے بقول اصل مسئلہ یہ سلجھانا ہے کہ اب بھی اللہ میاں انسان کی رہنمائی اگر کرتے ہیں تو کس طرح کرتے ہیں۔
خاور صاحب کی سائيٹ پہ پوسٹ ايک لنک
http://uk.youtube.com/watch?v=0sw6Qyqjh04
کے مطابق ديوبندی بانی مولانا قاسم نانوتوی کے مطابق نبوت نہ صرف رسول خدا کے بعد جاری رہ سکتی ہے بلکہ رسول خدا کے اپنے زمانہ ميں بھي آسکتی تھي- کيا يہ عقيدہ، عقيدہ ختم نبوت کے برخلاف نہيں ہے؟ کيا ديوبندی بھی قاديانيوں کی طرح ختم نبوت کے منکر نہيں؟ تو کيوں ہم ديوبنديوں کے اس عقيدہ کی مذمت نہيں کررہے؟
خاور بھائی !
میں سکائب پر آنے سے قاصر ہوں اس لئے ادھر ہی جواب چھوڑ دیتا ہوں ۔ میں آپ کے موقف کا تجزیہ کرنے کی کوشش کروں گا تاکہ سب سمجھ سکیں ۔ لگتا ہے آپ نے مختلف قسم کے بڑے بڑے الفاظ استعمال کرکے معاملے کو اور پیچیدہ کردیا ہے ۔
آپ جو اپلیکیشنز انسٹال کرنے والی بات کررہے ہیں اس کو میرے خیال میں سادہ الفاظ میں جبلت سے تعبیر کیا جاسکتا ہے ۔ جبلت ہر جاندار کا خاصا ہے اور وہ اس کے مطابق اپنی ڈیوٹی ادا کررہا ہے ۔ مثالیں خود اوپر آپ نے دی ہیں ۔ یہ انسانی جبلت ہے کہ وہ اچھائی کا ساتھ دے اور برائی سے دور رہے ۔
دین کا علم ، اس کے احکام ، ان میں کمی بیشی اور انسان کے نجات اور ہدایت سے متعلق معاملات بالکل الگ نوعیت کے ہیں جبکہ عام زندگی گزارنا یا زندگی کے دوسرے کام کرنا بالکل ایک الگ چیز ہیں ۔ جیسے شہد کی مکھی شہد بناتی ہے ، بکری گوشت نہیں بلکہ گھاس کھاتی ہے اور بنی آدم دنیا کی اچھائی ، بھلائی اور سہولت و راحت کے لئے ایجادات کرتا ہے ۔
دین کا معاملہ بالکل الگ ہے ۔ دین مکمل کردیا گیا ہے ، اب ہمیں دین کو سمجھنے کے لئے اور اس پر عمل کرنے کے لئے صرف قرآن سے رجوع کرنا ہوگا ۔ دین میں کوئی کمی بیشی نہیں کی جاسکتی ہے وہ ہمیں اپنے مکمل شکل میں اللہ تعالٰی کی طرف سے سیدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک ہاتھوں پہنچ چکا ہے ۔
باقی رہے زندگی کے دوسرے معاملات تو ان کی بات الگ ہے ۔ اگر کوئی یہ کہے کہ مجھے اللہ تعالٰی کی طرف سے اشارہ ہوا کہ میں فلاں محتاج کی مدد کروں تو کوئی وجہ نہیں کہ میں اس پر شک کروں ، ہوگیا ہوگا ۔ ٹھیک ہے ۔ لیکن یہ بھی مدنظر رہے کہ کسی محتاج کی مدد کے لئے فردآ فردآ اشاروں کی ضرورت نہیں ہونی چاہیئے کیونکہ اللہ تعالٰی پہلے سے اس طرح کے معاملات پر بہت وضاحت کے ساتھ قرآن مجید میں فرماچکے ہیں ۔
اگر گستاخی خیال نہ کریں تو اس کو آپ یوں سمجھیں کہ اس طرح اللہ تعالٰی اپنے ایک نیک دل بندے کو متنبہ کرتا ہے ، اس کو توجہ دلاتا ہے ، بالکل اسی طرح جس طرح ایک استاد اپنے ایک اچھے شاگرد کا محبت کی انداز میں کان مروڑ دیتا ہے کہ فلاں کام کیوں نہیں کررہے ؟ ہمارے کئی اصحاب تصوف کو اس قسم کے واقعات پیش آئے جس کے بعد انہوں نے اپنی زندگی کی ڈائریکشن ٹھیک کرلی تھی تو یہ تو کسی کو متوجہ کرنا ہے نہ کسی نئی اچھائی کا کہنا اور نئی برائی سے منع کرنا ۔
میرا پاکستان : اللہ نے دین کے حوالے سے ہماری مکمل رہنمائی کردی ہے اور وہ ہے قرآن ۔ دیگر معاملات میں انسان اپنے جبلت اور ضمیر کے مطابق چلتا ہے ۔
Waqar Ali Roghani Sahib
“شہد کی مکھی پر بھی وحی ”
walee ayat Quran main maujood hai, shayed aapkee nazar say nahain guzree
maududi sahib nay gaalban wahain say quote kee hai.
میسنا جی !
یاد دہانی اور اتنے بڑے حوالہ کا شکریہ ، جس کے بعد کسی شخصیت اور کتاب کی ضرورت ہی باقی نہیں رہتی ۔ غالبآ نہیں مودودی صاحب نے لازمآ یہ مثال ادھر سے لی ہوگی ۔
:sad:
وقار علی روغانی صاحب
آپ نے ماشاء اللہ موضوع پر صحیح تبصرہ کیا ہے ۔ جزاک اللہ خیرً ۔ عنوان میں عام طور پر خرابی نہیں ہوا کرتی ۔ صرف سمجھنے میں خرابی ہوتی ہے اگر زیرِ عنوان مضمون کو سمجھے بغیر فیصلہ کر لیا جائے ۔ جیسا کہ آپ نے لکھا وحی کی کئی قسمیں ہیں جن میں سے ایک کا میں نے حوالہ دیا تھا ۔ بہرحال میں اپنے منصوبہ کے مطابق آج اس سلسلہ کی آخری تحریر شائع کر چکا ہوں ۔ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ جناب موددی صاحب کو امام کہتے ہیں اور غامدی صاحب کی باتوں کو جو مودودی صاحب کے مسلک کی ضد ہیں انہیں بھی درست کہتے ہیں ۔ آپ نے غصہ نہ کرنے کا مشورہ دیا ہے جس کیلئے میں مشکور ہوں لیکن میری زبان کرخت ہو سکتی ہے کہ مکھن کا استعمال کم کرتا ہوں ۔ غصہ ہی تو ایک چیز ہے جو مجھے آتا ہی نہیں ۔ میری کسی تحریر سے آپ کو محسوس ہوا کہ میں نے آپ کو راندۂ درگاہ کہا ۔ باوجود ایسا نہ کرنے کے میں معذرت خواہ ہوں ۔
خاور صاحب
آپ جس عمل کی بات کر رہے ہیں وہ طے ہو چکا ہے اور جس عمل کی میں بات کر رہا ہوں وہ ہمیشہ جاری رہنے والے ہے اور صرف انبیاء علیہم السلام کیلئے مخصوص نہیں تھا ۔ کسی نئے صحیفے یا نئے دین کی بات نہیں کر رہا ۔ وہی دہرا رہا ہوں جو كرآن شریف میں لکھا ہے اور حدیث مبارکہ سے بھی ثابت ہے ۔ میری آج کی تحریر بھی پڑھ لیجئے ۔ آپ کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ میں موجودہ زمانے کے کسی پیر فقیر کو نہیں مانتا ۔
پاکستانی صاحب
اگر پہلے سے انسان کے سر پر کوئی غلط واقعہ سوار ہو تو نئے واقعہ کو سمجھنے میں مشکل پیش آ سکتی ہے ۔
میرا پاکستان صاحب
میں اسی خیال کو لے کر چلا تھا کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی اپنے بندوں کی رہنمائی کرتے ہیں جو عام تور پر سمجھ میں نہیں آتی ۔
میسنا صاحب
لنک خاور صاحب کی پوسٹ پر ہے تو آپ کو ان سے ہی رجوع کرنا چاہیئے تھا ۔ میں نانوتوی صاحب کو تو نہیں جانتا لیکن جتنے دیوبندیوں کو میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی ایسا خیال نہیں رکھتا
یوچھی صاحبہ
آپ حیران ہیں یا پڑیسان ہوئی ہیں ؟ بہرحال آمد کا شکریہ ۔
رہبر صاحب
آپ کا خیال درست ہے ۔
حضرت !
مکھن تو ہم لگا کریں گے اپنی فرمائیش پوری کرنے کے لئے کیونکہ ہم (میرے خیال میں ہم سب بلاگر دوست ) آپ کے چھوٹے ہیں ، آپ مجھے اپنے صاحبزادے کی جگہ سمجھیئے ۔
میں آپ کا شکر گذار ہوں کہ آپ نے مجھے اپنا نقطہ نظر پیش کرنے کا موقع دیا۔ جی میں مودودی صاحب کو امام سمجھتا ہوں اور جاوید صاحب کی بھی سنتا ہوں ۔ جیسا کہ آپ کے علم میں ہوگا ؛ سرزمین ہند سے تین قابل ذکر گروہ اٹھے جن کا ایک دوسرے سے ‘فہم اسلام’ کے حوالے سے تھوڑا بہت اختلاف ہے ۔ ان میں ایک گروہ کے سرخیل سرسید ہیں جن میں وہ سارے لوگ آتے ہیں جن کو آپ جاوید صاحب سے متعلق قرار دیتے ہیں اور جن کا آخری نمائندہ حقیقی طور پر غلام احمد پرویز صاحب ہیں ۔
دوسرے گروہ کے بانی مولانا محمد قاسم نانوتوی علیہ الرحمہ تھے جن سے دیوبندی فکر کے سارے علما جڑے ہیں ۔
تیسرے گروہ کو ہم “دبستان شبلی” کہتے ہیں ۔ یہ متکب فکر علامہ شبلی نعمانی سے وابستہ ہے اور ان میں ابوالکلام آزاد ، علاقہ محمد اقبال ، سید سلیمان ندوی ، حمید الدین فراہمی ، امین احسن اصلاحی اور سید ابوالاعلیٰ مودودی معتبر شخصیات ہیں ۔ ہم جاوید احمد غامدی کو اس گروہ کا موجودہ نمائندہ سمجھتے ہیں ۔ دراصل یہ گروہ فکر سرسید اور دیوبندی فکر کے بیچ راس کے لوگ ہیں اور ان کا فکر ہمیشہ متوازن رہا ہے ۔ نہ انہوں نے کبھی مذہب میں غلو کیا اور نہ ہی وہ جدید فکر سے اتنے مغلوب ہوئے کہ اسلام کو جدید دور کے تقاضوں کے ہم آہنگ بنانے چل پڑے ۔
راندہ درگاہ کا لفظ میں نے آپ کے ” درگاہ (بلاگ)” کے لئے استعمال کیا تھا کیونکہ جب آپ نے جاوید صاحب کے خلاف مضمون لکھا تو میرا دل ٹوٹ گیا تھا ۔ کہ کیوں میرے ایک بزرگ صحیح آدمی کو غلط سمجھ رہے ہیں اور اس وجہ سے کافی عرصہ تک آپ کے بلاگ سے ‘خودساختہ جلاوطنی’ سے اختیار کرلی تھی ۔ میں شکرگذار ہوں گا اگر آپ مجھے اور میرے فکر کو سمجھنے کی کوشش کریں ۔ مع سلام
وقار علی روغانی صاحب
تشریح کیلئے ممنون ہوں ۔ آپ نے میرا چھوٹا بننے کی خواہش ظاہر کی یہ آپ کے بڑے دل کی نشانی ہے ۔ میں نے غامدی صاحب کو زیادہ نہیں سنا ۔ ان کی ایک کتاب ہاتھ لگی اور اسی پر میرے ذہن میں اعتراضات پیدا ہوئے ۔ میں اس تفصیل میں نہیں جاؤں گا کیونکہ بے سود بحث سے کوئی فائدہ نہیں ۔ میں نے بلاگز اپنے ان تجربات کو جواں نسل تک پہنچانے کیلئے شروع کئے تھے جو اللہ کی مہربانی سے مجھے حاصل ہوئے ورنہ بندہ کس قابل ۔ بلاگ کو قارئین کیلئے دلچسپ رکھنے کی خاطر میں سیاسی اور مزاحیہ چیزیں بھی لکھتا رہتا ہوں ۔
قابل قدر اجمل صاحب
ہم آپ کے اور آپ کے بلاگ کے قدردران ہیں ۔ برائے مہربانی لکھتے رہیئے ، آپ اچھے ، سنجیدہ اور علمی مباحث چھیڑتے رہتے ہیں جو اچھی بات ہے ۔ اللہ تعالٰی آپ کو صحت اور لمبی عمر دے ۔ آمین
وقار علی روغانی صاحب
جزاک اللہ خیرً
“میں نانوتوی صاحب کو تو نہیں جانتا لیکن جتنے دیوبندیوں کو میں جانتا ہوں ان میں سے کوئی ایسا خیال نہیں رکھتا”
تو پھر يہ اپنے آپ کو ديوبندی کيوں کہتے ہيں اگر اپنے بانی نانوتوی صاحب کی تعليمات کو ہی نہيں مانتے؟ ہے نا منافقت کی بات- اگر يہ اپنے بانی کے ساتھ ہی ديانتدار نہيں تو اور کس کے ساتھ ہوں گے؟
میسنا 02 صاحب
اگر آپ ہر وقت دوسروں کی برائیاں بتانے کی بجائے جو ان میں یا دوسروں میں اچھائیاں ہوں وہ بتانا شروع کریں تو کیا آپ قابل اور عمدہ انسان نہیں بن سکیں گے ؟
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ضمیر ۔ میرا مشاہدہ