Monthly Archives: November 2007

قصوروار کون ؟

سوات کے آخری ولی عہد مسلم لیگ (ن) کے رہنما اور سرحد اور بلوچستان کے گورنر رہنے والے اسّی سالہ میاں گل اورنگزیب سے ان کی سابق ریاست میں آج کل کے حالات کے بارے میں دریافت کریں تو وہ غصے میں کہتے ہیں “یہ ان سے پوچھیں جنہوں نے یہ حالات خراب کئے ہیں”۔ “یہ حالات خراب کئے ہیں مرکزی حکومت نے۔ میں تو برائے نام والیِٔ سوات ہوں”۔

میاں گل اورنگزیب کا کہنا ہے کہ سوات میں جو بھی ہو رہا ہے جان بوجھ کر کیا جا رہا ہے۔ کہنے لگے “یہاں لال مسجد کا قصہ بتاؤں میں آپ کو ۔ لال مسجد کا معاملہ ایک تھانیدار بھی حل کر سکتا تھا لیکن اسے حل نہیں کیا گیا۔ ایک سال تک تاخیر کے بعد معلوم نہیں کتنے سو لوگوں کو مار دیا ۔ جان لینے کی ان کو کوئی پروا نہیں ہے”۔

میاں گل اورنگزیب سے دریافت کیا کہ حکومت کیونکر حالات خراب کرے گی تو ان کا جواب وہی تھا جو پاکستان کی اکثر عوام سمجھتی ہے۔ “جتنے زیادہ حالات خراب ہوں گے اتنا زیادہ بُش ڈرے گا۔ یہ ان کو بتاتے ہیں کہ اگر ہمیں ہٹاتے ہو تو یہ اور بڑھے گا”۔

میرے اس سوال کا جواب انہوں نے براہ راست تو نہیں دیا کہ سوات میں شدت پسند کون ہیں ؟ تاہم ان کا کہنا تھا کہ کافی مقامی لوگ بھی ان کے ساتھ مل گئے ہیں۔ “سنتے ہیں کہ یہ افغانستان کا اثر ہے ۔ وہاں جو کچھ ہو رہا ہے یہ اس کا اثر ہے ۔ یہ ہونا تھا ۔ اس لئے ہونا تھا کہ طالبان کس نے بنائے؟ آئی ایس آئی نے ۔ پھر 11ستبمر آیا اور طالبان کو بھی آپ نے اپنا دشمن بنا لیا۔ اس سے قبل تو یہاں کچھ نہیں تھا”۔

پوچھا کہ بات صرف القاعدہ تک کی ہے تو ان کا مسکراتے ہوئے جواب تھا “جب حالات خراب ہوتے ہیں تو سب بدمعاشی شروع کر دیتے ہیں۔ ’کہتے ہیں کہ مولانا فضل اللہ متوازی حکومت چلا رہا ہے۔ کوئی ایسی حکومت وہ نہیں چلا رہا۔ جب تم اپنی حکومت نہیں چلا سکتے تو کوئی تو چلائے گا۔ دوسرا یہ کہتے ہیں کہ وہ (پولیو کی) دوا کے خلاف ہے۔ ادویات کی کمپنیاں بھی کئی برسوں تک اپنا دوائیں مارکٹ کرنے کے بعد بند کردیتی ہیں کہ ان کے زہریلے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ تو ہوسکتا ہے کل کو پولیو کے بارے میں بھی یہ خبر آ جائے”۔

پرامن تصور کئے جانے والے سوات میں یکایک شدت پسندی میں اضافے کے بارے میں سابق رکن قومی اسمبلی کا کہنا تھا کہ مذہبی عناصر اور شدت پسندی شروع سے موجود تھی۔ “سرتور (سیاہ سر والا) فقیر نامی شخص نے برطانوی فوج کے خلاف ملاکنڈ کے مقام پر بیس ہزار مسلح افراد اکٹھے کرکے مزاحمت کی تھی تاہم وہ ہار گیا تھا “۔

ان کے بقول اصل بات ہوتی ہے کہ انہیں کیسے محدود رکھا جائے۔ “یہ حالات دوبارہ خراب موجودہ حکمرانوں کی نالائقی سے ہوئے ہیں۔ جب یہ سوات سٹیٹ تھی تو تب آپ نے سُنا ہو گا کہ رات کو بارہ بجے بھی اگر کوئی شخص اپنے گھر سے کہیں جانا چاہتا تھا تو کوئی اُسے ہاتھ بھی نہیں لگاتا تھا۔ لیکن اب ہر شخص کو خود اپنی حفاظت کرنی پڑتی ہے”۔

جب پوچھا کہ کیا اضافی فوجی مسئلے کا حل ہیں تو ان کہنا تھا کہ اب یہ فوج وہاں گئی ہے اور کافی مہینے ہوگئے ہیں۔ “میں نے لوگوں سے پوچھا کہ فوج وہاں کیا کر رہی ہے ؟ تو اُنہوں نے بتایا کہ بس پہاڑوں میں بیٹھی ہے”۔

اگر ان کا الزام درست ہے تو حکومت نے حالات خراب کرنے کے لئے سوات کو ہی کیوں چنا۔ میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ تمام ملک میں تو اسے شروع نہیں کرسکتے تھے۔ “پہلے وزیرستان، پھر باجوڑ اور اب سوات”۔ ان کا موقف تھا کہ حکومت کو جلد اقدام اُٹھانا چاہیے۔ “جب بھی آپ کسی مسئلے کے خلاف ابتداء میں اقدام نہیں کرتے تو وہ بڑھ جاتا ہے”۔

دلکش وادی سوات میں سیاحت ایک بڑا ذریعہ روزگار رہا ہے لیکن اب نہیں۔ انہوں نے اس بات پر خصوصی طور پر افسوس کیا کہ یہ سب کچھ ایسے وقت ہو رہا ہے جب حکومت نے اس سال کو سیاحت کا برس قرار دیا تھا۔ “جو کسی جاہل ملک کو دیکھنا چاہیں گے وہ یہاں آئیں گے”۔

چائے لانے والے ایک نوجوان کی جانب اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ بھی سوات سے ہے اور ڈبل ایم اے ہے لیکن بے روزگار ہے۔ “ایسے حالات میں کیا بہتری آئے گی”۔ سیاست سے تقریباً ریٹائر زندگی گزارنے والے میاں گل اورنگزیب کا کہنا تھا کہ وہ حالات کی بہتری میں اب کوئی کردار ادا نہیں کرسکتے۔ “اگر وہ مجھے کسی کمیٹی کے لیے بھی نامزد کریں گے تو میں نہیں جاؤں گا۔ حالات مزید خراب ہوں گے۔‘ ’اگر مجھے ریاست سوات واپس بھی کر دی جائے تو میں اسے درست نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی فیکٹری مجھ سے آپ لے لیں اور تباہ برباد کرنے کے بعد لوٹا دیں تو میں کیا کرسکتا ہوں؟”

آج اس کی اشد ضرورت ہے

صَبَر کے معنی

آجکل عُرفِ عام میں صَبْر کے معنی یہ لئے جاتے ہیں کہ جب کچھ نہ ہو سکے یا کر سکے تو صَبْر کر لیا۔
درحقیقت ایسا نہیں ہے ۔ صَبْر کے لُغوی معنی روکنے یا باندھنے کے ہیں ۔
لفظ صَبْر جِن معنی میں قرآن و حدیث میں اِستعمال ہوا ہے وہ مندرجہ ذیل ہیں ۔

* مُشکِل وقت یا مُصیبت میں گبھراہٹ نہ دِکھانا ۔ بے قرار نہ ہونا
* غُصّہ کی وجوہ ہوتے ہوئے غُصّہ پی جانا
* کام یا مُہم میں پامردی دکھانا یا ثابت قدم رہنا
* بدلتے حالات میں اپنا توازن قائم رکھنا یعنی اپنے آپ کو حالات کے سپُرد نہ کرنا
* دین یا نیک کام کی خاطر سختی یا زیادتی برداشت کرنا
* اپنی باری کا یا کِسی کے آنے یا کِسی سے مِلنے کیلئے اِنتظار کرنا
* کِسی کام میں یا بولنے میں جلد بازی نہ کرنا
* دولتمند نہ ہوتے ہوئے بھی دولت کے لالچ میں نہ آنا
* مال و دولت یا بڑا عُہدہ ملنے پر اپنا توازن قائم رکھنا ۔ مغرُور نہ ہو جانا ۔ تُندخُوئی اِختیار نہ کرنا
* جذبات اور خواہشات کو قابو میں رکھنا
* استطاعت ہوتے ہوئے بدلہ نہ لینا

کس منہ سے تم کو “منصفِ اعلٰی کہے کوئی

صفدر ھمدانی لندن سے لکھتے ہیں

کس منہ سے تم کو‘‘منصفِ اعلیٰ‘‘ کوئی کہے
تم نے یزیدِ وقت کے ہاتھوں پہ کر کے بیعت
انصاف کا جنازہ نکالا ہے شہر سے
تم اور تمہارے جیسے یہ سارے ضمیر فروش ستم شعار
کس منہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم
یہ جان لو کہ اس کی سزا بھی سہوگے تُم
نشے میں حکمرانی کے تُم جو ہوئے ہوگُم
یہ عہد بھی ہے اپنے زمانے کی کربلا
ہر سمت انتشار ہے ہر سمت ابتلا
اب ہو چکی عوام کی ذلت کی انتہا
خوفِ خُدا رہا نہیں حاکم کو اِک ذرا
ہونے کو ختم اب ہے مظالم کا سلسلہ
نکلیں گے سرفروشوں کے سڑکوں پہ قافلے
اب دیکھنا تو ظلم کے ماروں کے حوصلے
یہ عہد بھی ضمیر فروشوں کا عہد ہے
آزاد چاپلوس ہیں اور عدل قید ہے
صیاد مطمئن ہے مقید ہے منصفی
اس کربلا میں حق کی سپاہ بے نوا سہی
حاکم کے ظلم و جور کی اب انتہا سہی
مُٹھی میں جابروں کی مقید صبا سہی
کہنے کو در بدر مری ہر التجا سہی
لیکن یہ سچ ہے تم ہی ہو طاقت یزید کی

کل کے دو دلچسپ واقعات

پہلا واقعہ
کل یعنی 9 نومبر کو پیپلز پارٹی نے لیاقت باغ راولپنڈی میں جلسہ کا اعلان کر رکھا تھا ۔ بینظیر ایف 8/2 میں ہمارے گھر سے کوئی 600 میٹر کے فاصلہ پر زرداری ہاؤس میں قیام پذیر تھیں ۔ پولیس نے زرداری ہاؤس کا محاصرہ کر لیا ۔ بینظیر پولیس کی آنکھوں کے سامنے اپنے گھر سے نکل کر سڑک پر کھڑی اپنی کار میں آ کر بیٹھ گئیں ۔ کسی پولیس والے نے اسے نہ روکا اور نہ کسی پولیس والی نے اسے ہاتھ لگانے کی کوشش کی البتہ اس کی گاڑی کے اردگرد پولیس کی گاڑیاں کھڑی کر کے بلاک کر دیا گیا ۔دوسری طرف کمیٹی چوک راولپنڈی میں پیپلز پارٹی کے کارکن پولیس کے ہاتھوں پِٹ رہے تھے ۔ پولیس کی عورت پیپلز پارٹی کی ایک خوش پوش خاتون کی بے تحاشہ پٹائی کرتے ہوئے ٹی وی پر دکھائی گئی ۔ صحافیوں کا خیال ہے کہ بینظیر اور حکومت کے درمیان نُوراکُشتی ہو رہی ہے اور بچارے کارکن مفت میں سزا پا رہے ہیں ۔ بینظیر کی اس نظربندی پر برطانوی حکومت نے زبردست پریشانی کا اظہار کیا ۔

دوسرا واقعہ
عمران خان کو گرفتار کرنے کیلئے روزانہ مختلف مقامات پر چھاپے مارے جاتے ہیں ۔ کل یعنی 9 نومبر کو سہ پہر 4 بجے کے بعد اس نے اسلام آباد اچھی خاصی پریس کانفرنس کر ڈالی اور پھر غائب ہو گیا ۔ پریس کانفرنس کے کوئی ایک گھنٹہ بعد پولیس بمع مجسٹریٹ اسلام آباد میں جنگ گروپ کے دفتر پہنچ گئی اور عمران خان کو ڈھونڈتے رہی ۔ نہ ملنے پر آدھا گھنٹہ بعد چلے گئے ۔

مزید ٹی وی رابطے

مندرجہ ذیل ربط پر جیو ٹی وی ۔ آج ٹی وی اور اے آر آئی ون ٹی وی دیکھے جا سکتے ہیں ۔ اس ربط پر تازہ ترین خبریں بھی پڑھ سکتے ہیں ۔ یہ نشریات دیکھنے کے لئے آپ کے کمپیوٹر میں میکرومیڈیا فلیش پلیئر ہونا ضروری ہے ۔

http://www.alqamar.info/alqamarnews/gallery/gallery.php?c=123&a=10425

احتجاج کس لئے اور کیسے ؟

امریکہ نے احتجاج کیا ۔ برطانیہ نے احتجاج کیا ۔ فرانس نے احتجاج کیا ۔ اور کئی ملکوں نے احتجاج کیا ۔ ملک کے اندر سول سوسائٹی کے علمبرداروں نے اور پھر بینظیر نے احتجاج کیا ۔ سب نے صرف جمہوری قسم کے انتخابات کا انعقاد یا زیادہ سے زیادہ ایمرجنسی [دراصل مارشل لاء] کے خاتمہ کا مطالبہ کیا ۔

صرف وکلاء صاحبان اور نواز شریف کو اصل ہدف کا خیال آیا اور اُنہوں نے سب سے اہم اور ناگزیر مطالبہ کیا ۔ آخر نواز شریف کی ایماء پر بینظیر بھٹو نے بھی اس مطالبہ کو اختیار کر لیا ہے ۔


“اعلٰی عدالتوں کے اُن تمام جج صاحبان کو بحال کیا جائے جنہوں نے پی سی او کے تحت حلف نہیں اُٹھایا”

ان جج صاحبان نے اس ملک اوراس کے باشندوں کی بہتری کی خاطر اپنے اعلٰی عہدوں ۔ اپنے ذریعہ روزگار اور اپنی اور اپنے اہلِ خانہ کی عزت اور جان تک داؤ پر لگا دی ۔ ہمارے پاکستانی بھائیوں کی اکثریت اسی روزگار ۔ اسی عزت ۔ اسی جان کی خاطر اپنے منہ بند کئے کونوں کھَدروں مین دبکی بیٹھی ہے ۔ ہماری قوم کی بھاری اکثریت کو معلوم ہی نہیں کہ پی سی او کے تحت کام کرنے کا مطلب یہ ہے کہ صدر ۔ چیف آف سٹاف ۔ افواج ۔ اور حکومتی نمائندوں کے خلاف یا ان کے احکام کے خلاف کسی کو بولنے یا مقدمہ دائر کرنے کی اجازت ہو گی اور نہ پہلے سے دائر ایسے مقدموں کے سلسلہ میں مدعیان یعنی عوام کو انصاف ملے گا ۔

کسی کو یہ بھی خبر نہیں کہ آئین معطل ہونے کی صورت میں ۔ ۔ ۔>

کسی بھی شخص یعنی بوڑھا ۔ جوان ۔ بچہ ۔ عورت یا مردکو کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے گرفتار کیا جا سکتا ہے اور اسے ہر قسم کی سزا بشمول اذیت اور موت کے دی جا سکتی ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چارا جوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کی زمین ۔ مکان یا دکان پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کے کاروبار پر کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے اور بغیر معاوضہ ادا کئے قبضہ کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

کسی بھی شخص کا بنک اکاؤنٹ کسی بھی وقت بغیر وجہ بتائے منجمد کیا جا سکتا ہے اور کوئی عدالت متاثرین کی چاراجوئی نہیں کر سکے گی

اسلئے ہوش میں آؤ میرے بھائیو ۔ بہنوں ۔ بھتیجو ۔ بھتیجیو ۔ بھانجو ۔ بھانجیو ۔

ہماری قوم کی بقاء کیلئے عوام کا مطالبہ ہے کہ

ایمرجنسی فوری طور پر اُٹھائی جائے
اُن تمام جج صاحبان کو جنہوں نے پی سی او تحت حلف نہیں اُٹھایا فوری طور پر اپنی اپنی جگہوں پر بحال کیا جائے
پاکستان کا آئین 12 اکتوبر 1999ء سے پہلے والی حالت میں فوری طور پر بحال کیا جائے
تمام گرفتار وکلاء ۔ سیاسی کارکنوں اور سول سوسائٹی کے لوگوں کو فوری طور پر رہا کیا جائے
جنرل پرویز مشرف 15 نومبر 2007 سے پہلے ریٹار ہو جائیں اور آرمی ہاؤس خالی کر دیں
پاکستان کے تمام جج صاحبان اور تمام اعلٰی افسران بشمول تمام جرنیلوں اور ان کے مساوی ہوائی اور بحری فوج کے افسران کے متذکرہ بالا آئین کے مطابق حلف اُٹھائیں ۔

اس وقت کی سرکاری ڈنڈے بازوں کے ہاتھوں تھوڑی تکلیف میرا ۔ آپ کا اور ہم سب کے بچوں کا مستقبل نہ صرف محفوظ کر سکتی ہے بلکہ اس کو ماضی سے بہتر بنا سکتی ہے ۔ ہو سکتا ہے کہ اللہ نے ہماری قوم کو آزمانے کا یہ آخری موقع دیا ہو ۔ اسے کھو دیا تو پھر سوائے پچھتانے کے کچھ نہ رہے گا اور پچھتانے سے سوائے اپنا خون جلانے کے کچھ حاصل نہیں ہوتا ۔

احتجاج کے محتاط طریقے یہ ہیں ۔

1 ۔ احتجاج میں حصہ لینے والے اخبارات اور نجی ٹی وی چینلز کو ای میل یا خط بھیجیں جس میں ان کے کردار کو سراہتے ہوئے اپنے احتجاج کو مشتہر کرنے کی درخواست کریں ۔ اُنہیں لمبے خط نہ لکھیں بلکہ اپنا احتجاج بہت مختصر اور جامع الفاظ میں لکھیں ۔

جیو ٹی وی
gzks@geo.com

دی نیوز اور جنگ
editor@jang.com.pk
http://jang.net/features/comments/default.asp?camefrom=the%20news%20for%20editor

نوائے وقت
editor@nawaiwaqt.com.pk
webmaster@nawaiwaqt.com.pk

دی نیشن
editor@nation.com.pk
http://nation.com.pk/daily/nov-2007/9/feedback.php

ڈان
letters@dawn.com

2۔ عام لوگوں کو ان کے حقوق سے آگاہ کرتے ہوئے بتائیں کہ حقوق نہ ہونے کی وجہ سے کیا ہو سکتا ہے اور انہیں حاصل کرنے کیلئے جدوجہد کی ترغیب دیں
3 ۔ سٹکر یا ہینڈ بل جس پر مقاصد مختصر طور پر لکھے ہوں عوام میں تقسیم کریں
4 ۔ مختصر نعروں کی وال چاکنگ کریں
5 ۔ کالا بِلا پہنیں
6 ۔ ممکن ہو تو اپنے مکان ۔ اپنی دکان ۔ اپنی گلی میں کالا جھنڈا لگائیں
7 ۔ احتجاج کی منصوبہ بندی کرنے والی یونین ۔ ایسوسی ایشن وغیرہ سے رابطہ رکھیں تا کہ احتجاج اجتماعی اور مؤثر بنایا جا سکے
8 ۔ اپنے محلہ یا کالج کی قریبی عوامی جگہ پر درجن دو درجن افراد اچانک اکٹھے ہو کر مظاہرہ کریں اور دس پندرہ منٹ بعد غائب ہو جائیں تاکہ پولیس کاروائی نہ کر سکے
9 ۔اپنے مظاہرہ کا ایک دن سے زیادہ پہلے اعلان نہ کریں اور صرف جگہ اور دن بتائیں ۔ وقت کا اعلان صرف ایک گھنٹہ پہلے کریں ۔ نجی ٹی وی اور اخبارات کے کسی نمائندہ تک رسائی ہو تو اسے ضرور بُلائیں تاکہ وہ ٹی وی اور اخبار آپ کے مظاہرہ کی تشہیر کر سکیں ۔