وائٹ ہاؤس کی ترجمان ڈانا پرینو نے کہا ہے کہ امریکی نائب وزیر خارجہ جان نیگرو پونٹے صدر مشرف کو ’صاف اور سیدھا‘ پیغام پہنچایا ہے اور دیکھنا ہے کہ آگے کیا ہوتا ہے لیکن ان کا کہنا تھا کہ ڈپلومیسی کے نتائج فوری طور پر ظاہر نہیں ہوتے اس لیے ہم نے مذاکرات کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’ہمیں اس بات پر تشویش ہے کہ صدر مشرف نے دو ہفتے قبل لگائی جانے والی ایمرجنسی ختم کرنے کا اعلان نہیں کیا لیکن اس کے ساتھ ہی انہوں نے کہا کہ ’مشرف نے انتخابات کا اعلان کر دیا ہے، جو ایک اچھی بات ہے اور وہ وردی بھی اتار دیں گے یہ بھی پاکستانی عوام کے لیے ایک اچھی بات ہے‘۔
ان سے یہ پوچھا گیا کہ کیا صدر بش نے ایمر جنسی ختم کرنے کے لیے کوئی وقت دیا ہے؟ اور اگر دیا ہے اور اس وقت تک ایمرجنسی نہیں اٹھائی گئی تو کیا کوئی کارروائی کی جائے گی؟ تو ترجمان کا جواب تھا کہ پاکستان ایک آزاد ملک ہے اور صدر بش صرف گزارش ہی کر سکتے ہیں۔
برجیش اوپادھیائے کا کہنا ہے کہ حکومت میں تھنک ٹینک کے لوگوں اور حکومتی اہلکاروں کی بات چیت سے یہی تاثر ملتا ہے کہ امریکہ پاکستان میں ایک ایسی حکومت چاہتا ہے جس میں مشرف بھی ہوں اور بینظیر بھی ہوں اور صدر مشرف ایک جمہوری حکومت اور فوج کے درمیان ایل پُل کا کام کریں۔ ان کا کہنا ہے کہ امریکہ کو یہ ڈر بھی ہے کہ اگر انہوں نے اس وقت مشرف کے خلاف کڑے قدم اٹھائے اور مشرف ان کے نتیجے میں بھی نہیں ہٹے چاہے یہ عرصہ چھ ماہ ہی کا کیوں نہ ہو تو کیا ہو گا۔
’امریکہ کو ابھی دہشت گردی کے خلاف جنگ کے لیے اور افغانستان میں اپنی فوج کے لیے پاکستان کی ضرورت ہے کیونکہ افغانستان میں فوج کے لیے تمام سامانِ رسد اور دوسرا ساز و سامان، ایندھن وغیرہ کراچی سے ہو کر جاتا ہےاور یہ فوج کی منظوری ہی سے ممکن ہے‘۔ ایسے حالات میں امریکہ مشرف سے الگ نہیں ہونا چاہتا۔
اوپدھیائے کے مطابق امریکہ کو ابھی بھی بینظیر اور مشرف کے درمیان مفاہمت کی امید ہے اوت اسی لیے بار بار کہا جا رہا ہے کہ ڈپلومیسی کے نتائج فوری نہیں آتے۔
برجیش اوپدھیائے کون ہے؟
نعمان صاحب
برجیش اوپدھیائے بی بی سی کا نمائندہ ہے