صفدر ھمدانی لندن سے لکھتے ہیں
کس منہ سے تم کو‘‘منصفِ اعلیٰ‘‘ کوئی کہے
تم نے یزیدِ وقت کے ہاتھوں پہ کر کے بیعت
انصاف کا جنازہ نکالا ہے شہر سے
تم اور تمہارے جیسے یہ سارے ضمیر فروش ستم شعار
کس منہ سے خود کو عادل و منصف کہو گے تم
یہ جان لو کہ اس کی سزا بھی سہوگے تُم
نشے میں حکمرانی کے تُم جو ہوئے ہوگُم
یہ عہد بھی ہے اپنے زمانے کی کربلا
ہر سمت انتشار ہے ہر سمت ابتلا
اب ہو چکی عوام کی ذلت کی انتہا
خوفِ خُدا رہا نہیں حاکم کو اِک ذرا
ہونے کو ختم اب ہے مظالم کا سلسلہ
نکلیں گے سرفروشوں کے سڑکوں پہ قافلے
اب دیکھنا تو ظلم کے ماروں کے حوصلے
یہ عہد بھی ضمیر فروشوں کا عہد ہے
آزاد چاپلوس ہیں اور عدل قید ہے
صیاد مطمئن ہے مقید ہے منصفی
اس کربلا میں حق کی سپاہ بے نوا سہی
حاکم کے ظلم و جور کی اب انتہا سہی
مُٹھی میں جابروں کی مقید صبا سہی
کہنے کو در بدر مری ہر التجا سہی
لیکن یہ سچ ہے تم ہی ہو طاقت یزید کی
انکل اجمل جی۔۔۔۔۔۔۔۔۔
صعوبتوں کے سفر میں ہے کاروان حسین
یزید چین سے مسند نشین آج بھی ہے
لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جھکے گا ظلم کا پرچم یقین آج بھی ہے
میرے خیال میں دنیا حسین آج بھی ہے