مندرجہ ذیل حقائق بالخصوص ان قارئین کیلئے جنہیں حکومت نے نجی ٹی وی چینلز کو بلاک کر کے حقائق جاننے سے محروم کر دیا ہے ۔
جنرل پرویز مشرف نے 2 نومبر کو امریکی اور برطانوی حکومتوں کے اہلکاروں سے ٹیلیفون پر بات چیت کی اور پھر 3 نومبر کو ایمرجنسی کا نام دے کر مارشل لاء نافذ کر دیا ۔
جب ساری دنیا کے عوام اور ان کی اپوزیشن پارٹیوں احتجاج کیا تو ان کی حکومتیں احتجاج کرنے پر مجبور ہوئیں بالخصوص امریکہ اور برطانیہ احتجاج کرنے پر مجبور ہوئے ۔
پرویز مشرف نے اس خیال سے کہ امریکی احتجاج صرف “گونگلوآں تو مِٹی چاڑنا اے” احتجاج مسترد کر دیا ۔ [معذرت ۔ اس پنجابی ضرب المثل تشریح لمبی ہے اس لئے جو قاری نہ سمجھ سکیں کسی بڑی عمر کے پنجابی سے پوچھ لیں]
یقینی بات ہے کہ امریکہ کے سلسلہ میں بینظیر بھٹو نے بھی پاؤں دبایا ہو گا ۔
بدھ 8 نومبر صدر بُش نے پرویز مشرف کو ٹیلفون کرنے کے بعد بتایا “میں نے بے تکلف پرویز مشرف کے ساتھ بات کی اور اسے کہا کہ وردی اُتارے کیونکہ آرمی چیف اور صدر دونوں عہدے رکھنا درست نہیں اور الیکشن کے شیڈول کا اعلان کرے
بُش کا ٹیلیفون آنے کے 3 گھنٹے کے اندر اسلام آباد میں پرویز مشرف کی بنائی ہوئی سیکیورٹی کونسل کا ہنگامی اجلاس شروع ہو گیا جس کے اختتام پر پرویز مشرف نے اعلان کیا کہ اسمبلیوں کے انتخابات 15 فروری 2008 تک کسی ایک ہی دن ہوں گے اور عدالتِ عظمٰی جب صدر کے انتخابی نتائج کے اعلان کی اجازت دے گی تو وہ وردی اُتار دیں گے ۔
اس اعلان کے فوراً بعد وائٹ ہاؤس سے نیگرو پونٹے نے پرویز مشرف کے اعلان پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اپنا مؤقف دہرایا کہ پرویز مشرف نام نہاد دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کا قریبی دوست ہے
متذکرہ بالا اور اس سے قبل کے کئی دوسرے واقعات سے پوری طرح سے ثابت ہو گیا ہے کہ
پرویز مشرف امریکہ کے بل پر ہے
گر امریکہ کی پُشت پناہی نہیں
تو پرویز مشرف کچھ بھی نہیں