نئے پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کی فُل کورٹ نے صدر جنرل پرویز مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر تین درخواستوں کو خارج کردیا ہے جبکہ مخدوم امین نے اپنی درخواست واپس لے لی ہے۔ عدالت نے صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین، پمز ہسپتال کے ڈاکٹر انوارالحق اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کی درخواستوں کو درخواست گزاروں کی عدم پیروی کی وجہ سے خارج کیا ہے۔ اس کے علاوہ پیر کو پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم نے صدر مشرف کی اہلیت کے خلاف دائر درخواست بھی واپس لے لی ہے۔
[پرویز مشرف کی] سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے فل کورٹ نے جب پیر کو سماعت شروع کی تو ایڈووکیٹ آن ریکارڈ ایم ایس خٹک درخواست گزار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کی طرف سے عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ درخواست گزار کے وکیل اس کیس کی سماعت کے لئے عدالت میں حاضر نہیں ہوئے اور نہ ہی اس ضمن میں انہیں درخواست گزار کی طرف سے کوئی ہدایات ملی ہیں۔ [جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین صاحب کے تمام وکلاء3 نومبر کو مارشل لاء لگنے کے وقت سے قید کر دئے گئے ہیں] ایڈووکیٹ آن ریکارڈ محمد اکرم بھی عدالت میں پیش ہوئے اور کہا کہ پمز ہسپتال کے ڈاکٹر انوارالحق کے وکیل اے کے ڈوگر اور جماعت اسلامی کے رہنما لیاقت بلوچ کے وکیل بیرسٹر فاروق حسن بھی ان درحواستوں کی سماعت کے لئے عدالت میں پیش نہیں ہوئے اور نہ ہی انہیں اس ضمن میں کوئی ہدایات وصول ہوئی ہیں جس پر عدالت نے یہ درخواستیں خارج کردیں۔
واضح رہے کہ جنرل پرویز مشرف کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کے لئے ان کے کاغذات نامزدگی منظور کئے جانے کے خلاف صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین اور پاکستان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار مخدوم امین فہیم کی طرف سے درخواستیں سپریم کورٹ میں دائر کی گئی تھیں اور اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ان درخواستوں کی سماعت کے لئے جسٹس جاوید اقبال کی سربراہی میں ایک نو رکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔ اُس وقت اس بینچ میں شامل جسٹس سردار رضا محمد خان نے بینچ میں بیٹھنے سے معذوری ظاہر کردی تھی۔ ان کا موقف تھا کہ چونکہ وہ صدر کے دو عہدے رکھنے کے حوالے سے سپریم کورٹ میں دائر درخواستوں پر ہونے والے فیصلے میں اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں اس لئے وہ اس بینچ میں نہیں بیٹھیں گے۔ اس کے بعد اس بینچ نے 5 اکتوبر کو ان درخواستوں کی سماعت پر یہ حکم جاری کیا تھا کہ 6 اکتوبر کو ہونے والے صدارتی انتخاب کے عمل کو جاری رکھا جائے تاہم عدالت نےچیف الیکشن کمشنر کو حکم دیا کہ وہ ان درخواستوں کے فیصلے تک کامیاب ہونے والے امیداوار کا نوٹیفکیشن جاری نہ کرے۔
درخواستوں کی سماعت 2 نومبر تک جاری رہی اور سماعت کے دوران صدارتی امیدوار جسٹس ریٹائرڈ وجیہہ الدین کے وکیل اعتزاز احسن نے اس بینچ کے سامنے یکم نومبر کو درخواست دی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ حکومت اور جنرل پرویز مشرف سے یہ یقین دہانی لی جائے کہ وہ سماعت کے دوران اس بینچ میں کوئی ردوبدل نہیں کریں گے اور نہ ہی ملک میں ایمرجنسی یا مارشل لاء لگائیں گے۔ اس درخواست پر برطرف کئے جانے والے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے سات رکنی بینچ نے 3 نومبر کو ایک عبوری حکم جاری کیا تھا جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ ان درخواستوں کی سماعت تک ملک میں ایمرجنسی نہیں لگائے گی۔ لیکن 3 نومبر کی رات کو ملک میں ایمرجنسی [مارشل لاء] کے نفاذ کے بعد آئین معطل کردیا گیااور پی سی اور کے تحت حلف اُٹھانے والے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے آٹھ رکنی بینچ نے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
بشکریہ ۔ بی بی سی اُردو