میں نے انصار عباسی کا یہ مضمون 12 ستمبر کو پوسٹ کیا تھا ۔ اس کی مزید ضرورت ہے
قوم انتہائی ذہنی دباؤ کا شکار ہوچکی ہے لوگ سوال کرتے اور بحث کرتے ہیں کہ پاکستان میں کیا ہو رہا ہے؟ کیا ہم اب آزاد اور خود مختار ملک رہ گئے ہیں؟ کیا ہم میں اب عزت نفس کی رمق بھی بچی ہے؟ سابق وزیراعظم نواز شریف کی جبری جلا وطنی نے ہماری روحوں کو زخمی کر دیا ہے ۔ عدم تحفظ نے ہمیں پھر لپیٹ میں لے لیا ہے۔ کوئی نہیں جانتا ارباب اقتدار ہم میں سے کسی کے ساتھ کیا کریں گے۔ اگر سابق وزیراعظم کو قانون، آئین اور عدالت عظمیٰ کے واضح فیصلے کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ملک بدرکیا جا سکتا ہے تو پھر عام آدمی کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہ جاتی۔
صدر پرویز نے اپنی کتاب ان دی لائن آف فائر میں اعتراف کیا کہ القاعدہ کے 600 سے زائد ارکان کو امریکا کے حوالے کر چکے ہیں مگر ایک پتّہ بھی نہیں ہلا اورکیا کسی کو خیال آیا کہ صدر غیر ملکیوں کو جلا وطن کرسکتا ہے اور وہ بھی صرف اُن کے اپنے ملکوں میں۔ ملک بدری کے قانون کا اطلاق اس ملک [پاکستان] کے بدقسمت شہریوں پر نہیں ہوتا۔ [اپنے] وطن کے کسی شہری کو صرف اس ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے جس کے ساتھ مجرموں کی حوالگی کا معاہدہ کیا گیاہو ۔ اس صورتحال میں بھی دو شرائط سامنے آتی ہیں اگر اس پاکستانی شہری نے متعلقہ ملک کے خلاف کوئی جرم کیا ہو اور پھر اسے حوالے کرنے کی درخواست کا مکمل عدالتی عمل کے ذریعے فیصلہ کیا جائے جس میں اس شخص کو اپنے دفاع کا پورا موقع دیا جائے ۔ اگر انکوائری افسر اسے متعلقہ ملک کے حوالے کرنے کی منظوری دیتا ہے تو ملزم شخص کو پہلے ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ میں اپیل کا حق دیا جاتا ہے۔ یوں عدلیہ کی اجازت کے بغیر کسی مجرم کو بھی کسی دوسرے ملک کے حوالے نہیں کیا جا سکتا ۔
صدر جنرل پرویز مشرف اور ان کی حکومت سے صرف ایک سادہ سا سوال پوچھا جا سکتا ہے ۔ آیا القاعدہ کے نام نہاد ارکان اور نواز شریف کو قانون کے مطابق ملک بدر کیا گیا ؟ جو اب بہت بڑی ناں میں ملے گا۔ جن ملکوں کو ہم نے اپنے شہری بکریوں کے ریوڑ کی طرح دیے ہیں کیا ان سے ہم بھی یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ اپنے آئین قانون اور لوگوں کے بنیادی حقوق کو نظر انداز کر کے ایسا ہی کرینگے؟ لہٰذا ہمارا معاملہ یہ ہے کہ کسی فرد کو بھی کسی بھی ملک کے حوالے کیا جا سکتا ہے ۔ حیرت ہے کہ ہمیں آئین قانون اور پالیسیوں کی ضرورت کیا ہے جب ہمیں ان کا کوئی احترام نہیں؟ عدالتیں بند کر دینی چاہئیں کہ جب حکومت کو ان کی کوئی پرواہ نہیں۔ تو پھر لوگوں کے پاس کیا راستہ بچتا ہے؟ پیر کو ایم کیو ایم کے کارکنوں نے اپنے لیڈر کے اکسانے پر سندھ ہائی کورٹ کا ایک لحاظ سے گھیراؤ کر لیا اور اسے 12مئی کے واقعات کے حوالے سے سماعت ملتوی کرنا پڑی۔ بہت خوب الطاف بھائی۔ الفت میں اٹھنے والی راجہ محمد ریاض کی آواز خاموش کر دی گئی جو سندھ ہائیکورٹ بار کے رکن تھے۔ اسلام آباد میں کسی کو دکھ ہوا ؟ کسی نے مذمت کی ؟ ہم کہاں جا رہے ہیں؟ حکمرانوں کو تو کوئی پریشانی نہیں مگر اس ملک کی سول سوسائٹی کیوں چپ ہے؟ ہم کس کا انتظار کر رہے ہیں ؟
محض ایک پارٹی یا دوسری کو لعن طعن کرنے سے کام نہیں چلتا یہ ڈرائنگ روم کی بحث ہے۔ ملک کی موجودہ صورتحال بہت ہی پیچیدہ ہے جس کے لیے غیر معمولی جدوجہد کی ضرورت ہے جس میں معاشرے کا ہر فردشریک ہو۔ پاکستان کو بچانے اور محفوظ بنانے کے لیے ایک اپنا کوئی راستہ اختیار کر لیں مگر کچھ کریں ضرور کچھ عملی اقدام۔ عام لوگوں میں جو حکومتی مشینری کاحصہ ہیں اور کلیدی عہدوں پر بھی بیٹھے ہیں ان پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ حکمرانوں کی چاکری کرنے کے بچائے ملک و قوم کی خدمت کرنی چاہئیے۔ پُرکشش عہدے آؤٹ آف ٹرن ترقی استحقاق یا اتھارٹی یہی ان کی توجہ کے مرکز ہیں مگر یہ سب ملک سے مشروط ہیں سول بیورو کریسی کو صرف یاد دلانے کی ضرورت ہے کہ حالیہ عرصے میں اگر قانون آئین اور قواعد کے خلاف اتنا کچھ ہوچکا ہے مگر کتنے افسر ہیں جنہوں نے غیر آئینی احکامات ماننے سے انکار کیا ہو ؟ اس سلسلے میں صرف ایک نام یاد آتا ہے جو سندھ کے سابق چیف سیکرٹری شکیل درانی تھے۔