محسوس ہوتا ہے کہ لبنانی امریکی جبران خلیل جبران [1883 – 1931ء] نے یہ فقرے آج کی پاکستانی قوم کیلئے کہے تھے
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو کپڑا پہنتی ہے جو اس نے بُنا نہیں ۔ اناج کھاتی ہے جو اس نے اُگایا نہیں
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے افراد کی خوبی ٹانکا لگانے اور نقل کرنے کا فن ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو طیش کو اپنے تخیّل میں بُرا سمجھتی ہو مگر عمل میں اس کی اطاعت کرتی ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے اعتقادات تو بہت ہوں مگر دِل دین سے خالی ہوں ۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو گروہوں میں بٹی ہو اور ہر گروہ اپنے آپ کو قوم سمجھتا ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جس کے سیاستدان یا صاحبِ تدبیر فریبی اور مفّکر مداری ہوں ۔
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اَینٹھے خان [bully] کو اپنا سورما [hero] سمجھتی ہو
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی آواز بلند نہیں کرتی سوائے جب جنازہ کے ساتھ چلے ۔ کسی کی تعریف نہیں کرتی سوائے مرنے کے بعد ۔ اور سرکشی اس وقت تک نہیں کرتی جب تک کہ موت سامنے نہ آ جائے
:shock:
قابلِ رحم ہے وہ قوم جو اپنی آواز بلند نہیں کرتی سوائے جب جنازہ کے ساتھ چلے ۔ کسی کی تعریف نہیں کرتی سوائے مرنے کے بعد ۔ اور سرکشی اس وقت تک نہیں کرتی جب تک کہ موت سامنے نہ آ جائے
ؔاپ پاکستانی قوم کا زکر تو نہیں کر رہے :mad:
الف نظامی اور روسی شہری صاحبان
آپ آج کے حالات سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ متذکرہ فقرے پاکستانی قوم کیلئے ہی لگتے ہیں ۔