ہمارے جنرل صدر صاحب
میں آپ پر کالم نہیں لکھنا چاہتا تھا۔ نہ ہی آپ کی وردی اور نہ ہی کوٹ پینٹ پر۔ نہ ہی آپ کے فوجی آپریشن اور نہ ہی سولین آپشن پر، نہ ہی آپ کی جمہوریت اور نہ ہی آمریت پر۔ مگر آج لکھ رہا ہوں۔ اور اس کی اگر کوئی وجہ ہے تو صرف آپ ہیں، صرف آپ۔ آپ نے مجھے مجبور کیا بلکہ میں یہ کہوں گا کہ آپ بندوق کے زور پر مجھ سے یہ سب لکھوا رہے ہیں۔
آپ کو پاکستان کا اقتدار سنبھالے آٹھ برس ہو چکے ہیں۔ آپ صرف وردی میں آئے تھے اور اس کے بعد وردی اور سوٹ میں آنا شروع ہو گئے۔ اگرچہ مجھے آپ کی پہلی تقریر بھی آپ سے پہلے آنے والے جرنیلوں خصوصاً جنرل ضیاء کی تقریر سے مختلف نہیں لگی تھی لیکن کیونکہ انسان کی اچھائی پر ایمان ہے اس لیے سمجھا کہ شاید یہ شخص سچ بول رہا ہے اور واقعی یہ ملک کا اچھا کر کے وعدے کے مطابق جلد چلا جائے گا۔ لیکن آپ نہیں گئے اور وعدے پر وعدے کرتے رہے۔ میں اور میرے ساتھ پاکستان کے سولہ کروڑ عوام چپ رہے۔
پھر گیارہ ستمبر ہوا اور آپ کو ٹی وی پر دیکھا، مشکل فیصلے کا بہانہ بنا کر آپ پھر ڈٹ گئے۔ اس مرتبہ آپ کی وردی مغرب کو سوٹ نظر آئی اور انہوں نے آپ کو اتحادی بنانے میں ذرا بھی تعمل نہیں کیا۔ لیکن پاکستان کے باسی آپ سے کچھ خائف نظر آنے لگے۔ میں اس وقت بھی یہ سمجھا کہ دراصل یہ ہماری ہی نظر کا قصور ہے کہ ہم آپ کی اچھائیاں نہیں دیکھ پا رہے اور آپ کی ضرورت کو محسوس نہیں کر رہے۔ کرپٹ سیاستدانوں کے ملک سے چلے جانے کے بعد کسی وسعت النظر رہنما کی ضرورت تھی اور شاید ہم کم عقلوں کو آپ کی وہ اچھائیاں نظر نہیں آ رہی تھیں۔
آپ نے ’کرپٹ‘ سیاستدانوں کو اتنا برا بھلا کہا کہ ہمیں یقین ہو گیا کہ ان کو کسی صورت بھی قبول نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن پھر آپ نے اپنے ارد گرد انہیں لوگوں کو دوبارہ جمع کرنا شروع کر دیا۔ گجرات کے چوہدریوں سے کون واقف نہیں ہے اور اگر آپ انہیں نہیں جانتے تو مجھے افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ آپ کم از کم پاکستان پر حکومت کرنے کے اہل نہیں ہیں۔ اس کے علاوہ وہی سب لوگ آپ کے ساتھ ہوئے جو کرپٹ سیاستدانوں کے ساتھ تھے۔ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں ایک ایک کا نام لکھنا شروع کر دیتا ہوں۔ فہرست بڑی لمبی ہو جائے گی اس لیے میں اصل بات کی طرف آتا ہوں۔
نواز شریف کو پکڑنے سے لے کر دو مرتبہ ملک بدر کرنے تک، وزیرستان میں آپریشن سے لے کر بگٹی کی موت تک، اور’ کرپٹ‘ سیاستدانوں سے لے کر انہیں مفاہمت کے پھول پیش کرنے تک آپ نے آج تک جو بھی کیا ہے پاکستان کے اچھے کے لیے کیا ہے۔ آپ یہ بار بار دوہراتے ہیں اس لیے ٹھیک ہی کہتے ہوں گے۔ جب آپ نے امریکہ میں پاکستان کی عورت کی یہ کہہ کر بے عزتی کی کہ جس نے غیر ملک میں سیاسی پناہ لینا ہوتی ہے وہ عزت لٹنے کا بہانہ بنا لیتی تو اتنا غصہ آیا کہ دل چاہا کہ آپ کو لکھوں کہ آپ کو حکومت کرنا تو درکنار بات کرنے کی بھی تمیز نہیں ہے لیکن پھر سوچا کہ غصے میں فیصلہ کرنا دانشمندی نہیں۔ اس لیے چپ رہا۔
لیکن آپ کی اور صرف آپ کی وجہ سے وہ غصہ اب شرمندگی بننے لگا ہے اور ڈر ہے کہ کہیں شرمندگی غصہ نہ بن جائے اس لیے رہا نہیں جا رہا۔ مجبور ہو کر لکھ رہا ہوں اور میں پہلے بھی کہہ چکا ہوں کہ اس میں قصور آپ کا ہی ہے۔ آپ نے پاکستان پر آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد حال ہی میں کہا ہے کہ یہ ملک تباہی کے دہانے پر ہے اور ایک خطرناک موڑ پر پہنچ چکا ہے۔ بقول آپ کے ’اندرونی انتشار کا شکار ہے‘ اس لیے تکلیف دہ فیصلوں کا وقت ہے اور اگر ایسا نہ کیا گیا تو خدانخواستہ پاکستان کی سالمیت کو خطرہ ہے۔‘
اگر آپ ایمانداری سے ایک منٹ کے لیے آنکھیں بند کر کے یہ سوچیں کہ آپ کے آنے سے پہلے اس کا کیا حال تھا تو شاید آپ کو معلوم ہو جائے کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کارگل کی جنگ کا ہیرو کون تھا، کیا ہو جاتا کہ ایک سویلین وزیرِ اعظم ایک آرمی چیف کو برطرف کر کے کسی دوسرے کو چیف بنا دیتا۔ آخر اتنی بڑی کیا بات ہو گئی تھی، آرمی سے ہی کوئی چیف بنایا جا رہا تھا کہ نواز شریف خود کو ہی بلے لگا رہا تھا۔ آپ نے نہ صرف حکومت کا تختہ الٹا، بلکہ منتخب وزیرِ اعظم کو گرفتار کیا اور بعد میں کسی ڈیل میں انہیں ملک بدر کر دیا۔ میں آج تک یہ سمجحھ نہیں پایا کہ آپ کسی شہری کو کیسے ملک بدر کر سکتے ہیں اور بعد میں تقریروں میں دھڑلے سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ پاکستان نہیں آ سکتے کیونکہ یہی معاہدہ ہے۔
جنرل صدر صاحب میں معذرت کے ساتھ کہہ رہا ہوں کہ آپ نے اس وقت بھی سچ نہیں بولا تھا اور اب بھی سچ نہیں بول رہے۔ اس وقت بھی پاکستان پہلے نہیں بلکہ آپ کی ذات پہلے تھی اور اب بھی پاکستان نہیں آپ کی ذات پہلے ہے۔ کیونکہ نہ تو آپ سے اُس وقت وردی کا اترنا برداشت ہوا تھا اور نہ ہی اب ہو رہا ہے اور اس کے اوپر یہ کہ آپ تیسری مرتبہ صدر بننے پر بھی مصر ہیں۔
جناب جنرل صدر صاحب مہربانی کر کے مجھے بتائیں کہ آخر آپ میں اور ان کرپٹ سیاستدانوں میں فرق کیا ہے۔ وہ بھی تو اقتدار کا دوام ہی چاہتے تھے اور آپ بھی یہی چاہتے ہیں۔
میں آج کل مصر کے فرعونوں پر ایک کتاب پڑھا رہا ہوں کہ کس طرح وہ زندگی میں اور مرنے کے بعد بھی ’زندہ‘ رہنا چاہتے تھے۔ انہوں نے بھی تمام عمر حکومت کی جو آپ بھی کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن وہ اس وقت کے خدا تھے۔ میں آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ کیا آپ خدا ہیں اور اگر ہیں تو صاف صاف کہہ دیں تاکہ لوگوں کو تو صبر آ جائے گا اور وہ شاید آپکو قبول کر لیں۔
جـنرل صدر صاحب میں مانتا ہوں کہ آپ کے دور میں میڈیا کو آزادی ملی لیکن جناب والی کیا آج کے دور میں میڈیا کو غلام بنایا جا سکتا ہے۔ اور جنہوں نے بھی یہ کیا ہے ان کا حشر دیکھ لیں۔ فوجی آمروں سمیت سابق سویت یونین کی مثال اور صدام کا حشر ہمارے سامنے ہے۔
آپ ٹھیک کہتے ہیں کہ ملک تنزلی کی طرف جا رہا ہے اور اس کی سالمیت کو خطرہ ہے۔ اس کے لیے بہت اچھا ہو گا کہ مہربانی فرما کر آپ اس کا پیچھا چھوڑ دیں۔ آپ اسے اس کے حال پہ چھوڑ دیں، اس کا ٹھیکہ صرف آپ نے ہی نہیں اٹھایا ہوا۔ اگر اس کی قسمت میں تباہ ہی ہونا ’جیسا کہ آپ نے کہا ہے‘ تو اسے تباہ ہونے دیں۔ لیکن خدا کے لیے ایک پاکستانی کو دوسرے پاکستانی کی گردن کاٹنے پر مجبور نہ کریں، ایک پولیس والے کو ایک سویلین پر گولی چلانے اور عدالتوں کی بے حرمتی پر مجبور نہ کریں۔ ایک کو دوسرے سے نہ لڑوائیں۔
جناب جنرل صدر صاحب میں بڑی دیانتداری سے آپ کو بتا رہا ہوں کہ نہ آپ فرعون ہیں اور نہ ہی خدا۔ اس لیے یہ کہنا فضول ہے کہ آپ ہی درست ہیں اور باقی سب غلط۔ آج پندرہ نومبر ہے اور مجھے امید تو نہیں ہے کہ موقع کی مناسبت سے آپ کو میرا یہ مشورہ سمجھ آ جائے گا لیکن کیا کروں کہ میں انسان کی اچھائی پر اپنا یقین نہیں چھوڑ سکتا۔
ایک عام شہری