مجھے لگا کہ جنرل مشرف اس انکل کی طرح بات کر رہے ہیں جن سے کبھی کبھار آپ کی خاندانی تقریب میں ملاقات رہی ہوگی۔ جب سب مہمان سو جاتے ہیں لیکن وہسکی کی بوتل میں تھوڑی بچی ہوتی ہے۔ انکل مُصر رہتے ہیں کہ ایک اور پیگ بناؤ تو ساری دنیا کے مسئلے ابھی حل کرتا ہوں۔ ’اور تمہاری آنٹی کی ایسی کی تیسی، میں کسی سے نہیں ڈرتا، تم میرے بیٹوں کی طرح ہو۔ پانی ذرا کم ڈالو۔‘
بی بی سی اردو ڈاٹ کام کے محمد حنیف کے تجزیہ سے اقتباس جاری ہے
ظاہر ہے میں یہ سوچ بھی نہیں سکتا کہ دنیا کی سب سے بڑی اسلامی فوج کا سربراہ ٹی وی پر آ کر ایسی حرکت کر سکتا ہے۔ حقیقت اس سے بھی خطرناک تھی۔ جنرل مشرف کسی آؤٹ آف دی باڈی تجربے سے گذر رہے تھے۔ شیروانی پہن کر وہ ایک ایسی تقریر کر رہے تھے جو وردی والے جنرل مشرف نے لکھی تھی۔ جنرل مشرف انگلی ہلا ہلا کر صدر مشرف پر الزامات لگا رہے تھے۔ یہ ہیں کچھ باتیں جو انہوں نے اپنی تقریر میں کہیں۔
— جی ہاں، انہوں نے کہا کہ ایکسٹریمسٹ بہت ایکسٹریم ہو گئے ہیں۔
— ہم سے اب کوئی ڈرتا ہی نہیں
— حکومت کے اندرایک اور حکومت چل رہی ہے
— ہر وقت بس کورٹ کے چکر لگاتے پھر رہے ہیں
— اسلام آباد میں ایکسٹریمسٹ بھرے پڑے ہیں
جنرل مشرف نے ایمرجنسی لگانے کا ذکر بھی سرسری طور پر ہاتھ ہلا کر کیا اور کہہ دیا آپ لوگوں نے ٹی وی پر دیکھ ہی لیا ہوگا۔ یہ تک نہیں بتایا کہ سارے ٹی وی چینل تو میں نے بند کر دیئے ہیں۔
میں نے سوچا انکل ٹھیک ہے۔ ہم ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ جمہوریت یا بنیادی حقوق مانگ سکیں لیکن کیا ہم درست گرامر کے بھی حقدار نہیں ہیں؟
یہ اس لحاظ سے بھی تاریخی تقریر تھی کہ اس میں کسی کی بیٹی کی شادی کی تاریخ کا ذکر ہوا۔ ’جج میرا فیصلہ دینے کی بجائے اپنے کولیگ کی بیٹی کی شادی اٹینڈ کرنا چاہتے ہیں‘۔
اور جنرل مشرف کے لیے بس یہ دل کرتا ہے کہ بوتل چھپا کر کہا جائے کہ ’انکل رات بہت ہوگئی۔ اب سو جائیے۔‘
یہ تبصرہ واقعی بہت منفرد اور دلچسپ ہے۔ میں نے بھی آج صبح ہی اسے بی۔بی۔سی پر پڑھا تھا۔ ویسے آپ کے ہاں حالات کیسے ہیں اب؟