یونیورسٹی کے ایک طالب علم نے چھٹیوں می ایک دینی مدرسے میں جانا شروع کیا ۔ ایک دن معلِم نے بتایا کہ الہام اب بھی ہوتا ہے یعنی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اب بھی انسانوں سے ہم کلام ہوتے ہیں بشرطیکہ انسان کی نیت نیک ہو ۔ نوجوان بہت حیران ہوا ۔ مدرسے سے گھر کو روانہ ہوا تو کار میں بیٹھتے ہوئے امتحان کی خاطر اس نے دعا کی “یا اللہ ۔ آپ میرے ساتھ بات کریں تو میں میں آپ کا تابعدار بن جاؤں گا”۔
وہ کار چلاتے جا رہا تھا کہ اس کے ذہن میں آیا “کیوں نہ میں اگلے چوک سے داہنی طرف طرف مُڑ جاؤں”۔ اس پر وہ ہنسا اور خود سے کہنے لگا “پاگل ہو گئے ہو کیا؟ یہ سڑک تو تمہیں نمعلوم کہاں لے جائے گی”۔ اور وہ چوک سے گذر گیا لیکن داہنی طرف مُڑنے کا خیال اُسے تنگ کرنے لگا ۔ آخر اس نے اگلے چوک سے کار کو واپس موڑا اور پہلے والے چوک پر پہنچ کر بائیں جانب مڑ گیا ۔
تھوڑی دیر بعد وہ ایک چھوٹے قصبے کی دکانوں کے سامنے سے گذر رہا تھا ۔ وہاں دکانوں پر دودھ کے بڑے پیکٹ دیکھ کر اس کے ذہن میں آیا کہ ایک بڑا پیکٹ دودھ کا خرید لوں تو اس نے کہا “یا اللہ ۔ کیا یہ آپ نے مجھے کہا ہے ؟”۔ کوئی جواب نہ آنے پر وہ کار چلاتا رہا ۔ لیکن پھر ایک اور دودھ کی دکان دیکھ کر اس کے ذہن میں وہی خیال آیا ۔ اس نے سوچا کہ دودھ کہیں نہ کہیں کام آ ہی جاتا ہے اور بُڑبڑایا “اللہ جی ۔ آپ کہتے ہیں تو دودھ لے لیتا ہوں” ۔ اس نے دودھ خریدا اور چل پڑا ۔
دکانیں ختم ہونے کے بعد ابھی تین بلاک فلیٹوں کے گذرے تھے کہ اس نے بے خیالی میں بریک لگا دی ۔ گاڑی کھڑی ہو گئی تو وہ خال ذہن سے بائیں طرف کے فلیٹوں کو دیکھنے لگا ۔ اچانک اسے احساس ہوا کہ وہ اپنے گھر سے بہت دور نکل گیا ہے اور رات بھی کافی گذر چکی ہے ۔ اس نے گھڑی دیکھی تو گیا بجے تھے ۔ کار موڑنے لگا تو اس کی دودھ کے پیکٹ پر نظر پڑی ۔ اس کے ذہن میں آیا کہ “میں تو دودھ پیتا نہیں ۔ کیوں نا یہ دودھ سامنے والے فلیٹ میں دے دوں” پھر بڑبڑایا “یا اللہ ہے کیا آپ کا حکم ہے ؟ لیکن آدھی رات ہونے کو ہے اور لگتا ہے سب سوئے ہوئے ہیں اگر فلیٹ والا مجھ پر برس پڑا تو “۔ لیکن تحریک مظبوط تھی اور وہ بادلِ نخواستہ دودھ کا پیکٹ تھامے کار سے نکلا اور سامنے والے فلیٹ کی گھنٹی بجا دی ۔
دروازے پر لگا گھنٹی کا بٹن دبا کر وہ ڈر سے بھاگنے ہی والا تھا کہ اندر سے آواز آئی “تم کون ہو اور کیا چاہتے ہو ؟” وہ رُک گیا اور جونہی ایک مرد دروازے میں نمودار ہوا اُس نے دودھ کا پیکٹ اس کے ہاتھ میں تھما دیا ۔ اندر سے آنے والا مرد اسے رُکنے کا کہہ کر اندر کی طرف بھاگا ۔ ایک منٹ بعد اس نے ایک عورت کو دودھ کا پیکٹ پکڑے باورچی خانہ کی طرف تیزی سے جاتے دیکھا اور وہ مرد اس عورت کے پیچھے ایک دو تین سالہ بچے کو اٹھائے آ رہا تھا ۔ اس نے عورت کی آواز سُنی “میں اللہ سے دعا کر رہی تھی کہ یا اللہ بچہ کل سے بھوکا ہے تو رحیم ہے کریم ہے اور رازق بھی ۔ سب کچھ تیرے اختیار میں ہے ۔ ہم بھوکے رہ لیں گے لیکن اس بلکتے بچے پر اپنا کرم فرما ۔ انسانی وسیلے ہمارے ختم ہو چکے ہیں ۔ تو کسی فرشتے کو ہی اس بچے کی مدد کیلئے بھیج دے”۔ چند منٹ بعد مرد نے آ کر اُسے بتایا کہ اس کی تنخواہ اس ماہ یوٹیلیٹی بل زیادہ ہونے کی وجہ سے ختم ہو گئی اور وہ دو دن سے بھوکے ہیں مگر بچے کا بھوک سے بِلکنا اُن سے برداشت نہیں ہو رہا تھا ۔
اُس نے اپنی جیبوں سے تمام نقدی نکال کر اُس مرد کے ہاتھ میں تھمائی اور تیزی سے اپنی کار میں بیٹھ کر سٹارٹ کر دی ۔ وہ جذبات سے مغلوب آنسو بہاتا ہوا اللہ سے اپنے پچھلے گناہوں کی معافی مانگتا گھر پہنچا اور بغیر کچھ کھائے پئیے اُسی طرح پڑ کر سو گیا ۔ اگلے دن وہ اپنے آپ کو بہت سکون میں محسوس کر رہا تھا ۔
بہت جذباتی کہانی ہے
یه کیا آپ کی آپنی تحریر ہے؟؟
یه کیا لکھ دیا ہے جی آپ نے ؟؟
اللّه جی مجهے عقل دیں ـ میرے تو پاؤں کے نیچے سے نکل گئی ہے یه بات ـ
پُر فساد تحریر ہے
اور جذباتی لوکوں کی روحانیت کی تسکین اور دوکانداری ـ
کسی شرابی کی شراب پینے سے پہلے والی فیلینگز بهی کچھ اسی طرح کی هوتی هیں اور
ایک بدکار کی ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ ـ
میں ایسی تحریر کی مذمت کرتا هوں ـ
انکل جی ، بہت اچھی حکایت ہے ، مگر شاید خاور اسے سمجھ نہیں پائے ۔ ۔ ۔ قرآن میں سورہ الناس میں اللہ تعالٰی ، شیطان کے وسوسوں سے بچاؤ کی دعا کی ترغیب دیتے ہیں ، یہ وہ ہی غلط سوچیں ہیں جو برائی کی طرف لے جاتیں ہیں ، جبکہ دوسری طرف اللہ تعالٰی ہمیں بتاتے ہیں کہ جنکو اللہ نیک راستے پر چلانا چاہتا ہے انہیں نیک ہدایت دیتا ہے اور یہ ہدایت بھی نیک سوچ کا نتیجہ ہوتی ہے ۔ ۔ ۔
جی ہاں اللہ ہمکلام ہوتا ہے ، مگر شاید ہم اسے سمجھ نہیں پاتے ۔ ۔ ۔ شرابی کبابی سے بھی ہمکلام ہوتا ہے ، مگر وہ رحمان کے بجائے شیطان کی بات مانتا ہے ۔ ۔ ۔
روحانیت ، مسلمانوں میں تصوف ، عیسائیوں میں “راہ کلواری” ، یہودیوں میں اور بدھوں میں مراقبہ اور ہندؤں میں بھی کسی شکل میں موجود ہے ۔ ۔۔
مگر سچائی کو سمجھنے کے لئے ، بہت کٹھن راستوں سے گذرنا پڑتا ہے ۔ ۔ ۔ روح اور جسم کی جنگ ، ایسی ہی ہے جیسے کفر اور اسلام کی جنگ ۔ ۔
اللہ ہمیں نیک ہدایت دے (آمین)
بوھت اچھی ،
yanee khuda abhee bhee wahi karta hai?? :s
شعیب صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ انسان میں سے جذبات کو نکال دیا جائے تو وہی کچھ رہ جاتا ہے جو گنے میں سے رس نچوڑ لینے کے بعد رہ جاتا ہے ۔
خاور صاحب
یہ الفاظ میرے ہیں لیکن واقعہ ایک ایسے شخص کا ہے جس نے استاذ کی بات کا مذاق اُڑایا کہ اللہ اپنے بندوں سے جب چاہے کلام کر سکتا ہے ۔ اس نے سوال کیا کہ “اب بھی؟” تو استاذ نے کہا “ہاں”۔ اس نے اپنے ہم جماعت لڑکوں سے بات کی تو ان کی اکثریت نے استاذ کی بات کو صحیح کہا ۔ اسے ایک ساتھی نے کہا “تم اللہ پر یقین رکھو تو بے شک گناہگار ہو اگر اللہ چاہیں تو تجھ سے غیرمحسوس طور پر کلام کر سکتے ہیں”۔ اس کے بعد وہ گھر کی طرف چلا۔
شرابی کی حالت کب کیا ہوتی ہے اس کا مجھے تجربہ نہیں ہے کیونکہ میرے آباؤ اجداد ۔ بھائیوں ۔ بیٹوں ۔ بھتیجوں اور بھانجوں میں کوئی سگریٹ بھی نہیں پیتا ۔ البتہ مجھے اس عمل پر افسوس ضرور ہے کہ آپ نے بات کو سمجھنے کی کوشش نہیں کی اور مذمت کر دی گو اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکہ حقیقت کو نہ میں جھٹلا سکتا ہوں نہ آپ ۔
اظہرالحق صاحب
یہ تصوّف کی بات نہیں بلکہ عام آدمی کے متعلق ہے ۔ میں آپکی اس بات سے متفق ہوں کہ بعض عیسائی ۔ یہودی ۔ سکھ اور ہندو بھی اپنے اپنے طریقہ سے اللہ کی طرف رجوع کرتے ہیں اور اللہ چاہیں تو انہیں ھدائت دے سکتے ہیں
یوچھی صاحبہ
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ کے دو لفظ ہی اپنے اندر لمبی تحریر رکھتے ہیں ۔ جزاک اللہ خیرٌ
کہانی ہے یا حقیقت لیکن جذباتی ہے اور ہم جیسے جذباتی لوگوں کے آنسو بہانے کے لئے کافی ۔ دکھ تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے دل اتنے کالے اور دماغ اتنے ماوف ہوچکے ہیں کہ اپنے رب کی آواز ہی نہیں سن سکتے !
” جذباتی لوکوں کی روحانیت کی تسکین ” خاور نے نہ معلوم یہ بات کس زاویئے سے کی ہے لیکن بات بڑی گہری ہے اور اس پر سوچا جانا چاہیئے ۔ کچھ لوگ روحانیت کو جذبات کی تسکین کہتے ہیں جیسے مولانا مودودی نے اس کے لئے چنیا بیگم کی اصطلاح استعمال کی تھی ۔ اسی طرح یہ رو دینا اور اس طرح کے جذبات سے بھرپور تقاریر اور تحاریر کو بھی اسی کیٹیگری میں لایا جاتا ہے کہ اس لوگ عمل سے دور بھاگتے اور اپنے آپ کو ایک تصوراتی اور خیالی دنیا میں محسوس کرکے خوش ہوتے ہیں ۔
برائے مہربانی تصحیح کیجئے :
“کیٹیگری میں لایا جاتا ہے اور کہا جاتا ہے کہ اس طرح کے لوگ اس طریقے سے عمل سے دور بھاگتے ہیں اور اپنے آپ کو ایک تصوراتی اور خیالی دنیا میں پاکر خوش ہوتے ہیں ۔”
سبحان اللہ، اللہ بہت بڑا ہے وہ جیسے چاہے، جس طرح چاہیے کر سکتے ہے، اس طرح کے واقعات ہماری روزمرہ کی زندگی میں اکثر پیش آتے رہتے ہیں، مگر ہم غافل لوگ کبھی اس پر توجہ ہی نہیں دیتے۔
وقار علی روغانی صاحب
یہ امریکہ کے ایک شہر میں ہونے والا حقیقی واقعہ ہے جسے میں نے مختصر کر کے اپنے الفاظ میں لکھاہے ۔ آپ نے انسان کی جس خُو کا ذکر کیا ہے میں اسے جذباتیت کا نام دیتا ہوں ۔ جذبات اچھی چیز ہے لیکن جذباتی ہونا اچھی بات نہیں ۔ ہماری قوم کی اکثریت جذباتی ہے ۔ دینی معاملات ہوں محبت ہو یا نفرت ۔ سب میں جذباتی ۔ اسی وجہ سے ہم آج پستی کا شکار ہیں ۔ لوگوں نے رسم و رواج کو دین کا نام دے رکھا ہے ۔ دین جذبات کی تربیت کرتا ہے اور انسان کے برتاؤ میں توازن پیدا کرتا ہے ۔ کوئی سائنس کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے تو کوئی دینی مدرسہ کو ۔ درمیان میں ٹکتے ہی نہیں جبکہ اللہ تعالٰی نے میانہ روی کا حکم دیا ہے ۔
اگر آپ خدا اب بھی ہمکلام ہوتا ہے کے علاوہ کوئی موضوع چنتے تو شاید اس واقعے پر خاور صاحب کو اعتراض نہ ہوتا۔
یہ حقیقت ہے کہ بعض اوقات انجانے میںآپ ایسا عمل کر گزرتے جو آپ کو یا آپ کے آس پاس کسی کو فائدہ پہنچا دیتا ہے اور بعد میںآپ سوچتے رہ جاتے ہیںکہ آپ کا ارادہ ایسا تو نہیںتھا۔ مثلا ہمارے شہر میںایک امیر شخص کو چوروں نے لوٹنے کے بعد اتنا مارا کہ وہ بیہوش ہوگیا۔ اس کے چند گھنٹے بعد اس کے دوست سرراہ اس کی خبرگیری کیلیے اس کے گھر آئے تو انہوںنے اسے ہسپتال پہنچایا اور اس کی جان بچی وگرنہ وہ اکیلا گھر میںمر کھپ جاتا۔
اپنے اپنے دل کی بات ہے۔ کوئی اسی سے ہدایت پا لے گا اور کوئی مزید گمراہ ہوجائے گا۔
یہ کوئی چین میل لگتی ہے۔ نیٹ پر پچھلے ایک دو ماہ ہی میں یہ کہانی دیکھی ہے اور کچھ کے ساتھ تو چین میل والی داستان بھی ہے کہ اگر خدا پر یقین ہے تو اسے تمام جاننے والوں کو بھیجو۔
پاکستانی اور میرا پاکستان صاحبان
آپ کا خیال درست ہے ۔ یہ بات ہے سمجھنے کی ۔ ایسے واقعات انسانوں سے سرزد ہوتے رہتے ہیں جن کی توجیح انسان کرنے سے قاصر رہتا ہے
محمد شاکر عزیز صاحب
آپ کا خیال درست ہے ۔ اپنے اپنے رجوع کی بات ہے جس کا اختیار اللہ نے انسان کو دیا ہوا ہے
زکریا بیٹے
مسئلہ یہ نہیں کہ یہ ای میل چین ہے یا نہیں بلکہ یہ ہے کہ ایسا ہوتا ہے یا نہیں ۔ میں اپنے تجربہ کی بنا پر کہتا ہوں کہ ایسا ہوتا ہے اور اس کیلئے انسان کا متّقی پرہیزگار ہونا ضروری نہیں ہے ۔
بہت اچھی کہانی ہے، اللہ تعالی درحقیقت یسے ایسے وسیلوں سے اپنے بندوں کی مدد کرتا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔
ُلیکن کیا اس تجربے کو الہام کہی جا سکتا ہے
اردو فونٹ کے ساتھ کوئی مسئلہ ہے یہاں ۔۔۔
اسماء صاحبہ
نہیں ۔ یہ الحام نہیں ہے ۔ الحام صرف اللہ کے برگزیدہ بندوں کو ہوتا ہے اور اس کی نوعیت فرق ہوتی ہے جبکہ رہنمائی اللہ تعالٰی ہر انسان کی کرتا ہے ۔ اس میں آدمی کو کوئی اشارہ نہیں ہوتا اور وہ کوئی ایسا کام کر جاتا ہے جسے کرنے کا کوئی ارادہ نہیں ہوتا ۔
اردو فونٹ کے ساتھ کیا مسئلہ ہے ۔ ذرا وضاحت کیجئے
میرا تو خیال ہے کہ اگر یہ چین میل ہے تو اسے فوری رد ہی کیا جا سکتا ہے۔
I can see boxes in the font. While writing the font looks jumbled up :\
اسلام علیکم اجمل صاحب،
اللہ تعالی نے ہر اچھی چیز اپنے انبیا کو دی ، کیا آپ اس طرح کا کوئی واقعہ جو انبیا کے ساتھ ہوا ہو لکھ سکتے ہیں؟
اسماء صاحبہ
کیا مسئلہ صرف تبصرہ کے خانہ میں لکھنے میں ہے یا لکھے ہوئے تبصرے پڑھنے میں بھی ہے ؟
کیا میری پوسٹ میں بھی یہی مسئلہ ہے ؟
کیا آپ نے اردو نسخ ایشیا ٹائپ اور نفیس ویب نسخ انسٹال کئے ہوئے ہیں
عقلمند تلوار صاحب
بلا شبہ اللہ سبحانُہُ و تعالٰی نے نبیوں علیہم السلام کو اچھی چیزیں دی تھیں ۔ اور جس کے پاس عمدہ چیز ہو اسے ادنٰی چیز نہیں دی جاتی ۔ نبیوں علیہم السلام کو اللہ وذی کرتے تھے اور سیّدنا موسٰی علیہ السلام سے براہ راست مخاطب ہونے کا ذکر قرآن شریف میں ہے ۔
زکریا بیٹے
میں بہت سی چین میلز رد کر دیتا ہوں لیکن کچھ کا مواد اپنے پاس محفوظ کر لیتا ہوں کہ وہ زندگی بھر کارآمد ہوتا ہے ۔ چین میل بعض بھیڑ چال ہوتی ہیں اور بعض سبق آموز ۔ اس کا انحصار اس میں موجود مواد کی اصلیت اور مقصد پر ہے ۔ اس لئے تمام چین میلز کو رد کر دینا مناسب عمل نہیں ہے ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اعتراض کا جواب
کوئی ناممکن بات نہیں اگر یہ واقعہ سچا ہو کیوں کہ اکثر خدا کی طرف سے ایسی بات دل میں ڈال دی جاتی ہے۔۔۔۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے ہمکلام ہونے کے اسلوب
Pingback: اعتراض کا جواب | میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ What Am I