اپنے وزراء کی تندوتیز گفتگو سننے کے بعد جنرل پرویز مشرف نے اپنے لب کھولے اورکہاکہ “میں جانتا ہوں کہ بے نظیر بھٹو میرے ساتھ وفا نہیں کرے گی لیکن مجھ پر ”عالمی برادری“ کا بہت دباؤ تھا کہ بے نظیر بھٹو کو کچھ سہولتیں دوں”۔
یہ وہی ”عالمی برادری“ ہے جس کی خوشنودی کے لئے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے حوالے کرنے کی بات کی جاتی ہے۔ اس عالمی برادری کو مطمئن کرنے کیلئے کہاجاتا ہے کہ اگر ضرورت پڑی تو امریکی فوج کو پاکستان میں کارروائی کی اجازت دی جاسکتی ہے۔ یہی وہ بیانات ہیں جس کے سامنے آنے کے بعد ”عالمی برادری“ نے جنرل پرویز مشرف کو بے نظیر بھٹو کے ساتھ سمجھوتہ کرنے پر مجبور کیا۔
صدارتی انتخاب میں کامیابی پر جن شخصیات نے جنرل پرویز مشرف کو مبارکباد دی ان میں اسرائیل کے صدر شمعون پیریز بھی شامل ہیں۔ اسرائیلی صدر نے جنرل پرویز مشرف کو باقاعدہ خط لکھا ہے اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے مزید پانچ سال کے لئے صدر بننے پر مسرت کا اظہار کیا۔ جواب میں جنرل پرویزمشرف نے بھی اپنا شکریہ شمعون پیریز کو پہنچا دیا ہے لیکن جنرل مشرف ذرا سوچیں کہ اسرائیل اور پاکستان کے مابین سفارتی تعلقات نہیں ہیں، اسرائیلی صدر انہیں مبارکباد کا خط لکھ رہا ہے اور خط کا متن میڈیاکو بھی جاری کررہا ہے۔ آخر کیوں؟
آج اس جنگ کے نام پر شمالی وزیرستان اور جنوبی وزیرستان میں آئے دن بمباری کی جارہی ، اگر پانچ عسکریت پسند مارے جاتے ہیں تو ان کے ساتھ پچاس بے گناہ عورتیں اور بچے بھی بمباری کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ جس ”عالمی برادری“ کی خوشی کو جنرل مشرف ہر وقت مقدم رکھتے ہیں وہ پاکستان میں لگی ہوئی آگ بجھانے کی بجائے یہ آگ پھیلانے میں زیادہ دلچسپی رکھتی ہے کیونکہ اس برادری کی سرخیل عالمی طاقتوں کا اصل نشانہ پاکستان کا ایٹمی پروگرام ہے جب تک پاکستان کی فوج قائم ہے ایٹمی پروگرام بھی قائم ہے لہٰذا ایٹمی پروگرام کو تباہ کرنے کے لئے ضروری ہے کہ پہلے فوج کو تباہ کیا جائے۔اس وقت پاکستان کی شمال مغربی سرحدوں پر جوکھیل جاری ہے اس کا اصل مقصد پاکستانی فوج اورپاکستان کے ایٹمی پروگرام کو غیرمحفوظ بنانا ہے۔ان خطرات سے نکلنے کا واحد راستہ قبائلی علاقوں کے ناراض نوجوانوں سے مفاہمت ہے، اس مفاہمت کیلئے عالمی برادری“ کی ناراضی کو خاطر میں نہ لایا جائے کیونکہ یہ نام نہاد عالمی برادری پاکستانی قوم اور اس کے اثاثوں کو پاکستانی حکمرانوں کے ذریعے تباہ کرنا چاہتی ہے لہٰذا حکمرانوں کوچاہئے کہ غیروں کی نہیں بلکہ اپنوں کی ناراضی کا خیال کریں۔ عیدالفطر پر شمالی وزیرستان میں بمباری بند کردی جائے۔ قبائلی عمائدین اور علماء کے ذریعے جنگ بندی کی جائے اوربمباری سے تباہ شدہ علاقہ امدادی سرگرمیوں کیلئے کھولا جائے تاکہ شمالی وزیرستان کے باسیوں کو احساس ہو کہ کسی کو ان کی عید کی بھی فکر ہے۔ان کی ناراضی دور نہ کی گئی تو پھر ”امارات اسلامیہ وزیرستان“ کا راستہ ہموار ہوگا اور جب یہ ہوگا تو جنرل پرویز مشرف کی محبوب ”عالمی برادری“ خوشی سے پھولے نہ سمائے گی۔
جناب برائے مہربانی میرے بلاگ کا ایڈریس اپنی بلاگ رول میں اپ ڈیٹ کر دیجیے
http://urdublog.blogspot.com
اور میرا پورا نام قدیر احمد لکھ دیجیے ۔
شکریہ
قدیر احمد صاحب
آپ قلابازیاں کھانا کب چھوڑیں گے ؟ :smile:
میں نے آپ کے بلاگ کا ربط درست کر دیا ہے اور نام بھی
بھا ئی لا حاصل کام سے کچھ نیہں ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر سب کو حق کی سمجھ اجا ئے تو پوری دینا مسلم ہوتی۔۔۔۔۔ میںپرویز کو چوکیدا ر سے زیادہ کی اھمیت نیھںدییت ا ،،،،،لیکن کسی کے لئے ان کا سردار مشرف معاف کیجئے گا مشرک ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔