قارئین سوچتے ہوں گے کہ مجھے اس عمر میں گیت گانے کی کیا سوجی ؟ شائد کچھ منچلے یہ بھی سوچ رہے ہوں “ہمیں تو دین اسلام کی باتیں سناتا ہے اور گانے گاتا ہے”۔ میرے حساب سے آدمی کا گانے کو جی اس وقت چاہتا ہے جب وہ دُکھی یا لاچار ہو ۔ کیا آجکل ہماری قوم کے ایک قابلِ قدر حصے کا رونے کو جی نہیں چاہتا ؟ فرق یہ ہے کہ کچھ گالی گلوچ کر کے بھڑاس نکال لیتے ہیں ۔ کچھ آنسو بہا کر دل کی آگ بجھا لیتے ہیں اور کچھ آگ کو بجھانے کی کوشش میں گیت گا کر اور بھڑکا لیتے ہیں ۔
وجہ یہ ہے کہ مُلک میں آئے دن عالِموں کا قتل ایک معمول بن چکا ہے ۔ کبھی عالِمِ دین نشانہ بنتا ہے اور کبھی سائنس یا کسی اور شعبہ کا عالِم ۔ ابھی چند دن قبل جیّد عالِم دین حسن جان صاحب کو ہلاک کیا گیا ۔ کل طِب کے عالِم جناح پوسٹ گریجوئیٹ میڈیکل سنٹر کے شعبہ پیتھالوجی کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر مبشّر صاحب کو ہلاک کر دیا گیا ۔
ہمارے حکمرانوں کو سوائے پرویز مشرف کی اور اپنی کرسیوں کی حفاظت کے اور کوئی کام نہیں ۔ اس کیلئے 10 ستمبر کو نوز شریف کا استقبال روکنے کیلئے پشاور سے لاہور تک شاہراہ شیر شاہ سوری [G T Road] کو ملنے والے تمام راستے 9 اور 10 مارچ کو بلاک کئے گئے اور راولپندي اسلام آباد میں ایئر پورٹ کو جانے والی تمام سڑکیں بلاک کرنے کے علاوہ 10000 سے زائد سیاسی لیڈر اور کارکن 10 مارچ کی صبح تک گرفتار کر لئے گئے تھے ۔
بدھ 26 مارچ کو اسلام آباد کی شاہراہ دستور کنوینشن سینٹر سے خیابانِ اقبال [مارگلہ روڈ] تک 4 دن کیلئے استعمال کیلئے ممنوعہ قرار دے دی گئی ۔ صرف اس سڑک پر واقع دفاتر مین کام کرنے والے اپنا دفتر کا شناختی کارد دکھا کے دفتر جا سکتے ہیں ۔ عدالت عظمٰی بھی اسی سڑک پر ہے ۔ سوائے ان وکلاء اور ان کے مؤکلوں کے جن کے اس دن مقدمے پیش ہوں کسی کو عدالتعظمٰی جانے کی اجازت نہیں ۔
جسٹس وجیہ الدین بھی بدھ 26 مارچ کو اسلام آباد پہنچے ۔ ان کے استقبال کو روکنے کیلئے ایئر پورٹ جانے والے تمام راستے بلاک کر دیئے گئے تھے اور راولپنڈی میں وکلاء پر تشدد کیا گیا ۔
گذشتہ رات راولپنڈی اور دیگر شہروں سے اسلام آباد جانے والے تمام راستوں کو روکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا جس کے نتیجہ میں ہزاروں لوگ اپنے دفتروں یا کاروبار پر نہ پہنچ سکے ۔ صبح مجھے سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی سے ٹیلیفون آیا کہ تمام سڑکوں پر ہر قسم کی ٹریفک رُکی پڑی ہے ۔ سکولوں کو جانے والے چھوٹے چھوٹے بچے اپنی ٹریفک میں پھنسی ویگنوں میں پریشان ہیں ۔ کئی ایمبولنسیں جن میں شدید بیمار مریض بھی ہیں ٹریفک میں پھنسی ہوئی ہیں ۔ ذرائع کے مطابق حکام کی جانب سے سڑکوں کی بندش کے اقدامات اس لئے اٹھائے گئے ہیں تاکہ الیکشن کمیشن میں پرویز مشرف کے کاغذاتِ نامزدگی جمع کراتے وقت سیاسی کارکنوں کو مظاہر ے اور احتجاج سے بازرکھا جاسکے۔
تازہ ترین
چیف جسٹس آف پاکستان جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے اسلام آباد اور راولپنڈی کے داخلی راستوں کی ناکہ بندی اور رکاوٹوں کا از خود نوٹس لیتے ہوئے انتظامیہ کے اعلیٰ افسران کو دن ساڑھے گیارہ بجے عدالت میں پیش ہونے کا حکم جاری کیا ہے۔ سپریم کورٹ کے
رجسٹرار آفس کے مطابق چیف جسٹس جناب جسٹس افتخار محمد چوہدری نے ازخود نوٹس جسٹس سید جمشید علی کی جانب سے تحریری نوٹ پر لیا ہے۔ ضلعی انتظامیہ کے جن افسران کو نوٹس جاری کیے گئے ہیں ان میں چیف کمشنر اسلام آباد۔ آئی جی اسلام آباد، ۔ ڈپٹی کمشنر اسلام آباد ۔ ڈپٹی کمشنر اولپنڈی ۔ ڈی آئی جی راولپنڈی سمیت انتظامیہ کے اعلیٰ عہدیداران شامل ہیں۔ رجسٹرار آفس کے مطابق ناکہ بندی اور رکاوٹوں کی وجہ سے سپریم کورٹ کا بیشتر اسٹاف عدالت نہیں پہنچ سکا جس کی وجہ سے عدالتی کام متاثر ہوا ہے
مجھے آپ کے گیت پر کوئی اعتراض نہیں ہے ۔ میں تو یہ سوچ رہا تھا کہ آپ نے ابھی تک داڑھی کیوں نہیں رکھی
:ُ
قدیر احمد صاحب
یہ داڑھی کیوں بیچ میں کود پڑی ؟ ویسے داڑھی تو یہودی ۔ عیسائی ۔ سکھ اور ہندو بھی رکھتے ہیں ۔
اجمل صاحب مبارک ہو فضل الرحمٰن والے استعفے دینے پر راضی ہوگئے ہیں۔ اب شاید یہ اونٹ کسی کروٹ بیٹھ ہی جائے گا۔ گو کہ اہلِ جبہ و دستار سے ثابت قدمی کی امید کم کم ہی ہے۔ یہ دیکھیں کہ کیسوں کیسوں سے ہم نے کیا کیا امیدیں باندھ رکھیں ہیں۔
انکل: دراصل اس عمر میں آکر اکثر لوگ داڑھی رکھ لیتے ہیں ، میرا خیال ہے کہ یہ سنت رسول ہے ۔ اور اس کا رکھنا بہت افضل ہے ۔
مجھے دوسرے مذاہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے ، مجھے بس یہ فکر ہے کہ ہمارے نبی نے کیا کہا ہے
قدیر تو ایسے مشورہ دے رہے ہیں جیسے کہ خود نے داڑھی رکھنا شروع کردی ہے۔۔۔ کیوں جی قدیر؟ ایسا ہی ہے؟ کہیں ساجد اقبال سے متاثر ہوکر یہ خیال تو نہیں آیا؟ ;)