Monthly Archives: August 2007

فیصلہ کا وقت قریب ہے

 

جاوید ہاشمی وہ شخص ہے جو پاکستان ٹوٹنے سے چند ماہ قبل ڈھاکہ جا پہنچا۔ وہ ناراض بنگالی نوجوانوں سے ملنا چاہتا تھا، انہیں بتانا چاہتا تھا کہ مغربی پاکستان کے عوام کی اکثریت فوجی جرنیلوں کو پسند نہیں کرتی لیکن جاوید ہاشمی سے کہا گیا کہ بنگالیوں سے دور رہو وہ تمہیں گولی مار دیں گے۔ یہ دیوانہ شخص چاک گریبان کے ساتھ سینے پر گولی کھانے کیلئے تیار ہو گیا۔ اس نے کہا کہ اگر میرے لہو سے کسی کی نفرت کی آگ بجھتی ہے اور پاکستان بچ جاتا ہے تو میں گولی سے نہیں ڈرتا۔ [حامد میر کے قلم کمان سے اقتباس ۔ ۔ ۔ جاری ہے]

پاکستان کی خاطر اپنی جان قربان کرنے کی خواہش رکھنے والے اس شخص کو موجودہ دور حکومت میں غدّار قرار دیا گیا۔ بغاوت کا مقدمہ بنانے والوں کو بھی پتہ تھا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں۔ اسے کہا گیا کہ اگر وہ نواز شریف کے ساتھ غدّاری پر راضی ہو جائے تو اسے سیاسی شان و شوکت سے مالا مال کر دیا جائے گا لیکن اسے یہ شوکت کبھی عزیز نہیں رہی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ اعلیٰ عدالتوں سے اس کی درخواست ضمانت مسترد ہوتی رہی لیکن آخر کار 3 اگست کو سپریم کورٹ آف پاکستان نے ایک اور تاریخی فیصلے کے ذریعہ جاوید ہاشمی کو رہا کرنے کا حکم دیدیا۔ افسوس صد افسوس کہ جاوید ہاشمی چار سال تک پابند سلاسل رہا لیکن قومی اسمبلی کے اسپیکر چوہدری امیر حسین نے ایک مرتبہ بھی جاوید ہاشمی کو اسمبلی کے اجلاس میں لانے کیلئے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں کئے۔

یہ درست ہے کہ ایک طویل عرصے کے بعد موجودہ قومی اسمبلی اپنی مدت پوری کرنے جا رہی ہے لیکن اسمبلی کی تاریخ کا یہ واقعہ شرمناک ہے۔ اس اسمبلی کا ایک رکن چار سال تک جیل میں تھا ، اس کی رکنیت برقرار رہی لیکن اسے اسمبلی کے اجلاس میں حاضر کرنے کا حکم صادر نہ ہو سکا ؟ اس ایک مثال سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ ایک کمزور اسمبلی تھی، اس اسمبلی نے جاوید ہاشمی کو کوئی عزت نہیں دی لیکن جاوید ہاشمی جیسے بہادر شخص کی رکنیت کے باعث اس اسمبلی کو عزت ضرور ملی ہے۔

اسیّ سالہ بھارتی دانشور کلدیپ نیّر پاکستانیوں پر حیران ہیں۔ پاکستان بنا تو ان کی عمر 24 سال تھی۔ وہ سیالکوٹ میں اپنا سب کچھ چھوڑ کر دہلی پہنچے تو انہیں یقین نہیں تھا کہ پاکستان قائم رہے گا۔ انہیں دہلی پہنچے 60 سال گزر گئے لیکن پاکستان بدستور قائم ہے۔ وہ حیران ہیں کہ 60 میں سے 32 سال تک پاکستان پر فوجی سربراہوں نے حکومت کی۔ سیاسی حکومتوں کا دورانیہ 28 سال رہا لیکن اس کے باوجود پاکستان دنیا کے نقشے پر موجود ہے۔

کلدیپ نیّر مزید حیران ہونے والے ہیں کیونکہ پاکستان میں آئین اور جمہوریت کیلئے جدوجہد ابھی ختم نہیں ہوئی۔ منزل بہت دور ہے۔ ایک جاوید ہاشمی تو رہا ہو گیا لیکن ابھی جاوید ہاشمی کو اختر مینگل اور ان کے کئی دیگر ساتھیوں کی رہائی کیلئے مزید جدوجہد کرنی ہے۔ ان سب پر بھی بغاوت کے مقدمے ہیں۔ ابھی تو ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی رہا کروانا ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی پر پاکستان کے دشمن خوش نہیں ہوں گے اور اسی لئے مجھے یقین ہے کہ پاکستان کے دشمن اس ملک میں حقیقی جمہوریت اور قانون کی بالادستی نہیں چاہتے۔ کیا وجہ ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کا دشمن جاوید ہاشمی کا بھی دشمن ہے ؟ کیا دونوں غدّار ہیں ؟ سپریم کورٹ آف پاکستان نے فیصلہ کر دیا کہ جاوید ہاشمی غدّار نہیں اور ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی رہائی کے بعد تاریخ کو بھی ایک فیصلہ کرنا ہے۔ یہ فیصلہ انہیں نظر بند کرنے والوں کے بارے میں ہو گا اور اس فیصلے کا وقت بھی قریب ہے۔

سالگرہ مبارک

 

ہماری پیاری پیاری ننھی سی پوتی کو سالگرہ مبارک
  جيؤ ہزاروں سال ۔ ہر سال کے دن ہوں پچاس ہزار

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہماری پياری پوتی پر اپنی رحمتيں نازِل کرے ۔ آمين


دادا دادی کی جان پياری پیاری مِشَّيل ماشاء اللہ تین سال کی ہو گئی ہے

مِشَّيل دسمبر 2005 ميں پاکستان آئی تھی وہ بھی صرف 16 دن کیلئے جس دوران مِشَّيل ایک ہفتہ نانا ۔ نانی اور ماموں کے ساتھ رہی تھی چنانچہ ہمارا خیال تھا کہ واپس جا کر مِشَّيل ہمیں بھول جائے گی لیکن والدین کی طرف سے تربیت اگر صحیح ہو تو بچوں کے دل میں اپنے عزیزوں کیلئے محبت پیدا ہوتی ہے ۔ اب تو اللہ کے فضل سے مِشَّيل ہمیں اپنے ابو سے کہہ کر ٹیلیفون کرواتی ہے اور ہم سے بات کرتی ہے ۔ سُبحان اللہ ۔ چشمِ بَد دُور

کمان سے نکلا تیر

Flag-1ایک جوان لڑکی ایئر پورٹ کے روانگی کے لاؤنج میں داخل ہوئی تو جہاز کی روانگی میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ اس نے وقت گذارنے کیلئے بسکٹوں کا ایک پیکٹ اور ایک رسالہ خریدا اور لاؤنج میں میز کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگی ۔ چند منٹ بعد ایک جوان لڑکا آیا اور اسی میز کے دوسری طرف والی کرسی پر بیٹھ کر ناول پڑھنے لگ گیا ۔ کچھ دیر بعد خاتون نے میز پر پڑے پیکٹ کو کھولا اور ایک بسکٹ لے کر کھانے لگی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کے بعد لڑکے نے بھی اسی پیکٹ میں سے ایک بسکٹ نکال کر کھا لیا ۔ اسے یہ بات ناگوار گذری لیکن وہ خاموش رہی ۔ چند منٹ بعد خاتون نے دوسرا بسکٹ لے کر کھایا تو پھر لڑکے نے ایک بسکٹ لے کر کھا لیا ۔ لڑکی تَلملا اُٹھی لیکن ضبط سے کام لیا کہ اس کے چیخنے سے لاؤنج میں بیٹھے سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور ہو سکتا تھا کہ اسے گنوار جانیں ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ آخر ایک بسکٹ رہ گیا اور وہ کنکھیوں سے دیکھنے لگی کہ وہ لڑکا کیا کرتا ہے ۔ اس لڑکے نے آخری بسکٹ نکالا اسے توڑ کر آدھا لڑکی کو دیا اور آدھا خود کھا لیا ۔ لڑکی آگ بگولا ہو کر لڑکے پر برس پڑی ۔ اسی وقت ہوائی جہاز کی روانگی کا اعلان ہو گیا اور وہ “ہونہہ” کہہ کر اپنا بیگ اُٹھا کر تیزی سے چلی گئی ۔

جہاز میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد وہ اپنے بیگ میں سے کنگھی نکالنے لگی تو دیکھا کہ اس کا بسکٹوں کا پیکٹ بیگ میں بند کا بند پڑا تھا ۔ اب اسے احساس ہوا کہ جس لڑکے کو اس نے بد تمیز اور نامعلوم کیا کیا کہا تھا وہ دراصل شریف اور اعلٰی کردار کا جوان تھا ۔

یاد رکھیئے کم از کم پانچ چیزیں واپس نہیں ہو سکتیں

1۔ کمان سے نکلا تیر
2 ۔ لفظ جو کہہ دیا یا لکھ کر بھیج دیا
3 ۔ موقع جو ہاتھ سے نکل گیا
4 ۔ گذرا ہوا لمحہ
5 ۔ عزّت یا عفّت جو جاتی رہی

کسی نے مجھے بیوقوف کہا کسی نے پاگل

Flag-1عمار ضیاء خان صاحب کی ایک تحریر نے مجھے میرے ماضی کے کچھ واقعات یاد دِلا دیئے ۔

بچپن میں ہمارا معمول ہوتا تھا کہ گرمیوں کی چھٹیوں میں مجھ سے بڑی میری بہن اور میں سارے گھر کی فرش سے چھت تک اچھی طرح صفائی کرتے ۔ جب میں گیارہویں یا بارہویں جماعت میں تھا ہم اسی طرح صفائی کر رہے تھے کہ مہمان آ گئے ۔ امی نے کہا “بوتلیں لے آؤ”۔ میں نے سر پر لپیٹا ہوا کپڑا کھولا اور بوتلیں لینے بھاگ پڑا ۔ راستہ میں دو لڑکے کھڑے تھے ۔ انہوں نے انگریزی میں کہا “کیسا بیوقوف لگ رہا ہے”۔ جب میں نے ان سے انگریزی میں کہا “آئیندہ خیال رکھیئے گا کیونکہ پاکستان میں انگریزی سمجھنے والے بہت ہیں”۔ تو انہیں پریشانی ہوئی ۔

اگر راستہ میں چھلکا یا پتھر پڑا ہو تو میں اُٹھا کر ایک طرف کر دیتا ہوں یا اگر قریب کوڑا کرکٹ کا ڈبہ ہو تو اس میں ڈال دیتا ہوں ۔ ایک راہداری پر پڑے کیلے کے چھِلکے میں نے اُٹھا کر قریبی ڈبے میں ڈالے ۔ دو خوش پوش نوجوان راہگیروں نے مجھے نفرت سے گھورتے ہوئے انگریزی میں کہا “کتنا گندھا ہے”۔ میں نے تیزی سے قریب جاتے ہوئے کہا “میں یا چھلکے پھینکنے والے”۔ یہ چھلکے انہوں نے پھینکے تھے۔

میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ایم آئی ایس کا سربراہ تھا ۔ اپنی سرکاری کوٹھی میں ایک اتوار باڑ کٹوانے کیلئے آدمی بلائے مگر نہ آئے ۔ میں تھوڑے سے حصہ میں باڑ کاٹ رہا تھا تاکہ اپنے ملازم کو سمجھا دوں کہ ان سے باڑ کی اتنی اُونچائی رکھوانا ۔ اسی دوران ایک شخص کوٹھی کے پھاٹک پر آیا ۔ میں نے پوچھا کس سے ملنا ہے تو میرا نام لیا ۔ میں نے کام پوچھا تو کہنے لگا “آپ اپنی باڑ خود کاٹ رہے ہیں؟” میں نے جواب میں کہا “اس میں کیا ہرج ہے”۔ تو وہ واپس چلا گیا ۔ بعد میں مجھے ایک ساتھی نے بتایا کہ اس نے اُسے بھیجا تھا اور واپس جا کر اس نے کہا “جو اپنی کوٹھی کی باڑ نہیں کٹوا سکتا وہ میرا کام کیا کرے گا”۔

وسط 1966ء میں پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ابھی رائفل جی تھری کا پروجیکٹ پلاننگ اور ڈویلوپمنٹ سے گذر کر باقاعدہ پیداواری مرحلہ میں گیا ہی تھا کہ مجھے قائم مقام ورکس منیجر بنا کر مشین گن پلاننگ ۔ ڈویلوپمنٹ اور پروڈکشن کا پراجیکٹ دے دیا گیا ۔ بعد میں ایک سینئر جنرل منیجر صاحب کو میرا افسر بنا دیا گیا جنہیں ویپنز پروڈکشن کا کوئی تجربہ نہ تھا ۔ میرا افسر بننے کے چند ماہ بعد ایک دن وہ صاحب میرے دفتر میں آئے اور کہا “آپ کو اپنے افسر کا وفادار ہونا چاہیئے”۔ میں خاموش رہا تو اُنہوں نے یہ جملہ تین بار دہرایا ۔ میں نے عرض کیا “سرکاری قواعد و ضوابط کے مطابق ہر افسر پر لازم ہے کہ وہ صرف مُلک [پاکستان] کا وفادار ہو اور اگر کوئی افسر اپنے ماتحت کو کوئی ایسا حُکم دے جو مُلک کے مفاد میں نہ ہو تو وہ ایسا حُکم نہ مانے” ۔ اس پر میرے افسر نے کہا ” تم اپنی بات کرو”۔ تو میں نے کہا “میں چونکہ مسلمان ہوں اسلئے سب سے پہلے اپنے دین اسلام کا وفادار ہوں اس کے بعد میں اپنے پیارے مُلک پاکستان کا وفادار ہوں ۔ اسکے بعد میں اس ادارے [پاکستان آرڈننس فیکٹریز} کا وفادار ہوں کہ اس ادارے کو اللہ نے میرے رزق کا ذریعہ بنایا ہے اور میرا خیال ہے کہ آپ اسی میں پوری طرح شامل ہیں لیکن اگر نہیں ہیں تو میں قانون کا تابع دار ہوتے ہوئے آپ سے معذرت خواہ ہوں”۔ وہ صاحب اُس دن کے بعد میرے ساتھ ناراض ہی رہے گو وہ سارا کام مجھ ہی سے کرواتے رہے مع انکے اپنے دفتر کی ڈاک کے ۔ [تتمہ ۔ یہ قوائد و ضوابط ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے نافذ کردہ ایڈمنسٹریٹو ریفارمز کی نذر ہوگے اور نااہلی کا فروغ شروع ہوا]

ملازمت کے دوران جو میرے قریبی ساتھی تھے وہ مجھے کہا کرتے تھے “تم میں ترقی کی نشانیاں نہیں ہیں” ۔ وجہ یہ تھی کہ میرے ماتحتوں میں جو دیانتداری اور محنت سے کام کرتے تھے میں ان کی سالانہ رپورٹس خراب نہیں ہونے دیتا تھا جس کے نتیجہ میں بعض اوقات میری اپنی رپورٹ گڑبڑ ہو جاتی تھی اور نہ میں اپنے سینئر افسر کو خوش کرنے کیلئے جھوٹ بولتا تھا ۔ میں حق کی خاطر کاغذی جنگ لڑتا رہتا تھا جس کی وجہ سے کوئی مجھے بیوقوف اور کوئی پاگل کہتا تھا ۔

بھانڈا پھُوٹا بیچ چوراہے

شریف برادران اور حکومت کے مابین ایسی کوئی”ڈیل“موجود نہیں جس کے تحت شریف برادران پر کسی معینہ مدت تک سیاست میں حصہ لینے پرپابندی، ان کی واپسی کے ٹائم فریم یا انکو جلاوطن کرنے کی بات کی گئی ہو۔ ایک چار صفحات کی دستاویز جس پر نوازشریف، شہباز شریف، عباس شریف اورحسین نواز شریف نے دستخط کئے تھے کے سوا ایسا کوئی کاغذ موجود نہیں جس پرشریف برادران نے دستخط کئے ہوں اور جس میں دونوں فریقوں کے مابین کسی معاہدے کی عکاسی ہوتی ہو، لیکن ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ سعودی حکومت نے ایک ثالث سعیدالحریری، جو رفیق الحریری کے بھائی ہیں، کے توسط سے شریف برادران کو راضی کیا کہ وہ دستاویز پر دستخط کر دیں۔ تاہم اس بات کا کوئی اشارہ نہیں ملتا کہ اس سلسلے میں جدّہ یا اسلام آباد کے مابین کوئی معاہدہ ہوا ہو۔ رفیق تارڑ جو جون 2001ء تک صدر تھے، سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے تصدیق کی کہ شریف خاندان کی جانب سے چارصفحات کی درخواست کے علاوہ حکومت کے پاس اورکوئی دستاویز موجود نہیں ہے۔ انہوں نے اس بات کی بھی تردید کی کہ جدّہ اور اسلام آباد کے مابین کسی معاہدے پردستخط ہوئے تھے انہوں نے مزید کہا کہ آئین کے تحت کسی بیرونی ریاست سے معاہدے کیلئے ضروری ہے کہ صدر اس کی توثیق کرے اور انہوں نے ایسے کسی معاہدے کی توثیق نہیں کی۔

جب حکومتی ترجمان اور وزیراطلاعات محمدعلی درانی سے رابطہ کیا تو انہوں نے کہاکہ ان کے پاس اس سلسلے میں کہنے کیلئے کچھ نہیں ہے۔ ایک ممتاز وفاقی وزیر نے جو میڈیا میں ”ڈیل“ کا دفاع کرتے رہے ہیں، اس نمائندے کو نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ انہوں نے شریف خاندان اورحکومت اور اسلام آباد یاجدّہ کے مابین کوئی معاہدہ نہیں دیکھاحتیٰ کہ ان کوچار صفحات کی دستاویز کے مندرجات کا بھی کوئی علم نہیں۔

صدر کے نام تحریرکی گئی متذکرہ چارصفحات کی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ درخواست گزار نمبر ایک (نوازشریف) پر چار دیگر افراد کے ہمراہ تعزیرات پاکستان کی دفعات 109۔ 120 بی۔ 121 اے۔ 123۔ 212۔ 324۔ 365۔ 402 بی اور انسدادِ دہشتگردی ایکٹ 1997 کی دفعہ 6/7 کے تحت انسدادِ دہشتگردی عدالت نمبر 1 ۔ کراچی میں مقدمہ چلایا گیا تھا، درخواست گزار نمبر ایک کے شریک ملزمان کو بری کر دیا گیا لیکن درخواست گزار نمبر ایک کو دفعہ 402 بی کے تحت عمرقید بامشقت۔ 5 لاکھ روپے جرمانہ اور تمام جائیداد کی ضبطی کی سزا دی گئی ۔ انسدادِ دہشتگردی کی دفعہ 7 کے تحت عمرقید بامشقت۔ منقولہ و غیر منقولہ جائیداد کی ضبطی جس کی مالیت 50 کروڑ روپیہ تک ہو کی سزا دی گئی۔ اس کے علاوہ نیشنل اکاؤنٹی بلیٹی بیورو نے اٹک قلعہ میں 14 سال قید با مشقت۔ 2 کروڑ روپے جرمانہ اور حکومت پاکستان کے کسی بھی سطح کے عہدے کیلئے 21 سال تک منتخب ہونے یا کام کرنے کے لئے نااہل قرار دیا تھا، اوریہ کہ اب درخواست گزار نمبر ایک کو صحت کے سنگین مسائل درپیش ہیں۔ لہٰذا درخواست گزار نمبر ایک کی مندرجہ بالا گزارشات کو مدنظر رکھتے ہوئے علاج کیلئے بیرون ملک جانے کی اجازت دی جائے اوریہ کہ درخواست گزار کے خلاف ماضی کے کسی مبینہ طرز عمل پر عدالتی کارروائی نہیں کی جاسکتی۔

اس درخواست پر 9 دسمبر 2000ء کو اس وقت کے چیف ایگزیکٹو سیکرٹریٹ نے چیف ایگزیکٹو ۔ چیئرمین جائنٹ چیفس آف سٹاف کمیٹی اور چیف آف آرمی سٹاف جنرل پرویز مشرف کے دستخط سے صدرکو ایک سفارش تحریرکی جس کا عنوان ’گرانٹ آف پارڈن‘ تھا اور صدر نے اس پر10 دسمبر 2000ء کو ’منظور‘ اور ‘سزائیں معاف کی جاتی ہیں’ تحریرکرنے کے بعد اپنے دستخط کئے۔ اور اُسی رات شریف خاندان سعودی عرب پرواز کرگیا۔

بشکریہ ۔ جنگ اور دی نیوز

تبصرہ

مجھے 12 اکتوبر 1999 کو شام 5:55 بجے جی 9 مرکز میں ایک شخص ملا جو پریشان لگ رہا تھا ۔ اُس نے بتایا “میں وزیر اعظم ہاؤس کی طرف سے آ رہا ہوں ۔ فوج وزیرِ اعظم ہاؤس کے اندر داخل ہو گئی ہے ۔ اللہ خیر کرے نواز شریف کی”۔ اُسے وزیرِاعظم ہاؤس سے وہاں پہنچنے اور کار پارک کرنے میں کم از کم 10 منٹ لگے ہوں گے ۔ نواز شریف ۔ شہباز شریف ۔ اُن کے قریبی ساتھیوں اور اسی دن بنائے گئے نئے چیف آف آرمی سٹاف ضیاء الدین بٹ کو گرفتار کرنے کے بعد شام 7 بجے پاکستان ریڈیو ۔ پی ٹی وی ۔ پی ٹی سی ایل کے ٹیلیفون اور سارے موبائل فون بند کر دئیے گئے اور اس کے بعد بجلی بھی بند کردی گئی تھی [کم از کم اسلام آباد اور راولپنڈی میں] ۔

جنرل پرویز مشرف جس ہوائی جہاز میں سری لنکا سے واپس آ رہا تھا وہ پاکستان کی فضا میں 7:55 پر داخل ہوا ۔ اور کراچی کی ایئرپورٹ کے اُوپر 8:15 پر پہنچا تھا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ پرویز مشرف کے ہوائی جہاز کو اُترنے سے نواز شریف یا اُس کے کسی آدمی نے نہیں روکا تھا کیونکہ وہ اور شہباز شریف 6:30 بجے گرفتار ہو چکے تھے اور 7 بجے تک پورے پاکستان پر فوج کا قبضہ مکمل ہو چکا تھا ۔ چنانچہ متذکرہ بالا مقدمے اور ان کے نتیجہ میں دی جانے والی سزائیں سو فیصد غلط تھیں ۔ یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ جنرل پرویز مشرف نے باقاعدہ منصوبہ بندی کے تحت بغاوت کر کے نواز شریف کی منتخب حکومت کو ختم کیا اور اس دوران ملک سے باہر اسلئے چلا گیا تھا کہ اگر بغاوت ناکام ہو گئی تو وہ پاکستان واپس نہیں آئے گا

جب جاگ اُٹھے گا دیوانہ

طالبِ علم تو میں اب بھی ہوں لیکن باقاعدہ طالب علمی کے زمانہ میں ۔ ہپناٹزم کی کتابیں پڑیں اور ماہرینِ فن سے استفادہ بھی کیا ۔ ہوا یوں کہ سکول کے زمانہ میں معمول بنا مگر عامل مجھے سُلانے میں کامیاب نہ ہو سکا اور اُس نے مجھے بعد میں ملنے کا کہا ۔ جب میں اُسے ملا تو اُسں نے کہا “تمہاری قوتِ ارادی بہت مضبوط ہے ۔ تم دوسرے کے زیرِ اثر آنے کی بجائے اپنی عقل سے فیصلہ کرتے ہو”۔ دراصل میں ٹھہرا “جو ہو ذوقِ یقیں پیدا تو کٹ جاتی ہیں زنجیریں” میں یقین رکھنے والا ۔ پھر میرے سوالات کے جواب میں اُنہوں نے بتایا “کچھ ایسے عمل ہوتے ہیں جو کسی کو بہت عزیز ہوتے ہیں ۔ اگر ان میں سے کسی عمل کے خلاف مطالبہ کیا جائے تو معمول پر ہپناٹزم کا اثر ایکدم ختم ہو جاتا ہے”۔ مثال یہ دی کہ اگر ایک آدمی ننگا ہونا بہت بُرا سمجھتا ہے ۔ اُسے ہپناٹئز کر کے سُلا دیا جائے اور شلوار یا پتلون اُتارنے کا کہا جائے تو وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑا ہو جائے گا”۔

لال مسجد ۔ جامعہ حفصہ اور قبائلی علاقوں میں حکومت کی طرف سے ناجائز قتلِ عام کے نتیجہ میں لگتا ہے کہ حکومتی اہلکاروں کا بھی ہپناٹزم اُترنے لگا ہے ۔ کچھ حکومتی اہلکار پہلے اسمبلی سے باہر بول چکے ہیں اور اب ملاحظہ ہو اسمبلی کے اندر کی تازہ کاروائی ۔

خبر ۔ حکومتی رکن قومی اسمبلی اور دفاع کے پارلیمانی سیکرٹری میجر [ریٹائرڈ] تنویر حسین نے کہا ہے کہ گزشتہ کچھ عرصے کے دوران پاکستان میں مقیم چینی باشندوں کے قتل میں امریکا اور بھارت کی انٹیلیجنس ایجنسیوں کا ہاتھ ہے۔ تنویر حسین نے کہا کہ اب وقت آ گیا ہے کہ گیارہ ستمبر کے بعد اختیارکی گئی پالیسی پر نظرثانی کی جائے اور امریکا کے ساتھ یہ جھوٹا ”معاشقہ“ ختم کیا جائے اور ایسی امداد جس سے ہم اپنی نظروں سے گر جائیں تھوک دینی چاہئے۔ انہوں نے کہا کہ پاک فوج کے ساتھ برسر پیکار طالبان کی ہمارے ساتھ کوئی دشمنی نہیں ہے، وہ امریکہ کے دشمن ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چینی باشندوں کو کوئی پاکستانی نہیں مار سکتا۔ حکومتی رکن تنویر حسین سیّد نے مزید کہاکہ کشمیر پر اپنا تسلط برقرار رکھنے کے لئے بھارت اب امریکا کے ساتھ گٹھ جوڑ کررہا ہے تو ہمیں بھی جہادیوں کو کھُلی چھوٹ دینی چاہئے اور امریکا کو سبق سکھانے کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ پاکستان ایران، چین اور روس سے روابط بڑھائے۔ پاکستان ایک اسلامی مملکت ہے لہٰذا اس کی پالیسی کا منبع قرآن کو ہونا چاہئے اور وزیرستان سے لے کر کشمیر تک ایک ہی آواز ہے اور وقت کی بھی یہی آواز ہے ”الجہاد، الجہاد، الجہاد“

خبر بشکریہ جنگ

لال مسجد کا معاملہ اور ہمارا رویّہ ۔ چوتھی اور آخری قسط

حالات و واقعات ۔ ایک محقق شیخ محمد علی صاحب کی نظر میں
آپریشن سے قبل بھی اور بعد میں بھی سرکار و حلیفان سرکار کی جانب سے بھانت بھانت کی وجوہات پیش کی جا رہی ہیں، کہیں زمینوں پر قبضے کی بات ہے تو کہیں شریعت کے ازخود نفاذ کی بات یا پھر اندر اسلحہ و غیرملکیوں کی موجودگی کی، لیکن دل پر ہاتھ رکھ کر بتایئے کہ سچ کیا ہے، کیا یہ سچ نہیں کہ ان معصوموں کی اموات کے فیصلے کہیں اور ہوئے تھے اور جن پر عملدرآمد اسی پالیسی کا حصہ ہے جو آج اقوام مغرب نے اسلام و مسلمان دشمنی کے تناظر میں ہر سمت جاری کر رکھی ہے۔ امریکا بہادر نے عراق پر ہاتھ ڈالنے کے لئے آخر یہی تو جواز تراشا تھا کہ وہاں بڑی مقدار میں کیمیاوی ہتھیار موجود ہیں لیکن ایک بڑی تباہی و بربادی کے بعد وہاں سے کیا برآمد کیا؟ یہ صرف مخالفین کو دبانے اور تباہ و برباد کر دینے کے ہتھکنڈے ہیں اس کے سوا کچھ نہیں۔ افسوس تو ان علماء پر بھی ہے جو اگر چاہتے تو شاید یہ نوبت نہ آنے پاتی لیکن آج اس خون ناحق پر بھی سیاست کی بساط بچھا لی گئی ہے، کہیں جوڈیشنل انکوائری کی بات ہو رہی ہے تو کہیں مذمت۔ اسلام نے ہمیشہ اپنے پیروکاروں سے عمل کا مطالبہ کیا ہے اور اس خصوصی معاملے میں عمل وہی قبول تھا جس سے ان کی جانیں بچ سکتیں اگر یہ علماء اور یہاں کے مسلمان یہ نہیں کرسکے تو ہزار مذمتیں کریں، ہزار انکوائریوں کا مطالبہ کریں انہیں بھی اس خون ناحق کا حساب دینا ہوگا۔ بشری زندگی کا ہر موضوع اور ہر پہلو اسلام کی گرفت میں ہے اور سیاست و سیادت کا ایک واضح و نمایاں خاکہ بھی اس نے پیش کیا ہے۔

ان واضح و بیّن احکامات کی موجودگی میں کسی کج بحثی کی گنجائش نہیں اور نہ میں اس حوالے سے کسی لمبی بحث میں الجھنا چاہتا ہوں، وہ لوگ جو لال مسجد والوں کے مطالبات، نفاذ شریعت کورٹ کی آڑ میں غلط قرار دیتے ہیں اور اپنے مباحثوں میں یہ فرماتے ہیں کہ کسی فرد یا ٹولے کو اس بات کا اختیار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ جب چاہے ایسے مطالبات لے کر اٹھ کھڑا ہو اور حکومت کی رِٹ کو چیلنج کرے انہیں دلوں میں خوف پیدا کرنا چاہئے اور اعمال میں اصلاح کی فکر بھی کیونکہ ان کا یہ ارشاد سراسر اسلامی سیاست و شریعت کے خلاف ہے۔ وہ یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اسلامی تاریخ لاتعداد ایسی نظیریں پیش کرتی ہے جہاں فرد سے لے کر افراد تک اور افراد سے لے کر گروہوں تک نے نفاذ شریعت کا مطالبہ بھی کیا اور اس کے لئے حاکموں، جابروں اور آمروں سے ٹکر بھی لی، خود واقعہ کربلا سے بڑھ کر اس کی مثال کیا ہوگی کہ بہتّر افراد کے ٹولے نے محض شریعت کی سربلندی کے لئے بدترین آمر سے ٹکر لی اور خود تو دنیوی اعتبار سے ختم ہوگئے لیکن اپنی سنت پر چلنے کا ایک واضح اصول چھوڑ گئے۔ حکومت کی رِٹ کا فلسفہ گھڑنے والے اور اس کے خلاف ایسی آوازوں کو ناپسند کرنے والے کیا واقعہ کربلا کو بھی خاکم بدہن ایسا ہی کوئی واقعہ قرار دیں گے؟

سچ صرف ایک ہے کہ کھوٹ سارا ہمارے اپنے دلوں میں ہے، ہم نفس کے غلام، بے حمیّت اور ایمانی حوالوں سے کھوکھلے ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں دشمنان اسلام اسلامی عقائد کے خلاف اپنی گندی زبانیں استعمال کر رہے ہیں، پیغمبر اسلام پر ہرزہ سرائی ہو رہی ہے، کفر و الحاد پرست انہیں زر و جواہر میں تول رہے ہیں جو ایسے رذیل و قابل گرفت کام انجام دے رہے ہیں اور ہم صرف زبانی کلامی بڑھکیں مار رہے ہیں۔ اب تو لال مسجد و مدرسہ حفصہ کے اندوہناک سانحے نے ہمارے ایمان کی قلعی کھول کر رکھ دی ہے اور ہمیں اپنی ہی نظروں میں شرمندہ و نیچ ٹھہرا ڈالا ہے اور ہم یہ جان چکے ہیں کہ دعویٰ ایمانی کے تناظر میں ہم کتنے پانی میں ہیں۔

سائنس و ٹیکنالوجی کے اس کمرشل دور میں جبکہ لوگ محض دنیوی کامیابیوں اور فراوانی دولت کی خاطر تعلیم کے مختلف میدان اپنے بچوں کے لئے منتخب کر رہے ہیں ان بچوں سے یہ بدترین انتقام کیا معنی رکھتا ہے جو دین کی محبت میں ان مدرسوں کا رخ کر رہے ہیں اور یہ جانتے ہیں کہ یہ سودا دنیوی کامیابی کا نہیں بلکہ آخری کامیابی و سرفرازی کا ہے۔ کاش کہ طوق غلامی گردنوں سے اتار کر حکام وقت یہ سوچ سکیں کہ وہ کتنے بدترین خساروں کا سودا کر رہے ہیں۔ بے شک اللہ کے ہاں دیر ہے اندھیر نہیں

تحریر ۔ شیخ محمد علی ۔ یہ مضمون دو قسطوں میں تھا جو میں نے قارئین کی سہولت کیلئے چار اقساط میں لکھا ۔ اصل مضمون کی پہلی قسط یہاں کلک کر کے دیکھ سکتے ہیں اور دوسری قسط یہاں پر کلک کر کے