میں اپنے ملک کی غلامی کا ایک ثبوت 25 اگست کو پیش کیا تھا ۔ اب معلوم ہوا ہے کہ ہمارے ملک کی پارلیمنٹ بھی غلام بنائی جا چکی ہے اس پر صدر جنرل پرویز مشرف کہتے ہیں “میں کسی سے ڈکٹیشن نہیں لیتا”۔ فوج اور پارلیمنٹ دونوں کو امریکہ کا غلام بنایا جا چکا ہے تو پھر ڈکٹیشن کیسی ؟ اب مجھے ایک شخص کی اس بات میں وزن محسوس ہونے لگا ہے کہ لال مسجد جامعہ حفصہ کا آپریشن امریکی کنٹرول کر رہے تھے ۔
ہفتہ 25 اگست کو سینیٹ کی سپورٹس کمیٹی کے اجلاس میں وزیر مملکت طارق عظیم نے یو ایس ایڈ کی ڈائریکٹر ایلے نور ویلنٹائن کا خط پیش کیا جس میں لکھا تھا کہ یو ایس ایڈ پارلیمانی انٹرن شپ پروگرام کے تحت پارلیمانی قائمہ کمیٹیوں میں ان کا ایک نمائندہ موجود ہوا کرے گا جو کمیٹیوں کے اجلاس کی کارروائی کے منٹس [minutes] لے گا اور کمیٹیوں کی رپورٹس تیار کیا کرے گا۔ طارق عظیم نے اس معاملے کو پارلیمانی معاملات میں کھُلی غیر ملکی مداخلت قرار دیا اور کہا کہ قائمہ کمیٹیوں کے اجلاس بند کمرے میں منعقد کیے جاتے ہیں تاکہ اراکین کھُل کر متعلقہ امور پر بات کرسکیں۔ انہوں نے کہا کہ دفاع اور دفاعی کمیٹی اور دیگر کمیٹیاں نہایت حسّاس معاملات پر غور کرتی ہیں جن کا افشا یا متعلقہ حسّاس دستاویزات کی کسی غیر ملکی ایجنسی تک رسائی قومی مفادات کے منافی ہے۔ انہوں نے کہا کہ پارلیمانی کمیٹیوں میں غیر ملکی ایجنسیوں کی شرکت کو ممنوع قرار دیا جائے۔ علاوہ ازیں ذرائع نے بتایا ہے کہ اس وقت پارلیمنٹ ہاؤس میں غیر ملکی سرمائے سے چلنے والی تین این جی اوز کام کررہی ہیں جبکہ ایک این جی او پلڈاٹ کو پارلیمنٹ بلڈنگ میں دفتر بھی دے دیا گیا ہے۔ یو ایس ایڈ کے علاوہ امریکی نیشنل ڈیمو کریٹک انسٹی ٹیوٹ (این ڈی آئی) بھی اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔
کابل میں اتحادی افواج کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان کے مطابق اتحادی افواج نے گولہ باری کے دوران سرحد کے دونوں اطراف واقع طالبان جنگجووٴں کے چھ ٹھکانے تباہ کردیئے جن میں تین افغانستان اور تین پاکستانی حدود میں تھے کارروائی میں 15 طالبان جنگجو ہلاک ہوئے ۔ بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستانی سکیورٹی فورسز کی طرف سے افغان سکیورٹی فورس کو پاکستانی علاقے میں موجود طالبان جنگجووٴں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی اجازت دی گئی۔ دریں اثناء پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل وحید ارشد نے اتحادی فوج کی طرف سے جاری ہونے والے بیان کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ نہ تو ہماری طرف سے کوئی حملہ ہوا ہے اور نہ ہی افغان فورسز نے پاکستانی حدود میں کوئی کارروائی کی۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں نہ تو کسی نے اجازت مانگی ہے اور نہ کوئی اجازت دی گئی ۔