کہتا ہوں ميں سچ کہ جھوٹ کی عادت نہيں مُجھے ۔ سچ بولنے والے کو نہ صرف آخرت ميں بلکہ اس دنيا ميں بھی فائدہ ہے ۔ جھوٹ بولنے والا گناہ کا مرتکب بھی ہوتا ہے اور اگر پکڑا نہ بھی جائے قابلِ اعتماد نہيں رہتا ۔ ميری زندگی کے کئی واقعات ميں سے صرف تين دلچسپ واقعات جن سے ميری حوصلہ افضائی ہوئی ۔ سبحان اللہ ۔
آدھی صدی سے زائد قبل ميں شايد ساتويں جماعت ميں پڑھتا تھا کہ ایک دن گھر سے سودا لينے نکلا ۔ ميرے پاس پانچ روپے کا نوٹ تھا بارش شروع ہو گئی تو ميں نے بھيگنے سے بچانے کيلئے نوٹ اپنی شلوار کے نيفے ميں دبا ديا اور بھاگنے لگا ۔ دکان پر پہنچ کر ديکھا تو نوٹ غائب ۔ واپس ہو کر تلاش کيا اور آس پاس کے دکانداروں سے بھی پوچھتا گيا لیکن نہ ملا ۔ میں گھر سے مزید پيسے لا کر جب واپس آ رہا تھا تو ميں نے سڑک پر ايک دس روپے کا نوٹ ديکھا ۔ مجھے قريبی دکاندار نے کہا “يہ نوٹ اُٹھا لو تم بھول گئے ہو گے تمہارے پاس دس کا نوٹ ہو گا” ليکن ميں نے نہ ليا تو دکاندار نے مجھے کہا “يہ پانچ روپے جو تمہارے گم ہوئے تھے اور پانچ روپے تمہارا انعام ۔ دیکھو اب یہ واپس نہیں کرنا ورنہ میں ناراض ہو جاؤں گا”۔ اور دس کا نوٹ میری جیب میں ڈال دیا ۔ شائد وہ دس کا نوٹ اس دکاندار ہی نے میرا امتحان لینے کیلئے سڑک پر رکھا تھا ۔
ميں انجنيئرنگ کالج لاہور ميں سيکنڈ ايئر ميں تھا ۔ چٹھيوں میں گھر آیا تھا اور چھٹیاں ختم ہونے پر کالج جانے لگا تو والدہ نے کہا يہ دس کلو چاول لے جاؤ ہوسٹل ميں معلوم نہيں کيسے چاول پکتے ہوں گے ۔ ميں بس پر لاہور جا رہا تھا تو گجرات کے قريب پوليس نے بس روک کر چيکنگ شروع کی ۔ ايک آدمی نے اپنی چادر ميں دو کلو چاول باندھے ہوئے تھے اسے بس سے نيچے اتار ليا گيا ۔ ميرا کنستر دروازے کے پاس ہی پڑا تھا ۔ پوليس والے نے پوچھا “يہ کس کا کنستر ہے ؟” ميں نے کہا “ميرا”۔ تو کہنے لگا “اس ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول”۔ تو وہ بس سے نيچے اُتر گيا ۔ چند منٹ بعد بس چل پڑی تو کنڈکٹر نے مجھے پوچھا “بابو جی ۔ اس کنستر ميں کيا ہے ؟” ميں نے کہا “چاول ہيں کھول کر ديکھ لو دس کلو ہيں”۔ اس پر پوری بس ميں زور دار قہقہہ پڑا اور ڈرائيور کہنے لگا “اس بابو کو اس کے سچ نے بچا ديا” ۔
ميں واہ کينٹ ميں رہتا تھا کہ دسمبر 1964 ميں ميرے ايک دوست حيدرآباد سے اور ایک راولپنڈی سے صبح سويرے آئے اور کہنے لگے طورخم چلنا ہے ۔ طورخم سے واپسی پر ہم لنڈی کوتل ٹھہرے اور دوپہر کا کھانا دنبے کی چربی ميں تلے ہوئے تکے اور نان کھايا ۔ قہوہ پيا اور لنڈی کوتل بازار ميں گھومنے لگے ۔ اس زمانہ ميں وہاں سمگل شدہ اشياء بہت سستی ملتی تھيں ۔ ميرے دوستوں نے ايک پريشر کُکر ۔ ايک ڈنر سيٹ ۔ ايک چھوٹا فرج اور کچھ ديگر چيزيں خريديں ۔ ميں نے ايک ڈبہ چين کی سبز چائے ۔ 3 جرابيں اور ايک درجن چاول کھانے کے چمچے خريدے ۔ یہ اشیاء قبائلی علاقہ سے باہر ليجانے پر پابندی تھی اور کبھی کبھی سخت چيکنگ ہوتی اور سارا سامان ضبط کر ليا جاتا ۔ ہماری جيپ جب اُس علاقہ سے باہر نکلی تو سڑک پر کسٹم پوليس نے تمام گاڑياں روکی ہوئی تھيں اور سواريوں کو اُتار اُتار کے چيکنگ ہو رہی تھی ۔ ہماری باری آنے ميں کافی دير کی اُميد تھی اور سردی تھی ميں جا کر گرم گرم چائے لے آيا اور ہم جيپ ميں بيٹھ کر پينے لگے ۔ ميں فرنٹ سيٹ پر بيٹھا تھا ۔ کسٹم پوليس والے نے مجھ سے پوچھا “کوئی سامان ہے ؟” ميں نے کہا “ہاں ہے”۔ تو اس نے پوچھا “کيا ہے ؟” ميں نے چيزوں کا نام لينا شروع کر ديا ۔ وہ پوری بات سُنے بغیر چلا گیا اور پتہ نہيں جا کر اپنے آفيسر سے کيا کہا کہ اس نے آ کر کہا ” آپ جا سکتے ہيں”۔ اٹک پُل [دریائے سندھ کا پل] کے قريب پہنچے تو گاڑيوں کی لمبی قطار ديکھ کر ميرا راولپنڈی والا دوست کہنے لگا “خدا کيلئے اب چُپ رہنا” ۔ ميں نے کہا “اگر مجھ سے پوچھا تو ميں جھوٹ نہيں بولوں گا” ۔ کوئی دس منٹ بعد انسپکٹر نے کہا کہ آپ اور پيچھے کی گاڑياں پُل کے پار چلے جائيں وہاں چيکنگ ہو گی ۔ پُل کے پار پہنچنے تک مغرب کی اذان ہو گئی تھی ميں نے کسٹم والے سے کہا “آپ گاڑی چيک کرو ميں نماز پڑھ کے ابھی آتا ہوں” ۔ ميں واپس آيا تو اس نے ہاتھ ملا کر مجھے اللہ حافظ کہا ۔ ميرے دوستوں نے بتايا کہ اس نے جيپ کے اندر ديکھا تھا مگر کچھ نہ کہا ۔
ہميشہ سچ بولئے اور مزے اُڑائيے ۔
انکل، آپکے واقعات کافی دلچسپ ھیں، پڑھ کر مزا آیا
اللہ ہم سب کو سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے آمین
طارق کمال صاحب
تبصرہ کرنے کا شکریہ ۔ ہو سکے تو میرے لئے بھی دعا کر دیجئے ۔
کیوں نہیں انکل، آپ بھی میری دعاؤں میں شامل ھیں
y not uncle u r in our prayers…nd if u can pray,also pray 4 us 4 da guidance…
طارق کمال صاحب
جزاک اللہ خیر
باسط صاحب
خزاک اللہ خیر ۔ اللہ آپ کو جیک ارادوں میں کامیاب کرے