ایک جوان لڑکی ایئر پورٹ کے روانگی کے لاؤنج میں داخل ہوئی تو جہاز کی روانگی میں ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا ۔ اس نے وقت گذارنے کیلئے بسکٹوں کا ایک پیکٹ اور ایک رسالہ خریدا اور لاؤنج میں میز کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھ کر رسالہ پڑھنے لگی ۔ چند منٹ بعد ایک جوان لڑکا آیا اور اسی میز کے دوسری طرف والی کرسی پر بیٹھ کر ناول پڑھنے لگ گیا ۔ کچھ دیر بعد خاتون نے میز پر پڑے پیکٹ کو کھولا اور ایک بسکٹ لے کر کھانے لگی ۔ اس نے دیکھا کہ اس کے بعد لڑکے نے بھی اسی پیکٹ میں سے ایک بسکٹ نکال کر کھا لیا ۔ اسے یہ بات ناگوار گذری لیکن وہ خاموش رہی ۔ چند منٹ بعد خاتون نے دوسرا بسکٹ لے کر کھایا تو پھر لڑکے نے ایک بسکٹ لے کر کھا لیا ۔ لڑکی تَلملا اُٹھی لیکن ضبط سے کام لیا کہ اس کے چیخنے سے لاؤنج میں بیٹھے سب لوگ اس کی طرف متوجہ ہو جائیں گے اور ہو سکتا تھا کہ اسے گنوار جانیں ۔ یہ سلسلہ چلتا رہا ۔ آخر ایک بسکٹ رہ گیا اور وہ کنکھیوں سے دیکھنے لگی کہ وہ لڑکا کیا کرتا ہے ۔ اس لڑکے نے آخری بسکٹ نکالا اسے توڑ کر آدھا لڑکی کو دیا اور آدھا خود کھا لیا ۔ لڑکی آگ بگولا ہو کر لڑکے پر برس پڑی ۔ اسی وقت ہوائی جہاز کی روانگی کا اعلان ہو گیا اور وہ “ہونہہ” کہہ کر اپنا بیگ اُٹھا کر تیزی سے چلی گئی ۔
جہاز میں بیٹھنے کے تھوڑی دیر بعد وہ اپنے بیگ میں سے کنگھی نکالنے لگی تو دیکھا کہ اس کا بسکٹوں کا پیکٹ بیگ میں بند کا بند پڑا تھا ۔ اب اسے احساس ہوا کہ جس لڑکے کو اس نے بد تمیز اور نامعلوم کیا کیا کہا تھا وہ دراصل شریف اور اعلٰی کردار کا جوان تھا ۔
یاد رکھیئے کم از کم پانچ چیزیں واپس نہیں ہو سکتیں
1۔ کمان سے نکلا تیر
2 ۔ لفظ جو کہہ دیا یا لکھ کر بھیج دیا
3 ۔ موقع جو ہاتھ سے نکل گیا
4 ۔ گذرا ہوا لمحہ
5 ۔ عزّت یا عفّت جو جاتی رہی
This was orignly published in english long time back in a webzine…. i give you credit for urdu transaltion
وہ سب ٹھیک ہے!!! مگر کرداروں کے لئے ایک لڑکا اور لڑکی ہی کو کیوں منتخب کیا گیا ہے؟ دونوں لڑکے یا لڑکیاں کیوں نہیں؟
اسلم جٹ صاحب
میری تحریر پر تبصرہ کا شکریہ ۔ آجکل تو ذرائع رسل و رسائل بہت تیز رفتار ہو گئے ہیں لیکن پرانے زمانہ میں بھی کئی کہانیاں بین الاقوامی ہوتی تھیں ۔ مجھے دو سال سے بھی زیادہ پہلے کسی نےیہ کہانی بھیجی تھی ۔ لُبِ لباب مجھے یاد تھا تو میں نے لکھ دی لیکن آخر میں جو پانچ ناقابلِ واپسی اعمال کا ذکر کیا ہے یہ میری اپنی سوچ ہے ۔
شعیب صفدر صاحب
اگر دونوں لڑکیاں ہوتیں تو بیٹھنے سے پہلے ہی گپ شپ شروع ہو جاتی ۔ اگر دونوں لڑکے ہوتے تو بھی ایک کھاتا تو دوسرے کو پیش کر دیتا ۔ دونوں صورتوں میں یہ کہانی نہ بن پاتی ۔